ڈاکٹر حمیرا شہبازنے یہ یاد داشت اپنے ایک ہونہار طالب علم میجر عبدالہادی کو خراجِ محبت پیش کرنے کے لیے لکھی
آقغائی عدنان!" میں نے 'ق' کو 'غ' کی طرح تلفظ کرنے کی واضح کوشش کی۔
"حاضر ہستم" عدنان کی بہت ہی حاضر آواز سنائی دی۔
"آغائے عمیر!"
"بلہ خانم!"، کمرے میں عمیر سے پہلے اسکی آواز داخل ہوئی۔
"آگائے" آ صف! " ہمہ تن گوش آصف کو نہ آواز گئی، نہ جواب آیا۔
"آئے ظہیر!"۔ اتنی دفعہ دہرانے پر اب "آقغائی" ، "آغائے" سے ہوتا ہوا "آگائے" اور "آئے" ہو چکا تھا۔
"جی میڈم"۔ پہلو بدلتے ظہیر کا ٹھہرا ہوا جواب آیا۔
میں نے اس پر کچھ توقف کیا اور رجسٹر پر کلرک کی لکھائی میں درج آج ایک نئے نام"آغا" امی اییے عب دل ھادی" کو پڑھنے کی کوشش کی۔اوکے "عبدالہادی "میں نیدوبارہ سے نام لیا اور نظر اٹھا کر "یس میم" کی آواز کی طرف دیکھا۔
مجھے نام یاد نہیں رہتے۔ بڑا ہی مسئلہ ہے۔ چہروں کو ان کے ناموں کے ساتھ ملا کر دیکھتی ہوں، اگر لگے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بنے ہیں تو یاد رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ جس کے نام کے آخر میں "ن" آتا ہو، اس کا چہرہ گول ہونا ضروری ہے، دبلے پتلے سمارٹ بندے کے نام کے آخر میں '' ر''ہو تو ٹھیک ہے۔ آخر میں "ل "ہو تو بلند قد خوش قامت بندہ ہو گا۔ غرض یہ کہ تقریباً ہر شناسا نام کے لیے میرے پاس پہلے سے ایک سانچہ موجود ہے جس میں اگر بندہ فٹ آیا تو خیر، نہیں تو پھر میں اس کو سمیسٹر کے آخر تک کبھی کسی اور کے نام سے اور کبھی اس کے نام سے پکارتی رہوں گی۔ شاید میں نے مختلف ناموں کے حامل جن لوگوں کو زندگی میں پہلی بار دیکھا ہو گا یا ان کا نقش میری یاداشت پر گہرا تھا، ہر بار انہی کو دیکھنا چاہا۔ لیکن کوئی ان سا ہو تو پھر نام بھی ان سا رکھے اور ظاہر ہے، نہ تو ہر بار تخلیق کار فرشتوں نے میرے سانچوں کو مدنظر رکھا ہوتا ہے اور نہ ہی نام گزاروں نے۔
اور اب یہ "عبدالہادی"۔"یس میم! پریذنٹ" کی آواز بہت جاندار اور شفاف تھی۔ ایک بہت ہی دبلے پتلے وجود پر نظر پڑی۔میں نے ایک مسکراہٹ سے نئے دانشجو کو خوش آمدید کہا۔ اس سے فارسی سیکھنے کی وجہ نہیں پوچھی ۔کیا ہو سکتی ہے؟ شاعری سے شغف، فرصت کا شغل، مقدس زیارتوں کا سفر، سی ایس ایس کا امتحان، اقبال سے محبت یا پھر میری طرح ۔۔۔ جو زندگی میں کبھی رستہ بدلنا چاہیں تو کوئی ان کو انگلی پکڑ کر ایسی سڑک پر ڈال دے جس کا نام "خیابان فارسی" ہو۔ لیکن ایسا کبھی سنا نہیں جو کوئی یہ کہے کہ وہ میری طرح کسی اور کے کہنے پر فارسی پڑھ رہا ہے۔ سویلین اسٹوڈنٹس کے پاس اسی قسم کی وجوہات ہوتی ہیں۔ یا کوئی بھی وجہ نہیں ہوتی اور فارسی پڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ اس کی وجہ بھی ڈھونڈتے رہتے ہیں۔اور جو غلطی سے فارسی کو ایک آسان مضمون سمجھ کر آجاتے ہیں تو پھر ان کو پتا چلتا ہے "آسان" دنیا کی کسی بھی زبان کا دوسرا نام نہیں ہے۔
اگلے مہینے، رجسٹر میں عبدالہادی کے نام کے ساتھ عدنان اور عمیر کی طرح "میجر " بھی درج تھا۔ "میجر عبد الہادی!" اس کا نام پکارا اور اتنے دنوں میں حاضری لیتے ہوئے شاید دوسری بار میں نے اس دانشجو کی طرف دیکھا ،نام کو چہرے کے ساتھ ملا کر یاد رکھنے کے لیے۔ ہوں ں ں!!! تو یہ فوجی بھائی ہے۔میں جو اس کو اس کی جاندار آواز کے باوجود سویلین سمجھتی آئی تھی، میرا ذہن اس کے فوجی ہونے کو قبول کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اب تو پوچھنا بالکل بھی نہیں بنتا تھا کہ فارسی کیوں پڑھ رہا ہے، اس کی میجری نے سب کہہ دیا تھا کہ وہ از خود آمدہ نہیں ہے بلکہ از کس فرستادہ ہے۔
صبح کلاس میں کبھی کبھار ہادی کو وقت پر پہنچنے میں دیر ہو جاتی تھی۔ اس کے چہرے پر افسوس ہوتا کہ اس کے بس میں نہیں تھا، دیر سے نہ آنا۔ میری خاموشی پر وہ بھی خاموش رہتا۔ اب دیر سے آنے والے کو کوئی کیا کہے۔ اس کے لیے یہی تکلیف کم ہے کہ اسے آنے میں دیر ہوگئی!ویسے بھی دیر کردینے والوں میں وہ اکیلا نہیں تھا۔ کسی نے بیوی کو دفتر چھوڑتے آنا ہے، تو کوئی اس لیے دیر سے پہنچتا ہے کہ بیٹی کوسکول قبل از وقت چھوڑ آنے کی غلطی نہیں کرسکتا(کرنی بھی نہیں چاہیے۔ بیٹیاں اکیلے چھوڑ دیے جانے کے لیے نہیں ہوتیں، پھر وہ سکول میں ہی کیوں نہ ہوں)، کوئی رات بھر باپ کی تیمارداری کرتا رہا اور دیر سے اٹھا ، تو کسی کوصبح سویرے مہمانوں نے آلیا۔الغرض ان وجوہات پر تو دفتر کے دفتر بلکہ تھیسز لکھے جاسکتے ہیں ۔۔۔ میں نے پوچھنا ہی کم کر دیا، ان کی آنکھیں آہستہ سے کہہ دیتی تھیں''میڈم اب آپ کو معلوم تو ہے۔پوچھ کر شرمندہ نہ کریں۔''
آہستہ آہستہ مجھے محسوس ہوا کہ کلاس میں پہنچ کر ہادی کی سانس باقی آنے والوں کے مقابلے میں زیادہ دیر سے بحال ہوتی ہے۔ جبکہ وہ ان سب میں سلِم ٹرِم تھا۔ "میڈم مجھے موسمی الرجی ہے" ایک بار اس نے بتایا تھا۔ میں نے زیادہ اِستفسار نہیں کیا۔پھر ایک دن جب ہادی کلاس میں آیا تو میں نے نظر اٹھائے بنا دیکھ لیا کہ وہ اکیلا نہیں ہے اس کے ساتھ میں ایک اسٹک بھی تھی۔ لاٹھی نہیں کہوں گی، کیونکہ وہ کوئی معذور نہیں تھا نہ ہی ضعیف۔بلکہ زندگی تو اس میں کچھ زیادہ دکھائی دیتی تھی۔
