سقوطِ ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا المناک واقعہ ہے جس پردل خون کے آنسو روتا ہے۔یہ ایک ایسا زخم ہے جو مسلسل رستا رہے گا۔ اگرچہ یہ زخم کبھی بھی مندمل نہیں ہوا، وقتاً فوقتاً اس کی ٹیسیں اپنی موجودگی کا شدید اظہار کرتی رہتی ہیں۔ اس سانحہ میں نہ صرف ملک کی جغرافیائی سرحدیں جدا ہوئیں بلکہ کئی خاندان بھی اجڑ گئے۔ اس کے ساتھ احساسِ زیاں وندامت،کچھ ناکردہ جرائم کے ناواجب الادا الزامات کے پچھتاوے اور دکھ بھی شامل ہیں جن کا مداوا بہت ضروری ہے۔
سانحہ مشرقی پاکستان کے حوالے سے بہت کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں حقائق کو مسخ کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کیا گیا، تاہم بہت سے مصنفین اور تجزیہ نگاروں نے واقعات کا حقائق کے تناظر میں جائزہ لے کر سانحۂ مشرقی پاکستان کے حوالے سے نام نہاد پروپیگنڈے کی نفی کی ہے۔ ایسی ہی چند کتب کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
Creation of Bangladesh: Myths Exploded
(ڈاکٹر جنید احمد)
ڈاکٹر جنید احمد کی کتاب بنگلہ دیش کی تخلیق فسانے اور حقائق 2016 ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب مشرقی پاکستان کے سقوط اور بنگلہ دیش کی تخلیق کے پسِ پردہ اصل حقائق کے انکشافات کے ساتھ ساتھ نئے معروضی اور حقیقی پہلوئوں اور زاویوں کو سامنے لاتی ہے۔
یہ کتاب بھارتی اندورنی،بیرونی سازشوں، سنگین غلطیوں، سیاسی بحرانوں کاادراک کرتے ہوئے تاریخ پر ترتیب وار روشنی ڈالتی ہے۔ بنگلہ دیش کی تخلیق کے بعدبھی بھارت پاکستان پر بے بنیاد الزام لگا کراس کی بین الاقوامی ساکھ کومجروح کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے۔ یہ کتاب ان غلط فہمیوں اور پوشیدہ سچائیوں کو بے نقاب کرنے کی بہترین کاوش ہے۔اس میں وہ لکھتے ہیں کہ آپریشن سرچ لائٹ 25 اور 26 مارچ کو شروع ہوا تھا جو 16 دسمبر 1971 ء کو ختم ہوا۔ یہ آپریشن عوامی لیگ کی قیادت اور اس کے دہشت گردوں کے خلاف شروع کیا گیا تھا۔ اس کا مقصد مسلح بنگالی و نیم فوجی تنظیموں کو غیر مسلح کرنا تھا، کیونکہ مجیب الرحمن کا سیاسی احتجاج اندرونی طور پر پھیل کر مسلح بنگالی اور نیم فوجی تنظیموں میں تبدیل ہو چکا تھا۔ آپریشن شروع ہوتے ہی بنگالی رجمنٹوں اور ایسٹ بنگالی رائفلز نے بغاوت کر دی۔ باغی بنگالی سپاہیوں نے اپنی شدید نفرت کی بنا پر اپنی فوجی بیرکوں کو چھوڑنے سے قبل اپنے ساتھی مغربی پاکستانی فوجیوں اور ان کے اہل و عیال کو بزدلوں کی طرح رات کے اندھیرے میں سوتے ہوئے ہلاک کر دیا۔بھارت کی جانب سے جو ہمیشہ ہرزہ سرائی کی جاتی ہے کہ مشرقی پاکستان میں 93 ہزار پاکستانی فوجیوںنے ہتھیار ڈالے سراسر غلط ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش میں صرف تین ڈویژن فوج تھی جو کہ 45 ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔ ان میں سے 11 ہزار سپورٹنگ عملہ تھا۔ باقی 34 ہزار سپاہی تھے جو 15 سو میل پر پھیلے ہوئے بارڈر پر 15ڈویژن بھارتی فوج سے لڑ رہے تھے۔ ایک لاکھ مکتی باہنی اس کے علاوہ تھے۔
وہ لکھتے ہیں اس بات کا بہت پروپیگنڈا کیا گیا کہ بھارتی مداخلت کا مقصد انسانی ہمدردی کی بنیاد پرتھا اور وہ مسئلے کے سیاسی حل کے لیے ایک کوشش تھی۔ انسانی ہمدردی کی بنا پر بھارت کی اس مداخلت کو، بھارت اوربنگلہ دیش سمیت مختلف ملکوں میں ہزاروں افراد نے سراہا۔ نو ماہ کے اس بحران کے دوران بھارت عالمی طاقتوں اور پاکستان کو مسئلہ کے ایک سیاسی حل کے لیے قائل کرنے کی کوشش کرتا رہا اور یہ بھی پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ بھارت کی یہ کوششیں اس لیے ناکامی سے دو چار ہوئیں کیونکہ یحییٰ خان مجیب الرحمن سے بات چیت کا روادار نہ تھا جو کہ بنگالیوں کا سچا رہنما تھا اور جو پاکستان میں قید تھا۔