اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔یہاں عام طور پر چار موسم پائے جاتے ہیں...سردی، گرمی، بہار اور خزاں۔ لیکن اب ان میں ایک نئے موسم کا اضافہ ہو چکاہے جس کا سبب ہماری سرگرمیاں اورموسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔ یہ اسموگ کا موسم ہے جس کا آغاز سردی شروع ہوتے ہی ہو جاتا ہے۔ بہت سارے علاقے اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ اسموگ کی بدولت بہت ساری بیماریاں پھیلنے لگتی ہیں جو بعض اوقات جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔
اسموگ سے مرا د ایک گہرا دھواں نما ماحول ہوتا ہے جو فضا میں موجود دھوئیں،دھول مٹی، گاڑیوں اور صنعتوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کے ملاپ اور کچرے کے چھوٹے چھوٹے ذرات سے بنتا ہے ۔
اسموگ کی اصطلاح سب سے پہلے امریکا اور یورپ میں 1900ء کی دہائی میں استعمال کی گئی جس کا مطلب تھا فضا میں دھوئیں اور دھند سے جنم لینے والا ایک خطرناک مرکب۔اس وقت دھواں عموماً جلتے ہوئےکوئلے سے نکلتا تھا۔ یہ کوئلہ کارخانوں اور گاڑیوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا تھا۔تاہم آج کل کی سموگ فوٹو کیمیکل کہلاتی ہے۔یہ اس وقت پیدا ہوتی ہے جب سورج کی روشنی نائٹروجن آکسائیڈ اور فضا میں کم از کم ایک volatile organic compound یعنی پٹرول، پینٹ وغیرہ کے ساتھ رد عمل ظاہر کرتی ہے۔
دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں جن میں فضائی آلودگی سر فہرست ہے۔ ورلڈ ایئر کوالٹی رپورٹس کے مطابق پاکستان کے کئی شہر مسلسل عالمی سطح پر آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو رہے ہیں۔یہ گاڑیوں، صنعتوں اور بجلی کے پلانٹس سے خارج ہونے والے دھوئیں اور کاربن مونو آکسائیڈ ،سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ جیسی زہریلی گیسوں سے پیدا ہوتی ہے۔کیمیکل فرٹیلائزرز اور پلاسٹک کا بے دریغ استعمال ،کچرے کو زمین میں دبانا، غیر معیاری ایندھن کا استعمال، درختوں کی کٹائی، شہری علاقوں میں بڑھتی ہوئی صنعتیں اور ٹریفک ماحولیاتی اور فضائی آلودگی کے بڑے اسباب ہیں۔
دوسری قسم آبی آلودگی ہے۔جب فیکٹریوں کا فضلہ اور گندا پانی دریا ئوں اور سمندروں کے پانی کے ساتھ ملتا ہے تو آبی آلودگی پیدا ہوتی ہے۔پلاسٹک اور دیگر غیر حیاتیاتی مواد کی موجودگی سے بھی آبی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ آبی آلودگی میں اضافہ دنیا بھر کے کروڑوں افراد کو پینے کے صاف پانی سے محروم کر رہا ہے۔ دنیابھر میں پائے جانےو الے کل پانی کا صرف 3 فیصد پینے کے قابل ہے۔ لیکن شہروں میں اضافے اور بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے یہ پانی کافی نہیں ہے۔پانی کی بچت کے لیے ہمیں بہت سے اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے۔خاص طور پر گھروں، دکانوں اور رہائشی علاقوں میں صفائی ستھرائی میں استعمال ہونے والے پانی کی مقدار میں کمی لانی چاہیے۔
اسی طرح درخت زمین پر موجود زندگی کی بقا کے لیے انتہائی ضروری ہیں کیونکہ یہ جانوروں کو خوراک ،پرندوں کو رہائش اور انسانوں کو پھل فراہم کرتے ہیں۔درخت زمین پر آکسیجن کا تناسب بگڑنے نہیں دیتے۔ یہ سیلاب سے بچاتے ہیں۔ درختوں کی قلت بھی ا سموگ اور آلودگی کا ایک محرک ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں۔
ماحولیاتی آلودگی اور اسموگ پر قابو پانے کے لیے فصلوں کی باقیات کو جلانے پر پابندی عائد کرنا ہوگی۔ اگر بھوسے کو جلانے کے بجائے اس کو ری سائیکل کرنے یا زمین میں شامل کرنے کی ترغیب دی جائے تو یہ ماحول کے لیے ایک بہتر اقدام ہو گا۔ہمیں کوئلے سے پیدا ہونے والی توانائی کا ماحول دوست متبادل ڈھونڈنےکی اشد ضرورت ہے۔ عوامی آگاہی کی مہمات میں تیزی لانا ہو گی تاکہ ماحولیاتی مسائل پر جلد قابو پایا جا سکے۔
تبصرے