فوجی لائق تو تصور کیے ہی جاتے ہیں، نمل، پڑھائی کے معاملے میں ان کے لیے یقینا ان کی پیشہ ورانہ تعلیم وتربیت کے مقابلے میں خالہ جی کا گھر ہی تھا اور شاید باقی معاملات میں بھی۔ہادی بھی پڑھائی میں اچھا تھا۔ فارسی زبان کی باریکیوں کی جیسی سمجھ ہادی کو آتی تھی وہ کسی اور میں کم جھلکتی تھی۔ ہاں عدنان کی بات اور تھی۔ وہ اکیلا دواں دواں اور باقی سب کشاں کشاں ۔ ہادی قابل بھی تھا اور محنتی بھی۔
مِڈٹرم امتحان کے بعد کی بات ہے، سب مڈٹرم بریک سے واپس آگئے۔ ایک دن کی حاضری کے بعد، ہادی نے دو دن مزید چھٹی کر لی۔ اس کے آنے پر میں نے پوچھا کہ ہفتے بھر کی چھٹی کم تھی جو آپ پھر سے دو دن غائب رہے۔
"میڈم میری مسز کی سالگرہ تھی!"۔اس نے بہت شوق سے جواب دیا۔
میرے کان سائیں سائیں کرنے لگے۔ بہت کم ایسا ہوا کہ کسی نے کلاس میں ذاتی زندگی کی بات کی ہو۔ اور فوجی تو شاید کبھی بھی اپنی پرسنل لائف بلکہ وائف کو موضوع گفتگو نہیں بناتے۔ہادی یہ بھی تو کہہ سکتا تھا کہ کوئی کام پڑگیا تھا۔یہ بتانا اس نے کیوں ضروری سمجھا کہ مسز کی سالگرہ تھی ؟ میں حاضری لگاتے سوچ رہی تھی۔
"تو؟" میرے منہ سے صرف اتنا نکلا۔ ( بیوی کی سالگرہ اتنی اہم ہے کہ چھٹی ہی کر لی جائے۔ میرے سوال میں میری سوچ جھلک رہی تھی)۔ آپ ہفتہ بھر کے لیے گھر ہی گئے تھے تو کیا ضرورت تھی دوبارہ جانے کی وہ بھی اتنی دور؟(میں جو کلاس میں طلبا کی حاضری کو یقینی بنانے کا فریضہ انجام دینے میں سرگرم عمل تھی، شاید جل کر بولی) اور پھر پتا چلا کہ وہ مڈ ٹرم بریک میں ہفتہ بھر یہیں تھا، گھر نہیں گیا تھا۔ اس کی طبیعت اس کو سفر کی اجازت نہیں دیتی۔ پاکستان تو ویسے بھی اسلام آباد سے 15 کلومیٹر دور ہے اوررحیم یار خان تو ظاہر ہے دور بہت ہی دور یہاں سے اور اس سے بھی دور۔۔۔اس کے والد نے اس کی طبیعت کے پیش نظر منع کررکھا تھا چھٹی میں بھی آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن وہ بیوی کی سالگرہ اس کے ساتھ منانا چاہتا تھا۔ بیوی کی خوشی کا خیال رکھنا اچھی بات ہے۔ اب یہ سب میں دل میں سوچ رہی تھی۔ ویسے بھی میری طرف سے وہ ہمیشہ کے لیے پاس تھا، ہر امتحان میں۔ (جیتے رہو، میں نے دل میں کہا)۔میں نے طے کر لیا تھا اب اس کو کبھی دیر سے آنے پر ، وقت پر آنے کے طریقوں کا لیکچر نہیں دوہرائوں گی۔
