کوئٹہ شہر سے دورایک چھوٹی سی بستی تھی۔ماہ گل اپنے والدین کے ساتھ وہاں رہتی تھی۔ وہ بہت ذہین تھی اورقریبی سکول میں جماعت نہم کی طالبہ تھی۔اس کے باباایک آفس میں ملازم تھے۔واپسی پر وہ کبھی کبھی اخبار اور میگزین بھی لے آتے ،جسے ماہ گل بڑے شوق سے پڑھتی تھی۔اس طرح اس کے پاس بہت سے اخبارات اور رسائل جمع ہوگئے تھے۔ ایک دن اسے ایک خیال آیا۔ اس نے ایک موضوع منتخب کیا اور پھر اس کے بارے میں معلومات جمع کرنا شروع کر دیں۔وہ اپنی پسندیدہ خبروں اور تصاویر کو اخبار سے کاٹ کر الگ کرتی اور پھر انہیں ایک خوبصورت کاپی پر لگا دیتی جس کے آگے اس موضوع کے بارے میں بنیادی معلومات اس ترتیب سے درج ہوتیں کہ وہ ایک خوبصورت کتاب معلوم ہوتی تھی ۔
اس طرح وہ ہر سال ایک عنوان منتخب کرتی اور اسے مکمل کر کےکسی نہ کسی موقع پر اپنے اسکول کو گفٹ کر دیتی تھی۔سکول کی دیگر طالبات کے لیے وہ معلومات بہت دلچسپ ہوتیں۔دو سال پہلے بنائی جانے والی ایک ڈائری میں اس نے اپنے علاقے کی منفرد روایات کے بارے میں بتایا تھا اور گزشتہ برس پاکستان میں پائے جانے والے تاریخی و سیاحتی مقامات کی تصاویر اکٹھی کر کے اپنی سرگرمی پوری کی تھی۔ اس طرح اس کی کاپی سے کئی طالبات کو اپنے علاقے اور ملک کے بارے میں بہت ساری مفید معلومات مل جاتی تھیں۔ ماہ گل کے شوق کی وجہ سے اسے گزشتہ سال سکول کی طرف سے کتابوں کا ایک تحفہ بھی مل چکا تھا۔ اس سال بھی وہ کچھ ایسا کرنا چاہتی تھی جو طالبات کے لیے فائدہ مند ہو۔ دسمبر قریب آ رہا تھا ۔ اس نے سوچا کہ کیوں نہ اس دفعہ بانی ٔپاکستان کو خراج تحسین پیش کی جائے ۔ اس کے دل میں ایک منفرد خیال ابھرا اور وہ اس کی تکمیل میں مصروف ہو گئی۔
اس نے قائد اعظم کی بہت سی تصاویر،معلومات اور اقوال جمع کیےاور انہیں ایک کاپی پر ترتیب دینا شروع کردیا۔ کاپی کا ٹائٹل تھاــ:
’’ملت کا پاسباں ہے، محمد علی جناح ؒ‘‘
اگلے صفحے پر اس نے جو تصویر منتخب کی وہ قائد اعظم کی جائے پیدائش کے باہرلگے ان کے مجسمے کی تھی۔ماہ گل نے کاپی میں اس کی تصویر لگائی اور اس کے سامنے لکھا:’’یہ بانیٔ پاکستان کا مجسمہ ہے جوکراچی میں ان کی جائے پیدائش وزیر مینشن کے باہرنصب ہے۔ محمد علی جناحؒ 25 دسمبر 1876ء کو کراچی میںپیدا ہوئے۔ ان کے عزم، بصیرت اور قیادت نے برصغیر کی تقدیربدل دی۔ انہوں نے ایک ایسے خواب کو حقیقت کا روپ دیا جسے بہت سارے لوگ ناممکن سمجھتے تھے۔اسی لیے وہ بابائے قوم کہلائے۔‘‘
اگلی تصویر سندھ مدرسۃالاسلام کی تھی۔ جس کے سامنے لکھا تھا ،’’یہ ہمارے پیارے قائد کی مادرِ علمی ہے۔ بچپن میں انہوںنے یہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر بیرسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان چلے گئے۔ ‘‘
