’’ بابا کب آئیں گے؟‘‘ وصی نے بے چینی سے پوچھا۔
’’ بیٹا!انہیں دیر ہوجائے گی۔ آپ پریشان نہ ہوں اور جا کر سو جائیں، وہ آئیں گے تو میں آپ کو جگا دوں گی۔‘‘ ملیحہ بیگم نے اس کے پھولے ہوئے گال تھپتھپائے تو وہ اثبات میں سر ہلا کر چلا گیا۔
کمرے میں آکر اس نے لائٹ جلائی تو بیڈ پر اسد کو گہری نیند میں پایا۔ اس کے پہلو میں لیٹ کر وہ شدت سے اپنے بابا کا انتظار کرنے لگا۔وہ بابا سےسب سے پہلے ملنا چاہتا تھا۔ مگرجب آنکھیں نیند سے بوجھل ہوئیں تو وہ نیند کی وادی میں اتر گیا۔
وصی اور اسد دونوں بھائی تھے۔ اسد گیارہ سال کا تھاجب کہ وصی کی عمردس سال تھی۔ اسد سمجھ دار اور ملنسار بچہ تھا۔ اعتدال پسندی اس کی شخصیت کا خاصا تھی۔ البتہ وصی جلد باز تھا، قوتِ برداشت اس میں بالکل بھی نہ تھی۔ ملیحہ بیگم اسے اکثر سمجھاتیں مگر وہ کسی طور باز نہ آتا تھا۔کچھ کچھ ضدی بھی تھا۔ اس کے والد علی صاحب کا کہنا تھا کہ جب وہ بڑا ہوگا تواسے خود ہی عقل آ جائے گی۔
علی صاحب اپنے کاروباری سلسلے میں ایک ہفتے کے لیے بیرون ملک گئے ہوئے تھے۔اس رات تین بجے ان کی واپسی تھی۔ اسدآٹھ بجے ہی سو گیا تھا۔ اس کے برعکس وصی اپنی بے صبر طبیعت کے سبب جاگتا رہا ۔بالآخر ساڑھے بارہ بجے کے قریب اسے بھی نیند آ گئی۔
’’وصی بیٹے! جلدی اٹھو، بابا کب سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ ملیحہ بیگم کی آواز پر اس نےفٹ سے آنکھیں کھولیں اور جھٹ سے اٹھ بیٹھا۔
’’بابا آگئے؟‘‘ اس کے لہجے میں جوش سمٹ آیا تھا۔
’’وہ تو رات کو ہی آ گئے تھے۔‘‘ وہ مسکرائیں تو وصی نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ صبح کے سات بج رہے تھے۔ اسد بھی غائب تھا۔
ـ’’اچھا! میں جا رہی ہوں، آپ فریش ہو کے جلدی سے آ جائیں۔‘‘ وصی نے پھرتی سے کپڑے بدلے اور فٹافٹ باہر آگیا۔
پھر بھاگتے ہوئے بابا کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ بیڈ پر علی صاحب اور اسد بیٹھے تھے۔ وصی کی آنکھیں چمکیں، وہ دوڑ کر آیا لیکن اس کا پاؤں قالین میں اٹک گیا اور وہ منہ کے بل جا گرا۔
’’آرام سے بیٹا!‘‘ علی صاحب فوراً لپکے اور اسے اٹھا لیا۔
’’کہیں چوٹ تو نہیں آئی؟‘‘ اسد فکر مند ہوا تو وصی نےپیشانی پر ہاتھ رکھتے ہوئے کھسیانی ہنسی ہنس کر نفی میں سر ہلا یا۔ ماتھے پر ہلکی سی خراش آ چکی تھی۔علی صاحب نے اسے خود سے لپٹا لیا۔
’’بابا! آپ میرے لیے کیا لائے ہیں؟‘‘ صبح سے وہ کئی بار پوچھ چکا تھا۔
’’میں ،اسد اور آپ کے لیے ڈھیر سارے کھلونے لایا ہوں۔امی سے کہو وہ نکال دیں گی۔‘‘یہ کہہ کر وہ دوبارہ لیٹ گئے۔
وصی نے کچن میں جھانکا، ملیحہ بیگم اپنے کام میں مصروف تھیں۔
’’امی جان! میرے کھلونے نکال دیں۔‘‘ اس نے بیچارگی سے کہا۔
’’ صبر کرو بیٹا! ‘‘
’’اور کتنا صبر کروں؟ صبح سے صبر ہی تو کر رہا ہوں۔‘‘ وصی جھنجھلا کر بولا۔
’’اچھا! کھانا تو بنا لوں، پھر نکال دیتی ہوں۔‘‘دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مصروف ملیحہ بیگم اسے ٹالنے لگیں ۔
اس سے مزید برداشت نہ ہوا تو وہ خودیہ کام انجام دینے چلا گیا۔ کمرے میں بھاری بھر کم سفری بیگ رکھے تھے۔ وصی انہیں کھولنے میں ناکام تھا۔اس نے پوری قوت لگائی لیکن بیگ نہ کھل سکا۔
’’یہ کیاکر رہے ہو؟‘‘ اسد کو حیرت ہوئی۔وہ جانتا تھاکہ وصی کھلونےلیے بغیر نہیں ٹلے گا۔
وصی کے دوست معید اور عقیل کھیلنے کے لیے آئے تو اس نےانہیں اپنے نئے کھلونےدکھائے۔ وہ دونوں اس کے رنگ برنگے کھلونے دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھے۔
