میجر ثروت حسنات۔۔۔۔ مکمل زندگی جینے والی ادھوری کہانی چھوڑ گئی
دور پہاڑوں میں بہتے گمنام جھرنے جیسی قِل قِل کرتی ہنسی ۔۔ آنکھوں میں ایسی جگمگاہٹ جیسے گُھپ اندھیری رات میں امیدوں کے ٹمٹماتے ہزاروں جگنو۔۔۔۔۔
بدن میں ایسی پُھرتی جیسے بَن میں قلانچیں مارتی ہرنی۔۔۔۔
چہرے پر ایسی دائمی مسکراہٹ جیسے دریا کے پانیوں میں ڈوبتی، اُبھرتی سورج کی کرنوں کی جھلملاہٹ۔۔۔
یہ تھی ہماری ''ثروت''۔۔۔۔
ثروت۔۔۔۔۔۔۔ جس کے لیے ''تھی'' کا صیغہ استعمال کرتے ہاتھ لرزتے ہیں اور آنکھیں بھر آتی ہیں۔وہ ''ثروت'' جس کے جانے کا سن کر ایسا دھچکا لگا کہ گویا چند ثانیوں کے لیے دل دھڑکنا ہی بھول گیا ہو۔ وہ ''ثروت'' جس کی جدائی نے احساس دلایا کہ متاعِ جاں سے عزیز شخص کا بچھڑنا کیسے اذیت بھرا درد بخشتا ہے۔ساحل کنارے پیدا ہونے والی ثروت کی طبعیت میں سمندری ہوا جیسی بے فکری اور آزادی تھی اور اس کے دل میں سمندر کی گہرائیوں جتنی اتھاہ گہرائی بھی۔
بے فکری، من موجی، شوخ، الہڑ ، چلبلی، مست، چٹکلہ سنا کر انجان بن جانے والی، ہنستے ہنستے رو دینے والی اور روتے روتے ہنس پڑنے والی منچلی۔ وہ ایسی مسیحا جو اپنے پرائے کی تشخیص کیے بنا زخم پر دوستی اور خلوص کا پھاہا رکھ دے اور بے خبر بن جائے۔وہ ایسی دوست جو اپنے نقصان کی پرواہ کیے بغیر دوستی نبھائے۔وہ ایسی بے ریا کہ جو اپنوں کے ساتھ ساتھ بیگانوں کادرد بھی اپنے دل میں سمولے اور اپنے درد دنیا سے چھپائے مسکراہٹیں لٹاتی پھرے۔ وہ ایسا وفاو ایثار کا پیکر جو رشتوں کی لاج بنانا جانتی تھی۔اُسے غم جھیلنے اور درد میں مسکرانے کا ہنر آتا تھا۔
ذاتی زندگی ہو یا نوکری کی نوعیت کے اعتبار سے فرائض و مجبوریاں، اس نے کہیں بھی توازن کھونے نہیں دیا۔ اس نے اپنی زندگی کا ہر کردار ایسے بخوبی نبھایا جیسے ہر کردار میں ڈھل جانے کے لیے قدرت نے کوئی خاص صفت عطا کی ہو۔ایک اچھی بیٹی کے کردار میں ماں باپ کا ہر خواب پورا کردکھایا تو ساتھ ساتھ ہی نہ کبھی باپ کا شملہ نیچے ہونے دیااور نہ ہی ماں کا مان ٹوٹنے دیا۔
دل میں ہزاروں اُمنگیں اور نامعلوم خدشے دبائے جب نئی زندگی کا آغاز کیا تو بطور بیوی کبھی بھی اپنی ذمہ داریوں میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ جب ماں بنی تو ماں جیسے قارون کا خزانہ پالیا ہو۔ وجود کی تکمیل کے احساس نے گویا نئی قوت بھردی اس کے جسم و جاں میں۔
ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی (Personal & Professional LIfe)کی ذمہ داریاں ایسے بخوبی نبھائیں جیسے مداری ایک ہی وقت میں کئی گیندوں کے ساتھ کھیلے مگر کسی ایک کو بھی ہاتھ سے گرنے نہ دے۔ نوکری کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے جس شہر بھی گئی، جس عہدے پر بھی کام کیا بھرپور کیا۔ جہاں بیٹی، بیوی اور ماں ہونے کا کردار درجہ تکمیل، احسن طریقے سے نبھایا وہاں اپنی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور مشکل حالات و واقعات کے باوجودMS GISمکمل کیا۔ جب فروری2022ء میں یو۔این مشن کانگو کے لیے روانہ ہوئی تو ایسے نہال تھی کہ ایک خواب پورا ہوا۔ ایک اور منزل پر پہنچنے کی نوید ملی۔
