(کیپٹن محمد اُسامہ شہید کے بارے میں رابعہ رحمن کی تحریر)
کائنات کی خوبصورتی محبت سے آمیز ہے۔ اس آفاقی جذبے کو کبھی زوال نہیں کیونکہ یہ کائنات کے معرض وجود میں آنے کا سبب بنا۔یہ جذبہ جتنا نازک ہے اتنا ہی قوی اور زندگی کے لیے لازم وملزوم ہے۔ محبتوں کا حساب کوئی نہیں دے سکتا کیونکہ محبت بے حساب ہوتی ہے۔ محبت اگرماں باپ اور اولاد کی ہو، بہن بھائیوں اور دوستوں کی،پرچم وطن اور وطن کی مٹی سے ہو تو بے مثل بن جایا کرتی ہے۔ پاک سرزمین پہ قربان ہونے والا ایک اور سپوت کیپٹن محمد اسامہ (شہید) اپنے حصے کی محبت سمیٹ اور بانٹ کر آج باغ ارم کی سیرگاہی پہ نکلاہے۔
ارشدمحمود ایئرفورس سے ریٹائرہوئے ، اللہ نے چھ بچوں کی نعمت سے نوازا، چار بیٹیاں اور دو بیٹے، انہی میں اسامہ(شہید)12مئی2000کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔
وہ فضائیہ انٹرکالج چکلالہ راولپنڈی اور فوجی فائونڈیشن بوائز کالج کے ہونہار طالبعلم تھے،2018 ء میںFScکی۔ جس طرح ہماری نوجوان نسل کو بچپن سے ہی وردی بہت متاثرکرتی ہے اور پرچم کشائی کے موقع کی پریڈاورPMA کی پاسنگ آئوٹ پریڈجب میڈیا پر دکھائی جاتی ہے توکروڑوں دلوںسے یہی آواز آتی ہے کہ
یہ وردی میں بھی پہنوں گا
یہ پرچم میں لہرائوں گا
کڑا جب وقت آئے گا
میں جاں اپنی لٹائوں گا
کیپٹن محمداسامہ(شہید) کو زندگی نے فراغت کا کوئی لمحہ نہ دیا۔2000ء میں پیدا ہونے والایہ نوجوان 6.2فٹکے قدکاٹھ، من موہنی صورت اور مٹھاس بھرے لہجے سے سب کے دلوںپہ راج کرتا تھا۔
جی ڈی پائلٹ کے لیے ISSB کوہاٹ کلیئر کرنے کے بعدوہ میڈیکل میں کسی وجہ سے رہ گیا اورپھراُسے PMAبھیج دیا گیا اور 7نومبر2018ء میں اس کے گھر والے اسے PMA چھوڑ آئے۔ کیپٹن محمد اسامہ کی1st Pak BatalianمیںTariq/2کمپنی تھی۔ وہ اپنی ٹریننگ سے بہت مطمئن تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ ماں آپ مجھے اپنا روشن ستارہ مانتی ہیں اورمیں یہاں سے ہیرا بن کے نکلوں گا۔
مسز ارشد والدہ کیپٹن محمداسامہ(شہید) سے بات ہوئی توکہنے لگیں میں مانتی ہوں کہ جتنی مائوں کے بیٹے شہید ہوتے ہیں وہ بیٹے انمول اور منفرد ہوتے ہیں، میرا بیٹا بھی انوکھا اورلاڈلاتھا ۔ایسے جیسے کوئی فرشتہ ہو، نہ کسی کو کوئی دکھ دیتا،نہ اونچی آواز میں بات کرتا اور اس کے گھرآتے ہی میرا گھر روشن ہوجاتا۔ ہلاگلا، کھیل کود، شورشرابا، گپ شپ اور قہقہے گونجنے لگتے۔ بڑی تین بہنوں کا لاڈلا بھائی محمدعلی کا دوست اور چھوٹی بہن ہاجرہ جس کو ''حاجی'' کہہ کے بلاتا کے لیے وہ محور تھا۔
11نومبر، 2020کو پاس آئوٹ ہونے کے بعدNLI رجمنٹ سرگودھا چلاگیا،اوریہ یونٹ2023ء میں کھاریاں کینٹ آگئی، کیپٹن محمداسامہ (شہید) جہاں بھی جاتے ان کی خواہش ہوتی کہ میرے والدین اور بھائی بہن بھی وہاں آئیں اور وہ کنٹونمنٹ کے علاوہ قریبی جگہوں پہ بھی انہیں لے کرجائے اور اپنے گھر والوں کوان جگہوں کی تاریخ بتائے۔کیپٹن محمداسامہ (شہید) نے اپنے گھر والوں کو''موناڈپو'' دکھایا۔ فوجی میس میں بڑی محبت اور شان سے اپنے والدین کو ٹھہرایا، مسز ارشد (والدہ) کہتی ہیں کہ ہمیں ان جگہوں پر بلاکر وردی میں ہمارے ساتھ کھڑاہوکر میرا بیٹامسکراتا۔ وہ محبت کی مٹی میں گندھا تھا اور سب کو اسی میں گوندھ کے رکھتا، میرے نرم مزاج کیپٹن محمداسامہ (شہید) کے لیے کچھ لوگوں نے کہاکہ ''وہ افسر بن کے بدل جائے گا''مگراس کی بول چال میں نہ کوئی بدلائو آیانہ غرور، بلکہ وہ اور زیادہ شفیق وہمدرد ہوگیا۔ اس کےNCBاور دوسرے فوج کے وہ سپاہی جن کے گھروں میں کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تھا،کیپٹن محمداسامہ (شہید) ان سے پوچھتے رہتے اور دائیں ہاتھ سے ان کی ایسے مدد کرتے کہ بائیں ہاتھ کو پتہ نہ چلتاتھا۔ ان کےNCB نے یہاں تک بتایا کہ وہ اپناATMکارڈ اسے دیتے اورکہتے کہ جتنی ضرورت ہے اتنے پیسے نکال لو۔ اپنی والدہ کو کیپٹن محمداسامہ (شہید) نے کہہ رکھاتھاکہ ہمارے گائوں میں جو غریب خاندان ہیں مجھے ان کا بتائیں میں ان کا ماہانہ لگاناچاہتاہوں۔
ایک مرتبہ سب گھر والے بیٹھے تھے ،''ماںکو کس سے زیادہ محبت ہے'' کے موضوع پہ بات شروع ہوئی تو والدہ نے کہاکہ آپ سب میرے دل کے ٹکڑے ہومگر آپ میں سے کوئی اس بات پہ شکوہ کناں نہ ہو کہ میں دل کے ترازو میں محبت کے دو پلڑوںمیں سے ایک میں آپ سب کو رکھتی ہوں اور دوسرے میں صرف کیپٹن محمداسامہ (شہید) کو۔ اتنا بڑا فیصلہ سنانا اورکسی بھی بھائی بہن کا اس پہ اعتراض نہ کرنا بھی قابل داد تھا، والدہ نے کہا وہ میرے گھر کی روشنی تھا، وہ روشن ستارا میرا، اس کے آنے سے میرا گھرجگمگا اٹھتا،اور یہ سچ تھاکہ وہی تھاجو آنے سے پہلے سب کو فون کرتا کہ باجیو! اپنے اپنے بچے لے کے امی کے گھر پہنچ جائو، دوستوں کو کہتاکہ گھومنے پھرنے اورکھانے کے لیے تیارہوجائو، اپنی بہن ہاجرہ سے کہتا کہ بتائو تم نے کیا کھانا ہے۔ ان کے چھٹی آنے سے پہلے ہی گھرمیں میلہ سا لگ جاتا، یہ پکائو اس کے کپڑے استری کرکے رکھ دو، دیواریںا ور پنکھے تک صاف کرلیے جاتے، ایسے جیسے کوئی شہنشاہِ محبت، عشق اور لگن کی لگا میں تھا مے، ٹاپوٹاپ چلا آرہاہے۔ وہ بہن کے بچوںکے لیے ایسا کھلونا تھاکہ ان کے ساتھ کھلونوں سے کھیلتا ایک مرتبہ بہن نے پوچھاکہ آپ تو اپنی زندگی میں بہت سادگی پسند ہو، ہر ایک پر یقین کرلیتے ہو، اپنے بارے میں کچھ سوچتے ہی نہیں، تو وہ مسکرا کے کہنے لگا میں جب وردی میں ہوتا ہوں تو سپہ سالار ہوتا ہوں، گھر اور دوستوں میں ہوتا ہوں تومددگار اورصرف پیار ہوتاہوں۔
ہاجرہ اور باقی گھر والوں کے لیے ہر جگہ کی سوغات لازمی لاتا۔ اپنے لیے کچھ نہیں خریدتاتھا۔ گھر کبھی خالی ہاتھ نہیں آتاتھا۔ آخری چھٹی25جون کو آیا تو بہنوں کے لیے حلوہ لے کے آیا، والدہ کیپٹن محمداسامہ کہنے لگیں کہ ہم لوگ پنڈی میں کرائے کا مکان لے کے رہتے تھے تو میں نے ایک مرتبہ بچوںسے کہاکہ دعاکرو اللہ ہمیں اپنا گھر بھی دے تو سب سن رہے تھے۔ اس وقت کیپٹن محمداسامہ پانچ سال کا تھا، فوراً اٹھا اور ماں کے گلے میں بازو ڈال کے کہنے لگاکہ آپ گھرکی فکرنہ کریں، اللہ میاں ہی ہمیں جنت میں بہت بڑا گھر دینگے، جہاں ہم سب مل کر رہیں گے، والدہ اور باقی بڑے بہن بھائی حیران ہوکر اس چھوٹے بچے کو دیکھنے لگے۔ واقعی کیپٹن محمداسامہ (شہید) کی وہ بات سچ ثابت ہوئی۔ اس نے اپنے اللہ کو اپنے نبیۖ کو اپنے خون کا نذرانہ پیش کرکے جنت میں گھر بنالیا۔ ہاجرہ نے کہاکہ جنت کا کاش کوئی فون نمبرہوتا۔ ہاجرہ اپنے بھائی کی بہت لاڈلی تھی، بڑی بہن عمارہ سے ادب کا رشتہ تھا۔ ماریہ باجی استادوںکی طرح سے سب کو زندگی میں سبق دیتی رہتی ہیں اور عائشہ باجی اپنے ہاتھوں سے لذیذ کھانے کھلاتی رہی ہیں، ہم یونہی ایک دوسرے کے ساتھ مالاکی طرح جڑے ہوئے تھے، جتنے وہ (کیپٹن اُسامہ )باہر سے خوبصورت تھے اندر سے کہیں زیادہ خوب سیرت بھی۔ وہ اپنی اس جوان سالہ زندگی میں بھی ایمان کے اس درجے پر تھے جہاں پہنچنا آج کے ماحول کے مطابق ناممکن ہے ۔وہ اللہ سے اپنا ایسا رشتہ بناچکے تھے کہ جہاد بالنفس میں کامیاب ہوگئے تھے۔ ان کا درجہ یہ ہوا کہ وہ اللہ کا دیدار کرچکے، ہم تو عالم برزخ میں رہیں گے اورقیامت کا انتظارکرینگے۔
کیپٹن محمداسامہ جون میں چھٹی آئے تو اپنی فیملی کو شمالی علاقوںمیں سیروتفریح کے لیے لے گئے۔ پھر بڑی بہن عمارہ کو ساہیوال ملنے کے لیے لے گئے ۔ماں باپ کو سفر میں تکلیف نہ ہو تو کرائے پہ بڑی گاڑی بک کروائی اور بہن کو مل کر آئے کہ میرا دل بہت اداس ہے پھر جانے کب چھٹی آئوں۔ 7جولائی کوراولپنڈی واپس آئے اور 8کو وزیرستان چلے گئے، ہیڈکوارٹر پہنچے تو رات کو ہی آرڈر آیا کہ آپریشن کرناہے،کیپٹن محمداسامہ ''پلاسین'' پوسٹ پہ تھے۔ ان کے ساتھ 10جوان تھے اور آپریشن کے لیے نکلے، والدہ نے فون اٹھایا کہ میں بات کرلوں مگریہ سوچ کر رکھ دیاکہ رات کو تھکاہوگا توشاید ابھی سو رہاہومگر کیپٹن محمداسامہ(شہید) تو منہ اندھیرے ہی اپنی ٹیم کے ساتھ نکل گئے تھے۔وہاں دشمن کی بچھائی ہوئی IEDپھٹ گئی جس سے میرا بیٹاکیپٹن محمداسامہ قربان ہوگیا اور ایک سپاہی بھی زخمی ہوا، والدہ کویہ بتایاگیاکہ اسامہ کو گولی لگی ہے دعاکریں، توماں نے چادر اوڑھی اور مسجد کی جانب صدقہ خیرات کرنے کے لیے بھاگیںکہ اسامہ خیر سے گھر آئے، مگر صدقہ تومصیبت ٹالتا ہے مگرشہادت تومصیبت نہیں رحمت ہے، کیسے ٹلتی۔
نذرانہ عقیدت ومحبت پیش کرتے لوگ جوق درجوق چلے آئے، وزیراعظم پاکستان محمدشہبازشریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے جنازے میں شرکت کی اور پھرکیپٹن محمداسامہ (شہید) کے جسدخاکی کو بڑے اعزاز کے ساتھ ڈھوک گجری تحصیل وضلع راولپنڈی میں سپردخاک کردیاگیا۔
جب کیپٹن محمداسامہ شہید کاسامان گھر والوں کو ملاتوآج تک اسے کھولنے کا حوصلہ نہیں پڑ رہا، جب کھولنے لگتے ہیں توآہوں،سسکیوں اور آنسوئوں سے سامان بھیگ جاتا ہے، پھر واپس بند کردیتے ہیں، بڑی بہن عمارہ کا بیٹا پوچھتاہے، ماما ہمارے ماموں اسامہ کہاں گئے ہیں تو عمارہ کہتی ہے کہ آپ کے ماموں اللہ سے ملنے آسمان(Sky)پہ گئے ہیں تو اللہ نے ان کو تارا بناکرآسمان پہ اپنے پاس رکھ لیا۔
معصوم بچہ کہتاہے کہ ''میں بڑاہوکرجہاز پہ آسمان پہ جائوںگا اورماموں اسامہ کو بٹھاکر واپس لے آئوں گا''۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے