عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او)نے کسی بھی دوا کی تعریف ایک ایسے مادہ کے طور پر کی ہے جو جاندار میں داخل ہو کر اس کے ایک یا زیادہ افعال میں ترمیم کر سکتا ہے ۔ پاکستان 1997ء کے گزٹ نے نشے کی تعریف یوں بیان کی ہے کہ "جسمانی یا نفسیاتی طور پر کسی بھی منشیات یا نفسیاتی مادے پر منحصر شخص یا ایک ایسا فرد جو عادت سے منشیات یا نفسیاتی مادے استعمال کرتا ہے"۔ سال 2018ء میں اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم (یو این او ڈی سی)کی عالمی منشیات کی رپورٹ کے مطابق ، دنیا بھر کی آبادی کا تقریبا 5.4فیصد منشیات کی لت میں مبتلا ہے۔ منشیات کا استعمال اب عالمی وباء کی صورت اختیار کرچکا ہے اور پاکستان ، جو کہ چوبیس کروڑ سے زیادہ آبادی والا جنوب ایشیائی ترقی پذیر ملک ہے ، اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔ منشیات کا استعمال پہلے ہی پاکستان کے سب سے اہم سماجی مسائل میں سے ایک ہے ، جو ملک کی آبادی کے ایک بڑے تناسب کو متاثر کرتا ہے ۔
2017 ء کی ملک گیر مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق ، پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے ، جس میں 30 فیصد سے زیادہ15 سے 29 سال کی عمرکے افراد ہیں۔ ایسے ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلہ لینے والے طلبا میں منشیات کی لت ایک انتہائی تشویشناک امر ہے ۔
ہر سال ، پانچ لاکھ افراد پاکستان کی منشیات کے عادی افراد کی فہرست میں شامل ہوتے ہیں ، جن میں سے زیادہ تر 18 سے 25 سال کی عمر کے ہوتے ہیں ۔ سروے کے نتائج کے مطابق ، پاکستان میں ہر 10 میں سے ایک یونیورسٹی کا طالب علم منشیات کا استعمال کرتا ہے ، لیکن قابل اعتماد اعدادوشمار کی کمی اس بات کا تعین کرنا مشکل بناتی ہے کہ اس وبا نے ان تعلیمی اداروں میں کس حد تک دراندازی کی ہے ۔ ملک بھر میں مختلف اقسام کی منشیات دستیاب ہیں ، جیسے کوکین ، حشیش ، ہیروئن ، افیون ، بھنگ اور کرسٹل۔ ان تمام منشیات کے خطرناک اثرات اور نتائج کے باوجود ، نشے کے عادی افراد میں ہر سال 40 ہزار کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے ، ( وزارت نارکوٹکس کنٹرول2009)15 سے 64 سال کی عمر کے تقریباً 30لاکھ پاکستانی روزانہ ہیروئن استعمال کرتے ہیں ، جن میں بھنگ کے تقریباً پانچ ملین صارفین چرس پر انحصار کرتے ہیں ۔ مختلف عمروں کے لوگ ان کا استعمال کرتے ہیں تاہم خواتین صارفین کم ہیں ۔ نوعمروں میں منشیات کا رخ کرنے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے۔
منشیات سے وابستہ پیچیدگیوں کی وجہ سے ہر روز سات سو اموات ہوتی ہیں۔عصرِ حاضر میں تعلیمی اداروں میں منشیات کا آزادانہ میسر آنا اور ان کا طلبا کی جانب سے استعمال ایک لمحہ فکریہ ہے۔ عموماً طلبا کو پیشہ ورانہ تعلیمی دور کے ابتدائی سالوں میں ذہنی دبائو کا سامنا رہتا ہے اور ایسے میں منشیات کی تعلیمی اداروں میں موجودگی، طلبا و طالبات میں منشیات کے استعمال کو خطرناک حد تک فروغ دے رہی ہے۔ تعلیمی اداروں کے لیے یہ ایک چیلنج ہے کہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے اور تدریسی عمل کو محفوظ ماحول میں جاری رکھنے کے لیے مئوثر حکمتِ عملی اپنائیں ۔
نوجوان طلبا اکثر ساتھی طلبا کے دبائو کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ طلباء خود کو دوستوں کے گروہ سے منسلک رکھنے کے لیے تفریحاً منشیات کا تجربہ کرتے ہیں۔ دورِ حاضر میں رائج مقابلے کی فضا اور خود سے وابستہ توقعات ،طلبا کے نا پختہ ذہنوں پر شدید دبائو ڈالتے ہیں۔یہ ذہنی دبائو اور اعصابی تنائو طلبا کو منشیات کی پناہ لینے پر مجبور کر سکتے ہیں ۔
