سترہ سالہ عماد الدین محمد بن قاسم تلوار بازی کی مشق سے فارغ ہوا تو اپنے عربی النسل گھوڑے کے پاس آیا اور اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
”کیسے ہو دوست ؟“
گھوڑا ایسے ہنہنایا، جیسے اسے جواب دے رہا ہو۔ محمد بن قاسم نے اسے تھپکی دی اور سائیس کی طرف متوجہ ہوا۔ (گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والے کو سائیس کہا جاتا ہے)
” آ پ کے والد محترم کی طبیعت اب کیسی ہے ؟“
”پہلے سے بہت بہتر ہے۔“ سائیس مؤدب تھا۔
” بیٹی کی تعلیم جاری ہے؟ یاد رکھو! علم حاصل کرنا ہر مر ود عورت پر فرض کیا گیا ہے۔“ محمد بن قاسم نے اسے یاد دہانی کرائی۔
”جی ! اب وہ باقاعدگی سے مدرسے جارہی ہے۔“سائیس نے جواب دیا۔
اسی وقت والی ٔ خراسان قتیبہ بن مسلم کا ایلچی اس کے پاس ایک پیغام لایا جس میں اسے فوراََ حاضر ہونے کا حکم دیا گیا تھا۔
” حکم کیجیے۔“ محمد بن قاسم، قتیبہ بن مسلم کے پاس پہنچا۔
” عراق کے حاکم حجاج بن یوسف کو ایک قابل اور تجربہ کار جرنیل کی خدمات درکار ہیں۔میری نظر میں تم سے بہتر کوئی نہیں۔جس طرح تم نے ایران میں بغاوت کچلی اور شیراز(ایران کا ایک مشہور شہر) جیسی معمولی چھاؤنی کا نظم و نسق سنبھال کر اسے مثالی شہر بنایا،وہ سب قابل تعریف ہے۔ اس لیے میں تمہیں حجاج بن یوسف کے پاس بھیج رہا ہوں۔ یہ مراسلہ لو اورکل صبح روانہ ہو جاؤ۔“ قتیبہ نے اسے حکم دیا۔
”جی بہتر۔“ محمد بن قاسم حکم بجا لایا اور عراق چلا گیا۔
جب وہ وہاں پہنچا تو حجاج بن یوسف اور اس کے چند عمائدین سندھ کا نقشہ دیکھنے میں مشغول تھے۔
محمد بن قاسم نے سلام کیا اور قتیبہ بن مسلم کا مراسلہ پیش کیا۔
حجاج بن یوسف نے خط پڑھا۔ کم عمر جرنیل کوغور سے دیکھا۔ ”جو کچھ تمہارے متعلق خط میں لکھا گیا ہے، اس کے مطابق مجھے اُمید ہے تم صحیح انتخاب ہو گے۔“
”حکم دیجیے۔“محمد بن قاسم مؤدب تھا۔
”تمہیں معلوم ہوگا کہ سندھ کے بحری قذاقوں نے سراندیپ (لنکا) کے راجہ کے بھیجے ہوئے تحائف کے بحری بیڑے کو نہ صرف لوٹ لیا ہے بلکہ اس پر سوار مسلمان مرد ،خواتین اور بچے جو کعبہ کی زیارت کے لیے جارہے تھے، انہیں بھی قید کر لیا ہے۔
”جی امیر میں جانتا ہوں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ایک مسلمان لڑکی نے اس وقت یا حجاج یا حجاج اغثنی( اے حجاج اے حجاج مدد ) کا نعرہ لگایا۔“ محمد بن قاسم باخبر تھا۔
”پھر تو تم یہ بھی جانتے ہو گے کہ راجہ داہر کے ساتھ سفارتی سطح پر ناکام ہونے کے بعد ان بحری قذاقوں کا قلع قمع کرنے کے لیے لشکر بھی بھیجا گیا تھا لیکن وہ ناکام ہوا۔ “ حجاج بن یوسف نے تفصیل بیان کی۔
”جی میں جانتا ہوں۔“
’’ ہم مرد و خواتین اور بچوں کو قذاقوں کی قید میں نہیں چھوڑ سکتے، اس لیے میں ایک اور لشکر بھیجنا چاہتا ہوں اور اس کی سربراہی تمہیں سونپتا ہوں۔کیا تم تیار ہو؟“
