ننھاعلی اپنے دادا کے پاس بیٹھا کہانی سننے کے لیے بےچین تھا۔ علی کو پاکستان کی کہانیاں بہت پسند تھیں، لیکن آج وہ کچھ نیا سننا چاہتا تھا۔ دادا نے مسکراتے ہوئے کہا،’’آج میں. تمہیں پاکستان کے خواب کی کہانی سناتا ہوں جو شاعر ِمشرق علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا اور جس کی بنیاد پر یہ عظیم ملک وجود میں آیا ۔‘‘
علی بے چینی سے بولا، ’’ دادا جان ! کیسا خواب ؟‘‘
داداجان نے علی کی طرف دیکھا، ’’بیٹا! یہاں خواب کا مطلب سوتے ہو ئے خواب دیکھنا نہیں ہے۔ ‘‘
’’تو پھر دادا جان ....؟‘‘ علی نے سوالیہ نظروں سے دادا جان سے پو چھا ۔
’’بیٹا! عظیم لوگ جاگتے ہو ئے بھی خواب دیکھ سکتے ہیں ۔ ان کے خیال اتنے گہرے اور دُور اندیش ہوتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ خواب جیسے ہی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے لگتا تھا کہ جیسے دادا جان بھی کہیں گہرے خواب میں ڈوب چکے ہوں۔
’’پا کستان کا خواب ایک عظیم شاعر اور مفکر علامہ محمد اقبالؒ نے دیکھا تھا۔ یہ کھلی آنکھوں کا خواب تھا ۔انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا تھا، جہاں وہ اپنے دین اور اپنی روایات کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکیں۔ یہ خواب صرف ایک خواب نہیں تھا بلکہ اس میں ایک پوری قوم کی بقا اور آزادی کا پیغام تھا۔‘‘
علی کی حیرت اور تجسس بڑھتا جا رہا تھا، وہ بولا، ’’دادا جان ! وہ کیسے جانتے تھے کہ مسلمانوں کو ایک الگ وطن کی ضرورت ہے؟‘‘
داداجان اس کی بات پر مسکرائے اور بولے،’’علامہ اقبال ؒنے اپنے وقت کے حالات کو گہری نظر سے دیکھا تھا۔ مسلمان اور ہندو ایک ہی ملک ہندوستان میں رہتے تھے لیکن ان کی تہذیب، ثقافت اور مذہب ایک دوسرے سے بہت مختلف تھے۔ مسلمانوں کو اپنے دین پر عمل کرنےمیں مشکلات کا سامنا تھا۔وہ ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے زندگی گزارنا چاہتے تھے۔ اسی لیے علامہ اقبال ؒنے دو قومی نظریے کی بنیاد پربرصغیرکے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن کے قیام کا مطالبہ کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو اپنی الگ مملکت چاہیے۔‘‘
’’دو قومی نظریہ؟‘‘علی نے فوراََ پوچھا۔
داداجان نے وضاحت کی،’’دو قومی نظریے سے مراد تھا ، مسلمان اور ہندو دوالگ الگ قومیں ہیں جن کا طرزِ زندگی، مذہب، ثقافت اور تہذیب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ مسلمانوں کو اپنی زندگی بہتر اور آزادانہ طریقے سے گزارنے کے لیے ایک علیحدہ وطن کی ضرورت تھی جہاں وہ اپنے دین کے اصولوں پر عمل کر سکیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو ایک آزاد اور خوشحال مستقبل دے سکیں۔‘‘
علی بولا،’’ دادا جان! مجھے یاد آیا، ہماری استانی صاحبہ نے بتایا تھا کہ سوئے ہو ئے مسلمانوں کو علامہ اقبال ؒنے جگایاتھا ۔ انہوںنے مسلمانوں کو کیسے جگایا ؟‘‘
داداجان علی کو اس کے سوال پر شاباش دیتے ہوئے بولے،’’ بیٹا ! کئی دہائیوں تک حکمرانی کرنے کے بعد مسلمان ان دنوں غلامی کی زندگی بسر کررہے تھے۔انہیں انگریزوں اور ہندوئوں نے اہم کاموں سے الگ کررکھا تھا۔حتیٰ کہ وہ علم کے زیور سے بھی محروم تھے۔ جس کی وجہ سے وہ مایوس اور بے عمل ہوگئے تھے۔انھیں اپنے بنیادی حقوق کی کوئی خبر نہ تھی۔ گویا وہ سو رہے تھے۔علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری اور فکر کے ذریعے مسلمانوں کو جگایا۔ اُنہوں نے مسلمانوں کو ان کی عظیم تاریخ یاد دلائی اور شاندار مستقبل کی امید دلائی ۔ اُنہوں نے کہا کہ مسلمان کبھی مایوس نہ ہوں اور ہمیشہ اپنی خودی کو پہچان کر اس کو پروان چڑھائیں ۔ ‘‘
علی کی آنکھوں میں تجسس اور جوش بڑھتا جا رہا تھا، وہ بولا، ’’ داداجان ! پھر کیا ہوا؟‘
’’پھر...‘‘ دادا نے گہری سانس لیتے ہوئے کہا، ’’ پھرمسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں اپنی آزادی کی جدوجہد کا آغاز کیا۔علامہ محمداقبالؒ نے قائداعظم ؒ کو اس سلسلے میں بہت سے خطوط بھی لکھے۔ علامہ اقبالؒ اپنی دُوراندیشی سے جان چکے تھے کہ صرف قائداعظم ؒ کی عظیم شخصیت ہی مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروا سکتی ہے۔‘‘