بہت سے طلبا منشیات کی لت سے وابستہ خطرات سے ناواقف ہیں ، جس کی وجہ سے وہنشیکاشکار ہو جاتے ہیں ۔ ناکافی ریگولیٹری فریم ورک اور تعلیمی اداروں کے اندر ناکافی نگرانی کی وجہ سے منشیات کی آسان دستیابی مسئلے کو مزید خراب کرتی ہے ۔ ذہنی صحت کے غیر حل شدہ مسائل طلبا کو منشیات کے استعمال کی طرف لے جا سکتے ہیں ۔
اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے مختلف اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرتے ہوئے ایک فوری جامع حکمت عملی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ سرکاری اداروں ، تعلیمی اداروں اور غیر سرکاری تنظیموں کو مل کر وسیع پیمانے پر بیداری کے پروگرام بنانے چاہئیں جو طلبا کو نشہ آور اشیاء کے استعمال کے خطرات اور صحت پر اس کے اثرات کے بارے میں آگاہ کریں۔ اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو ایسے مشاورت کے مراکز قائم کرنے چاہئیں جو طلبا کو ان کے خدشات پر تبادلہ خیال کرنے ، مدد حاصل کرنے اور ذہنی تنائو کو قابو کرنے کی مؤثر طریقے سیکھنے کے لیے ایک محفوظ ماحول فراہم کریں ۔تعلیمی اداروں کے اندر منشیات کی فروخت اور تقسیم کو روکنے کے لیے ضوابط کو سختی سے نافذ کرنا ضروری ہے ۔تدریسی اور حفاظتی عملے کو مشکوک رویے کو پہچاننے اور رپورٹ کرنے کی تربیت دی جانی چاہیے۔ نشے کی روک تھام میں والدین اہم کردار ادا کرسکتی ہیں ۔ ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جانا چاہیے تاکہ والدین کو نشہ آور اشیاء کے استعمال کی علامات اور اپنے بچوں کے ساتھ مئوثر رابطہ قائم کرنے کے بارے میں تعلیم دی جا سکے ۔اداروں کو تربیت یافتہ ماہر نفسیات اور مشیروں کی خدمات حاصل کرکے ذہنی صحت کو ترجیح دینی چاہیے جو جذباتی مشکلات میں مبتلا طلبا کی شناخت اور مدد کرنے کے قابل ہوں ۔ پہلے سے ہی نشے سے نبردآزما طلبا کے لیے ، نشے کے استعمال پر قابو پانے میں پیشہ ورانہ مدد فراہم کرنے کے لیے قابل رسائی بحالی کے پروگرام دستیاب ہونے چاہئیں ۔ سب سے ضروری اور فوری عملدرآمد یہ ہے کہ نشے کی لت میں مبتلا طلبا کی حقیقت کو صیغہ راز میں رکھتے ہوئے اعتماد میں لیا جائے تاکہ انکے علاج کا فوری بندوبست کیا جائے۔
بہت سے طلبا ذہنی تنائو دور کرنے کی خواہش میں منشیات کے خطرات اور ان کے مضر اثرات سے لاعلمی کے باعث پہلے پہل تو منشیات سے تجربہ کرتے ہیں۔ لیکن جب تک سمجھ آتی ہے تو بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ نشہ آور اشیاء کا استعمال تعلیمی زوال ، ذہنی صحت کے مسائل اور طویل المدتی منفی نتائج کا باعث بن سکتا ہے ۔
غیر نصابی سرگرمیوں میں شرکت کی حوصلہ افزائی طلبا کے ذہنی تنائو کو کم کرنے کے لیے صحت مند راستے فراہم کر سکتی ہے۔ کھیلوں ، کلبوں اور فنون لطیفہ کے پروگراموں میں شامل ہونے سے منشیات کے استعمال کے امکانات کم رہ جاتے ہیں ۔
تعلیمی اداروں کو منشیات کے استعمال کے حوالے سے واضح پالیسیاں قائم کرنی چاہئیں ۔ ان میں تعزیری اقدامات کے بجائے تعلیم اور بحالی پر زور دیتے ہوئے منشیات رکھنے اور اس کے استعمال سے بالآخر ہونے والے تباہ کن نتائج کا خاکہ پیش کیا جانا چاہیے۔
مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ شراکت داری اسکولوں کے قریب منشیات کی فراہمی کو روکنے میں مدد دے سکتی ہے ۔ تعلیمی اداروں میں تدارکِ منشیات سے متعلق، پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کی جانب سے مہم برائے آگاہی کا انعقاد طلبا کو منشیات جیسی برائی سے دور رہنے میں مدد دے سکتا ہے۔
بنیادی وجوہات کو حل کرکے اور جامع حکمت عملیوں کو نافذ کرکے ، ہم ایک ایسے ماحول کو فروغ دے سکتے ہیں جہاں طلبا ذاتی طور پر نشے کے چنگل سے پاک ہو سکتے ہیں۔ یہ ایک اجتماعی فرض ہے جس میں سرکاری ایجنسیاں ، تعلیمی ادارے ، والدین اور سماج شامل ہیں کہ وہ نوجوان نسل کی فلاح و بہبود کا تحفظ کریں اور ان کے لیے ایک صحت مند زیادہ امید افزا مستقبل کی راہ ہموار کریں ۔
تبصرے