"اوکے گڈ!" میں بس اتنا ہی کہہ سکی۔
نمل میں نیا تعلیمی سال "ستم بر" میں ہی شروع ہوتا ہے۔ جاتی برسات کی حبس آلود فضا میں محبوس، نئے طلبا گہری گہری سانس لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ پھر بدلتے موسم کے ساتھ ان میں خزاں کی پختگی آنے لگتی ہے، ہوا کی خنکی ان کو یونیورسٹی سے متعارف تر کروا رہی ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ یخ بستہ ہوائوں کے ساتھ وہ نمل کی نصابی، ہم نصابی اور غیر نصابی بلکہ بغیر نصابی سرگرمیوں کا حصہ بننے لگتے ہیں۔ ہادی زندہ تر تھا، اس کی آواز کی قوت، یقین، عزم اور امید غیر معمولی تھی۔ویسے بھی کرونا لاک ڈائون کے بعد آنے والی یہ پہلی باقاعدہ حاضر کیمپس کلاس تھی۔ ہادی نے بھی یونیورسٹی کی، شعبہ کی ہر سرگرمی میں ممکنہ حصہ ڈالا۔ اپنی بیماری کی رعایت نہیں لی تھی کبھی۔ انکار ، حجت، گریز، کاہلی، بہانہ جوئی اس میں نہیں تھی۔ ہردم تیار شادمان ہیں ہم! کے مصداق تھا۔
سرد ہوائیں تیز تر ہونے لگیں تو تہہ در تہہ لباس میں ملبوس عبدالہادی پچھلی نشستوں سے اٹھ کر اگلی قطار میں آ بیٹھا، بند کھڑکی اور جلتے ہیٹر کے پاس، بہت ہی پاس۔ آگ کی حدت اس کو جلاتی نہیں تھی۔ بیماری اس کو پہلے ہی بھسم کر چکی تھی۔ ایک دن اس نے بتایا ، یا پھر شاید کلاس کے کسی اور دانشجو نے بتایا کہ وہ جِلد کی کسی بیماری میں مبتلا ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ جِلد ،انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو ہے اور طب میں جِلد سے مراد صرف ظاہری جِلد نہیں ہے بلکہ ہمارے داخلی عضو بھی جِلد کے حامل ہوتے ہیں۔ تو یقینا اس کی بیماری کوئی چھوٹی بیماری نہ تھی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ یہ بیماری خاندانی ہے۔ اس کی شاید کسی خالہ کو بھی ہے جو اس بیماری کے ساتھ بھی طویل عمر پائے ہوئے ہیں۔میں نے زیادہ جاننا نہیں چاہا، اپنی بے خبری یا کم خبری مجھے بہت عزیز ہے۔ میں اس کی تکلیف کو زیادہ جان کر آگہی کے عذاب کو نہیں بھگتنا چاہتی تھی۔
ایک سمسٹر ختم، دوسرا شروع۔ فرسٹ ٹرم میں ہادی کی اول پوزیشن تھی۔ کئی بار وقتی لاک ڈائون اور ناوقت دھرنوں کی وجہ سے آن لائن درس و تدریس کا عمل جاری رہا۔ بہار کا سیشن بھی زمستان میں ہی شروع ہوتا ہے۔ فروری کے موسم میں ٹھٹھرتے ہادی کے لیے ہیٹر بھی کارگر نہیں تھا۔ البتہ وہ مطمئن نظر آتا تھا۔ اس کی فیملی بھی اس کے ساتھ شفٹ ہو چکی تھی۔ اب وہ گھر سے آتا تھا، خوش تر اور زندہ تر۔ لیکن اس کی تمام تر خوشی میں اس کی صحت ایک سوالیہ نشان بنتی جا رہی تھی۔ آہستہ آہستہ ہوائوں کی یخ بستگی پگھلنے لگی۔اہلیان ِ نمل کے ملبوسات کی تہیں کم اور رنگا رنگی بڑھنے لگی۔ کُھلتے موسم میں کھِلتے رنگ بکھرنے لگے۔ نمل میں اب کے وہ بہار آئی کہ جس کا جشن بھی منایا گیا۔ ہادی بھی جشن میں بھرپور طور پرشامل تھا۔ مِڈ ٹرم جیسے تیسے ہوا، اول پوزیشن اسی کی تھی۔ بہت محنت، چاہت اور توجہ سے حل کیا ہوا پرچہ تھا اس کا۔ البتہ پتا چلتا تھا کہ کلاس کی غیر حاضری نے اس کی زبان فہمی کو قدرے متاثر کیا ہے۔
بہار کی آمد، پولن الرجی کی بھی آمد ہوتی ہے اسلام آباد میں۔ اسی روا روی میں ہادی نے کرونا کو بھی بھگتا۔ اب زیادہ غائب رہنے لگا تھا۔ بہت عرصہ ایڈمٹ بھی رہا ، ہسپتال سے آن لائن کلاسیں بھی لیتا رہا۔ واٹس ایپ گروپ سے باخبر رہتا، تدریسی مواد اور ہم درسوں کی محبت سے وہ پڑھائی میں تقریباً ساتھ ساتھ ہی تھا۔ اس کی طبیعت سنبھلنے لگتی تو وہ آجاتا اور ہم شکر کا کلمہ پڑھتے۔ لیکن وہ جلد ہی دوبارہ ایڈمٹ ہو جاتا تو ہم صبر کرلیتے۔ اس کے ہم کلاس اس کی تیمارداری کو جاتے رہتے۔ بتاتے رہتے کہ وہ ٹھیک ہے بس ڈاکٹروں کی تسلی نہیں ہو پا رہی۔ اس کی صحت کی طرف سے کسی بھی قسم کی غفلت نہیں برتی جاسکتی تھی۔ کرونا کی بلا بھی تو ابھی تک ٹلی نہیں تھی۔ میں نے اس کے ڈاکٹروں سے فاصلاتی رابطہ کیا کہ آخر وہ کیوں اس کا علاج نہیں کر پا رہے، مسلسل غیر حاضری اس کا کورس خراب کر دے گی۔ ڈاکٹر کا تفصیلی جوابی پیغام مجھ تک پہنچا، جس کو میں نے کڑے دل سے پڑھا کہ خدا جانے وہ کیا کہہ دے۔ بہرحال اس کی دوائیں تبدیل کی گئیں۔ اس کی طبیعت سنبھلنے لگی۔ پتا چلا وہ ہسپتال سے گھر آگیا ہے، میں نے اس کو بحالی صحت پر مبارکباد کا میسیج بھیجا کہ اب گھر پر وہ مزید بہتر ہو جائیگا۔اس نے بتایا وہ ٹھیک ہے ، جلد ہی آئے گا۔
ہادی نے پھر سے آنا شروع کردیا۔ کورس تقریباً مکمل تھا، وہ ہماری مدد سے گذشتہ اسباق دہراتا رہا۔ایک دن میں نے اس کی سہولت کے لیے کہا: "آقائی ہادی! کورس مکمل ہے تقریباً،آپ چاہیں تو گھر پر آرام کر سکتے ہیں، آپ کو اتنی زحمت ہوتی ہے۔"تو اس نے کہا: " میڈم آپ مجھے نہ آنے کا نہ کہیں۔ مجھے کوئی زحمت نہیں ہوتی، یونیورسٹی آ کر اچھا لگتا ہے۔ روز صبح اٹھ کر تیار ہونا یہاں آکر دن گزارنا۔ مجھے یہ روشنی اور ہوا اچھی لگتی ہے۔۔۔"۔باقی اس نے کہا نہیں لیکن میں نے سن لیا وہ کہہ رہا تھا:"میڈم میں یہاں آتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں بیمار نہیں ہوں۔ گھر میں میرا وجود میری فیملی کو ہراساں کرتا ہے کہ شاید میں ٹھیک نہیں ہوں۔میں ٹھیک ہوں اور ٹھیک رہنا چاہتا ہوں اور ٹھیک لگنا چاہتا ہوں پلیز آپ مجھے یہاں آنے سے روکا نہ کریں۔ مجھے آنے دیں۔ میں آنا چاہتا ہوں روز، ہر روز۔۔۔" اسی روز بعدکے کسی پیریڈ میں سٹاف روم میں اساتذہ بات کر رہے تھے کہ آج ہادی کی طبیعت کلاس میں خراب ہو گئی تھی تووہ جلد واپس چلا گیا تھا۔
"کہا بھی تھا مت آئے " میں غصے میں سوچ رہی تھی ۔
ہادی کو کون روک سکتا ہے، اگلے دن وہ پھر موجود تھا ، اب لاٹھی کے علاوہ اس کے ساتھ ایک عدد آکسیجن سلنڈر بھی تھا اسی کی طرح کا دبلا پتلا۔ اس آکسیجن سلنڈر کو دیکھ کر تو میرا دماغ ہی بھک سے اڑ گیا، شاید رنگت بھی ۔ میں خاموشی اور استفسار سے اس کو دیکھ رہی تھی۔ کلاس میں دو باقی فوجی جوان اپنی تمام تر باقاعدگی سے موجود تھے۔ اگر وہ نہ ہوتے تو ہادی کو تو ڈانٹ آج پڑی ہی پڑی تھی۔ ہادی میری پریشانی کو بھانپ کر بولا ۔ "میڈم میں ٹھیک ہوں۔ یہ آکسیجن سلنڈر تو میں بس احتیاط کے طور پر ساتھ لایا ہوں۔لفٹ میں، ڈرائیور چھوڑ کر گیا ہے۔" اس نے میری تسلی کو تمام تر وضاحتیں دے دیں۔ویسے بھی اس کے صدقے غالب بلاک کی لفٹ چل پڑی تھی۔ ہم نے مان لیا کہ وہ ٹھیک ہے اور درس کا اعادہ کرنے لگے۔ہم سب ہادی کی خدمت میں حاضر تھے۔
فائنل زبانی امتحان شروع اور ہادی غائب۔ پتا چلا ایڈمٹ ہے۔ہادی کا پیغام آیا کہ وہ ٹھیک ہے، بس زیر نگرانی ہے۔( یہ کون نگرانی کا شوقین ہے بھائی، یونیورسٹی آکر امتحان کی نگرانی کر لے، اس کو کیوں بار بار اپنے پاس رکھ لیتا ہے؟؟)فوج اپنے بندوں کو اکیلا کہاں چھوڑتی ہے۔ پیالہ گرم تر از آش۔ ہادی اپنے نگرانوں سے وعدہ لے چکا تھا کہ وہ اس کو تحریری امتحان میں بیٹھنے سے نہیں روکیں گے۔اور ویسا ہی ہوا، ہادی روز ہسپتال سے پرچہ دینے آجاتا تھا۔ اپنی اسٹک، آکسیجن سلنڈر اور قوت ارادی کے ساتھ۔ اطاق ایران شناسی نے ایسا منظر کبھی نہ دیکھا ہوگا۔
میں ڈیوٹی کے دوران دیکھتی، وہ بہت مگن، لگن کے ساتھ پیپرز دے رہا تھا۔لیکن نظر ملتی تو مسکراتا نہیں تھا کہ پتا چل سکے ٹھیک ہے! خاموش تھا۔ اب سوچتی ہوں تو یاد پڑتا ہے اس کی سانس بھی پرسکون تھی۔ شاید اوپر کلاس تک آنے کی زحمت نہیں اٹھانا پڑتی۔ اس کا سیکنڈ لاسٹ پیپر تھا۔ جس کے بعد وہ وہیں ہال میں ایک طرف بیٹھا اپنی ٹیچر کو پہلے چھوٹ جانے والا زبانی امتحان دے رہاتھا۔ میری ڈیوٹی ختم ہو چکی تھی۔ میں ان دونوں کے آگے سے اپنا بیگ لیے گزری۔ہادی خالی نظروں کے ساتھ مصروفِ عمل تھا۔ میں نے پورے امتحان کی ڈیوٹی میں دیکھا اس کی آنکھوں میں کسی بھی چیز کے لیے جیسے اپنائیت، رغبت نہ تھی۔ایک پیپر اس کا باقی رہ گیا تھا ترجمے کا، وہی میرا مضمون تھا۔اور امتحان بھی میرا ہی بن گیا۔ پیپر والے دن ہادی نہیں آیا۔اپنی طبیعت اور ڈاکٹروں کی ضد کے آگے مجبور ہادی، نہیں آیا۔
اب کیا ہو گیا؟یہ سوال میرا امتحان تھا ۔ تمام اورلز ہو گئے ، تحریری پرچے بھی، بس ایک میرا پرچہ باقی تھا۔پورا کورس اس نے اپنی سانسوں کی ڈور سے کھینچ کر گزارا تھا۔ صرف ایک پرچہ باقی تھا!! بعد میں لینے کی صورت نہیں ہو گی، کلاسز ختم ہو چکی ہیں ۔ چند دن میں رزلٹ دینا ہے، پھر چھٹیاں ہو جائیں گی!! اس کی بھی پوسٹنگ آجائے گی۔ دوبارہ اس کو کیونکر موقع ملے گا؟؟ کیا کروں؟؟ میں سوچتے نہیں تھک رہی تھی۔
ہادی کا میسج آیا: "میم میں ٹھیک ہوں، کیا کل پیپر دینے آسکتا ہوں؟" میں نے سو بسم اللہ کی۔ اگلے دن سوالنامہ لیے کلاس میں بیٹھی منتظر تھی۔ وہ نہیں آیا، میسج آیا کہ نہیں آسکتا۔ اس کے والد انتقال کر گئے ہیں۔ اس نے مجھے، اس کے لیے صبر کی دعا کرنے کو کہا کہ وہ جا نہیں سکتا اپنے والد کے جنازے پر۔
"یا اللہ!!!" میں صرف خدا کو پکارسکی۔
اتنے دن سے اس کی تیمارداری کو جانے کی ہمت نہیں کر پائی تھی سوچا اس کے والد کی تعزیت کو جانا چاہیے۔اس کی طبیعت کا بھی کچھ پتا چلے۔اس کو کال کی۔ موصول نہیں ہوئی ۔ میسج کیا کہ میں یونیورسٹی سے ہی آؤں گی سیدھی ہسپتال، اس کا کمرہ وارڈ نمبر وغیرہ پتا کروا لیا تھا۔لیکن میسج سین نہیں ہوا۔ کئی گھنٹے ۔ ایسی خاموشی تھی جیسے اس کمرۂ امتحان میں اس کی سانسیں خاموش تھیں۔ شام کو میسج آیا کہ وہ آئی سی یو میں تھا رات بھر۔ ابھی واپس کمرے میں آیا ہے۔ میں اسے ملنے جانے کا ارادہ ترک کر چکی تھی۔
چند دن بعد میں نے کلاس کا رزلٹ جمع کروا دیا، ہادی کا بھی۔
اگلے دن میں اسی کی کلاس میں بیٹھی ایک ایم فل سکالر سے اس کا تھیسز ڈسکس کر رہی تھی۔ موبائل کی سکرین روشن ہوئی۔ہادی کا میسج تھا۔ نہیں، اس کا نہیں تھا، اس کے نمبر سے تھا۔ میسج پورا پڑھنے سے پہلے سکرین تاریک ہوگئی۔ لیکن میں نے بھی میسج پورا نہیں پڑھا۔ موبائل وہیں میز پر چھوڑ کے باہر کاریڈور میں آگئی۔ شاید کمرے میں یکدم آکسیجن کم ہو گئی تھی۔ سٹاف روم میں گئی، بیگ سے پیسے نکال کر دراز کے اندر صدقے والے ڈبے میں ڈال دیے۔