’’ قائد اعظم محمد علی جناح ؒنے مسلمانوں کو متحد کیا اور ان کے لیے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا۔ وہ جانتے تھے کہ یہ راستہ بہت مشکل ہوگا، لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہ ہاری۔‘‘
علی نے سوال کیا،’’ کیا مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟‘‘
دادا جان نے دکھ بھرے انداز میںہاں میں سر ہلایا اور کہا،’’ ہاں بیٹا، بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں نے انگریزوں اور ہندوؤں کی مخالفت کا سامنا کیا۔ اُنہیں اپنی جانیں، مال ، گھر بار ، جائیدادیں ،اوربہت کچھ قربان کرنا پڑا لیکن اُن کا عزم مضبوط تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اُنہیں اپنا وطن حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کی قربانی دینا ہوگی۔ قائد اعظم نے بھی اپنی صحت کو نظرانداز کرتے ہوئے دن رات کام کیا اور مسلمانوں کو متحد رکھا۔‘‘
’’ دادا جان ، تو کیا قائد اعظم کامیاب ہو ئے؟‘‘ علی نے پوچھا۔
دادا جان کی آنکھوں میں روشنی چمکنے لگی۔ انھوں نے فخر سے بتایا، ’’بالکل، بیٹا! آج جس آزاد ملک میںہم سب رہ رہے ہیں، یہ علامہ اقبالؒ، قائداعظم ؒاوران جیسے بے شمار رہنمائوں اور کارکنوں کی محنت اور جدوجہد کا ثمر ہے۔ قائد اعظم کی قیادت اور مسلمانوں کی محنت اور قربانیوں کے نتیجے میں 14 اگست 1947 ء کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ یہ دن مسلمانوں کے لیے ایک عظیم دن تھا کیونکہ وہ ایک آزاد ملک میں اپنی زندگی کا آغاز کررہے تھے۔ پاکستان اقبالؒ کا خواب تھا اور قائد اعظم ؒنے اُس خواب کو حقیقت میں بدل دیاتھا ۔‘‘
علی نے فخر سے سینہ چوڑا کیا اور کہا،’’تو پاکستان اقبال ؒ کا خواب ہے؟‘‘
’’ہاں بیٹا۔‘‘
دادا جان تھوڑے سے توقف کے بعد بولے، ’’یہ وہی خواب ہے جوحضرتِ اقبال ؒنے مسلمانوں کے لیے دیکھا تھا۔ اقبال کا پیغام یہ تھا کہ ہمیں ہمیشہ خود اعتماد اور مضبوط ہوناچاہیے اورمشکلات سے کبھی نہیں گھبرانا چاہیے بلکہ ہمیشہ پُر امید ہو کر حوصلہ بلند رکھنا چاہیے ۔پاکستان اُن کی تعلیمات اور خواب کی تعبیر ہے۔‘‘
علی کی آنکھوں میں امید اور حوصلہ جگمگا رہا تھا، وہ بولا، ’’داداجان !میں بھی پاکستان کے لیے کچھ قابلِ فخرکام کرنا چاہتا ہوں۔ میں بھی اقبال ؒکے خواب کو آگے بڑھانا چاہتا ہوں۔‘‘
دادا جان نے مسکراتے ہوئےاسے گلے لگایا اور بولے،’’ہمیں اسی جذبے کی ضرورت ہے ۔بیٹا! پاکستان ہم سب کا خواب ہے اور ہمیں مل کر اس خواب کو ہمیشہ زندہ رکھنا ہے۔ تم جیسے بچوں کے حوصلے، امید اور محنت ہی پاکستان کا مستقبل ہے۔ اگر تم محنت کرو گے تو یہ ملک ترقی کرے گا اور ہم ہمیشہ آزاد اور خوشحال رہیں گے۔‘‘
علی نے پُر عزم ہو کر کہا،’’ میں ہمیشہ محنت کروں گا۔ دادا جان ! میں اپنے ملک کے لیے کچھ ایسا کروں گا جس پر سب کو فخر ہوگا۔‘‘
دادا جان نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا،’’ بالکل بیٹا! انشاء اللہ، یاد رکھو ، پاکستان کا خواب ایک ایسے وطن کے لیے دیکھا گیا تھا جہاں ہم اپنے دین اور تہذیب و تمدن کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ یہ خواب تبھی زندہ رہے گا جب ہم محنت اور لگن سے اس ملک کو اسلام کے اصولوں کے مطابق چلائیں اور پر عزم ہو کر اپنے مقاصد بلند رکھیں ۔’’جی دادا جان میں سمجھ گیا۔پُر اُمید رہیں، ہمت اور حوصلے سے مشکلات کا مقابلہ کریں ۔‘‘
دادا جان نے کہا، ’’بالکل ایسا ہی ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میرے بیٹے کو اقبال کا شاہین بنائے !‘‘
علی کو اپنے دادا سے ایک اہم سبق ملا تھا کہ مشکلات آئیں گی لیکن جو اپنے خوابوں اور مقاصد پر یقین رکھتے ہیں، وہ کبھی ہار نہیں سکتے۔ پاکستان اقبال کا خواب تھا اور آج ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم اس خواب کو حوصلے اور امید کے ساتھ زندہ و تابندہ رکھیں۔
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے
تبصرے