تیسرے صفحے پر ایک تصویر لگاتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ ہمارے قائد ؒکتنے خوش نصیب تھے کہ انہیں ایک ایسے تعلیمی ادارے میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا جس کے صدر دروازے پر لکھا تھا،’’محمدﷺ‘‘۔قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اس تعلیمی درسگاہ کے انتخاب کے بارے میں ایک مرتبہ خود فرمایا تھا کہ انہوں نے لنکنزاِن کا انتخاب صرف اس لیے کیا تھاکہ اس کے مرکزی دروازے پر دنیا کے ان عظیم قانون دانوں کے ناموں کی فہرست لگی تھی جنہوں نے قانون کے شعبے میں کارہائے نمایاں انجام دیے ،اور اس فہرست میں سب سے اوپر ہمارے پیارے نبی حضرت محمدﷺ کا نام تھا۔
ماہ گل نےاس صفحے پر ایک تصویر لگائی اوراس کے آگےلکھا ،’’ یہ قائداعظم کا مجسمہ ہے جو لنکنزاِن کی لائبریری میں نصب ہے۔ اس کالج میں انہوں نے 1893ء سے1896ء کے دوران بیرسٹر ی کی تعلیم حاصل کی۔ اس مجسمے کی تیاری کے لیے اسکاٹ لینڈ کے مشہور مجسمہ ساز فلپ جیکسن (جو سوئٹزرلینڈ، ارجنٹینااور برطانیہ میں اپنے حیرت انگیزآرٹ ورک کے لیے مشہور ہیں)کا انتخاب کیا گیا۔ فلپ جیکسن نے قائداعظم کا ایسا مجسمہ تیار کیا جوان کے اعتماد اور فہم و فراست کا ثبوت پیش کرتا ہے۔‘‘
اگلے صفحے میں ماہ گل قائد کو واپس بمبئی لے آئی اور اس صفحے پر لگی تصویر کے سامنے لکھنے لگی،’’ قائد اعظم کی شخصیت بااعتماد اور باوقارتھی۔آپ نے 1896ء میں بمبئی ہائی کورٹ میں بطور وکیل ممبرشپ حاصل کی۔ بعد ازاں 1900ء میں ریذیڈنسی مجسٹریٹ تعینات ہوئے۔ وکالت کے دنوں میں ایک مقدمے کے دوران ایک جج نے جناح ؒسے کہا،’مسٹرجنا ح ،یاد رکھیں! آپ کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے مخاطب نہیں ہیں۔‘ آپؒ نےبرجستہ جواب دیا’مائی لارڈ! مجھے یہ انتباہ کرنے کی اجازت دیجیے کہ آپ بھی کسی تھرڈ کلاس وکیل سے مخاطب نہیں ۔‘‘
ماہ گل نے اگلے دو نوں صفحوں پر تحریک پاکستان کے اہم واقعات کے بارے میں کئی تصاویر لگا دیں اور ان سب کے نیچےکچھ نہ لکھا۔ بس ایک سوالیہ نشان ڈالا...وہ چاہتی تھی کہ طالبات ذہنی مشق کریں اور خود سے کوشش کرکے ان تصاویرکے بارے میںدریافت کریں ۔ تاہم وہ تمام تصاویر ایسی تھیں کہ جن سے قائد اعظم کی با اعتماد قیادت، نڈر پن، ہمت و حوصلہ، جذبہ اور ایک باوقار شخصیت کی بھرپور عکاسی ہوتی تھی۔انہی تصاویر میں تحریک پاکستان کے مختلف ادوار کی جھلک بھی دکھائی دیتی تھی۔
