ساحر کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی ۔ فائنل پروجیکٹ جمع کروانے میں صرف دو دن باقی تھے اور اساتذہ کرام کی جانب سے ہدایات تھیں کہ ہر کوئی اپنا اپنا پروجیکٹ وقت پر جمع کروائے۔ اسی سوچ میں ساحر اپنا سر پکڑے بیٹھا تھا کہ عمیر آ گیا۔
ساحر اور عمیر گہرے دوست تھے۔وہ دونوں طالب علم تھےاور ان کا شعبہ تھا ماس کمیونیکیشن۔ ساحر پڑھائی میں بہت اچھا تھا جبکہ عمیر دیگر تعمیری سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتا تھا۔ پرانی چیزیں جمع کرنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا ۔ اس نے اپنا کمرہ بہت ساری تاریخی چیزوں سے سجا رکھا تھا جس میں اس کے دادا جان کے زیر استعمال چیزیں بھی شامل تھیں۔
عمیر نے اپنے دوست کو یوں پریشان دیکھا تو اس سے اس کی وجہ پوچھی۔ ساحر نے اپنے پروجیکٹ کے بارے میں بتایا تو عمیر کھلکھلا کر ہنسنے لگا۔
’’میں پریشان ہوں اور تم ہنس رہے ہو ؟‘‘ساحر نے بڑی عجیب نظروں سے اسے دیکھا۔
’’اچھا بتائوکیا چاہتے ہو؟‘‘عمیر نے اس سے الٹا سوال کر دیا۔
’’بھائی ،آپ کو تو پتا ہے کہ آخری سمسٹر چل رہا ہے اور میں نے بڑے شوق سے اپنے لیے ایک پروجیکٹ منتخب کیا تھا ۔ میں انٹر نیٹ کی مدد سے کافی معلومات حاصل کرچکا ہوں لیکن ابھی مطمئن نہیں ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا پروجیکٹ سب سے منفرد ہو۔ لیکن...؟ـــ’’وہ رکا اور ساحر کے بولنے سے پہلے ایک بار پھر کہنے لگا:
’’اب میں پرانا ٹیلی ویژن کہاں سے لائوں؟‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘عمیر نے پوچھا۔
’’میرا پروجیکٹ ٹیلی ویژن کے بارے میں ہےاور میں اس کی ترقی کو شروع سے دکھانا چاہتا ہوں؟ اور پھر 21 نومبر بھی آ رہی ہے تو میں چاہتا ہوں کہ ٹیلی ویژن کے عالمی دن کے موقع پر میں اپنا پروجیکٹ پیش کروں کیونکہ اس دن کو منانے کا مقصد تفریح،تعلیم و تربیت اور معلومات کے حصول کے لیے ٹیلی ویژن کی اہمیت کواجاگر کرنا ہے۔
عمیر نے اس کی بات سنی تو اسے اپنے ساتھ گھر چلنے کو کہا۔ تھوڑی دیر میں وہ وہاں موجود تھے۔ اندر داخل ہوئے تو ان کا استقبال عمیر کے دادا جان نے کیا۔ وہ برآمدے میں بیٹھے ایک پرانا ریڈیو اپنی بغل میں دبائے خبریں سن رہے تھے۔ ساحر کی نظر اس ریڈیو پر پڑی تو اس کی باچھیں کھل اٹھیں۔ دونوں نے انہیں سلام کیا اورتھوڑی دیر کے لیے وہیں بیٹھ گئے۔
عمیر نے اس کی دلچسپی دیکھی تو اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے کمرے میں لے گیا۔ دادا جان بھی ان کے پیچھے پیچھے وہاں آگئے۔
عمیر کا کمرہ واقعی حیرت انگیز تھا۔سامنے دیوار پرپرانے دور کی ایک عمدہ بندوق لٹکی ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ نیچے کی طرف ایک ڈھال کے ساتھ دو تلواریں لٹک رہی تھیں۔
’’یہ میری تھیں اور اب عمیر کی ہیں۔‘‘ دادا جان نے عمیر کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔
’’اور وہ بھی۔‘‘عمیر نے ایک طرف اشارہ کیا تو ساحر ہکا بکا رہ گیا۔ وہاں ایک پرانا ٹیلی ویژن رکھا ہوا تھا جس کےسر پر سٹیل کا ایک انٹینا لگا ہوا تھا۔اس کی اوپری ساخت لکڑی کی تھی ۔ دائیں جانب اوپر کی طرف کچھ بٹن لگے ہوئے تھے اور نیچے ایک اسپیکر تھا۔ عمیر اسے اس طرح دیکھنے لگا جیسے اس نے کوئی عجوبہ دیکھ لیاہو۔‘‘
