چھٹی کلاس کے سارے بچے آج بہت خو ش تھے ،کیونکہ ا سکول میں سیاہ شیشے والا جادوئی کیبن انسٹال کردیا گیا تھا۔ آج سائنس کے پیریڈ میں چھٹی کلاس پہلی بار اس کیبن کی سیر کرنے والی تھی۔اس کے اندر ایک وقت میں چار لوگ جا سکتے تھے۔ کیبن کا کمال یہ تھا کہ اس سےقدیم اور جدید زمانے کے حالات و واقعات اور ترقی کواپنی آنکھوں سے دیکھا جاسکتا تھا۔اسی لیے اسے جادوئی کیبن کا نام دیا گیا تھا۔ سائنس کے استاد،سر خالد بچوں کا جوش و خروش بھانپ چکے تھے۔
پیریڈ شرو ع ہوتے ہی سر خالد نے رول نمبر ایک سےچار تک بچوں کو سیاہ شیشوں والے جادوئی کیبن کے پاس بلایااور انھیں سیاہ چشمے پہننے کو دیے۔ چاروں نے بسم اللہ پڑھ کر چشمے پہنے اورچار ہزار سال پہلے کے لوگوں کا رہن سہن دیکھنے کے لیے کیبن کے اندر چلے گئے۔تقریباًپانچ منٹ کیبن میں گزارنے کے بعد وہ باہر آئے تو سر خالد نےانھیں مخاطب کرتے ہوئےکہا :’’ہاں بھئی پیارے بچو! آپ لوگوں نے چار ہزار سال پرانے ہڑپہ اور موہن جودڑو کی سیر کرتے ہوئے کیا کیا دیکھا؟‘‘
اس پر سب سے پہلے رافع نے بتایا :’’سر ہم نے دیکھا کہ ہر طرف کچے گھر ہیں ،جو بانس، لکڑی اور مٹی گارے سے بنے ہوئے تھے۔ لوگ نوکیلی لکڑی کی مدد سے زمین کھود کر اس میںفصل بو رہے تھے۔سبھی نے جانوروں کی کھال کا بنا لباس پہنا ہوا تھا۔ ان کے پائوں ننگے تھے۔ سواری کے لیے وہ لوگ خچر اور اونٹ استعمال کررہے تھےیا پیدل ہی آجا رہے تھے۔‘‘
نعمان نے بتایا کہ سر ہم نے پڑھا تھا کہ پرانے زمانےمیں لوگ جنگلوں میں رہا کرتے تھے، ہڑپہ کے لوگ ہمیں ان جنگلی لوگوں سے کچھ بہتر لگے، کیونکہ یہ تجارت اور کھیتی باڑی کرتے دکھائی دیے۔انھوں نے وقت کے ساتھ ساتھ عقل استعمال کرکے اپنی سہولت کے لیے بہت سی نئی چیزیں بنا ئی ہوئی تھیں جیسے سیوریج کا نظام، منڈیوں کے لیے بہترین جگہیں،شکار کے لیےبرچھے،نیزے اور دیگراوزار وغیرہ۔ہم نے یہ سب چیزیں وہاں دیکھیں۔
اب اگلے چار بچوں کو کیبن میں بھیجا گیا۔پانچ منٹ بعد یہ لوگ بھی باہر آئے تو سر خالد نے پوچھا:’’ ہاں بھئی بچو!دوہزار سال قبل یعنی سکندر اعظم کے دور کے حوالے سے تم نے کیا کیا دیکھا ؟‘‘
اس پر حمزہ نے سب سے پہلے لب کھولے :’’سر ! ہم نے آج سے د وہزار سال قبل کے لوگوں کو اپنی آنکھوں سے کام کرتے دیکھا تو بہت اچھا لگا۔ہم نے دیکھا کہ آج کی نسبت وہ بڑی سادہ زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ لوگ سواری کے لیے گھوڑا گاڑی، خچر اور اونٹ استعمال کررہے تھے۔ البتہ ان کے پاس تعلیم اور شعور حاصل کرنے کے کئی ذرائع تھے۔ یہ لوگ بھیڑ بکریاں پالتے، ان کی اون سے مختلف اشیا بناتے تھے۔ ہم نے انھیں کھیل تماشے اور بڑے بڑے میلے منعقد کرتے دیکھا۔‘‘