سنہری رنگ کی ایک پروقار خوبصورت تصویر اس کی کاپی کے اگلے صفحے کی زینت بنی۔ جس کے آگے اس نےکچھ یوں تحریرکیا:’’اسلام آباد کا مشہور سیاحتی مقام شکرپڑیاں میںواقع پاکستان’ مانومنٹ میوزیم‘ قائداعظم اور دیگر مشہور شخصیات کی حصول پاکستان کی جدوجہد، کاوشوں اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس میں تحریک پاکستان کی اہم شخصیات اور رہنمائوں کے مجسمے، تصاویر اور اشیا رکھی گئی ہیں۔یہ تصویر بھی وہیں کی ہے۔ قائداعظم باوقار انداز میں بیٹھے ہیں۔ میوزیم میں داخلے کے بعد یوں محسوس ہوتاہے جیسے آپ قیام پاکستان سے قبل کے ادوار میں چلے گئے ہوں۔ ایک طرف قائداعظم آل انڈیا مسلم لیگ کے نو جوانوں سے خطاب کررہے ہیں تو دوسری طرف اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح کے ہمراہ بگھی میں شان و شوکت سے بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔مانومنٹ کو چار پنکھڑیوں کی صورت ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ہر پنکھڑی میں مصوری کے فن پاروں سمیت نادرونایاب اشیاءموجود ہیں لیکن جو چیز سب سے اہم ہے، وہ دوسری پنکھڑی میں موجود قائد اعظم محمد علی جناح، فاطمہ جناح، بادشاہی مسجد، مینارِ پاکستان، شاہراہ قراقرم، شیلا باغ سرنگ اور عوام کے سامنےآنے پرقائد اعظم کے والہانہ استقبال کے عکس کندہ ہیں۔‘‘
اگلے صفحے کی زینت ایک مشہور شعر بنا،
صد شکر پھر ہے گرمِ سفر اپنا کارواں
اور میرِ کارواں ہے محمد علی جناحؒ
پھر باری آئی قائد اعظم ؒکے چند مشہور فرمودات کی۔ ماہ گل نے بڑے خوبصورت انداز میں ایک کے بعد دوسرا قول لکھا:
’’ہمارا نصب العین ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اپنی ایک آزاد ریاست میں سکون اور عزت و احترام کے ساتھ رہ سکیں۔‘‘ (23 مارچ 1940، قرار داد لاہور)
’’آپ آزاد ہیں، اپنے مندروں، مساجد یا کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے آزاد ہیں۔ پاکستان ایک ایسی ریاست ہو گی جہاں مذہب، ذات اور فرقہ کسی کے لیے تفریق کا سبب نہیں بنے گا۔‘‘ (11 اگست 1947، آزادی سے چند دن پہلے، قانون ساز اسمبلی سے ایک تاریخی خطاب )
’’پاکستان کو اپنے جوانوں بالخصوص طلباء پر فخر ہے جو آزمائش اور ضرورت کے وقت ہمیشہ صف اول میں رہے ہیں۔ آپ مستقبل کے معمار قوم ہیں ۔ اس لیے جو مشکل کا م آپ کے سر پر کھڑا ہے ، اس سے نمٹنے کے لیے اپنی شخصیت میں نظم و ضبط پیدا کیجیے، مناسب تعلیم اور مناسب تربیت حاصل کیجیے ۔آپ کو پورا پورا احساس ہونا چاہیے کہ آپ کی ذمہ داریاں کتنی زیادہ اور کتنی شدید ہیں ۔ ان سے عہدہ برآ ہونے کے لیے ہر وقت تیار اور مستعد رہنا چاہیے۔‘‘ (مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے وفد سے ملاقات ، 31 اکتوبر 1947ء)
اس نے اس صفحے کے آخر میں لکھا:بالآخر قائداعظم نے اپنی ان تھک محنت اور جدوجہد سے برصغیر کے مسلمانوں کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا اور 11 ستمبر 1948ءکو اس دار فانی سے کوچ کر گئے ۔