مسرت و تکمیل کے احساس سے سرشار جہاں کی سیڑھیاں چڑھتی وہ دیوانی کب جانتی تھی کہ جنگ سے تباہ حال لوگوں کی مدد کرتے کرتے اُس نے اپنی بقا کی جنگ بھی لڑنا ہوگی۔ ایسی جنگ جوکہ کینسر جیسے موذی عفریت کو قابو کرنے کے لیے لڑنی ہوگی۔ایسی جنگ جس کے ہر لمحے میں ایسی اذیت بھری ہوگی کہ جیسے گویا کوئی نیزے کی انی آپ کے دل میں کھبوئے ئے اور درد کی شدت سے منہ سے آہ بھی نہ نکل پائے۔
اُس پل کی تکلیف اور بے یقینی کا احساس صرف وہ روح جانتی ہے جسے خبر ملے کہ کوچ کا نقارہ بج گیا۔رختِ سفر باندھ لیں اور مسافر بے بسی سے اپنی متاعِ حیات جیسے عزیز لوگوں کو ڈبڈباتی نظروں سے تکتا ہی رہ جائے۔ ہر گز نہیں! وہ تو ''ثروت'' تھی جس کا مطلب ہی خوشحالی اور طاقت ہے۔۔ کینسر کے عفریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ آخری سانس تک وہ اپنے مورچے پر ڈٹی رہی۔ جہاں ڈاکٹر حیرت زدہ رہ جائیں کہ 25عدد کیمو تھراپی کی تکلیف یہ ناتواں صنف نازک کیسے اُٹھا رہی ہے۔ وہاں ہی اُ س نے کسی کو شائبہ تک نہ ہونے دیا کہ اس طویل پیچیدہ اور تکلیف دہ علاج کی اذیت اس کی ایک ایک رگ میں اُتر چکی ہے اور درد وتکلیف کے اس بھیڑیے نے اس کی رگ و جاں میں ایسے پنجے گاڑے ہوئے ہیں کہ ہر گزرتی سانس ایک نئے کرب سے دوچار کرتی ہے۔ ثروت کی جبلت و فطرت میں تو نچلا بیٹھنا تھا ہی نہیں اس کے تو انگ انگ میں گویا پارہ بھرا ہوا تھا۔ وہ پل میں یہاں اٹھکیلیاں کرتی نظر آتی تو اگلے ہی پل وہاں قہقہے بکھیرتی۔ایسی ہی جلترنگ بکھیرتی ہنسی کے ساتھ وہ ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہر آنے جانے والے کا استقبال کرتی اور اُسی مدھر مسکراہٹ کے سات دنیاوی تکلیفوں کو چھوڑ کر اپنی ابدی منزل کی طرف روانہ ہوگئی۔
وہ ثروت جس نے نہ کبھی زندگی میں کسی سے کوئی گلہ، شکوہ کیا اور نہ ہی یہ ظاہر ہونے دیا کہ دل کی اتھاہ گہرائیوں میں درد چھپائے مسکرانا اور مسکراہٹیں بانٹنا کتنا کٹھن ہوتا ہے۔ وہ ثروت اپنی آخری منزل کی طرف بھی کوئی شکایت کیے بغیر چلی گئی۔ بس ایک ہی بے چینی کے ساتھک کہ میرے بچے اکیلے ہوجائیںگے۔ جب وہ مجھے ڈھونڈیں گے، مجھے پکاریں گے تو میں کیسے اُن کے پاس آسکوں گی۔۔۔ کیسے ان کی پکار کا جواب دے پائوںگی۔
مگر وہ ثروت کے جگر گوشے ہیں ۔۔۔۔ ابراہیم اور انعم خاموش نگاہوں سے ہر چہرے میں ماں کو کھوج رہے ہیں مگر اونچی آواز سے پکارتے نہیں کہ ماں نے غموںکا واویلا کرنا تو سکھایا ہی نہیں۔ جولائی کی حبس زدہ شام جب اس نے چپکے سے آنکھیں بند کرلیں تو آسمان بھی ایسے ٹوٹ کر رویا جیسے بارشوں کی دلدادہ ثروت پر اپنا پیار نچھاور کررہاہو۔ پارہ صفت۔۔۔ثروت۔۔۔ تم کہا کرتی تھی نا کہ ٹائم نہیں ہے یار۔۔۔ تو سن لو کہ واقعی یہ تمھارا ٹائم نہیں تھا سب کو چھوڑ کر جانے کا۔۔
رُکو! ایک بار پلٹ کر دیکھ لو۔۔۔ کاش ذرا سی دیر ٹھہر جائو۔۔ ایک بار پھر اپنے یاروں کو مسکراہٹ کا تحفہ دے جائو۔
کاش! تم کچھ وقت اور جی جاتی، اپنی جاں سے پیاروں کے لیے۔ مگر واقعی تمہارے پاس وقت نہیں تھا کیونکہ تم لمحوں میں صدیاں جینا جانتی تھی۔
تبصرے