دادا جان اس کا شوق دیکھ کر مسکرانے لگے۔انہوں نے اس ٹیلی ویژن کے بارے میں بتانا شروع کیا:’’ بھئی! اسے میرے ابا جان نے خریدا تھا۔ اس پرہم سب خبریںاور پی ٹی وی کے ڈرامے دیکھا کرتے تھے۔یہ ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن ہے جو پاکستان میں پہلی بار 60 ءکی دہائی میں آیا تھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے دائیں طرف لگا ایک بٹن گھما دیا جس کے بعد اس کی اسکرین پر چھوٹے چھوٹے نقطے نمودار ہوگئے۔ وہاں کوئی نشریات نہیں آ رہی تھیں جس پر دادا جان نے بتایا کہ یہ ٹیلی ویژن ایک انٹینا کی مدد سے نشریات کیچ کرتاتھا جسے وہ اپنے گھروں کی چھت پر لگاتے تھے۔ اگر تصویر صاف نہ آ رہی ہوتی تواس کا رخ کسی اور جانب موڑ دیتے تھے۔ ‘‘
’’اور چھت پر چڑھ کر یہ کام میرے دادا جان کرتے تھے ۔‘‘ عمیر دادا جان کی طرف دیکھ کر بولا تو وہ تینوں مسکرا دیے۔
’’ یہ اس دور کی ایک کمال ایجاد تھی۔ بعد میں ڈش انٹینا آگئے تو سیٹلائٹ کی مدد سے ہمارے ہاں دیگر ممالک کے بہت سارے چینلز بھی دیکھے جانے لگے۔ ‘‘
’’اب ہماری زندگیوں میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا آ چکا ہے جو اسی ٹیلی ویژن کی ایک جدید شکل ہے۔‘‘ اب کی بار امی جان بولیںجو ہاتھ میں چائے اور بسکٹ لیے وہی پہنچ گئی تھیں۔
’’ ٹیلی ویژن خبروں اور معلومات کا ایک ون وے یعنی یکطرفہ ذریعہ تھا لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا ٹو وے یعنی دو طرفہ ذرائع ہیں۔ آپ ان پلیٹ فارمز پر خبریں اور معلومات دیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار بھی کر سکتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس کوئی ہنر یا فن ہے تو اس کے بارے میں لوگوں کوبتا سکتے ہیں۔یہ ایک ایسی حیرت انگیز ایجاد ہے جو کہ دورحاضر میں معلومات تک رسائی کا ایک طاقت ور ترین ذریعہ ہی نہیں بلکہ سوچ اور فکر بدلنے والا ایک اہم میڈیم بھی ہے۔اب تو یہ ایک ایسی دنیا بن چکی ہے جہاں طرح طرح کے ڈرامے، کارٹون، تفریحی ، ادبی و مذہبی پروگرامز کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ آپ جب چاہیں ، جس وقت اور جہاں چاہیں، اپنے موبائل فون پر ہی یہ سب کچھ دیکھ سکتے ہیں کیونکہ موبائل فون اب اسمارٹ ٹی وی بن چکا ہے۔‘‘
’’لیکن بیٹا ! آپ کو یہاں محتاط رہنے کی بھی ضرورت ہے‘‘، دادا جان ایک بار پھر بولے۔
’’دیکھو بیٹا! ٹیلی ویژن پھر بھی ایک معتبر ذریعہ ہے لیکن سوشل میڈیا پر ملنے والی معلومات کے حوالے سے ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ آج کل تواس پر بہت سارے منفی رجحانات پھیلائے جا رہے ہیں۔ پراپیگنڈے میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جھوٹی خبروں جیسا کہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن پھیلا کرنوجوانوں میں مایوسی پھیلائی جا رہی ہے جس سے آپ کو اور ہماری نوجوان نسل کو بچنا ہوگا۔ آپ کو سمجھداری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اپنی روایات کو فروغ دینا ہوگا اور ایسے کام کرنے ہوں گے جو ملک کی نیک نامی کا باعث بنیں۔علم و آگہی حاصل کرنا ہوگی۔اگر آپ ملک میں امن و امان کو فروغ دینا چاہتے ہیں، انتشار اور افراتفری سےبچنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ ٹیلی ویژن سمیت میڈیا کے دیگر تمام ذرائع کا ذمہ دارانہ استعمال سیکھیں۔اپنی اسلامی روایات، اقدار، اسلاف کے کارناموں اور قومی مفادات کو مدنظر رکھیں۔ جھوٹ پھیلانے کا حصہ نہ بنیں اور معلومات کی تصدیق کرنا اپنی عادت بنا لیں۔‘‘دادا جان نے ان دونوں کو بڑی تفصیل سے ساری باتیں سمجھا دی تھیں۔
ساحر نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ان کی اجازت لے کر اس ٹیلی ویژن کا ماڈل نوٹ کیا اور کچھ تصاویر بنائیں تاکہ اپنے پروجیکٹ میں یہ سب شامل کرسکے۔ آج اسے معلومات کے ساتھ ساتھ میڈیا اور ٹیلی ویژن کے ذمہ دارانہ استعمال کی اہمیت معلوم ہو گئی تھی۔
تبصرے