’’موت وہ پہلی طاقت ہے جس سے مسٹر جناح نے شکست قبول کی۔‘‘( لندن کا ایک مشہور اخبار نیوز کرانیکل ، قائداعظم ؒ کی وفات پر خصوصی اشاعت ،12دسمبر 1948ء )
ماہ گل چاہتی تھی کہ وہ اگلے صفحے پر ان لوگوں کے اقوال کو جگہ دے جنہوں نے قائد کی وفات کے بعد انہیں بہترین اندا ز میں خراج عقیدت پیش کیا۔ اسے مختلف اخباروں میں جس قدر اقوال مل سکے اس نے اپنی کاپی کی زینت بنا دیے:
’’مجھے صرف اس مقصدکے لیے ہندوستان بھیجا گیا تھا کہ میں اسے بہر صورت متحد رکھ سکوں اور ایک متحدہ ہندوستان ہی کو اقتدار منتقل کروں۔ میں نے اس مقصد کے لیے بڑی کوششیں کیں۔ دن رات ایک کر دیے۔ راتوں کی نیندخراب کی، لیکن میرے مقصد کی راہ میں ایک ایسا شخص حائل تھا جو پہاڑ کی طرح رکاوٹ بنا رہا، اور وہ تھا...محمد علی جناحؒ ۔‘‘ (ہندوستان کا آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن)
’’اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سو گاندھی ، ایک سو نہرو اور ایک سو ابوالکلام آزاد ہوتے اور کانگرس کے پاس صرف ایک جناح ہوتا تو پاکستان کبھی وجود میں نہ آتا۔‘‘
( مسز سروجنی نائیڈو)
سراولف کار (Sir Olaf Caroe)جو 1946ء میں صوبہ سرحد کے گورنر رہے، قائداعظم ؒ کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ’’جناح ؒ ایک سیاست دان سے کہیں زیادہ عظیم آدمی تھے۔ ‘‘
ماہ گل کو یاد تھاکہ قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی شخصیت پرایک مشہور امریکی تاریخ دان اور مصنف اسٹینلے والپرٹ نے ایک کتاب لکھی تھی۔ اسے وہ کتاب تو نہ مل سکی البتہ اس کا سرورق کہیں سے مل گیا جس پر لکھا تھا،’’جناح آف پاکستان‘‘۔ اس نے یہ ٹائٹل کاپی پر لگا کر اس کے سامنے اسٹینلے والپرٹ کا یہ مشہور قول لکھا جس میں انہوں نے قائداعظم کو یوں خراج تحسین پیش کیاہے:
’’ چند ہی لوگ تاریخ کے دھارے کو تبدیل کرپاتے ہیں، ان میں سے بھی کچھ ہی ہوتے ہیں جو دنیا کے جغرافیے کو تبدیل کرتے ہیں اور ان میں سے کوئی ایک آدھ ہی ایک قومی ریاست تشکیل دے پاتا ہے۔ محمدعلی جناح نے یہ تینوں کام انجام دیے۔‘‘
ماہ گل کو مادرملت محترمہ فاطمہ جناح سے بھی خاص لگائو تھا ۔ اس نے اگلے صفحے پر ان کی ایک تصویر لگائی اور نیچے ان کی لکھی کتاب ’’مائی برادر‘‘ کا ٹائٹل لگا دیا۔ اس کتاب کے بارے میں ماہ گل نے ایک پیغام لکھا:
’’ اگر کوئی قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے بچپن کے واقعات اور ان کی کرشماتی شخصیت کے بارے میں تفصیل سے پڑھنا چاہتا ہے تو اس کتاب کا مطالعہ کرے۔ ‘‘
