میں بہت برس پیچھے جانا چاہتی تھی ... بہت برس ... حتیٰ کہ میں شاعر ِمشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کو دیکھ سکوںاور ان سے گفتگو کرسکوں۔ ان کے ان آنسوئوں کومحسوس کروں جو نگینوں کی صورت اختیار کر کے ،اسرارِ خودی کے اشعار میں اتر آئے ہیں ۔
کاش کوئی سمجھے ، کوئی سمجھے کہ دورِ اقبال کس قدر لافانی تھا جس نے جہاں محسوس کیا، اسے وہیں میسر آگیا ۔ ہر ہر منظر ، ہر ہر رنگ میں ، ہر ہر عنوان کی چادر اوڑھے ہوئے ،علامہ اقبالؒ نے کیسے اپنی قوم کو سنبھالنے کی کوشش کی اوراس قوم کی رہنمائی کا کس قدر بڑا فریضہ انجام دیا ۔
شاہین کا ایسا مضبوط تصور پیش کیا کہ جس نے اس تصور کی سرحد کو پا لیا۔گویا وہ خود کو ایک مضبوط قلعے میں لے گیاجہاں صلاحیتوں کے عکس موجود ہیں۔
عمل کا ذائقہ اور کامیابی کے زینے ...جن کا راستہ بلندی کے سوا بھلا اور کیا ہو سکتا ہے ؟
مجھے لگتا ہے شاہین سے مراد اصل میں وہ مردِ مومن ہے جو مشکلوں میں قرآن کی رہنمائی سے آسانیوں کا راستہ تلاش کرتے ہیں ، جو مصائب پر اس لیے صبر کرتے ہیں کہ صبر روشنی ہے ۔ ان کی زبان عیب جوئی میں نہیں لگی رہتی ۔
جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی
میرے کلام پہ حجت ہے نکتہء لولاک
میں سوچنے لگی ،اقبالؒ بننے اور بنانے کے لیے کس قسم کے اوصاف ، کیسا ماحول ، کیسی تربیت ، کیسی پرورش ،علم و عمل اور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہو گی...؟
کیا اس زمین نے محسوس کر لیا ہوگا کہ دھرتی کے سینے پر کتنا بڑا مفکر موجود ہے؟ میں نے حقیقتِ حال کا جائزہ لیا ۔
چون ز تخلیق تمنا باز ماند
شہپرش بشکست و از پرواز ماند
یعنی جب وہ دل آرزوئوں کی تخلیق سے رُک گیا تو سمجھ لو اس کا بڑا پَر ٹوٹ گیا اور وہ پرواز کے قابل نہ رہا ۔
ہمارے دل واقعی آرزوئوں سے خالی ہوتے جارہے ہیں اور ہماری سوچ کے پَر شاید ٹوٹ چکے ہیں ۔ مجھے تکلیف محسوس ہوئی مگر حقیقت تو بہرحال یہی تھی کہ عمل کے پست کردار نے ہی ہمیں فکر کی بلندی سے محروم کر رکھا ہے ۔
کیا ہمارے ہاں اقبالؒ شناسی کی تربیت کو لازمی قرار نہیں دیا جا سکتا؟کیا ہمارے طلبہ کو اقبالؒ کا شاہین بننے کی تربیت ، ماں کی گود سے نہیں دی جا سکتی ؟کیا یہ لازم قرار نہیں دیا جا سکتا کہ تعلیمی اداروں میں روزانہ ایک شعر ہی سہی مگر معنی و مفہوم کے ساتھ پڑھا جائے یا پڑھنے کی ترغیب دی جائے ؟کیا یہ ممکن نہیں کہ ان اشعار کی بدولت اسرارِجہاں کھل کر واضح ہو جائیں؟ کس قدر مختلف انداز فکر کو سمجھنے کا موقع میسر آجائے ۔ کوئی مجاز تک پہنچے گا ، کوئی حقیقت تک ، کوئی غرور چھوڑ کر درویشی اختیار کرے گا ، کوئی بے عمل سے باعمل بن جائے گا ۔
میں نے پڑھاکہ اقبالؒ کے استاد مولوی میر حسن ادب ، لسانیات اور ریاضی جیسےعلوم کے ماہر تھے ۔ وہ اردو، فارسی ، عربی کا صحیح لسانی اسلوب اپنے شاگردوں کو سکھاتے تھے۔ اُف .. ان اساتذہ نے کیا کیا حق ادا نہ کیےکہ جن کے شاگرد اقبالؒ جیسے فلسفی اور مفکر ہوئے۔
حضرت ِاقبال ؒنے دنیا کے کونے کونے کو اپنی شاعری کے پیغام سے جگمگایا۔یہ پیغام اس قدر لافانی تھا کہ اسے سرحدوں اور فاصلوں کی ضرورت نہیں رہی تھی ۔
نغمۂ من از جہانِ دیگر است
ایں جرس را کاروان دیگر است
( میرے گیت ( شاعری) کا تعلق کسی دوسری دنیا سے ہے ۔ یہ گھنٹی کسی اور ہی قافلے کی ہے )
میں کیسے مان لوں کہ پروفیسر اے ۔ آر نکلسن نے جب علامہ اقبالؒ کی فارسی مثنوی اسرارِ خودی کا ترجمہ کیا تو اس پیغام ِ اقبالؒ سے مغرب کے درودیوار نہ چمک اٹھے ہوں اور وہ دل سے دین ِ اسلام کے معترف نہ ہوئے ہوں۔ کیونکہ امید کا دامن ، دین اسلام کی فکر کا اہم جزو ہے ۔ علامہ اقبال کی شاعری میں شاہین کی بلند پروازی سے مراد اُمید ہی تو ہے۔ کاش پروفیسر اے ۔آر نکلسن کا قلم مجھے مل جائے تو میں اس میں بھی اقبالؒ سے محبت کی خوشبو محسوس کر سکوں گی ۔ مجھے یقین ہے پروفیسر نکلسن کے قلم کی سیاہی ابھی خشک نہ ہوئی ہو گی ، ابھی وہ قلم سلامت ہو گا ۔ اقبال کا پیغام لکھنے والے قلم ہمیشہ سلامت رہیں گے ۔ابھی اس کھڑکی میں امید نو کی کرنیں پھوٹتی ہوں گی جہاں بیٹھ کرــــ The secret of the self"ـ ــــــــــ" لکھی گئی تھی ۔
اور ہمیں کس چیز نے روک رکھا ہے کہ ہم مختلف علوم اور اسلوب نہ سیکھیں ، مختلف زبانوں میں چھپے خزانوں تک نہ پہنچیں، جو صرف مجموعہ ٔالفاظ ہی نہیں بلکہ مذہب ، نظریات ، رجحانات ، فنِ تعمیر، ثقافت ، طرزِ زندگی، سب پر دسترس رکھنے کا ایک راستہ ہے ۔اور اگر ہمارا دل اس جستجو کی آرزو سے بھی خالی ہو گیا تو ہم اپنے ہی سامنے شرمندہ رہیں گے ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم وہ شاہین بنیں جو کم از کم اپنے دل کے فلک پر پرواز کر سکیں ۔ اپنے نظریات کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھال سکیں اور اپنی فکر کو قرآن و شریعت کا پابند بنا لیں ۔اقبال ؒنے کیا خوب فرمایا ہے:
قرآن میں ہو غوطۂ زن اے مردِ مسلمان
اللہ کرے تجھ کو عطا جدّتِ کردار
تبصرے