کیپٹن عزیر محمود ملک شہید
ہماری مسلح افواج کئی سالوں سے دہشتگردوں کی سرکوبی کے لیے ایک ایسی اعصاب شکن، غیر روایتی اور انتہائی مشکل جنگ لڑ رہی ہیں جس میں انہیں کسی مخصوص میدان کارزار کے بجائے کوچہ و بازار میں اپنوں کا روپ دھارے اغیار کے ساتھ برسر پیکار ہونا پڑتا ہے۔ ان اعصاب شکن معرکوں میں اپنوں میں گھلے ملے مکار دشمن کو پہچاننا بڑا ہی دشوار کام ہوتا ہے جسے ہمارا ہر فوجی اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر سر انجام دے رہا ہے جبکہ اس کے برعکس اپنوں کا بھیس بدلے مکار خوارج ہمارے فرض شناس فوجیوں کو ہر وقت کھلی آنکھ سے دیکھتے ہوئے بس صرف حملہ آور ہونے کے مواقع تلاشتے ہیں۔
دنیا دیکھ رہی ہے کہ ہماری مسلح افواج کس اعلیٰ حوصلے، جرأت و بہادری کے ساتھ دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے سر پھرے خوارج کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا رہی ہیں۔ ایسی غیر روایتی اور غیر معمولی جنگ لڑنا یقینا پاک فوج کا ہی طرۂ امتیاز ہے۔ ہماری فوج کے دلوں میں جذبہ حب الوطنی اور جذبہ ایمانی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ آفرین ہے وطن کے ان سرفروشوں پر جو دیوانہ وار اپنی جانوں کے نذرانے دے کر دفاعِ وطن کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ شہدا کی ان قربانیوں پر پوری قوم کو فخر ہے۔ ہمارے قبرستانوں میں شہداء کی مرقدوں پر لہراتے قومی پرچم شمع کے ان ہزاروں پروانوں کے جذبہ ء شوقِ شہادت کے غماز ہیں۔ ایسا ہی ایک پرچم 11 اگست 2024ء کو اٹک کی تحصیل جنڈ کے گاؤں بھنڈر کے قبرستان میں کیپٹن عزیر محمود ملک شہید کی مرقد پر بھی لہرایا گیا جس نے خیبر کی وادیٔ تیرہ میں خوارج کے ساتھ بے جگری کے سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا۔
کیپٹن عزیر محمود ملک 12 جنوری 2000 کو اسی ایم ایچ نوشہرہ میں پیدا ہوا۔ یہ میجر شیر محمد ملک (ریٹائرڈ) کے تین بیٹوں میں سب سے چھوٹا تھا۔ اِس نے ساتویں جماعت تک آرمی پبلک سکول اور کالج ویسٹریج راولپنڈی میں تعلیم حاصل کی۔ یہ ہونہار بچہ بڑا باصلاحیت طالب علم تھا۔ یہ ابھی ساتویں میں زیر تعلیم تھا کہ اس نے، پی ایف کالج لوئرٹوپا مری، کیڈٹ کالج حسن ابدال اور ملٹری کالج جہلم جیسے معروف کالجوں کے داخلہ امتحانات ایک ہی بار میں پاس کر کے سب کو حیران کر دیا۔
اس کے والد اِسے کیڈٹ کالج حسن ابدال میں داخل کروانا چاہتے تھے لیکن عزیر جب ملٹری کالج جہلم میں داخلے کے لیے بضد ہوا تو والدین نے اسے بخوشی عالمگیرین بننے کی اجازت دے دی۔ ملٹری کالج میں اس نے دوران تعلیم کامیابی کے کئی جھنڈے گاڑے۔ اس نے میٹرک اور ایف ایس سی میں 90 فیصد سے زائد نمبر لے کر کالج کا گولڈ میڈلسٹ ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ عزیر کو چونکہ بچپن سے ہی فوج میں جانے کا شوق تھا اس لیے ایف ایس سی کے بعد اس نے فوج میں منتخب ہونے کے تمام امتحانات کامیابی سے پاس کیے اور 2018ء میں 142 لانگ کورس کے ساتھ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں شمولیت اختیار کی جہاں اس نے دو سال تک بحیثیت کیڈٹ پوری محنت اور لگن کے ساتھ فوجی تربیت مکمل کی۔