ماہ گل کا دل چاہتا تھا کہ وہ اپنی کاپی کو قائداعظم کے حالات زندگی سے بھر دے مگر اس کے پاس اس وقت تک صرف اتنی ہی معلومات جمع ہو سکی تھی۔ اس کی یہ خواہش بھی تھی کہ وہ 25 دسمبر سے پہلے پہلے یہ کاپی مکمل کرکے اسکول کے حوالے کردے تاکہ دوسرے بچے بھی قائداعظم ؒ کی شخصیت کے بارے میں جان سکیں۔
اس نے کاپی کا آخری صفحہ پلٹا اور اس پر ایک اور پیغام لکھ دیا:
’’قائداعظم ایک کرشماتی شخصیت کے مالک تھے۔ انہوں نے ہمیشہ اتحاد، ایمان اور تنظیم پر زور دیا۔ انہوں نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ پاکستان تب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب اس کےلوگ مل کر کام کریں اور ایک مضبوط قوم بنیں۔‘‘
اس نے کاپی کے سرورق پر قائداعظم کی تصویر لگائی اوراپنی کلاس ٹیچر کے حوالے کردی۔ 25 دسمبر قریب آرہا تھا۔سکول میں یومِ قائدکے حوالے سے خصوصی تقریبات کی تیاریاں جاری تھیں۔ کوئی تقریری مقابلے کی تیاری کررہا تھا تو کوئی قائداعظم کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اشعار یاد کررہا تھا۔کوئی مضمون نویسی کررہا تھا تو کوئی کوئز مقابلے کی تیاری میں مصروف تھا۔ ماہ گل چاہتی تھی کہ اس کی کاپی کے بارے میں بھی کوئی سرگرمی ہو۔ اسے یہاں سب کے سامنے میں رکھا جائے اور سب اسے پڑھیں لیکن اس کی محنت سے تیار کی گئی کاپی کا کہیں کوئی نام و نشان نہ تھا۔
’’یوم قائد‘‘سے ایک روز قبل بزم ادب کی ٹیچرکلاس میں داخل ہوئیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا۔ انہوں نے ماہ گل کو پکارتے ہوئے اسے مبارکباددی اور وہ پیکٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ماہ گل سمیت تمام بچے سوالیہ نظروں سے ٹیچر کی جانب دیکھنے لگے۔ٹیچر نے اسے پیکٹ کھولنے کا اشارہ کیا۔ ماہ گل نے پیکٹ کھولا تو اس میں ایک خوبصورت کتاب جھانک رہی تھی جس کا عنوان تھا،’’ملت کا پاسباں‘‘۔کتاب کے سرورق پر ماہ گل نے اپنا نام دیکھا تو خوشی سے ٹیچر سے لپٹ گئی۔ اس کی کاپی ایک کتاب کی شکل میں اس کے ہاتھ میں تھی۔
’’25 دسمبر کو یوم قائدکی تقریب میں پرنسپل صاحبہ نے یہ راز کھولا کہ ماہ گل کی کاپی انہیں بہت پسند آئی۔انہوں نے اسے سکول انتظامیہ کودکھایا تو انہوں نے اسے چھپوانے کے ساتھ ساتھ ماہ گل کے لیے انعام کا اعلان بھی کیا ہے۔ ماہ گل کی اس کاوش پر اس کی سہیلیوں، کلاس فیلوز اور ٹیچرز کے ساتھ ساتھ اس کے والدین کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔اس نے تالیوں کی گونج میں اپنا انعام وصول کیااور اپنی ہی کتاب کا صفحہ پلٹ کر قائداعظم کا یہ قول پڑھنے لگی:
’’ہم مستقل مزاجی، انتھک محنت اور جذبۂ ایثار سے پاکستان کو عظیم اور مستحکم بنا دیں گے۔ پاکستان قائم رہنے کے لیے بنا ہے اور زمین پر کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اسے مٹاسکے۔‘‘
تبصرے