حمزہ کے بعد عاصم کہنے لگا :’’ سر ! دوہزار سال قبل کے لوگ لباس کے معاملے میں ماضی سے کچھ زیادہ ترقی کرگئے تھے۔ہم نے انہیں سوئی دھاگے سے اپنالباس سیتے دیکھا، ریشم بناتے،لکڑی سے کار آمد چیزیں تراشتے وہ لوگ بہت محنتی لگے۔اچھا لباس،پائوں میں جوتے،شکار کے لیے جدید ہتھیار ان لوگوں کو ماضی سے زیادہ ترقی یافتہ ثابت کررہا تھا۔ان میں سے کچھ لوگ باقاعدہ طور پر پتھروں کے بنے پکے گھر وں میں رہ رہے تھے۔ان کے ہاںبڑے بڑے فلاسفراور دانشوروں سے بھی ہماری ملاقات ہوئی۔‘‘
تیسرے گروپ کو ایک ہزار سال قبل کا دور دیکھنے کے لیے کیبن کے اندر بھیجا گیا،کچھ دیر بعد یہ چاروں بچے باہر آئے تو سر خالد نے دریافت کیا :’’جی بچو! ایک ہزار سال قبل کے حالات کے مطابق آپ لوگوں نے کیبن میں کیا دیکھا اور کن کن لوگوں سے ملاقات کی ؟‘‘
تیسرے گروپ کے چاروں لڑکوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا،پھر حاشر کہنے لگا :’’ سر ! ایک ہزار سال قبل کے لوگ آج کے دور سے کافی پیچھے تھے تاہم ماضی کے مقابلے میں ہم نے انھیں ترقی یافتہ دیکھا۔ سواری کے لیے تو یہ لوگ بھی اونٹ اور گھوڑے ہی استعما ل کررہے تھےالبتہ ان کےپاس کپڑا،خوراک،ہتھیار بنانے کے کارخانے تھے، علم حاصل کرنے کے لیے جدید مکتب اور لائبریریاں تھیں ۔ سمندر پر سفر کے لیے یہ لوگ لکڑی اورفولادکے بڑے بڑے جہاز استعمال کررہے تھے۔ جدید جنگی لباس انھوں نے زیب تن کر رکھا تھا۔ان کی کھیتی باڑی ماضی کے مقابلے میں بہت جدید تھی۔یہ جانوروں کے ذریعے ہل اور بھالوں سے زمین کھود کر اس میں فصل بورہے تھے۔‘‘
اس پر طاہر کہنے لگا:’’ واقعی سر ! یہ لوگ ماضی کے مقابلے میں بہت تہذیب یافتہ لگے۔پہیے کی ایجاد اور اس کے استعمال نےان کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ ان کے لیے ملکوں ملکوں سفر کرنا ماضی کے مقابلے میں کچھ مشکل نہیں رہا تھا۔ ‘‘
اب چوتھا گروپ کیبن میں دو سو سال قبل کی ترقی کا نظارہ کرنے کے لیے گیا پھر کچھ دیر بعد ان کی واپسی ہوئی۔سرخالد نے ان کو مخاطب کیا :’’بچو! آپ بتائو کہ آپ نے آج سے دوسو سال قبل کے لوگوں کا رہن سہن اور اُن کی معاشی،سماجی ترقی کا معیار کیا دیکھا ؟‘‘
اس پر کاشف کہنے لگا:’’ سر ! اگر سفر اور سواری کے حساب سے دیکھا جائے تو ہم نےچار ہزار سا ل پہلے اور دوسو سال پہلے کی دنیا میں کوئی زیادہ فرق نہیں دیکھا، کیونکہ دونوں ادوارمیںسواری کے لیے زیادہ تر جانوروں کا ہی استعمال کیا جاتا تھا۔البتہ دوسو سال پہلے کے دور میں کچھ جگہوں پر ہم نے ٹرین کی پٹڑی بچھتی اور کہیں کہیں ٹرین بھاگتی ہوئی دیکھی۔یہ انسانی تاریخ کا ایک حیرت انگیز موڑ ہے۔اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی حیران کن حد تک ترقی اور تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ کپڑے اور لوہے کی اشیا بنانے کے کارخانے،پلاسٹک سے بنی اشیاء کا آغاز،لکڑی کے پنکھے،پن چکیاں ،مٹی کے علاوہ دوسری دھاتوں کے برتن، سمندری جہاز، پیغامات اِدھر سے اُدھر بھیجنے کے لیےتار کا استعمال... یہ سب ترقی اور تبدیلی واقعی حیران کن مظہرہے۔‘‘
