’’ماما، ماما… ماما جی! منہ پر صابن لگا ہے اور پانی نہیں آرہا۔‘‘ وانیہ باتھ روم سے اُونچی اُونچی آوازیں دینے لگی۔
’’کئی بار کہا ہے کہ پانی احتیاط سے استعمال کیا کرو اور اسے ضائع نہ کیاکرو۔ اب دیکھ لیا نا۔ طلحہ نہانے گیا تھا اورپانی کی پوری ٹینکی خالی کرکے باہرنکلا ہے۔ اور یہ وانیہ کی بچی، مجال ہے کہ اس میں ذرا بھی صبر ہو ۔‘‘ ماما جی کوئی ضروری کام چھوڑ کر پانی کی موٹر چلانے جارہی تھیں اور ساتھ ساتھ غصّے میں بول بھی رہی تھیں۔
’’ماما جی! کیاہم نانی اماں کی سالگرہ پر گاؤں جارہے ہیں؟‘‘وانیہ نے ہوم ورک کرتے ہوئے سر اُٹھا کر سوال کیا۔
’’بالکل جائیں گے۔ ایک ہفتے کی چھٹیاں ہیں ،وہیں گزاریں گے۔ اِس بار اُن کو سرپرائز دینا ہے۔‘‘ ماما جوش سے بول رہی تھیں۔
’’یاہووو...،‘‘ وانیہ، طلحہ اور صبا نے ایک ساتھ کہا۔
’’تم تینوں میں ذرا بھی صبر نہیں ہے۔آج سکون سے پیکنگ کرتے، تھوڑاآرام کرتے اور تسلی سے کل روانہ ہوتے۔ افراتفری میں کھانا بھی نہیں کھایا۔‘‘ماما بس میں بیٹھیں اُن تینوں سے کہہ رہی تھیں جبکہ بچے ویڈیو گیمز کھیلنے میں مصروف تھے۔
’’ماما جی آج کا دن ضائع ہوجانا تھا ناں اور ویسے بھی نانی ا ماں کو پتا ہے کہ آج ہم سب کا آخری پیپر تھا۔ ان کے تو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ ہم آج آسکتے ہیں۔‘‘ صبا بولی۔
’’اچھا! اور وہ جو پانی کی بوتلیں اور لنچ گھر بھول آئے ہو؟‘‘ ماما جی نے مڑ کر اُنہیں خفگی سے دیکھا۔
’’آپ پریشان نہ ہوں،پاپا راستے سے لے لیں گے۔‘‘ طلحہ بولا۔
’’کہاں سے لے لیں گے۔ پچھلے ایک گھنٹے سے تو یہیں پھنسے بیٹھے ہیں‘‘، پاپا جھنجھلاکر بولے کیونکہ ٹریفک برُی طرح بلاک تھی۔
ٹریفک کی وجہ سے مٹی اور دھول بھی خوب اُڑ رہی تھی۔ جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر بھی نظر آرہے تھے۔
’’آبادی اتنی بڑھ چکی ہے کہ اب سڑک پر گاڑیوں کا سمندر رواں دواں ہے۔اس صورت حال میں آلودگی کیسے نہ ہو؟‘‘ خدا خدا کرکے ڈیڑھ گھنٹے بعد ٹریفک کھلی اور وہ لوگ گاؤں کی طرف روانہ ہوئے۔
نانی ا ماں ان سب کو یوں اچانک دیکھ کرحیران ہوئیں اور خوش بھی۔ گھر میں ایک دم رونق آگئی تھی۔
شام کچھ ٹھنڈی تھی۔ نانی ا ماں پانی کا پائپ لیے پودوں کو پانی دے رہی تھیں۔ نانا ابو اور سب گھر والے بیٹھے چائے پی رہے تھے کہ اچانک وانیہ نے نانی اماں کے ہاتھ سے پانی کا پائپ لیا،اور پہلے نانا ابو کی گاڑی پر خوب پانی ڈالا ،پھرطلحہ اور صبا کو بھی پانی سے بھگو دیا۔ اس کی یہ حرکت دیکھ کر ماما اُٹھیں اورپانی ضائع کرنے پر اسے ڈانٹنے لگیں۔
’’بیٹا!یہاں پہلے ہی پانی کی کمی ہے۔ اسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ نانی ا ماں وانیہ کو اپنے ساتھ کمرے میں لے آئیں۔
’’نانی اماں! میرا دل چاہتا ہے کہ میرے پاس جادو کا ایک چراغ ہو جو چٹکیوں میں پانی کی کمی پوری کردے۔‘‘
’’اچھا! تمہیں جادو کاچراغ چاہیے؟‘‘ نانی اماں مسکرانے لگیں۔
’’یہ لو‘‘ نانی اماں نے اپنی الماری سے خوبصورت نقش و نگار والا ایک چراغ نکالا اور اسے تھما دیا۔
’’اُف !نانی ا ماں یہ کتنا خوبصورت ہے۔ کیا اس کو رگڑنے سے سچ میں جن نکلے گا؟‘‘ وانیہ پُرجوش تھی۔