اسی شام ، ایک بار پھر موبائل کی سکرین روشن ہوئی اور پھر تاریک۔ہادی کے نمبر سے اس کی بیوی کا میسج تھا۔
اگلے دن اسٹاف روم میں اس کی تکلیف کو یاد کرکے سب تکلیف میں تھے۔ اس کی قابلیت، ہمت اور حوصلے کو یاد کر رہے تھے ۔ میں اس کے لیے محو دعا اپنی ہتھیلیاں آنکھوں پر رکھے روتی رہی۔بہت دیر تک۔ اسی وقت کلرک دستخط کروانے کے لیے رزلٹ نگران استاد کے پاس لے آیا۔ اس نے سب کو بتایا ہادی کی کلاس میں اول پوزیشن آئی ہے۔سر نے رزلٹ سائن کرتے ہوئے پوچھا کہ اس نے تو آخری پرچہ نہیں دیا تھا۔ اور استفسار سے میری طرف دیکھا۔
"دیا تھا۔ میں نے لیا تھا"۔ میں نے، "میں نے" پر زور دے کر کہا۔
"کیسے؟"، انہوں نے پوچھا نہیں۔
"جیسے کرونا کے لاک ڈائون میں دیتے تھے اور لیتے تھے"۔ میں نے پھر بھی بتایا۔
میرا ایسا امتحان تو کڑے لاک ڈان نے نہیں لیا تھا۔ مت پوچھیں کس دل سے اس کا پرچہ چیک کیا۔ ہادی کا آخری میسج میری نظر سے گزر رہا تھا جو اس نے پرچہ حل کرنے کے بعد بھیجا تھا۔" میڈم میں اپنی لکھائی کے لیے معذرت خواہ ہوں، اسی ہاتھ میں کینولا لگا ہوا ہے۔ امید ہے آپ درگزر کریں گی۔"
میں درگزر نہ کرتی تو اور کیا کرتی، وہ جو ہمیشہ کہتا تھا کہ "میں ٹھیک ہوں"، میں اسے کیسے کہتی کہ "نہیں آقائی ہادی، آپ ٹھیک نہیں ہیں، خیر ہے، امتحان مت دیں"۔ آخری پیپر دینا گویا اس کی آخری خواہش تھی۔حالانکہ مجھے یقین تھا وہ بھی اسی بیماری کی حامل اپنی خالہ کی طرح طویل عمر پاجائے گا۔
میرے موبائل کی سکرین ہر تھوڑی دیر بعد روشن ہو رہی تھی، تعزیتی پیغام آ رہے تھے۔
میں نے موبائل پر نظر ڈالی، بی ایس کا ایک طالب علم پوچھ رہا تھا: "میڈم ، یہ عبدالہادی کونسا تھا، وہ عینک والا ، سمارٹ سا؟"
اب مجھے پتا ہے کہ میرے لیے اب سے عبد الہادی نام کا بندہ ، کس سانچے میں ڈھلا ہو گا، کیسا ہوگا؟
عینک والا،سمارٹ سا!
٭میجر عبد الہادی ستمبر 2021سے جون2022 تک شعبہ فارسی، نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجیز ، اسلام آباد میں فارسی زبان کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ اُن کا تعلق 115 میڈیم آرٹلری سے تھا ۔ دوران تعلیم وہ کووڈ سے جانبر نہ ہو سکے اور جان جان آفرین کے سپرد کردی۔
یادش بخیر!روحش شاد!
مضمون نگار نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز کے شعبہ فارسی سے منسلک ہیں اور یہ یادداشت انہوںنے اپنے ہونہار طالب علم میجر عبدالہادی کو خراجِ محبت پیش کرنے کے لیے لکھی ہے
[email protected]
تبصرے