مبین نے کہا:’’سر ! اور تو اور۔۔انسان کانئے نئے براعظم اور نئے ممالک دریافت کرنا، صنعت میں ترقی،صحت کی سہولیات کا معیار بلند ہونا، یہ سب تو ٹھیک ہے، مگر اس دور میں ایک نقصان دہ چیز بھی سامنے آئی ہے، وہ ہےجدیداسلحہ یعنی بندوقوں اور بموںکی ایجاد،اس سے تو ہر طرف نسل ِ انسانی میں تباہی بڑھی ہے۔‘‘
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔‘‘ سر خالد نے کہا اور پانچویں گروپ کوموجودہ دور میں سائنس کی ترقی کا نظارہ کرنے کے لیے سیاہ شیشوں والے کیبن میں بھیج دیا۔کچھ دیر بعد یہ گروپ بھی باہر آگیا۔ آتے ہی اس گروپ نے اپنے باقی کلاس فیلوز کو بغور دیکھا، حیرت سے اس گروپ کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں ۔
ارے کیا ہوا بچو! سر خالد نے ان سے دریافت کیا،تو پانچویں گروپ کے بچے حیرت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں بہنے لگے۔ کیونکہ گزشتہ صرف ایک ڈیڑھ صدی میں انسان نے اس قدر حیرت انگیز ترقی کی تھی کہ اس کی پچھلے چار ہزار سال میں مثال ملنا مشکل ہے۔ ایسی ترقی کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔
پھر حیدر ذرا ہمت کرکے گویا ہوا :’’سر! صرف اتنے کم عرصے میں انسان کا گدھے گھوڑوں اور خچروں سے ہوائی جہازوں تک پہنچنا کمال ہے۔ کاریں، بسیں موٹر بائکس، ٹرین وغیرہ تو بہت پیچھے رہ گئے،بلکہ ہوائی جہاز سے بھی آگے راکٹ ، پھر چاند پر قدم،مریخ کی کھوج،ستاروں پر کمند،ریڈیو،ٹیلی ویژن سے ہوتے ہوئےکمیونیکیشن کی انتہائی جدید مشنری، کمپیوٹر، موبائل، سیٹلائٹس اور نہ جانے کیا کیا، پھر صنعت کا شعبہ ...بس مت پوچھیے، جدید ترین پہناوے، اعلیٰ خوراکیں، عمدہ رہن سہن،انتہائی عالی شان عمارتیں ، کشادہ سڑکیں ،موسم کی پیش گوئیاں،مصنوعی بارشیں ، دنیابھر میںبیلوں کے ہل سے لے کرانتہائی جدید آلات سے زراعت کا تصور، ایک سیکنڈ میں دنیا کے کسی بھی کونے کی خبر،انٹرنیٹ کی ایجاداور معلومات کا ذخیرہ۔پھر انسانوں کی جگہ روبوٹس کا کام کرنا، تعمیرات سے لے کر زراعت تک، زمین سے لے کر آسمان تک ...انسان نے کیا کچھ نہیں کر ڈالا اس ایک ڈیڑھ صدی میں !‘‘
’’واہ حیدر بیٹا! آپ نے ساری بات کا خلاصہ پیش کردیا۔‘‘سر خالد نے شاباش دی۔
’’لیکن سر ! افسوس اس بات کا ہے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں کچھ ایجادات کا غلط استعمال انسان کی بقا کے لیے خطرناک تجربہ رہا ہے، جیسا کہ ایٹم بم کی ایجاد اور اس کا استعمال کس قدر مہلک ثابت ہوا ہے۔موبائل سے لے کر اسلحہ تک،زہریلی زرعی ادویات سے لے کر ٹریفک حادثات تک، انسانوں نے بہت سی جانیں گنوائی ہیں ۔‘‘ لقمان نے کہا تو سر خالد نے اثبات میں سرہلایا۔