اور وہ مزید لکھتے ہیں کہ حقائق اور سچائی کی دنیا میں ہمیں مشکل سے ہی ہمدردی کی بنیاد پر بھارتی مداخلت کی حمایت میں مضبوط دلائل کے ساتھ کوئی بیان ملے گا۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ بھارتی مداخلت کا اقدام انسانی ہمدردی کی بنیاد پر نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان کی آزادی اور خودمختاری پر کینہ پرور اور منصوبہ بند حملہ تھا۔ یہ منصوبے اگرتلہ سازش کے نام سے ایک غیر معروف جگہ پر ایک اجلاس میں عوامی لیگ کی قیادت کی مشاورت کے ساتھ بنائے گئے تھے۔ عوامی لیگ کی قیادت بھارت کے تحقیق و تجزیے کے ادارے(Research & Analysis Wing) کے افسروں کے ساتھ مستقل رابطے میں تھی اور آپریشن سرچ لائٹ کے دوران چوہوں کی طرح اگرتلہ کے مقام پربھارت کے فوجی کیمپ میں اپنے بلوں میں گھسے ہوئے تھے۔ بھارتی مداخلت اس کی انا پرستی کا شاخسانہ تھی نہ کہ انسانی ہمدردی کی بنا پر تھی جس کا مقصد ایک اطاعت گزار ریاست کی حیثیت سے بنگلہ دیش کا قیام تھا جو اس خطے میں بھارت کو دائمی تسلط عطا کر دے۔ عوامی لیگ کی قیادت اور مکتی باہنی کی حیثیت ایک شاطر استاد کے ہاتھ میں محض مہروں کی سی تھی۔
A Thousand Miles Apart(سید اطہر حسین شاہ)
جناب سید اطہر حسین شاہ کی کتاب A Thousand Miles Apart اپنی نوعیت کی ایک منفرد تصنیف ہے جو 2022ء میں شائع ہوئی۔اس میں انہوں نے 1971ء کی جنگ اور سانحۂ مشرقی پاکستان پر اپنے موقف، تاثرات اور تحقیق کو قلمبند کیا ہے۔ جناب سید اطہر حسین شاہ میجر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔اپنے کیرئیر کے دوران وہ کئی اہم عسکری عہدوں پر فائز رہے۔وہ کینیڈین فورسز کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج ٹورنٹو اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔ عملی اور پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے غیر معمولی امتزاج کی بنیاد پر تعلیم و تحقیق میں ان کا اہم کردار رہا ہے۔یہ کتاب (A Thousand Miles Apart) بھی اسی تحقیق کا حصہ ہے ۔ اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ایک حصے میں جنگ کی وجوہات تفصیلاً بیان کی گئی ہیں جبکہ دوسرے حصے میں آپریشن سرچ لائٹ اور پاکستانی افواج کی پوزیشن کے بارے میں بنیادی معلومات دی گئی ہیں۔اس میں وہ سقوطِ مشرقی پاکستان کے عوامل بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بھارت نے مملکتِ پاکستان کو کبھی دل سے قبول ہی نہیں کیا تھا اورقیامِ پاکستان سے ہی اس کے خلاف سازشوں کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیاتھا ۔ دراصل بھارت طویل عرصے سے آزاد بنگلہ دیش کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہاتھا۔سقوطِ مشرقی پاکستان انہی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا نتیجہ تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ1971ء کے سانحے کی بہت سی وجوہات ہیں جن میں اہم ترین بھارت کا ایک آزاد ریاست کے اندر تمام تر بین الاقوامی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے براہ راست مداخلت تھی ۔ وہ لکھتے ہیں کہ کس طرح بھارت نے ریاستِ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے مشرقی پاکستان میں اپنے پنجے گاڑ کر اندرونی معاملات کو اس قدر بڑھاوا دیا کہ دو بھائی آپس میں لڑ پڑے۔