’’رگڑ کر دیکھ لو.. میں تب تک تمہارے لیے کھانے کو کچھ لاتی ہوں۔‘‘ نانی اماں کے جانے کے بعد وانیہ نے چراغ کو رگڑا مگر اس سے کوئی جن نہ نکلا۔ ایک بار، دو بار، تین بار... بار بار رگڑنے پر بھی جب کوئی جن اس کے سامنے نہ آیا تو وہ کہنے لگی:’’سب مجھے ہی بے وقوف بناتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کراس نے چراغ کو زور سے دیوار پر دے مارا۔ دیوار سے ایک عجیب سرمئی سایہ نکلنا شروع ہوا۔ یہ سایہ دھوئیں میں بدلا اور دھواں آہستہ آہستہ ایک شکل میں ڈھل گیا۔ وانیہ ڈر گئی۔
’’کیا حکم ہے میرے آقا؟ تاخیر سے آنے پر معذرت چاہتا ہوں‘‘، جن بولا۔
’’تت تت… تم کون ہو؟‘‘ وانیہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔
’’میں ہوں پانی والا جن۔‘‘
’’ جنوں میں پانی والا جن بھی ہوتا ہے ؟‘‘ وانیہ نے پوچھا۔
’’جی ہاں! پانی کا مسئلہ دیکھنا میرا کام ہے۔‘‘
’’جنوں کے علاقے میں پانی کا ایک چھوٹا سا مسئلہ ہوگیا تو میں اسے حل کرنے میں مصروف تھا کہ چراغ کا بلاوا آگیا‘‘، جن نے بتایا۔
’’تمہاری دنیا میں بھی پانی کے مسائل ہیں؟‘‘ وانیہ نے پوچھا۔
’’نہیں، ہمارے ہاں پانی کے مسائل بالکل نہیں ہیں ۔بس ہمارے ایک علاقے میں چھوٹا سا مسئلہ پیدا ہوا تھا وہ بھی ہم نے حل کرلیا۔ لیکن تمہاری دنیا میں تو پانی کے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ اس کی وجہ بھی تم لوگ خود ہی ہو ‘‘، جن بولا۔
تم لوگ ٹیوب ویل بہت زیادہ لگاتے ہو جس کی وجہ سے زیر زمین پانی کی سطح کم ہوگئی ہے۔ بارش کا پانی ضائع کردیتے ہو۔ جتنا پانی محفوظ کرتے ہو، نہانے اور گاڑیاں دھونے کے لیےاس کا بھی ضرورت سے زیادہ استعمال کرلیتے ہو۔ اسی طرح اپنی ندیاں اور نہریں صاف نہیں رکھتے۔ درخت نہیں اُگاتے۔ ڈیم نہیں بناتے ،وغیرہ وغیرہ۔‘‘ پانی والے جن نے ایک ایک کرکے پانی کے تمام مسائل گنوا دیے۔
’’تمہاری دنیا کیسی ہے؟‘‘ وانیہ نے تجسس سے پوچھا۔
’’ چلو!میں آپ کو اپنی دنیا کی سیر کرا تا ہوں۔صرف ایک چکر لگا کر تم اندازہ کرلو گی کہ ہم پانی کی کتنی قدر کرتے ہیں ۔‘‘ یہ کہہ کر جن نے اپنا بڑا سا ہاتھ پھیلایا۔ پلک جھپکتے ہی وہ جنوں کے علاقے میں موجود تھے ۔
’’واؤ! یہ تو بہت خوبصورت جگہ ہے۔‘‘ وانیہ چلائی۔
بہتی ندیاں، خوبصورت آبشاریں، درخت ہی درخت ،سبزہ ہی سبزہ اور صاف ستھری نہریں۔ وہاں دور دور تک آلودگی کا نام و نشان نہیں تھا۔
’’ہمارے یہاں دھوئیں والی چیزوں پر پابندی ہے۔ یہ دیکھو اِس علاقے میں پانی کی لیکج ہوئی ،پانی اکٹھا ہوا لیکن اس سے پہلے کہ یہاں مچھر بسیرا کرتے ہم نے اسے صاف کردیا۔ ‘‘ پانی والے جن نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔
وانیہ نے طے کرلیا تھا کہ وہ اب پانی کو ضائع نہیں کرے گی ۔وہ اپنی دنیا کو پانی والے جن کی دنیا کی طرح خوبصورت، صاف ستھرا بنا کر پانی کی کمی سے پاک کرے گی۔ اُس نے سوچا کہ وہ اپنی سہیلیوں اور کلاس فیلوز کے ساتھ مل کر بہت سارےپودے لگائے گی۔پانی ضائع کرے گی اور نہ گلی میں بہائے گی ۔
نانی اماں اس کے لیے سینڈوچز لائی تھیں۔ دیوار کے پاس چراغ گرا ہوا تھا۔ وانیہ صوفے کے بازوپر سر رکھے رکھے سو گئی تھی۔
’’ہاں بھئی، چراغ سے جن نکلا؟‘‘ نانی ا ماں مسکرائیں۔
’’جی نانی ا ماں! وہ میرا دوست بن گیا ہے۔ اُس نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ مجھے جب اُس کی ضرورت ہوگی وہ آئے گا اور میری مدد کرے گا۔‘‘
’’اچھا! کیا وہ سچ میں آیا تھا ؟‘‘ نانی ا ماں نے ایک بار پھر پوچھا ۔
’’جی نانی ا ماں، آپ مذاق سمجھ رہی ہیں؟‘‘ وہ سینڈوچ کھاتے ہوئے بولی۔
’’اچھا واقعی؟‘‘نانی اماں نے پُراسرار مسکراہٹ کے ساتھ چراغ اُٹھایا اور اسے پھر سے الماری میں رکھ دیا۔
تبصرے