کیپٹن محمد کاشف شہید کی کہانی
پاکستان شہیدوں کی سرزمین ہے۔ دھرتی ماں کی سلامتی اور دفاع کے لیے اس کے جرأت مند بیٹے ہر گھڑی تیار اور کامران ہیں۔25 برس کے کیپٹن محمد کاشف بھی ان ہی شہدا میں سے ایک ہیں جنہوں نے اپنے آپ کو وطن عزیز کے لیے وقف کیا۔
کیپٹن محمد کاشف کی والدہ ناہید دستگیر نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کاشف2 بہنوں اوردوبھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ ایک بہن اور بھائی ان سے بڑا تھا۔ یوں تو ان کا اپنے سب بھائی، بہنوں کے ساتھ پیار تھا مگر انہیں اپنی چھوٹی بہن سے بہت محبت تھی۔ شہید کی والدہ نے بتایا کہ محمد کاشف 25جون 1995ء کو کراچی میں پیدا ہوا۔ کاشف بہت سمجھدار اور فرمانبردار بچہ تھا۔ وہ فجر کے وقت اٹھ جایا کرتا تھا پھر پڑھائی، صبح کی سیر اور ناشتہ کرتا تھا۔ اسے میرے ہاتھ کے سارے کھانے پسند تھے البتہ بریانی اس کی پسندیدہ ڈش تھی۔ اسے پھلوں میں انار بہت پسند تھا۔ وہ اپنی کلاس کے ذہین بچوں میں شمار کیا جاتا تھا۔ اس کی شروع کی تین پوزیشنز میں سے کوئی ایک ضرور آتی تھی۔ اس کی پڑھائی کی لگن دیکھ کر اساتذہ اس سے بہت خوش ہوتے تھے۔
کیپٹن محمد کاشف نے ابتدائی تعلیم سرگودھا سے حاصل کی بعدازاں فضائیہ کالج راولپنڈی سے میٹرک اور قائداعظم کالج سے ایف ایس سی کی۔ کیپٹن محمد کاشف کی والدہ ناہید دستگیر نے بتایا کہ کاشف کو کرکٹ کا بہت شوق تھا۔ چھٹی والے دن سارے دوستوں اور کزنز کو جمع کرکے کرکٹ گرائونڈ آباد رکھتا تھا۔ کاشف نے بچپن میں کبھی کسی کھلونے کی ضد نہیں کی۔ وہ بہت صابر بچہ تھا البتہ اکثر فوجی یونیفارم لانے کی فرمائش کرتا تھا۔اس کی لگن و محبت دیکھتے ہوئے میں اور کاشف کے والد بھی چاہتے تھے کہ وہ پاکستان آرمی جوائن کرے۔
شہید کی والدہ کا کہنا ہے کہ ذہنی اور جسمانی طور پر فٹ ہونے کی وجہ سے اللہ کے حکم سے اس نے پہلی بار میں ہی آئی ایس ایس بی پاس کرلیا ۔ دبلا پتلا ہونے کی وجہ سے آئی ایس ایس بی کے دوران اس سے کہا گیا کہ کاشف! آپ آرمی کے لیے فٹ ہیں مگر جسمانی طور پر کمزور معلوم ہوتے ہیں۔ پاکستان آرمی کا حصہ بنے کے لیے آپ کو کچھ جان بنانا پڑے گی۔ اس بات پر اس نے کہا سر آپ حکم کریں کیا کام کرنا ہے۔ جس سے آپ کو یقین ہوجائے کہ میں جسمانی طور پر کمزور نہیں ہوں۔ اس کا ٹیسٹ لینے والے نے ایک صحت مند جوان کی جانب اشارہ کیا کہ اسے اٹھا کر سامنے بنے کمرے تک لیکر جائو اور پھر واپس آئو۔ اللہ کے فضل سے میرے کاشف نے حکم کی تعمیل کی۔ جس پر اس کے آفیسر نے کہا واہ جوان ماشا اللہ تم پاکستان آرمی کے لیے فٹ نہیں بلکہ پرفیکٹ ہو۔
کیپٹن محمد کاشف نے 2015ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول جوائن کی۔ وہ پی ایم اے لانگ کورس 136 کا حصہ بنے اور14اکتوبر 2017ء کو پاس آئوٹ ہوکر بلوچ رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔
آئی ایس ایس بی کلیئر کرنا، پی ایم اے جانا پھر وہاں سے پاس آئوٹ ہونا۔ جسم پر پاکستان آرمی کی وردی سجانا کاشف کے لیے بہت بڑی خوشیاں تھیں جو اس کو سچی لگن کی وجہ سے پے درپے مل رہی تھیں۔ ہم سب اس کی خوشی میں خوش اور رب کے شکرگزار تھے۔