سیکنڈ لیفٹیننٹ عزیر محمود کو 10 اکتوبر 2020ء کو پاکستان آرمی میں کمیشن ملا۔ یہ افسر حق دعویٰ استعمال کر کے با آسانی اپنے والد کی انجینئرز بٹالین میں جا سکتا تھا لیکن اس کے سر پر انفنٹری میں جانے کی دھن سوار تھی۔ ایم ایس برانچ نے اسے پاکستان آرمی کی ایک مایہ ناز پلٹن بلوچ رجمنٹ، جو فوج میں ''برما بٹالین'' کے نام سے مشہور ہے، میں پوسٹ کر دیا۔ یہ یونٹ اس وقت کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فرائض سرانجام دے رہی تھی جہاں یہ سب ہونہار آفیسر ایک سال تک برف پوش چوٹیوں پر پوسٹ کمانڈر رہا۔ اس کے بعد یونٹ ہذا سنٹرل افریقن ریپبلک میں اقوام متحدہ کی امن فوج میں خدمات سرانجام دینے چلی گئی، جہاں لیفیٹننٹ عزیر نے تقریباً ایک سال تک بڑی کامیابی اور نمایاں انداز سے اپنے فرائض سر انجام دیے۔ مئی 2023ء میں لیفٹیننٹ عزیر نے اپنی فیملی کے ساتھ عمرے کی سعادت حاصل کی۔
جولائی 2023 میں اسے سکول آف انفنٹری کوئٹہ میں اپنا بنیادی کورس کرنے کے لیے بھیج دیا گیا جہاں اس نے نمایاں کامیابی کے ساتھ کورس مکمل کیا۔ اس عرصے میں اس کی بٹالین آپریشن'' المیزان ''میں شامل ہونے کے لیے نامزد ہو چکی تھی لہٰذا اس نے کورس کے بعد ملنے والی وقفہ شمولیت کی تعطیلات کو درگزر کرتے ہوئے یونٹ کے ساتھ خصوصی تربیت حاصل کرنے کے لیے فورا ًپلٹن میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس تربیت کا دورانیہ مکمل ہوتے ہی ان کی پلٹن کو خیبر پختونخواہ کے ضلع خیبر کے دشوار گزار علاقوں میں آپریشن کے لیے بھیج دیا گیا جہاں اس یونٹ کی ذمہ داری کا علاقہ میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ غیر محفوظ علاقوں میں بکھری ہوئی پلٹن کو لاجسٹک سپورٹ مہیا کرنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ پلٹن کے کمانڈنگ آفیسر نے لیفٹیننٹ عزیر کی غیر معمولی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے اسے یونٹ کا کوارٹر ماسٹر بنا دیا۔ یاد رہے کہ حالت جنگ کی کوارٹر ماسٹری زمانہ امن کے ڈیسک جاب کے برعکس عملی جدوجہد کی متقاضی ہوتی ہے۔ اس نے تمام تر مشکلات کے باوجود بڑی دلیری کے ساتھ پلٹن کی لاجسٹکس سپورٹ کو یقینی بنائے رکھا۔
اسی دوران یہ اپنی باری کی تعطیلات گزارنے جب گھر آیا تو اس نے ایک دن اچانک اپنی والدہ محترمہ سے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنی شہادت کی خصوصی دعا کرنے کی التجا کی۔ اپنے لخت جگر کا یہ مطالبہ سن کر ماں تلملا اٹھی لیکن پھر لرزتے ہاتھوں اسے اپنے سینے سے لگا کر کہا ''بیٹا تمہیں نہیں معلوم کہ ماں کے لیے ایسی دعا کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔ بیٹا میری تو دلی دعا یہ ہے کہ اللہ میرے بہادر بیٹے کو دشمنوں پر ہمیشہ غلبہ دے اور تم ہر میدان میں سرخرو ہو، شہادت تو ہمارے ایمان کی معراج ہے''۔ اس چھٹی کے دوران ایک اور انہونی یہ ہوئی کہ لیفٹیننٹ عزیر نے اپنے بڑے بھائی حمزہ کو اپنی ایک تصویر (عنوان بالا میں ثبت)دکھاتے ہوئے کہا ''بھائی جان میری بات مانو اس تصویر کو بڑا کروا کر ڈرائنگ روم میں لگا لو شاید ،کچھ عرصہ بعد آپ میرے بجائے صرف اسے ہی دیکھا کریں گے'' ۔ یہ بات سن کر اس کے بھائی کا بھی دل دہل گیا، تاہم اس نے اس بات کو ہنسی مذاق میں ٹال دیا۔
لیفٹیننٹ عزیر جب چھٹی سے واپس آیا تو پلٹن معمول کے انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز میں مصروف تھی۔ ایک ایسے ہی آپریشن کے دوران ان کی پلٹن کے میجر اسد اللہ دہشتگردوں کے نرغے میں پھنس گئے تو لیفٹیننٹ عزیر نے ایک کائونٹر اٹیک کی قیادت کرتے ہوئے اپنے سینئر افسر کو ان ناہنجاروں سے بحفاظت چھڑوا لیا۔ بٹالین کمانڈر نے جب عزیر کے اس کامیاب آپریشن کی اطلاع اپنے بریگیڈ کمانڈر اور انسپکٹر جنرل فرنٹیئر کور کو دی تو جنرل آفیسر نے لیفٹیننٹ عزیر کی اس دلیرانہ کارروائی کو سراہتے ہوئے اسے فوری طور پر کیپٹن کے رینک لگانے کا حکم صادر کر دیا۔