اس سے نہ صرف نوزائیدہ ریاست پاکستان کو نقصان ہوا بلکہ پاکستانی عوام نے بھی جانی و مالی نقصان کی صورت میں ایک بھاری قیمت ادا کی۔ دراصل پاکستان کسی صورت جنگ نہیں چاہتا تھا وہ مفاہمت اور حکمتِ عملی سے اندرونی معاملات کو حل کرنا چاہتا تھا لیکن بھارت کو یہ بات کہاں گوارا تھی کہ مشرقی پاکستان کے اندرونی معاملاتحل ہوںکیونکہ وہ ہرصورت مشرقی پاکستان کو جدا کرنے کاخواہش مند تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی صورت میں جو زخم بھارت نے پاکستان کو دیا وہ ناقابلِ فراموش ہے۔
اس کے علاوہ اس کتاب میں مشرقی پاکستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس کتاب کے ابتدائی چند صفحات میں بنگالی قوم پرستی اور نوآبادیاتی دور سے شروع ہونے والے اس کے ارتقا کی دلچسپ تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔ آخر میںٹھوس دلائل کے ذریعے ایسے حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ کس طرح بھارت نے پاکستان کی ان تمام تر کوششوں کو بالائے طاق رکھ کرحالات کوخانہ جنگی میں بدل دیا جس کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوگیا۔اس کتاب میں ان واقعات کی حقیقی تصویر فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان کی پوری کوشش تھی کہ بنگالی قوم کے احساسِ محرومی کو ختم کر کے اسے برابری کے حقوق دیے جائیں لیکن بھارت کے پروپیگنڈے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اورحالات بگڑتے ہی چلے گئے جس کا نتیجہ سقوط مشرقی پاکستان کی صورت میں نکلا۔
The Seperation of East Pakistan(حسن ظہیر)
حسن ظہیرکی کتاب المیہ مشرقی پاکستان 2017 ء میں شائع ہوئی۔ اس میں انہوں نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے عوامل کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیاہے۔ یہ کتاب گیارہ ابواب پر مشتمل ہے۔ جن میں وہ بڑی تفصیل کے ساتھ ملکِ پاکستان کے ٹوٹنے کے عمل اور ان تمام وجوہات کو بیان کرتے ہیں جو اس المیے کی وجہ بنے۔سیاسی، معاشی و معاشرتی بحران، مایوس کن احساسات اور عوامی شکوے شکایتوں کے ایسے انبار جس نے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے دونوں بازوئوں کے درمیان اتحاد کو ناپائیدار کر دیا تھا جس کی بنا پر علیحدگی ناگزیر ہو گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ آزادی کے بعد پہلے دس سال میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ دونوں بازوئوں کے درمیان کتنی غیر ہم آہنگی ہے۔ پاکستان جو 14اگست 1947ء کو وجود میں آیا تھا، اس کی دوبڑی اکائیاں، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ایک دوسرے سے ایک ہزار میل دور تھیں، ان کے درمیان پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا علاقہ حائل تھا۔ جس کے جاسوس ادارے ہمیشہ مشرقی پاکستان میں فعال رہے اور منطقی طور پر وہاں انتخابات کے بعد ہونے والے ہنگاموں پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھے تاکہ وہ اپنی حکومت کو مارچ میں تیزی سے بگڑتی ہوئی سیاسی صورتحال سے آگاہ رکھیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ30جنوری کو دو کشمیریوں کا انڈین ایئرلائنز کے ایک ہوائی جہاز کو دورانِ پرواز اغوا کرنا اور اسے لاہور پہنچانا بھی مشرقی پاکستان کے بحران کی ایک وجہ تھی۔جسے جواز بنا کر بھارت نے مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان پی آئی اے پروازوں کی اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی ممانعت کر دی تھی۔اس وجہ سے دونوں حصوں کے درمیان فضائی رابطہ منقطع ہو گیا۔ بعد میں اس واقعے کی عدالتی تحقیقات نے ثابت کیا کہ دونوں کشمیری نوجوان بھارتی جاسوس ادارے کے ایجنٹ تھے۔ بات واضح تھی کہ مشرقی پاکستان کو الگ کروانا بھارت کی سازش اور منصوبہ تھا۔بھارت اس سے اپنا اسٹریٹجک ہدف حاصل کرنا چاہتا تھا۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان میں باغیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا تھا کہ وہ مشتعل ممبران کے ساتھ ہیں۔ یہ کہ ہم حالات و واقعات پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے ہیں۔اِسی طرح کا بیان انہوں نے اسی دن پارلیمنٹ کے ایوان بالا، راجیہ سبھا میں بھی دیا۔ اس سلسلے میں31 مارچ کو اندرا گاندھی نے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا، اس قرارداد میں مشرقی بنگال میں ہونے والے واقعات پر گہرے رنج و غم اور تشویش کا ڈھونگ رچاتے ہوئے اس بات کا اظہار کیا گیا کہ ہم مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ ہیں اور مشرقی بنگال کے عوام کی جمہوری طرز زندگی کے لیے گہری ہمدردی رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اعلان کرتے ہیں۔ اس یقین کابھی اظہار کیاگیا کہ مشرقی بنگال کے 75 ملین (ساڑھے سات کروڑ) عوام اس تاریخی لڑائی میں کامیابی سے ہمکنار ہوں گے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ایک نیم سرکاری بھارتی انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفنس سٹڈیز اینڈ انالیسز
(Indian Institute for Defence Studies and Analysis) کے ڈائریکٹر، سبرامنیم نے 8 اپریل کو ایک مجلس مذاکرہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ٹکڑے کرنا ہمارے مفاد میں ہے اور ہمیں(اس کے لیے)موقع ملا ہے، جو شاید آئندہ پھر کبھی نہ ملے۔ اس مرحلے پر بھارت میں ایک بھی مشرقی پاکستانی مہاجر نہیں تھا، جن کے بارے میں بعد میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ بھارت کی سلامتی کے لیے خطرہ بن گئے تھے۔ سبرامنیم صرف اپنا ذاتی نقطۂ نظر نہیں پیش کر رہا تھا، وہ برصغیر کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں پاکستان کے قیام کے خلاف گہری بھارتی دشمنی کا اظہار کر رہا تھا۔ برصغیر کی تقسیم کو ختم کرنا ناممکن تھا مگر عوامی لیگ کی تحریک موقع فراہم کر رہی تھی کہ پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے اور بھارت یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیگا، اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان سے بھارت کو کوئی خطرہ نہیں تھا بعد میں مہاجرین کی آمد نے بھارت کو اپنے مقصد کے حصول کے لیے ایک قابلِِ قبول وجہ فراہم کر دی۔
حسن ظہیر لکھتے ہیں کہ مشرقی پاکستان میں ہونے والے انتشار اور اس سے پیدا ہونے والے بحران کا اندازہ بھارت نے بہت پہلے لگا لیا تھا۔ عیاری اور مکاری کے ساتھ انتشار کو مزید ابھارا گیا کیونکہ پاکستان کو توڑنے کا مقصد واضح تھا، مگر اس مقصد کے حصول کے لیے مختلف اقدامات کو بہت احتیاط سے مرتب کیا گیا۔ آرمی ایکشن جو باغیوں کی غنڈا گردی روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔ 26 مارچ کوآپریشن شروع ہونے کے بعد پورے بھارت میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ بھارت چاہتا تھا کہ آپریشن شروع ہو تاکہ وہ مشرقی بنگال میں براہ راست مداخلت کر سکے۔مکتی باہنی کی فرضی فتوحات اور پاکستانی افواج کی مبینہ شکست کی مبالغہ آمیز خبریں بھارتی اخبارات میں چھپیں اور حکومتی ریڈیو سے نشر کی گئیں۔ اس کے علاوہ بھارتی حکومت نے مغربی میڈیا، اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز اور بڑی طاقتوں پر دبائو ڈال کر، مشرقی پاکستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھی ایک طویل مہم چلائی تاکہ ان سب کو اپنے نقطۂ نظر کی طرف مائل کیا جاسکے۔
