کیادنیا کے کسی ملک میں یہ ممکن ہے کہ ملک کے خلاف سازشیں ہورہی ہوں اور فوج آنکھیں بند کرکے بیٹھی رہے؟
ملک کودرپیش چیلنجزسے نمٹنے کے لیے پوری قوم پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے
پاک فوج مصیبت کی ہرگھڑی میں قوم کے کام آئی
ہماری بہادر افواج بھارت اورافغانستان دونوں سرحدوں کی بیک وقت حفاظت کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں۔
پاک فوج کے افسراور جوان فتنہ الخوارج کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانیں قربان کررہے ہیں۔
سیلاب ہویازلزلہ یاکوئی بھی آزمائش پاک فوج ہمیشہ قو م کی مددکے لیے آگے آئی۔
وطن عزیزکودرپیش اندرونی وبیرونی خطرات میں پاک فوج کے کردار کونظراندازنہیں کیاجاسکتا۔پاک فوج کی قربانیوں اورکوششوں کے باعث ہی ہم محفوظ ہیں اورآزاد فضائوںمیں سانس لے رہے ہیں۔ہمیں اس وقت کئی قسم کے خطرات درپیش ہیں ان میں سے کچھ اندرونی اورکچھ بیرونی ہیں۔پاکستان کوجتناخطرہ باہرسے ہے اس سے کہیں زیادہ اندرموجود دشمنوں سے ہے۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ پاکستان کوکمزور کرنا، انتشار اورعدم استحکام پیدا کرنااس کی پالیسی کاحصہ ہے۔ایک نیاخطرہ اب افغانستان کی جانب سے ہے۔طالبان حکومت کاافغانستان پرکنٹرول کمزورہوتاجارہاہے،کچھ وہ اپنی پالیسیوں میں غیر یقینی کاشکارہیں۔فتنہ الخوارج،داعش اوربعض بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں نے افغانستان میں اپنے بیس کیمپ بنالیے ہیں،جنھیں بھارتی خفیہ ایجنسی را چلارہی ہے۔یوںفتنہ الخوارج،کالعدم پشتون تحفظ موومنٹ،مجید بریگیڈ، بلوچ لبریشن آرمی سمیت بہت سے دہشت گرد گروپوں کاآپس میں تعاون بھی ثابت ہوگیاہے۔بہر طور ہماری مسلح افواج پوری جانفشانی سے فتنہ الخوارج کے خلاف نبردآزما ہیں۔پاکستان میں شدت پسندی اوردہشت گردی کے واقعات میں جو اضافہ ہواہے،یہ محض اتفاق نہیںبلکہ ایک گہری سازش کاحصہ ہے۔ فتنہ الخوارج کامقابلہ کرتے ہوئے پاک فوج کے کئی جوان اورافسرشہیدہوچکے ہیں۔ہمارے دشمنوں کی کوشش ہے کہ پاکستان کوبھارت اور افغانستان کے درمیان سینڈوچ بنادیاجائے۔ دشمن نہیں جانتاکہ ہم دونوں محاذوں کادفاع کرنے کی صلاحیت اورحوصلہ رکھتے ہیں۔ہمیں اس بات کوذہن میں رکھناچاہیے کہ ہمارے دشمنوں کی کوشش تھی کہ پاکستان کوشام ،لیبیا اورعراق بنادیاجائے۔کئی سازشیں ہوئیں لیکن پاک فوج نے ان تمام سازشوں کوناکام بنادیا۔
ملک کے اندرموجود بعض عناصرسیاست کے نام پرعدم استحکام پیداکرنے کی کوشش کررہے ہیں اوردوسری طرف اداروں کوبدنام کرنے کے لیے سوشل میڈیا کاغلط استعمال کیاجارہاہے۔یہ عناصرعوام اوراداروں کے درمیان دوریاں پیداکرنے کاخطرناک کھیل،کھیل رہے ہیں۔ان سب کے ساتھ ساتھ ہمیں ففتھ جنریشن وار فیئرکابھی سامناہے،سوشل میڈیااس ففتھ جنریشن وار فیئرکااہم ہتھیارہے۔