اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 12:14
Advertisements

محمد عثمان ذوالفقار

Not Available

Advertisements

ہلال کڈز اردو

مٹی کا تحفظ

دسمبر 2024

سلیم صاحب کلاس میںداخل ہوئےتوسبھی بچے یک دم خاموش ہوگئے۔ 
” السلام علیکم سر!“ ساری کلاس نے ایک ساتھ کہا۔
” وعلیکم السلام! بیٹھ جاؤ۔“ سلیم صاحب نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا اور بلیک بورڈ پر سبق کا عنوان لکھنے لگے۔  ” مٹی کا تحفظ“
ان کی کوشش ہوتی تھی کہ بچے رٹا لگانے کی بجائے سبق کو سمجھ کر پڑھیں۔ 
”آپ لوگوں کاکیا حال ہے ؟“ سلیم صاحب نے سبق کا آغاز کیا۔
” بالکل ٹھیک سر۔“بچوں نے مل کر جواب دیا۔ 



”پیارے بچو! ہر سال دسمبر میں مٹی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس لیے آج ہم پڑھیں گے کہ مٹی میں آلودگی کیسے پھیلتی ہے اور اس کا تحفظ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک بات یہ بھی یاد رکھیں کہ یہاں مٹی سے مراد ہماری زمین ،بلکہ یہ پورا ماحول ہے جو اس مٹی سے جڑا ہوا ہے۔ “
 ”ہم روزمرہ زندگی میں بہت سی چیزیں استعمال کرتے ہیں۔ان میں سے کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کو ہم صرف ایک بار استعمال کر کے پھینک دیتے ہیں حالانکہ انہیں دوبارہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کاصرف ایک بار ہی استعمال کیا جاسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر روز تقریباً پچاس ہزار ٹن کچراپیدا ہوتا ہے جس میں سے صرف چالیس فیصد ہی صحیح طریقے سے کے تلف کیا جاتا ہے۔اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچرے کے ڈھیر کھلی ہوا میںپڑے رہتے ہیں جس کی وجہ سے بہت سی بیماریاں پھیلنا شروع ہو جاتی ہیں۔“
”سر، اگر کوڑا کم ہو جائے تو کیا بیماریاںنہیں پھیلیں گی؟“ واجد نے سوال کیا۔ 
”بالکل ختم تو نہیں ہوں گی البتہ کافی حد تک کم ضرور ہو جائیں گی۔“سلیم صاحب نے جواب دیا۔ 
”سر، پھر کوڑے اور کچرے کو کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟“ احمد نے سوال کیا۔ 
”یہی تو آپ لوگوں کا ہوم ورک ہے۔ آپ سب نے اپنے گھر اور محلے کا جائزہ لینا ہے اوردیکھنا ہے کہ وہاں موجود کچرا کیسے کم کیا جاسکتا ہے؟“ سلیم صاحب نے کہا۔ اسی وقت اگلے پیرئیڈ کی گھنٹی بجی اور سلیم صاحب کلاس سے چلے گئے۔ 
اگلے دن وہ کلاس میں داخل ہوئے تو بچے بہت پُرجوش نظر آرہے تھے۔ 



” السلام علیکم سر!“ پوری کلاس ایک ساتھ کھڑی ہوئی۔ 
” وعلیکم السلام۔ آپ لوگوں کے چہروں سے لگ رہا ہے کہ آج آپ سب لوگ کام کر کے آئے ہیں۔“ سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔ 
”جی سر۔“ بچوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا۔ 
“ سب سے پہلے کون بتائے گا؟“ سلیم صاحب نے پوچھا تو کئی بچوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ 
” حارث تم بتاؤ۔“ سلیم صاحب نے کہا۔ 
”سر ،ہمیں ایسی چیزوں کا استعمال زیادہ کرنا چاہیے جن کی وجہ سے کچرا کم پیدا ہو۔“ حارث نے جواب دیا۔
” بہت خوب۔ احمد ، اب تم بتاؤ؟“ انہوں نے احمد سے کہا۔ 
”سر،ہم کچرے میں پھینکنے والی بہت سی چیزوں کو دوبارہ استعمال میں لاتے ہوئے نئی چیزیں بنا سکتے ہیں ۔‘‘احمد نے کہا۔ 
”جی بالکل۔اس طریقے کو انگریزی میں ری سائیکلنگ کہتے ہیں۔ ”سلیم صاحب بتانے لگے۔ ’’اگر پاکستان اس طریقے پر عمل کرے تو اربوں روپے سالانہ کما سکتا ہے۔ کراچی میں موجود کئی بڑے بڑے پلانٹ روزانہ ایک ہزار ٹن کچرا استعمال کر کے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور میں موجود کئی فیکٹریاں کوڑے کو استعمال میں لاتے ہوئے کھاد بنا رہی ہیں جس سے مختلف فصلوں کی پیداواربڑھ رہی ہے۔‘‘ اس بارے مزید کون بتانا چاہتا ہے؟
” سر، اگر حکومت روزانہ کی بنیاد پر کچرے کو محفوظ طریقے سے اکٹھا کر کے تلف کر دے تو اس طرح بھی کچرے میں کمی لائی جاسکتی ہے۔“ عارف نے جواب دیا۔ 
” درست۔ حکومت کے مختلف ادارے یہ کام کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ کچرے کو محفوظ طریقے سے تلف کرنے پر سانس کی بیماریوں میں تیس فیصد تک کمی ہوسکتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ پلاسٹک سے بنی ہوئی چیزوں کا کم سے کم استعمال کریں۔ کپڑے سے بنے ہوئے تھیلے دوسری چیزوں کے لیے با آسانی استعمال کیے جاسکتے ہیں۔اس طرح ہمارا ماحول پہلے سے زیادہ صاف ستھرا رہ سکتا ہے۔ایسا نظام جس میں کچرا کم سے کم پیدا کیا جائے اور کوڑے کوکام میں لاتے ہوئے کوئی فائدہ حاصل کیا جائے، زیرو ویسٹ لائف اسٹائل کہلاتا ہے۔“ 
”سر! اس لائف اسٹائل کے اور کیا فائدے ہیں؟“ زبیر نے پوچھا۔ 
” جب کوڑا کرکٹ کم ہوگا تو زمین کو نقصان کم پہنچے گا۔ زمین اور زیر زمین پانی میں آلودگی نہیں پھیلے گی اور سب سے بڑھ کر اس سے فضا صاف رہے گی جس کی وجہ سے بیماریاں نہیں پھیلیں گی۔“ سلیم صاحب نے جواب دیا۔ 
”سر، آلودگی مزید کس طرح کم ہوسکتی ہے؟“ احمد نے سوال کیا۔ 
”دوسروں کو اس بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی فراہم کر کے... !کیا آپ بھی اپنے اردگرد رہنے والے لوگوں کو اس بارے میں بتانے کی کوشش کریں گے؟“ سلیم صاحب نے بچوں سے پوچھا۔
”جی بالکل سر!“ سب بچوں نے مل کر جواب دیا۔ اسی وقت پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بجی اور سلیم صاحب وہاں سے چل دیے۔
 

محمد عثمان ذوالفقار

Not Available

Advertisements