جب وہ لیفٹیننٹ تھے اور بلوچستان میں تعینات تھے تو معمول کی پیٹرولنگ کرتے ہوئے ان کے ٹروپس پر شرپسندوں نے حملہ کردیا۔ جس میں حولدار شہید جبکہ کیپٹن حسنین زخمی ہوئے تھے۔ کیپٹن کاشف نے (جب وہ لیفٹیننٹ تھے)انہیں محفوظ مقام پرمنتقل کرکے شرپسندوں کے دانت کھٹے کیے تھے۔ کیپٹن کاشف کے بہادرانہ اقدام پر ان کی پوری یونٹ نے ان کی بہت تعریف کی۔
کیپٹن کی والدہ نے بتایا کہ جب کاشف کو کیپٹن کا رینک لگا تو میں نے پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر کر کہا بس اب میں اپنے شہزادے کے لیے دلہن تلاش کرنا شروع کردیتی ہوں تو وہ ہنس کر کہنے لگا نہیں ماں جی! میں نے تو مادر وطن کے لیے شہید ہو جانا ہے، آپ ایویں ہی اپنے آپ کو تنگ کریں گی۔ میں نے غصے میں اس سے کہا تم سے تو بات کرنا ہی فضول ہے۔
کیپٹن محمد کاشف کی یونٹ کی جانب سے ٹوبو چیک پوسٹ ، آوران ، بلوچستان میں ایک سکول کی بنیاد رکھی گئی جس کا افتتاح یونٹ کے سی او اور کمانڈر نے کیا۔ بعد ازاں شرپسندوں نے کیپٹن کاشف کے سی او اور کمانڈر پر اٹیک کردیا۔ کراس فائرنگ کا جواب دیتے ہوئے کیپٹن کاشف نے چھ جوانوں کے ساتھ حملہ آوروں کا تعاقب کیا جس کے نتیجے میں ان کی گاڑی شرپسندوں کی جانب سے بچھائی گئی آئی ای ڈی کی زد میں آگئی اور زوردار بلاسٹ سے تباہ ہوئی۔ جس کے نتیجے میں کیپٹن کاشف سمیت 6 جوان شدید زخمی ہوئے۔ زخمی ہونے کے باوجود کیپٹن کاشف دہشتگردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔
موسم کی خرابی کے پیش نظر ہیلی کاپٹر تاخیر کا شکار ہوگیا اور خون زیادہ بہہ جانے کے سبب 25سال کے کیپٹن محمد کاشف نے جامِ شہادت نوش کیا۔ شہید کیپٹن محمد کاشف کی والدہ کا کہنا ہے کہ میرے لیے21اگست 2021ء کی تاریخ قیامت کی تاریخ ثابت ہوئی۔ اس روز رات آٹھ بجے کاشف کے ابو کے پاس شہید کے دوست کی کال آئی۔ جس نے کاشف کے زخمی ہونے کی اطلاع دے کر دعا کے لیے کہا کچھ دیر بعد ہی کاشف کے سی او کی کال آئی جنہوں نے کاشف کی شہادت کی خبر سنائی۔ ہم پر تو جیسے قیامت ہی بیت گئی۔ کچھ دیر بعد ہی لوگوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ہر آنکھ بھری ہوئی تھی۔ ہر آنے والا غم سے نڈھال تھا۔ ہم سب اہلخانہ سمجھنے سے قاصر تھے کہ کیسے لوگوں کو تعزیتی پیغامات کا جواب دیں کیونکہ کاشف کے ابو، بہنیں اور بھائی اس بات کو ماننے سے قاصر تھے کہ وہ اب ہم میں نہیں رہا ہے اور میں تو جیسے سکتے میں آگئی تھی۔ میری اس سے صبح ہی تو بات ہوئی تھی۔ وہ بہت خوش تھا۔ اس نے مجھ سے دعا کے لیے کہا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ آج وہ لوگ بہت ضروری کام کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا سب خیریت ہے بیٹا تو اس نے کہا ہاں ماں جی سب خیریت ہی خیریت ہے بس آپ دعا کریں۔ میں نے کہا بیٹا! میں ہر پل تمہارے لیے دعاگو ہوں ۔شہید کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا۔
تبصرے