پیارے بچو! کیسے ہیں آپ ؟ امید ہے آپ خیریت سےہوں گے ۔ ہرسال 9 نومبر کو شاعرِ مشرق اور مفکرِپاکستان علامہ محمد اقبال ؒکا یومِ پیدائش پاکستان سمیت دنیا بھر میں جوش و خروش سے منایا جاتاہے۔پوری دنیا میں ان کے عقیدت مند موجود ہیں جو اس موقع پر مختلف تقریبات میں انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعلیمات ، سوچ اور فکر کو اجاگرکرتے ہیں۔
ساتھیو! علامہ محمد اقبال ؒ کے ہماری قوم پر بہت سے احسانات ہیں۔ انہوں نے نہ صرف تصورِ پاکستان پیش کیا بلکہ اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں کو متحدکیا۔ انہوں نے ان کے دلوں سے ناامیدی کے اندھیروں کو ختم کرکے آزادی کی شمع جلائی۔ انہوں نے نوجوانوں کو صورتِ فولاد اور مثل ِشاہین بننے کی تلقین کی۔ وہ چاہتے تھے کہ نوجوان محض علم کے حصول تک ہی محدود نہ ر ہیں، بلکہ اپنی صلاحیتوں سے نئے سے نئے جہانوں کا کھوج لگا تے رہیں۔
تُو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
علامہ اقبالؒ کا فلسفہ ٔ خودی آفاقی ہےجس میں وہ اس راز کو عیاں کرتے ہیں کہ اگر انسان اپنی خودی یعنی اپنے اندر چھپی قوتوں اور صلاحیتوں کو پہچان لے تو اس کی کامیابی کا راستہ کوئی روک نہیں سکتا۔ان کے نزدیک زندگی جدوجہد اور حرکت کا نام ہے۔
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ساتھیو! بے محنت ِپیہم ،کوئی جوہر نہیں کھلتا... عمل ہی وہ جو ہر ہے جس کی بدولت ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھلتے ہیں۔ آج کے جدید دور میں نو جوانوں کے پاس معلومات کا خزانہ ہے، صلاحیتوں کے انبار ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ اس جہاں کے آگے اور جہاں بھی ہے۔ مگر شاید وہ عمل سے گھبراتے ہیں۔
علامہ اقبال کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت، کردار اور زندگی ہم سب کے لیے قابل ِتقلید ہے۔زمانہ طالب علمی کی بات کریں تو وہ ایک ہونہار شاگرد تھے جو اساتذہ کا بے حد احترام کرتے اور ان کی زندگی کے ہر پہلو کو اپنی شخصیت میں سمونے کی کوشش کرتے۔ ان کے استاد شمس العلما مولوی میر حسن نے ان کی شخصیت کو نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔ علامہ اقبال ؒ بحیثیت طالب علم صرف نصابی کتب پر ہی اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنی فکر، مشاہدات اورذاتی بصیرت کی بنیاد پر دنیا کا مطالعہ کیا۔
آج زیادہ تر طالب علم محض کتابوں یا سوشل میڈیا پر موجود معلومات پر انحصار کیے ہوئے ہیں۔ جس سے وہ مبہم اور جھوٹی باتوں کو من وعن اپنا لیتے ہیں۔ اس ضمن میں بھی ہمیں علامہ محمد اقبال کی شخصیت سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مغرب کا سفر کیا، بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا، بہت سی قوموں اور تہذیبوں کو قریب سے دیکھا، کئی نامور شخصیات سے ملاقاتیںکیں لیکن وہ کبھی بھی ان کے رنگ میں نہ رنگے بلکہ ان تمام امور کو اپنے دین، اپنی قوم، تہذیب اور ثقافت کے تناظر میں دیکھ پر کھ کر اپنی اور اس قوم کی راہیں متعین کرتے رہے۔
اے مرے فقر غیور! فیصلہ تیرا ہے کیا
خلعت انگریز یا پیرہنِ چاک چاک!
علامہ اقبالؒ کی عظیم شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا تقاضا یہی ہے کہ ہم غیروں سے متاثر ہونے یا ان کی اندھی تقلید کے بجائے اپنی سنہری تاریخ کو دہرانے کے لیےکاربند ہوجائیں۔اپنی شخصیت، اپنے عمل اور کردار کو اس بلندی تک پہنچا دیں کہ ہر میدان میں کامیابی ہمارا مقدر بن جائے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تیری رضا کیا ہے
تبصرے