اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 10:48
Advertisements

ہلال کڈز اردو

امید کے چراغ

دسمبر 2024

”احمد ، اٹھو صبح ہوگئی ہے...! تاریکی کے پردے چاک کر کے سورج افق پر جلوہ گر  ہوچکا ہے اور ہم سب کو پیغام دے رہا ہے کہ بیدار ہوکر اپنے فرائض انجام دو۔ جوسستی اور کاہلی اپناتا ہے وہ ہمیشہ پیچھے رہ جاتا ہے اور تم تو نوجوان ہو...  معمار قوم .... “
 اس سے پہلے کہ ثمرین کچھ بولتی، احمد نے لحاف سے سر باہر نکالا اور بولا، ”اب ایک لفظ مزید مت بولنا ، میں اٹھ گیا ہوں اور تمہاری فلسفیانہ باتیں سن کر تروتازہ بھی ہوچکا ہوں ،کچھ ہی دیر میںتیار ہو کر آفس چلا جاؤں گا۔“
”یہ ہوئی نا بات!آپ جیسے نوجوانوں کے لیے ہی تو قائد اعظمؒنےفرمایاتھا ...کام کام اور بس کام! “یہ کہہ کر ثمرین امی جان کی مدد کے لیے کچن میں آ گئی۔ احمد نے مشکل سے اپنا بستر چھوڑ ا،گرم پراٹھوں سے ناشتہ کیا اور اپنی امی، بہن اور دادی جان کو اللہ حافظ کہتا ہوا آفس کو چل دیا۔



