درگزر کرنا، ثابت قدم رہنا، ہرطرح کی تکلیف اٹھانا، دوسروں کے رویے کو برداشت کرنا، کسی کام کے لیے مناسب وقت کا انتظار کرنا،بے قرار نہ ہونا، مشکلات کی پروا نہ کرنا... صبر و تحمل کہلاتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مرتبہ صبر کی تلقین کی ہے، فرمان الٰہی ہے: ’’بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ : 153)
پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کا ارشاد ہے:’’ صبر روشنی ہے۔ ‘‘(صحیح مسلم: 328)
ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ساری زندگی صبروتحمل سے عبارت ہے۔ آپ ﷺ پر بہت سی مشکلات آئیں ۔آپ نے صبر اور برداشت سے ان کا مقابلہ کیا۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ سے پوچھا:
” آپﷺ کی زندگی میں غزوہ اُحد سے بھی زیادہ مشکل دن کوئی آیا ہے؟‘‘
نبی اکرم ﷺنے فرمایا:’’ ہاں ! وہ دن جب میں طائف کے رہنے والوں کو اسلام کی دعوت دینے گیا تھا۔ ان لوگوں نے میری بات کی طرف توجہ نہ دی اور مجھے ستایا۔‘‘
طائف کے سفر کے موقع پر حضرت جبریل علیہ السلام ،نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور کہا:’’ اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے۔ آپ ﷺ اسے جو حکم دیں گے وہ پورا کرے گا۔‘‘
پھرپہاڑوں کے فرشتہ نے آکر نبی پاکﷺ کو سلام کیا اور کہا: ”میں پہاڑوں پر مقرر فرشتہ ہوں، اگر آپ ﷺ چاہیں تو میں طائف کے دونوں پہاڑوں کو ملادیتا ہوں اور ان لوگوں کو ختم کر دیتا ہوں۔‘‘
نبی اکرمﷺ نےطائف والوں پر مہربانی کرتے ہوئے فرمایا: ’’نہیں، مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے ۔“ (صحیح مسلم : 1795)
رسول اللہ ﷺ نے زندگی میں سخت تکلیفیں برداشت کیں۔نبوت کا اعلان فرمایا تو اپناہی شہر دشمن بن گیا۔ آپ ﷺنے کوئی دباؤ قبول نہ کیا تو پورے خاندان کے ساتھ گھاٹی میں محصور کر دیا گیا۔ طائف گئے تو لوگوں نے اتنے پتھر مارے کہ جوتے خون سے بھر گئے۔ آپ ﷺ کے دشمنوں نے آپ ﷺ کی پیشانی تک زخمی کر دی۔ لوگ آپ ﷺکو شہید کرنے کے منصوبے بناتے تھے۔ آپ ﷺنے ہجرت کی اور میدان جنگ میں دشمنوں کا بھی مقابلہ کیا۔ آپ ﷺ نے ان تمام مصیبتوں کا سامنا صبر اور خندہ پیشانی سے کیا۔ صبر وتحمل ہی آپ ﷺ کی وہ اعلیٰ صفت تھی جس کی وجہ سے آپ ﷺنے تئیس (23) سال کے قلیل عرصے میں ایک عظیم انقلاب بر پا کردیا اور پورے عرب کو امن وسلامتی کا گہوارہ بنا دیا۔
تبصرے