اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 10:49
Advertisements

ہلال کڈز اردو

دل کا سکون

دسمبر 2024

مِس سمیرا کلاس میں داخل ہوئیں تو ان کے چہرے پر چھائی ہوئی اداسی نے سارے بچوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ انہوںنے اپنی کتابیں میز پررکھیں اور کرسی پر بیٹھتے ہوئے سب سے مخاطب ہوئیں، ’’سب ایک ایک کرکے اپنا ہوم ورک چیک کروائیں۔‘‘ 
کلاس مانیٹر اسد نے گلا کھنکھار تے ہوئے پوچھا،’’مِس! آج آپ بہت اداس لگ رہی ہیں، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہےنا؟‘‘ 



مِس سمیرا نے اپنی نم ہوتی آنکھوں سے جواب دیا،’’آپ سب کو پتا ہے کہ کل اسرائیل نے ایک بار پھر فلسطین پر بمباری کرکے بہت سارے معصوم لوگوںکو شہید کردیا ہے؟ خدا جانے، بیچارے فلسطینی بچے کس حال میں ہونگے! میں بس یہی سوچ رہی ہوں کہ اقوام متحدہ اس ظلم پر خاموش کیوں ہے؟ فلسطینی بھی تو انسان ہیں، نہ جانے انہیں کیوں ایک اچھی اور محفوظ زندگی گزارنے کے حق سے محروم رکھاجارہا ہے؟ ابھی تو ہم کشمیریوں پر ہونے والے مظالم سے نڈھال تھے کہ ہمارے فلسطینی بہن بھائی بھی اس ظلم کا شکار ہوگئے ۔ کل دس دسمبر ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی دن، میں چاہتی ہوں کہ آپ کی کلاس سے دانیال حسن اس موضوع پر اسمبلی میں تقریر کرے اور یہ  پیغام سارے اسکول تک پہنچائے۔‘‘
کلاس کے تمام بچے مس سمیرا کی باتیں دَم بخود ہوکر سن رہے تھے۔انہوں نے پرس سے ٹشو نکالا، اپنی آنکھیں خشک کیں اور کاپیاںچیک کرنے لگ گئیں۔ 
دانیال نے عقیدت سے مس سمیرا کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا کہ ہماری ٹیچر کتنی  نیک دل ہیں۔ اگر ہر کوئی ان کی طرح سوچتا تو شاید صورتحال مختلف ہوتی۔ 
اسی دوران کلاس کے دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور اسکول میں کام کرنے والی آیا ایک فائل تھامے ہوئے اندر داخل ہوئیں ۔ وہ جونہی فائل کو میز پر رکھنے کے لیے آگےبڑھیں، ان کا پیر ڈسٹ بن سے ٹکرایا اور وہ ٹیبل سے جاٹکرائیں۔ ٹیبل پر رکھی سیاہی کے کچھ دھبے مس سمیرا کے کپڑوں پر لگ گئے۔ وہ غصے سے چلا اٹھیں۔آیا  بہت شرمندہ ہوئیں۔ بچوں کے سامنے ان کا ایسا رویہ بالکل ٹھیک نہ تھا۔آیا جب کلاس سے باہر جانے لگیں تو مس سمیراپھر غصے سےبولیں،’’کلاس میں گری یہ سیاہی کون صاف کرے گا؟ میں پرنسپل صاحبہ سے تمہاری شکایت کرتی ہوں۔‘‘ 
آیا نے فوراََ عاجزی سے کہا،’’مس مجھے معاف کردیجیے، میری نوکری چلی گئی تو میرےبچے کی تعلیم بھی متاثر ہوگی۔ ہمارا گھر صرف اسی تنخواہ سےچلتا ہے۔‘‘
مس سمیراخاموش ہوگئیں، لیکن ان کا غصہ ابھی بھی کم نہیں ہوا تھا۔
پوری کلاس کو اس اچانک صورتحال سے جیسے سانپ سونگھ گیا۔ دانیال جو تھوڑی دیر پہلے مس سمیرا کو رَشک بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا،شش وپنج میں مبتلاہوگیا۔
اگلے دن اسمبلی میں تقریر کے لیے دانیال کا نام پکارا گیا۔ دانیال روسٹرم پر آیا۔ تالیوں کی آواز رکنے پراس نے پُر زور آواز میں کہنا شروع کیا، 
’’جناب صدر! معزز اساتذہ کرام اور میرے عزیز ساتھیو!
 السلام علیکم!
’’آج، دس دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایاجارہاہے۔یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ تمام انسان برابر ہیں۔کسی کی مالی حیثیت، کسی بھی انسان کے حقوق کم یا زیادہ کرنےپر قادر نہیں ہے ۔ ہمارا مذہب ہمیں ہمیشہ مساوات کی تعلیم دیتاہے۔ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں فرمایا کہ تم میں سے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں، نہ کالا گورے سےافضل ہے اور نہ گورا کالے سے، ہاں! فضیلت کا معیار تو صرف تقویٰ ہے۔ لیکن آج ہم بطور مسلمان کس مقام پر کھڑے ہیں۔ ہمارا دل کشمیریوں اور فلسطینی بھائیوں کے لیے خون کے آنسو روتا ہے۔ ہم ان پر ہونے والے ظلم و ستم کی مذمت کرتے ہیں۔عالمی برادری جو مہذب کہلانے کا دعویٰ کرتی ہے، آج فلسطینیوں اور مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی حالت ِ زار پر خاموش تماشائی کیوں بنی ہوئی ہے۔ ان کے حقوق کو بری طرح پامال کیا جارہا ہے۔ ہم سب کو ان کے دکھوں کا احساس ہے ۔ ‘‘ تمام طلبا اور اساتذہ دانیال کی تقریر کو توجہ سے سن رہے تھے۔ 
’’ آج کا دن ہمیں یہ سوچنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے کہ کیا ہم اپنے آس پاس موجودلوگوں سے حسنِ سلوک کررہے ہیں یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ڈیجیٹل دور میں اتنا کھو گئے ہیں کہ ہمیں اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کی کوئی فکر نہیں،یہاں تک کہ ہم کسی کی معمولی غلطی بھی معاف کرنے کو تیار نہیںہیں۔ہر انسان اپنے بنیادی حقوق رکھتا ہے جن سے ہم نظریں نہیں چراسکتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں حقوق اللہ تو معاف کردوں گا لیکن حقوق العباد معاف نہیں کروں گا۔آج دس دسمبر کو ہمیں ایک بار خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم حقوق العباد ادا کررہے ہیں؟ کیا ہم کسی کی غلطی کو معاف کر رہے ہیں؟ اگر نہیں ! تو اب بھی وقت ہے۔اپنے آس پاس نظر دوڑائیں اور کسی کی بےعزتی کرنےسے پہلے خوب سوچیں۔شاید یہ مختصر زندگی اپنی غلطی ٹھیک کرنے کا موقع دوبارہ نہ دے۔ شکریہ!‘‘ 
دانیال جب اسٹیج سے اترا تو تالیوں سے پورا گرائونڈ گونج رہا تھا ۔ہر کوئی اپنی جگہ پر کھڑا اسے داد دے رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر مس سمیرا پر پڑیںجو آیا کوگلے لگائے ہوئے تھیں۔ ان کے پہلو سے لگی مسکراتی آنکھوں والی آیا کو دیکھ کر دانیال کو  دلی سکون محسوس ہوا۔