ویسے تو چند دن سے احمد کچھ اُداس دکھائی دے رہا تھا لیکن جب اُس شام وہ گھر لوٹا تو اس کا چہرہ بالکل مرجھایا ہوا تھا ۔
ثمرین کو کتابیں پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ اس کےکالج میں 25دسمبر، یوم قائدؒ کے موقع پر کوئز مقابلہ منعقد ہونے والا تھا، اس لیے وہ سارا دن قائداعظمؒ کی شخصیت کے بارے میں مختلف کتابوں سے معلومات حاصل کرتی رہتی تھی۔جب احمد گھر لوٹا تو اس وقت وہ قائد اعظم ؒکے اقوال پڑھ رہی تھی۔احمد اس کے سامنے صوفے پر آکر ڈھیر ہوگیا۔ بھائی کو یوںا داس دیکھ کروہ پوچھنے لگی، ”کیا ہوا بھائی،صبح آپ  اپنے چہرے پر موسم بہار کے کچھ اثرات لے کر گئے تھے اور اب لوٹے ہیں تو خزاں ڈیرے جمائے ہوئے ہے، خیر تو ہے...؟‘‘
ثمرین کی بات سن کر احمد کے لبوں پر مسکان آگئی۔ ”مجھے لگتا ہے تم آج کل شعروشاعری میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لینے لگی ہو۔ “
”جی بھائی، شعروشاعری کا تو مجھے شوق ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ آج کل میں قائداعظمؒ کی شخصیت کے بارے میں پڑھ رہی ہوں۔مجھے ان کی شخصیت بہت پسندہے۔ پوری دنیا ان کی قائدانہ صلاحیتوں،ایمانداری،سچائی اوربہادری کی  معترف ہے جس کی جھلک ان کے اقوال و ارشادات میں بھی ملتی ہے ۔ان کی نصیحتیں  ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ہمیں فخر ہے کہ وہ ہمارے رہنما ہیں۔‘‘
”یہ بات تو درست ہے ۔قائداعظم نہ صرف ایک بہترین رہنماتھے بلکہ ایک عظیم انسان بھی تھے۔ “
بھائی کو تھوڑا پر سکون دیکھا تو ثمرین نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اس کی اُداسی کی وجہ پوچھی، ’’بھائی!کیاآپ مجھے اس پریشانی کی وجہ بتا سکتے ہیں۔ ہوسکتا ہے میں آپ کو کوئی اچھا مشورہ دوں۔‘‘
ثمرین کے لہجے میںاس قدر اعتماد تھا کہ بھائی فوراََ بولے، ’’ثمرین! میں جس آفس میں کام کرتا ہوں، وہ خسارے میں آ گیا ہے۔اس لیے انتظامیہ نے مجھ سمیت بہت سارے ملازمین کو فارغ کر دیا ہے۔ میں کئی روز سے یہ بات اس لیے چھپا رہا تھا کہ شاید کہیں اور جاب مل جائے۔ تاہم ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی کسی آفس سے مثبت جواب نہیں ملا۔آج تو میں بہت مایوس لوٹا ہوں۔لگتا ہے میرے لیے سب دروازے بند ہوگئے ہیں! “
ثمرین بھائی کی بات سن کر چند لمحوں کے لیے پریشان ہوئی کیونکہ ان کا گھر بھائی کی تنخواہ سے ہی چلتا تھا۔ اس کے علاوہ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔تاہم وہ بھائی کو حوصلہ دیتے ہوئے بولی، ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ قائداعظم ؒنے ناکامی کے بارے میں کیا فرمایاتھا؟ ان کا کہنا تھا: ’’ ناکامی ایک ایسا لفظ ہے جس سے میں واقف نہیں ہوں۔‘‘
تو پھر کیوں نہ ہم بھی ’’مایوسی ‘‘ کو اپنی زندگیوں سے نکال کر اس کی جگہ اُمید کے دیے جلائیں۔امید کی شمع اسی وقت روشن ہوتی ہے جب ہم مایوسی کی ہوائوں کو اپنے قریب نہ آنے دیں۔“ ثمرین کی باتیں سن کر احمد کو کافی حوصلہ ملا تھا۔
 وہ دونوں ایک دوسرے سے اسی بارے میں مزید بات کرنے لگے۔بات سے بات نکلتی ہےاورنئے نئے خیالات اور آئیڈیاز جنم لیتے ہیں۔ وہاں بھی یہی ہوا۔ اچانک ثمرین کے منہ سے نکلا، ’’بھائی! یہ دور تو انٹرنیٹ اور آن لائن دنیا کا ہے۔ آپ اس میدان میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔ میں بھی بہت کچھ جانتی ہوں۔ کیوں نہ ہم  کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر دیں...؟‘‘
ثمرین کی تجویز پراحمد کا مرجھایا ہوا چہرہ کھِل اُٹھا، لیکن وہ پھرمنہ لٹکا کر بولا، ’’میری پیاری بہن، چھوٹے سے چھوٹا کاروبار کرنے کے لیے بھی سرمایہ درکار ہوتا ہے اور پھر ایسا کونسا کاروبار ہے جو ہم اتنی جلدی کرینگے ۔ کیا تم نے کچھ سوچ رکھاہے... ؟“
”چلو، اس بارے میں سوچتے ہیں۔اور تم رات کو اُمید کے چراغ روشن کرکے سونا، مجھے امید ہے کہ صبح اجالا ہی اجالا ہوگا۔‘‘ ثمرین پھر فلسفیانہ باتیں کرنے لگی ۔
اگلی صبح روشن تھی۔ثمرین اور احمدلان میں بیٹھے تھے۔ وہ دونوں اپنے آنے والے کل کے بارے میں کافی پر امید تھے کیونکہ’’ناکامی‘‘ کو انہوں نے اپنی ڈکشنری سے نکال دیا تھا۔ انہیں اللہ پر بھروسہ اور اپنی صلاحیتوں پر اعتماد  تھا۔
”ہم ایک آن لائن گفٹ سنٹر بناتے ہیں۔“ 
”یہ کونسا کاروبار ہے... ؟“احمد نے تجسس سے پوچھا۔ 
”گارمنٹس، کتابیں،اسٹیشنری کا سامان ، کھلونےاور ان کی خوبصورت پیکنگ کی تصاویر،یہ سب ایک آن لائن اسٹور بنا کر اس میں پوسٹ کردیتے ہیں۔بہت خریدار آئیں گے۔ہم کورئیر کے ذریعے انہیں ان کی مطلوبہ چیز بجھوا دیا کریںگے۔یہ دیکھو،  قائدؒ کے اقوال زرّیں کی کتاب بھی میں نے آن لائن ہی منگوائی تھی۔ جونہی میں نے آن لائن اسٹور پر کتاب سلیکٹ کرکے اوکے کا بٹن دبایا، اگلے دن کورئیر میرے پاس پہنچ گیا اور میں نے اس کی قیمت ادا کردی۔ ‘‘ 
’’واہ باجی، تم تو واقعی بہت ذہین ہو۔آخر کار تم نے میرے لیے ایک نیا راستہ ڈھونڈ ہی نکالا۔ ہم آج ہی سے اسے شروع کرتے ہیں۔ ‘‘احمد جوش سے بولا۔ 
دوسرے دن اس نے تمام معلومات جمع کیں۔ اس شعبے کو جاننے والے بہت سے لوگوں ، مقامی اور دوسرے شہروں کے ڈیلروںسے رابطہ کیا۔ ان کے طریقہ کار کا مشاہدہ کیا۔ پھر کورئیر کی انتظامیہ سے ملا جنہوں نے تین ماہ کے لیے بغیر ایڈوانس اس کے پارسل کو گاہکوں تک پہنچانے کا وعدہ کرلیا۔ ‘‘
احمد نے اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پرچند دنوں میں اپنا آن لائن اسٹور سجا لیا۔ پہلے پہل چند گاہک آئے ، مگر وہ مایوس نہیں ہوا ور مستقل مزاجی سے اپنے کام پر توجہ دیتا رہا۔ اس میں بہتر ی لاتا رہا ۔چند ماہ بعد اس کا کاروبار چمک اٹھا ۔ اس کی ویب سائٹ پر آن لائن خریداری بڑھنے لگی کیونکہ ایمانداری اور سچائی اس کا پہلا اصول تھا۔ 
قائدؒ کا یہ قول اس کے لیے ایک رہنما اصول بن گیا۔ ’’کام ، کام اور بس کام!‘‘
ثمرین نے قائداعظم کے فرمودات کی کتاب احمد کے سامنے رکھ دی، جس نے اپنے کمرے کو آفس بنا لیا تھا۔وہ کام کے ساتھ ساتھ وقتاََ فوقتاََ اسے بھی پڑھتا جس سے اسے رہنمائی ملتی اور اس کا حوصلہ بڑھتا ۔ 
’’علم تلوار سے بھی زیادہ طاقتور ہے اس لیے علم کو اپنے ملک میں بڑھائیں ،کوئی آپ کو شکست نہیں دے سکتا۔‘‘ قائدکا یہ قول پڑھتے ہوئے وہ سوچ رہا تھا کہ واقعی اگر وہ پڑھا لکھا نہ ہوتا تو آج وہ اپنے کاروبار میں کامیاب نہ ہوتا۔
 ثمرین اور احمد نے دن رات محنت سے ثابت کردیا تھا کہ یقین ، نظم وضبط اور بے لوث لگن کے ساتھ ، دنیا کی ہر چیز حاصل کی جاسکتی ہے۔ بلاشبہ قائداعظمؒ کے اصول اور اقوال ان کی کامیابی کا ذریعہ بن گئے تھے۔