’’ارے ریحان بیٹا ! تم کیوں اتنے خاموش ہو، کن سوچوں میں گم ہو؟‘‘ سر خالد نے ریحان کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ گویا ہوا :’’ سر! میں سوچ رہا ہوں کہ جس اللہ نے انسان کو بنایا اور اسی نے انسان کو عقل سے نوازا، اسی اللہ نے اپنی دیگر مخلوق بھی بنائی ہے۔ انسان نے اللہ کی دی ہوئی عقل استعما ل کرکے اور قدرت کی بنائی چیزوںکی نقل کرکے اپنے لیے جدید مشنری اور سہولیات پیدا کی ہیں ۔‘‘
’’ تمھاراکیا مطلب ہے ریحان ؟‘‘ سر نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں پوچھاتو ریحان کہنے لگا :’’ دیکھیں سر ! قدرت نے سانپ بنایا، انسان نے اپنی عقل استعمال کرکے اس کی نقل میں سانپ جیسی لمبی ریل گاڑی بنا لی، اسی طرح اللہ نے بطخ اور وہیل مچھلی کو پیدا کیا، انسان نے بطخ کو پانی میں تیرتا دیکھ کر بحری جہاز اور وہیل مچھلی کو دیکھ کر آبدوزبنالی۔پھر یہی نہیں ،چمگادڑ کو دیکھ کر انسان نے ریڈار سسٹم، ہاتھی کی سونڈھ دیکھ کر کرین،عقاب کو دیکھ کر ہوائی جہاز، چیونٹی کو دیکھ کر کاریں ، کچھوے کو دیکھ کر بکتر بند گاڑی اور انسان کو دیکھ کر روبوٹ بنا لیا، ہے ناں اللہ کی اشرف المخلوق کا کمال!‘‘ ریحان کی اس معصومانہ مگر خوبصورت تشریح پر سر خالد کھلکھلا کر ہنس دیےاور بولے:’’ پھر تو انسان نے رکشہ بھی مینڈک کو دیکھ کر بنایا ہوگا۔‘‘ اس پر ساری کلاس ہنس دی۔ ریحان اپنی جگہ پر بیٹھا تو سر خالد نے اسے شاباش دی اور چھٹے اور آخری گروپ کو کیبن کے اندر بھیجا۔
پانچ منٹ بعد ان کی واپسی ہوئی تو اس گروپ نے کیبن کی سکرینوں پر جو دیکھا،وہ مستقبل کی دنیا کا حیران کن نظارہ تھا۔ ہر طرف اڑتی ہوئی کاریں ،موبائل کی جگہ کلائی سے بندے کیپسول نما آلے سے کسی بھی شخص سے مسلسل رابطہ رہنا، ایک کمرے میں بند انسان کوپوری دنیا کے کسی بھی کونے میں اپنی موجودگی کا احساس ہونا، مصنوعی موسم، جدید کھانےاور نہ جانے کیا کیا ترقی کے سنہرے خواب اور ہر طرف روبوٹس کا جال، چھٹے گروپ کو الفاظ نہیںمل رہے تھے کہ وہ کیسے آنے والے وقت کے منظر کو بیان کرے ۔بچے آنے والے وقت کی ترقی کے بارے میں سن کر بہت خوش اور حیران تھے۔
’’ بہر حال انسان جنگلوں کی زندگی سے ترقی کے اس زینے پر جاپہنچا کہ اگر چار ہزار سال قبل کے کسی انسان کو اس دنیا کی سیر کروائی جائے تو وہ بے یقینی کے عالم میں دوبارہ مرجائے‘‘۔ سر خالد نے بچوں کو سمجھایاپھر ساتھ ساتھ انھیں سائنس وٹیکنالوجی اور جدید آلات کے مثبت استعمال کا بتایا، اتنے میں پیریڈ کی گھنٹی بجی اور سر خالد کمرے سے باہر چلے گئے۔ بچے آج کے لیکچر کے بعد انتہائی خو ش اور پرجوش تھے۔
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آ سکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
(علامہ محمد اقبالؒ)
تبصرے