اس کتاب میں ان تمام واقعات کو بھی تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح بھارت نے اندرونی اور بیرونی خلفشار پیدا کر کے پاکستان پر جنگ مسلط کرنے کے حربے تلاش کیے۔
Witness to Surrender(صدیق سالک)
صدیق سالک کی کتا ب ''میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا'' مئی 2017ء میں شائع ہوئی۔یہ ایک منفرد کتاب ہے جس میں وہ بڑی تفصیل کے ساتھ پہلے انتخابی مہم، انتخابات کی گہما گہمی، فوجی کارروائیاں، خانہ جنگی، شیخ مجیب الرحمن، بھٹو اور جنرل یحییٰ کے اختلافات کے نشیب و فراز کو تفصیلاً بیان کرتے ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ 1971 ء کے سانحہ میں جو بھی عوامل تھے ان تمام کے باوجود پاک فوج نے بڑی دلیری اور بہادری سے مقابلہ کیا۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں، نامساعد حالات کے باوجود فوج نے باغیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور پورے آٹھ مہینے اپنے پائے استقلال میں لعزش نہ آنے دی۔
Dead Reckoning )سرمیلا بوس(
سرمیلا بوس کی کتاب ڈیڈریکننگ 2013 ء میں شائع ہوئی۔سرمیلا بوس ایک بھارتی نثرادمصنفہ ہیں۔وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں Political of South Asia کے شعبے میں ایک سینئر ریسرچ سکالر کے طور پر کام کرتی رہی ہیں۔ وہ ہارورڈ(Harvard) اور جارج واشنگٹنGeorge) (Washington یونیورسٹیوں میں بھی اہم عہدوںپر فائز رہ چکی ہیں ۔ سرمیلا بوس بھارت میں بھی بطور صحافی اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں۔ سیاست میں بھی گہری دلچسپی رکھتی ہیں۔ وہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے بچپن سے ہی 1971ء کی جنگ کے حوالے سے بہت سی کہانیاںاور واقعات سن رکھے تھے۔ جو زیادہ تر مفروضوں پرمبنی تھے۔ وہ اصل حقائق کو جاننا چاہتی تھیں۔ اس تجسس کی بناپر 1971ء کے حوالے سے تحقیق کا ارادہ کیا اور اپنی تحقیقی کتاب Dead Reckoning شائع کی۔ مشرقی پاکستان میں جاری جنگ کے ان تمام سماجی و ثقافتی اور سیاسی پہلو ئوں پرسیرحاصل تحقیق کی۔
سرمیلا بوس کی تحقیق کا بنیادی مواد ان لوگوں کے انٹرویوز پر مبنی ہے جن کابالواسطہ یا بلاواسطہ جنگ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
کتاب میں مجموعی صورتحال کے اجمالی جائزے کے ساتھ ساتھ چند مخصوص واقعات کوتفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں 1970 ء کے انتخابات کے چند ایسے واقعات سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے جنہیں یا تو نظر انداز کیا گیا تھا یا ان کی تشریح غلط انداز سے کی گئی تھی۔ اس کا نتیجہ مذاکرات کی ناکامی اور بنگالی قوم پرستوں کے شدید احتجاج کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔ یکم مارچ سے 25 مارچ کے دوران ہونے والے واقعات پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، جب مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمن کے احکامات کے تحت ایک متوازی حکومت قائم کر لی گئی تھی۔ فوجی اقدام(Military Action) ان واقعات پر روشنی ڈالتا ہے جنہوںنے بنگالیوں کی بغاوت کچلنے کے لیے فوجی آپریشن کی جانب راہ ہموار کی۔اس ضمن میں 26-25 مارچ کے درمیان پاکستان آرمی کی جانب سے ڈھاکہ یونیورسٹی پر حملے کا تفصیلی جائزہ پیش کرتے ہوئے من گھڑت کہانیوں کو جھٹلایا گیا ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ پاکستانی فوج پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ تمام تر تشدد کی ذمہ دار ہے، ظلم و تشدد کی تمام کارروائیوں کاالزام جن میں آبروریزی، جلائو گھیرائو، لوٹ مار اور قتل عام کی کارروائیاں شامل ہیں، پاک فوج نے کیں۔ جبکہ ظلم و ستم کی ان ہولناک وارداتوں کی روک تھام اور نہتے بے گناہ لوگوں کو بچانے کی خاطر پاکستانی فوج نے مجبور ہو کر آپریشن سرچ لائٹ شروع کیا۔ 25 مارچ کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ مکتی باہنی کے تربیت یافتہ دہشت گرد انتہائی بے رحم اور سنگدل قاتل تھے۔ ان سنگدل قاتلوں نے بے دردی سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو زندہ جلا ڈالا جن میں بنگالی اور غیر بنگالی شامل تھے۔
وہ لکھتی ہیں کہ 1971ء کی جنگ میں ہندوئوں کو پاکستانی فوج کے ہاتھوںکوئی زک نہیں پہنچی۔ وہ مشرقی پاکستان چھوڑ کر پاکستانی فوج کی کارروائیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ مکتی باہنی کے ظلم و ستم سے بچنے کے لییبھارت جارہے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ باغی عام آبادیوں میں گھس کر اسے یرغمال بنا لیتے تھے جس کی وجہ سے جانی و مالی نقصان زیادہ ہوا، اس نقصان میں پاک فوج ذمہ دار نہیں بلکہ مکتی باہنی، باغی اور گوریلا فورس تھی۔
سقوطِ ڈھاکہ1971ئ(افراسیاب)
افراسیاب کی کتاب سقوطِ ڈھاکہ1971ئ'' حقیقت کتنی، افسانہ کتنا'' جو 2018 ء میں شائع ہوئی، ان کی انگریزی تصنیف 1971ء : Fact and Fiction کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک بہترین کتاب ہے۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ 1971 میں بدقسمتی سے دونوں بھائی مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان آپس میں ایسے الجھے کہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گئے۔ فقط یہ کہہ دینا کہ سقوطِ ڈھاکہ محض اندرونی غلطیوں کا نتیجہ تھا، ایک سطحی سوچ ہے۔ مسلم دنیا کی اس سب سے بڑی مملکت پاکستان کو توڑنے میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا۔
وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف زور دار پراپیگنڈے کے باوجود، آج بھی بنگلہ دیش میں ایک بڑی تعداد ایسے بنگالیوں کی ہے جو 30 لاکھ افراد کے قتل اور 2 لاکھ خواتین سے زیادتی جیسے الزامات کے اعدادو شمار سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ وہ بنگلہ دیشی اِن اعداد و شمار کو حقائق سے ماوریٰ، من گھڑت اور محض افسانہ قرار دیتے ہیں۔ بیگم خالدہ ضیا خود، ان کی پارٹی کے ارکان اور ملک کی تیسری بڑی سیاسی قوت جماعتِ اسلامی کے اراکین، اِس مبالغہ آرائی سے اتفاق نہیں کرتے۔
بہرکیف بھارت نے اپنی کامیابیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے مبالغہ آرائی سے کام لیا۔ بنگلہ دیش نے بھی اپنی ایسی ہی خواہش پوری کرنے کے لیے بھارت جیسا طریقہ کار اپنایا۔ دوسری طرف پاکستان اپنے اندرونی سیاسی مسائل میں ایسا الجھا کہ اِن مبالغہ آرائیوں اور من گھڑت کہانیوں کو غلط قرار دینے سے بھی قاصر رہا۔
وہ کہتے ہیں آج 1971ء کے بارے میں افسانے سے حقیقت اور جھوٹ سے سچائی کو تلاش کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس پر بہت سی تحقیق پر مبنی کتب آچکی ہیں مزید اس پر کام ہونا بہت ضروری ہے۔ اِس کتاب کی تحقیق کا رخ اسی جانب ہے۔ اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ دانشوروں، ممتاز صحافیوں اور دیگر افراد کے خیالات و آرا کو ان کے اپنے الفاظ میں مرتب کیا گیا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے ان اہم پہلوئوں کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے جن کو نظر انداز کیا جاتا رہا تھا۔
تبصرے