اس پلٹن کے ان چھوٹے چھوٹے آپریشنز نے ضلع خیبر میں دہشتگردوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی، لہٰذا انہوں نے اپنی بھر پور تیاری کے ساتھ 8 اور 9 اگست 2024ء کی رات ''برما بٹالین ''کے ہیڈکواٹر پر اچانک حملہ کر دیا۔ جس کے جواب میں بٹالین نے بھی بھر پور جوابی کارروائی شروع کی۔ کیپٹن عزیر محمود ملک نے ایک ہروال دستے کی قیادت کرتے ہوئے سامنے سے آنے والے دہشتگردوں کو خاک اور خون میں نہلاتے ہوئے انہیں مزید آگے بڑھنے سے روک دیا۔ یوں بٹالین ہیڈ کوارٹرز ایک بڑے نقصان سے بچ گیا لیکن اس آپریشن میں فرنٹ لائن پر لڑتے ہوئے کیپٹن عزیر ملک سر پر گولی لگنے سے زخمی ہو گئے جنہیں ان کے ساتھیوں نے جان کی پروا نہ کرتے ہوئے فوری طور پر ہسپتال منتقل کروا دیا۔
سی ایم ایچ پشاور کے ڈاکٹروں نے قوم کے اس بہادر بیٹے کی جان بچانے کی سر توڑ کوشش کی لیکن وہ کہتے ہیں کہ '' تقدیر کا لکھا کون ٹال سکتا ہے''، لہٰذا 11 اگست 2024ئ، دن 11 بجے کیپٹن عزیر محمود ملک کی دیرینہ خواہش پر ملک الموت، حکم ربانی پر لبیک کہتے ہوئے اسے شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز کرنے آ پہنچا۔ انا للہ وانا علیہ راجعون۔اسی دن سہ پہر2.30بجے پر کور ہیڈ کوارٹرز میں شہید کا پہلا جنازہ ہو ا،جس میں کور کمانڈر سمیت اعلیٰ فوجی حکام نے شرکت کی اور پھر شہید کے جسد خاکی کو اپنی دھرتی ماں کے سپرد کرنے کے لیے جب بھنڈرلایا گیا تو اٹک کے اس قابل فخر شہید کے استقبال کے لیے پورا شہر امڈ آیا۔
بلا شبہ کیپٹن عزیر ملک شہید کابھنڈر میںہونے والا جنازہ اٹک کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا۔اس نماز جنازہ میں شرکت کے لیے آئے اس کے کورس میٹس نے ورثا کو بتایا کہ کیپٹن عزیر ملک نے اپنی موت سے محض دو دن پہلے اپنے کورس کے واٹس ایپ گروپ پر اپنی یہ تحریر شیئر کی کہ ''دنیا کہتی ہے کہ موت ایک حقیقت ہے تو پھر ہمیں شہادت کی موت کی تمنّا اور دعا کرنی چاہیے'' جی ہاں رب نے اس کی تمنّاپوری کر دی تھی اور ایک جم غفیر کے سامنے کیپٹن عزیر محمود ملک شہید کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کر دیا گیا۔ اس موقع پر صدر پاکستان سمیت 142ویں لانگ کورس کی طرف سے پھولوں کی بے شمار رچادریں پورے پروٹوکول کے ساتھ شہید کی قبر پر چڑھائی گئیں۔ شہید کی قبر کے سرہانے قومی پرچم لہرا دیا گیا۔ اس موقع پر کمانڈر نے جب کیپٹن عزیر محمود ملک شہید کی وردی اور قومی پرچم اس کے والد گرامی کو پیش کیا تو انہوںنے اپنے بیٹے کی شہادت پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے رب ذوالجلال کا شکر ادا کیا جس نے اس کے لخت جگر کی شہادت کی تمناکو قبول کیا۔ میجر شیر محمد ملک(ریٹائرڈ) کا یہ بیان تمام ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ، جسے دیکھنے اور سننے والے لاتعداد لوگوں نے نمناک آنکھوں کے ساتھ سراہا۔ صدر پاکستان، چیف آف آرمی سٹاف، فوج کے دیگر اعلیٰ افسران اور ملک کے عمائدین کی بڑی تعداد نے گائوں میں آ کر شہید کے والد سے دلی تعزیت کی اور شہید کی بہادری کوبڑے شاندار الفاظ میںخراج تحسین پیش کیا۔
پاک فوج زندہ باد
تبصرے