سیفی اور عطا اللہ گہرے دوست اور ہم جماعت تھے۔حیرت کی بات یہ تھی کہ دونوں کی پسند، ناپسند، شوق اور مشغلے بھی ایک جیسے تھے۔ وہ دونوں ایک خوبصورت گاؤں میں رہتے تھےجو اونچے پہاڑوں کے درمیان بسا ہوا تھا۔ سارا گاؤں ان دونوں کی گہری دوستی کے بارے میں جانتا تھا۔ دونوں تمیز دار اور با اخلاق تھے ۔اس لیے سب ان کو پسند کرتے تھے۔دونوں کو اپنے گاؤں اور خاص طور پر اس کے گرد سینہ تانے کھڑے اونچے اونچے پہاڑوں سے بہت محبت تھی۔ وہ جب بھی سکول جاتے یا کھیلنے کے لیے باہر نکلتے، پہاڑ ان کو اپنی بلندی اور عظمت سے حیران کر دیتے۔وہ اکثر سوچتے کہ ’’اللہ تعالیٰ نے ان عظیم پہاڑوں کو کتنا بلند، شاندار اور خوبصورت بنایا ہے! ‘‘
ایک دن سیفی اور عطا اللہ ا سکول پہنچے تو انہوں نے سامنے نوٹس بورڈ پر ایک بہت بڑا پوسٹر آویزاں دیکھا۔ وہ اس کی جانب متوجہ ہوئے۔یہ پوسٹر پہاڑوں کے عالمی دن(11 دسمبر) کے حوالے سے تھا۔اس پر پاکستان کے مختلف پہاڑوں کے خوبصورت مناظر کی تصاویر اور معلومات درج تھیں۔
جب دونوں دوست کلاس میں آئے تو انہوں نے پوسٹر کے بارے میں اپنے استاد محترم سر جمال کوبتایا۔ سر جمال نے جب پہاڑوں کے عالمی دن کے بارے میں سنا تو انہوں نے بچوں کواس حوالے سے کچھ خاص باتیں بتانے کا فیصلہ کیا۔
’’بچو! پہاڑ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے ایک عظیم تحفہ ہیں۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان کا ذکر کیا ہے اور انہیںمیخیں قرار دیا ہے۔ جس طرح ایک میخ کسی چیز کو مضبوطی سے پکڑتی ہے، اسی طرح پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ نے زمین کی حفاظت اور استحکام کے لیے بنایا ہے تاکہ زمین ہلنے نہ پائے اور اس پر جانداروں کے رہنے کا توازن برقرار رہے۔‘‘
یہ سن کر عطا اللہ کی حیرت میںاضافہ ہوا۔ انہوں نے جمال صاحب سے پوچھا،’’سر! کیا پہاڑوں کا صرف یہی کام ہے کہ وہ زمین کو تھامے رکھیں؟‘‘
جمال صاحب مسکرائے اوربولے،’’نہیں بچو!یہ تو پہاڑوں کا ایک چھوٹا ساکام ہے۔اس کے علاوہ پہاڑہمیں اور بھی بے شمار فائدے دیتے ہیں اور ہماری زندگی کو آسان بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے وطن کو ان پہاڑوں کے ذریعے بہت سے وسائل دیے ہیں۔‘‘
’’وسائل...؟‘‘ سیفی نے حیرانی سے پوچھا۔
’’جی بچو!ان خوبصورت پہاڑوں کے اندر بےشمار خزانے چھپے ہوتے ہیں، جنہیں ہم قدرتی وسائل کہتے ہیں۔جیسا کہ مختلف معدنیات اورقیمتی جواہرات۔پہاڑوں سے ہمیں سونا،چاندی، لوہا، کوئلہ، تانبا اور دیگرقیمتی معدنیات حاصل ہوتی ہیںجو گھروں کی تعمیر، سڑکیں ،پُل، گاڑیاں، جہاز اور نہ جانے کتنی چیزیں بنانے میں استعمال ہوتی ہیں۔‘‘
سیفی نے جوش سے کہا،’’تو پہاڑ واقعی ہماری زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں!‘‘
سرجمال نے سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’بالکل بیٹا، ان معدنیات کے علاوہ پہاڑوں میں اور بھی بہت کچھ ہوتا ہے ۔ان کے درمیان اور نیچے بڑی بڑی جھیلیں ہیں۔پہاڑوں سے پانی دریائوں میں آتا ہے جو فصلوں کو سیراب کرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں اور جانوروں کو میٹھا پانی مہیا کرتا ہے۔‘‘
سیفی اور عطا اللہ کے ساتھ ساتھ تمام بچے سر جمال کی باتوں میں گہری دلچسپی لے رہے تھے۔
’’بچو! پہاڑ صرف معدنیات اور پانی ہی نہیں دیتے بلکہ ان پر مختلف قسم کے درخت اور پودے بھی اگتے ہیںجو ہمیں مزیدار پھل ا ور جڑی بوٹیاں فراہم کرتے ہیں۔ ان جڑی بوٹیوں سے دوائیں بنتی ہیں جو مختلف بیماریوں کے علاج میں مفید ہیں۔‘‘
عطا اللہ کہنے لگا،’’سر! پہاڑوں پر جانور بھی تو رہتے ہیں۔ ‘‘