”جی امیر۔“ محمد بن قاسم نے کہا۔
”ٹھیک ہے، اس مہم کے لیے تمہیں جو بھی سامانِ حرب درکار ہو ،بتا دو،فراہم کر دیا جائے گا۔مجھے اُمید ہے تم فتح کی ہر ممکن کوشش کرو گے۔ “ حجاج بن یوسف نے یقین دہانی چاہی۔
”جی امیر ایسا ہی ہوگا۔ میں مہم کی کامیابی کے لیے آخری سانس تک کوشش کروں گا۔“ محمد بن قاسم پُر عزم تھا۔
”اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو! “حجاج بن یوسف نے اسے دعا دی۔
چند دنوںکے بعد حجاج بن یوسف نے چھ ہزار سپاہیوں کو محمد بن قاسم کی سربراہی میں دیبل کی مہم پر روانہ کیا۔ محمد بن قاسم گھوڑوں اور اونٹوں پر اپنی فوج لے کر مکران کے راستے سندھ روانہ ہوا۔انہوں نےسب سے پہلے پنجگور کا علاقہ فتح کیا، پھر سفر کرتے ہوئے دیبل پہنچے ۔
اتفاقاََ اسی دن بحری راستے سے فوجی سامانِ رسد بھی دیبل پہنچ گیا۔اس سامان میں منجنیقیں بھی تھیں جو بڑے بڑے پتھروں کو پھینک کر دشمن کے قلعوں کوتباہ کردیتی تھیں۔سب سے بڑی منجنیق کا نام عروس تھا جسے پانچ سو آ دمی کھینچتے تھے۔
راجہ داہر کو اسلامی لشکر کے آ نے کی خبر ملی تو وہ شہر بند ہو گیا۔ دیبل شہر میں ایک عالی شان مندر تھا۔جو بہت بڑا اور بلند تھا اور دور سے نظر آ تا تھا۔اس کی چوٹی پر ریشم کا سبز پرچم آویزاں تھا۔شہروالے کہتے تھے کہ جب تک یہ پرچم ہوا میں لہرا رہا ہے، کوئی فوج شہر فتح نہیں کر سکتی۔
محمد بن قاسم اور اس کی فوج نے شہر کا محاصرہ کر لیا۔شہر کے گرد خندقیں کھدوا دیں اور ان میں منجنیقیں رکھ دیں۔ پھر منجنیق عروس سے نشانہ لگا کر اس پرچم کو گرا دیا۔ شہر والوں کے حوصلے دم توڑ گئے اور یوں دیبل فتح ہو گیا۔راجہ داہر نے میدان جنگ سے راہ فرار اختیار کی اور’’ کَچھ ‘‘کے علاقے میں پناہ لی۔ محمد بن قاسم نے اس کا پیچھا کیا اور آخر کار وہ اپنے انجام کو پہنچا۔
محمد بن قاسم نے مسلمان قیدیوں کو رہائی دلوا کر عرب روانہ کر دیا۔
ان فتوحات کے بعد محمد بن قاسم نے فہم و فراست اور رواداری کا مظاہرہ کر کےوہاں کے لوگوں کی خدمت کی۔جس نے پناہ کی درخواست کی، اسے پناہ دے دی گئی۔ اس کی مذہبی رواداری نے مقامی لوگوں کے دل جیت لیے۔اس نے مندروں میں عبادت کرنے کی اجازت دی۔ مظلوموں کی داد رسی کی اور ایک عمدہ اور بہترین نظام حکومت دیا۔ یوں اس نے تھوڑے ہی عرصے میں سندھ کی معاشرت بدل کر رکھ دی۔
محمد بن قاسم جس قدر بہادر تھا، اسی قدر عام زندگی میں خو ش مزاج، ملنسار، بامروّت اور رحم دل بھی تھا۔ اس کی انہی خوبیوں سے متاثر ہو کر ہزاروں ہندوؤں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ باب الاسلام یعنی اسلام کا دروازہ کہلایا۔
جب محمد بن قاسم سندھ سے روانہ ہوا تو مقامی لوگ غمزدہ ہوگئے۔ یہ سچ ہے کہ محمد بن قاسم نے سندھ فتح ہی نہیں کیا تھا، بلکہ دلوں کو بھی فتح کر لیا تھا۔
تبصرے