’’جلدی دیکھ کر مجھے واپس کرو۔‘‘وہ عقیل اور معید کو کھلونے تھما کر بولا۔
’’اس کے سیل یہاں ڈالیں گے نا؟’’ عقیل جہاز کے نیچے والاڈھکن کھولنے لگا تووصی نے جھٹ سے چھین لیا۔ عقیل منہ پھلا کر بیٹھ گیا۔ معید ریموٹ کنٹرول کار دیکھ رہا تھا۔
’’بس! اب دے دو واپس۔‘‘چند لمحوں بعد اس نے معید سے بھی ریموٹ کنٹرول کار لینا چاہی۔
’’یار وصی! دیکھنے تو دو۔‘‘ معید نے اصرار کیا۔ وصی اس کے ہاتھ سے گاڑی کھینچنے لگا۔ اسی کھینچا تانی میں کار کی ہیڈ لائٹ ٹوٹ گئی اور معید کا ہاتھ زخمی ہوگیا۔وصی کو اس کا بھی احساس نہ ہوا اور اس سے گاڑی چھین کر اندر چلا گیا۔
معید کی ہتھیلی پر خون کے چند قطرے نمودار ہوئے تو وہ رونے لگا۔ عقیل نے گھبرا کر اس کا ہاتھ پکڑا۔ اچانک اسد اس طرف آ نکلا اور عقیل کی زبانی یہ واقعہ سن کر پریشان ہوگیا۔ اس نے معید کے ہاتھ پر پٹی باندھی اور اسے گھر چھوڑ کر اس کی والدہ سے معذرت کر آیا۔
رات کو اس نے امی اور ابو سے اس کی شکایت لگادی۔ ملیحہ بیگم کو دکھ ہوا ،علی صاحب بھی شرمندہ تھے۔
رات کے کھانے پر وصی خاموش تھا۔ اسے شک تھا کہ اسد اس کی شکایت لگا چکا ہوگا۔ اس لیے وہ کن اکھیوں سے باری باری سب کے سپاٹ چہرے دیکھ رہا تھا۔
’’وصی!‘‘ علی صاحب نے پکارا تو اس کا دل دھک سے رہ گیا۔
’’جی بابا!‘‘
’’آپ نے شرٹ الٹی پہنی ہوئی ہے؟‘‘ وصی نے فوراََ گردن جھکا کر دیکھا تو واقعی شرٹ کا پچھلا حصہ آگے تھا۔
’’بابا! وہ جلدی میں پتا نہیں چلا۔‘‘ اس نے وضاحت کی۔
’’یہ اچھی بات نہیں ہے بیٹا! آپ کو آخر کس بات کی جلدی ہوتی ہے؟ کیا آپ کو شیطان کو خوش کرنااچھا لگتا ہے؟‘‘ اس بات پر وہ حیران رہ گیا۔
’’نہیں بابا! میں شیطان کو خوش کیوں کروں گا؟‘‘ وصی اب بھی حیرت زدہ تھا۔
’’بھئی، جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہےاور شیطان اپنے کام دوسروں سے کروا کر بہت خوش ہوتا ہے۔ وہ یہی چاہتا ہے کہ لوگ راہِ راست سے بھٹک کر اس کے رستے پر چلیں اور اللہ سے دور ہوجائیں۔کیا آپ اللہ سے دور ہونا چاہتے ہیں؟‘‘ علی صاحب سنجیدہ تھے۔
’’نہیں بابا! میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔‘‘ وصی نے جواب دیا۔
’’بیٹا!جلد بازی محض شیطانی صفت ہی نہیں بلکہ اس کے اور بھی نقصانات ہوتے ہیں۔ ‘‘ ملیحہ بیگم بولیں۔
’’وہ کیا؟‘‘
’’دیکھو! آپ کل بابا سے سب سے پہلے ملنا چاہتے تھے، اسی لیے آپ نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رات بھر جاگنے کا فیصلہ کیا لیکن کیا ہوا؟ آپ کو نیند آگئی اور دیر سے سونے کے باعث آپ سب سے آخر میں جاگے۔ جب آپ بابا سے ملنے گئے تو اسی جلدبازی نےآپ کو چوٹ پہنچائی، پھر کھلونے حاصل کرنے کی جلدی میں آپ نے معید کا ہاتھ بھی زخمی کر دیا۔ یہ سارے نقصان اسی جلد بازی اور عدم برداشت کی وجہ سے ہوئے ۔‘‘ وصی کو ملیحہ بیگم کی بات ازبر ہوگئی۔ اس کے چہرے پر ندامت آئی تھی۔
’’ہماری ٹیچر کہتی ہیں کہ ہمیں اپنے اندر تحمل پیدا کرنا چاہیے۔ کسی بھی حال میں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہیں دینا چاہیے اور زندگی کے ہر موڑ پرہمت اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔‘‘اسد نے بھی بات چیت میں حصہ لیا۔
’’میں اب کبھی جلدی نہیں کروںگا اور نہ کسی سے کھلونا چھینوں گا۔‘‘ وصی پر عزم ہو کر بولا تو سب خوش ہوگئے۔
دوسرے دن جب وہ اسکول جارہا تھا تو راستے میں معید سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے اس سے معذرت کی اور اسے اپنے گھر کھیلنے کی دعوت دے۔
تبصرے