سر، عطا اللہ کی بات پر مسکرائے اور بولے، ’’ہاںبیٹا! پہاڑوں پر خاص جانور رہتے ہیں جو عام طور پر کسی اور علاقے میں نہیں پائے جاتے۔ جیسے برفانی چیتے، پہاڑی بکرے، ریچھ اور مختلف قسم کے پرندے۔یہ خاص جانورپہاڑوں کی مخصوص آب و ہوا اور ماحول کے عادی ہوتے ہیں۔‘‘
’’پاکستان کا قومی جانور مارخور بھی تو پہاڑوں میں رہتا ہے۔‘‘ اچانک پہلی قطار میں بیٹھا ایک طالب علم فرحان بولا۔
’’جی بیٹا! مارخوربہت بلندپہاڑوں میںملتے ہیں ۔ پاکستان میں یہ خاص طور پر گلگت بلتستان، ضلع چترال، وادی کالاش، وادئ ہنزااور وادی نیلم کے بالائی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔‘‘
’’پہاڑوں کے بغیر تو کوہ پیمائی بھی نہیں ہوسکتی۔سر!‘‘ اسد جو کلاس میں مہم جوئی کے حوالے سے مشہور تھا، نے سر کی اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا۔
’’بالکل بیٹا! اس حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں اہم مقام رکھتا ہے۔ دنیا کے عظیم ترین پہاڑ جن میں K2، نانگا پربت اور راکاپوشی شامل ہیں، نہ صرف ہمارے وطن کی خوبصورتی کی پہچان ہیں بلکہ دنیا بھر کے سیاحوں، کوہِ پیماؤں اور مہم جوؤں کی توجہ کا مرکز بھی ہیں۔ہر سال یہاں سیکڑوں کوہ پیما اپنی صلاحیتیں آزمانے کے لیے آتے ہیں اور یہ عظیم پہاڑ ان کے لیے ایک چیلنج بن جاتے ہیں۔خاص طور پر K2 جو دنیا کا دوسرا بلند ترین پہاڑ ہے، دشوار گزار ہونے کی وجہ سے کوہ پیمائوں کے لیے بہت بڑی آزمائش ہوتا ہے۔‘‘
’’اچھا! اب موسم کا ذکر کرتے ہیں۔ کیا آپ میں سے کوئی بتا سکتا ہے کہ پہاڑ موسم پر کس طرح اثر ڈالتے ہیں؟ سرجمال نےبچوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ وہ کیا اثر ڈالیں گے، وہ تو اپنی جگہ سے ہلتے بھی نہیں۔‘‘اب کی بار مظہر بولا جو کلاس کے آخری بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔
سر جمال شفقت سے بولے،’’ ارے بھئی ایسا نہیںہے۔ یہ اونچے پہاڑ اپنی جگہ پر قائم رہ کر بادلوں کو روکتے ہیں، جس کی وجہ سے بارشیں ہوتی ہیں اور برف باری بھی۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو بارشیں کم ہو جاتیں اور زمین خشک ہو جاتی۔
پہاڑوں کے بارے میں اتنی دلچسپ باتوں سے ساری کلاس لطف اندوز ہورہی تھی۔ سب جان گئے تھے کہ پہاڑ واقعی ہمارے لیے ایک انمول تحفہ ہیں۔
پیرئیڈ ختم ہونے میں چند منٹ باقی تھے ۔ سر جمال نے گفتگو سمیٹتے ہوئے بچوں کونصیحت کی کہ پہاڑوں کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے دی گئی ایک بڑی نعمت ہیں۔ ہمیں ان پر درخت لگانے چاہئیں، انہیں آلودگی سے پاک رکھنا چاہیے اور ان سے نکلنے والی معدنیات کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے تاکہ یہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی فائدہ مند رہیں۔‘‘
پیرئیڈ ختم ہوگیا۔سر جمال نے جو باتیں بتائی تھیں، وہ بہت سے بچوں کے لیے نئی اور دلچسپ تھیں ۔ سیفی اور عطا اللہ کے دلوں پر تو ان باتوں نے زیادہ ہی اثر ڈالاتھا۔ اسی لیے وہ چھٹی کے بعد سیدھے پہاڑوں کی جانب گئے اور بہت سی جگہوں کی نشاندہی کی جہاں سے درختوں کو کاٹا گیا تھا۔
دوسرے دن جب وہ اسکول پہنچے تو ان کے ہاتھوں میں لگی مٹی دیکھ کر بچے اور ٹیچرز حیران تھے۔ سرجمال ان کے ہاتھ دیکھ کر مسکرائے اور بولے،’’ یہ دونوں زندگی میں بہت کامیاب ہوںگے۔ کل میں نے انہیں جو باتیں بتائی تھیں، انہوں نے نہ صرف وہ توجہ سے سنیں بلکہ آج ان پر عمل بھی کرآئے۔ ان کے ہاتھوں پر لگی مٹی بتا رہی ہے کہ وہ پہاڑوں کی حفاظت اور خوبصورتی برقرار رکھنے کے لیے وہاں پودے لگا کر آئے ہیں۔ سر جمال نے ان دونوں کو شاباش دی تو خوشی سے دونوں کے چہرے کھِل اُٹھے۔ ان کی حوصلہ افزائی دیکھ کر اب کلاس کے دوسرے بچے بھی پہاڑوں کو صاف ستھر ارکھنے اور وہاں پودے لگانے کے لیے پُرعزم تھے۔
تبصرے