اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 11:05
Advertisements

ہلال کڈز اردو

راز کی بات

دسمبر 2024

علی اور حمزہ نہایت ذہین طالب علم تھے۔ علی دسویں اور حمزہ نویں جماعت میں پڑھتا تھا۔اُن کی محنت، اخلاق اور قابلیت کی سب لوگ تعریف کرتے تھے۔ ان دونوں کا خواب تھا کہ وہ بڑے ہو کر ملک کے نامور سائنسدان بنیں۔ اُن کے اساتذہ بھی اُن پر خاص توجہ دینے کے ساتھ ساتھ اُنہیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتے تھے۔علی سکول کاہیڈ بوائے تھا، اس لیے سکول کے مجموعی نظم وضبط کے حوالے سے اس کی کچھ اضافی ذمہ داریاں بھی تھیں جنہیں وہ بخوبی نبھاتا تھا جبکہ حمزہ اپنی کلاس کا مانیٹر بھی تھا۔



ایک دن حمزہ کی کلاس میں ایک نیا طالب علم آیا۔اس کا نام شاہد تھا۔ بریک کے دوران حمزہ نے شاہد کو خوش آمدید کہا اور اسے تعلیمی لحاظ سے ہر قسم کی مدد کی پیشکش کی۔ شاہد اسےکہنے لگا وہ اپنے سکول کا ٹاپر رہاہے، اس لیے وہ خود اچھی پڑھائی کر سکتا ہے۔حمزہ کو اس کے رویے پر قدرے حیرت ہوئی لیکن اس نے زیادہ غور نہ کیا۔کچھ دن بعد حمزہ نے محسوس کیا کہ شاہد کی شخصیت میں کچھ پراسراریت سی ہے کیونکہ وہ اکثر خود کو دوسروں سے دور رکھتا ہے۔ حمزہ نے یہ بات علی کو بھی بتائی ۔ ایک دن گھر واپسی پر انھوں نے شاہد کو کچھ مشکوک لوگوں کے ساتھ کھڑا دیکھا۔ علی اور حمزہ کو عجیب لگا،تاہم انہوں نے اس بات کو نظرانداز کردیا اوروہاں سے گزر گئے۔
 کچھ دن گزرے کہ علی نے نوٹ کیا کہ شاہد اکثر خالی کلاس روم میں چھپ کر کچھ کرتا ہے۔ ایک دن چھٹی کے بعد علی اور حمزہ تجسس کے مارے خاموشی سے شاہد کا پیچھا کرتے ہوئے اُسے خالی کمرے میں دیکھنے گئے۔ اُنہوں نے شاہد کو کچھ عجیب قسم کی گولیاں اپنے بیگ سے نکالتے ہوئے دیکھا۔ شاہد نے اُنہیں دیکھ لیا اور ہنس کر کہا،’’یہ کچھ خاص نہیں، بس ایک مزیدار سی چیز ہے۔تم بھی ایک بار آزما کر تو دیکھو۔‘‘
 علی تو شاہد کی باتوں میں نہ آیا مگر حمزہ نے شاہد کی بات مان لی اور سوچا کہ ایک بار آزمانے میں کیا حرج ہے۔جب اس نے وہ گولیاں لیں، توپھر اسے ان کی عادت ہوگئی۔ حمزہ اور شاہد کی دوستی آہستہ آہستہ بڑھنے لگی۔ انہی دنوں سکول میں بین المدارس مختلف مقابلوں کا اہتمام کیا گیا جس میں علی کو کئی ذمہ داریاں دی گئیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ علی کے سینڈ اپس سر پر تھے۔ ان سب میں علی اتنا مصروف ہو گیا کہ اسے اس کا احساس تک نہ ہوا کہ علی اور حمزہ میں کچھ دوری آ چکی ہے۔ رفتہ رفتہ حمزہ کا دھیان بٹنے لگا۔ اس کے چہرے پر تھکن اور آنکھوں میں کمزوری نمودار ہونے لگی۔ حمزہ کے امتحانات میں بھی نمبر کم آئے اور اس کامزاج چڑچڑا بھی ہوگیا۔
حمزہ کے کلاس ٹیچر سر سعد نے حمزہ کا بدلا ہوا انداز محسوس کر لیا۔ وہ نہایت سمجھدار اور طلبہ میں خصوصی دلچسپی رکھنے والے ہر دل عزیز استاد تھے۔ وہ سمجھ گئے کہ کچھ غلط ہے۔ انھوں نے اسے اپنے کمرے میں بلا کر نرمی سے پوچھا،’’حمزہ ! مجھے بتاؤ کہ کیا بات ہے؟ تم کچھ پریشان لگتے ہو۔مجھے سب ٹیچرز نے بتایا ہے کہ تمھارے نمبر کم آرہے ہیں اور کلاس میں تمھاری توجہ بھی بھرپور نہیں ہو تی جیسے پہلے ہوا کرتی تھی۔ اس دفعہ مقابلوں میں بھی تم کہیں نظر نہیں آئے۔ میں تمھارے لیے پریشان ہوں۔ ایسا کیا ہو گیا ہے کہ تم اتنے بدل گئے ہو۔ تم تو اپنے خوابوں کا پیچھا کرنے والے طالب علم تھے۔ مجھے بتاؤ کہ کیا ہوا ہے تا کہ میں تمھاری کچھ مدد کر سکوں۔‘‘
 حمزہ نے پہلے تو کچھ نہ کہا، مگر سر سعد کا خلوص دیکھ کر اُس کا دل پگھل گیا اور اُس نے سچ بتا دیا۔حمزہ کی بات سن کر سر سعد حیران رہ گئے مگر انہوں نے اپنی ناراضی چھپاتے ہوئے اُسے یقین دلایا کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ انھوں نے پرنسپل راشد صاحب کو یہ بات بتائی اورراشد صاحب نے فوری طور پر سکول میں خصوصی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔
دو دن بعد، سکول میں خصوصی پروگرام کا اعلان ہوا۔ اس پروگرام میں ایک پولیس افسر اور ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ ڈاکٹر نے طلبہ کو ڈرگز کے نقصانات کے بارے میں معلومات فراہم کیں اور بتایا کہ یہ غلط عادت ، ہمیشہ کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ پولیس افسر نے بتایا کہ کیسے ایک چھوٹی سی غلطی زندگی کو اندھیروں میں دھکیل سکتی ہے۔پروگرام کے بعد، حمزہ کو اپنی غلطی کا شدید احساس ہوا۔ وہ جان چکا تھا کہ شاہد کی باتوں میں آکر اسں نے اپنے خوابوں کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ایسی عادت کبھی بھی سکون نہیں دے سکتی بلکہ وہ طلبہ کے خوابوں کو تباہ کردیتی ہے۔ اس احساس کے بعد حمزہ نے عہد کیا کہ اب غلط راستے پر چلے گا، اورنہ کبھی کسی کے ورغلانے میں آئے گا۔وہ بری صحبت کے برے نتائج دیکھ چکا تھا۔ اس نے اپنے اساتذہ اور والدین سے معافی مانگی۔ شاہد کو سکول سے نکال دیا گیا۔ علی اور حمزہ نے اپنے خوابوں کو سچ کر دکھانے کے لیے دوبارہ محنت شروع کر دی۔ اُنہیں اس بات کا یقین ہوگیاکہ سچی خوشی کبھی بھی کسی ڈرگ یا نشے سے نہیں مل سکتی بلکہ یہ صرف اور صرف محنت اور کامیابی سے ملتی ہے۔