دشمن سامنے آنے کے بجائے فرضی ناموں اورجعلی تنظیموں کے ذریعے انتشارپیدا کرنے اورقوم کوتقسیم کرنے کی سازشیں کررہاہے۔جعلی ویڈیوزبنائی جاتی ہیں،آرٹیفیشل انٹیلی جنس کااستعمال کرکے اداروں کے خلاف پوسٹیں لگائی جاتی ہیں۔ ہمارا دشمن اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کومعاشی طورپرنقصان پہنچانے کی کوششیں بھی کررہاہے۔ ہڑتالیں،احتجاج،ملک کودیوالیہ ہونے کی جھوٹی خبریں پھیلاکرقوم میں مایوسی پیداکرنے کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ ان تمام باتوں کامقصدایک ہی ہے کہ پاکستانی قوم میں مایوسی پھیلائی جائے اور پاکستان کوایک ناکام ریاست ثابت کیاجائے۔ ہم جانتے ہیں کہ امن وامان اورسیاسی استحکام کے بغیرمعاشی ترقی ناممکن ہے۔غیرملکی سرمایہ کاری وہیں آتی ہے جہاں امن ہواورسرمایہ دار کویقین ہوکہ اس کاسرمایہ محفوظ رہے گا۔پاک فوج امن وامان کے قیام کے لیے اپنابھرپورکردار اداکررہی ہے۔
کیادنیا کے کسی ملک میں یہ ممکن ہے کہ ملک کے خلاف سازشیں ہورہی ہوں اوراس کی فوج آنکھیں بندکرکے یاہاتھ پرہاتھ دھرے بیٹھی رہے۔ایساممکن ہی نہیں۔ترقی یافتہ ممالک ہوں یاترقی پذیر، ہرملک میں اس کی فورسز ملک وقوم کے لیے اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتاہے کہ کبھی آج کے ترقی یافتہ ممالک بھی ان ہی مشکلات اورپریشانیوں کاشکار تھے جن کاآج ہمیں سامنا ہے۔ان ممالک کی افواج نے اپنے ملک کومشکلات سے نکالنے کے لیے بھرپورکردار ادا کیااورمنتخب جمہوری حکومت کی مدد کی۔ یونانی فلاسفر افلاطون اورارسطوکوکون نہیں جانتا۔دنیا کے ان دوعظیم فلاسفرز نے ریاست اورسیاست کے حولے سے جوکچھ لکھا وہ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں میں آج بھی پڑھایاجارہاہے۔افلاطون کاشاگرد ارسطو تھا اورارسطوکاشاگرد سکندراعظم۔افلاطون اورارسطونے ریاست،سیاست اورجمہوریت کے حوالے سے اس بات کوتسلیم کیاکہ ریاست کے دفاع اورترقی میں فوج کاکردار بہت اہم ہے۔ایتھنزکی جمہوری لیکن غیرمستحکم حکومت کے باعث افلاطون کاخیال تھا کہ جمہوریت ایسے لوگوں کوبھی حکمران بنادیتی ہے جن میں حکومت کرنے کی اہلیت ہی نہیں ہوتی۔اپنی کتاب ریاست میں اس نے اس حوالے سے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔بہرحال یہ ضروری نہیں کہ ان یونانی فلاسفرکے تمام نظریات درست ہوں۔آج کی دنیا کے فلاسفراورسیاست کے ماہرین کے اپنے نظریات ہیں۔
ہمیں جن اندرونی وبیرونی خطرات کاسامنا ہے اس کاتقاضا ہے کہ پوری قوم متحد ہوکران چیلنجز کامقابلہ کرے،اپنے اداروں کومضبوط بنائے۔پاک فوج ہرمیدان میں اپنابھرپورکردار اداکررہی ہے۔ پاکستان میں معیشت کی بحالی اورغیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے وفاقی حکومت اور فوج کے تعاون سے 17 جون 2023 کوایس آئی ایف سی یعنی خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا قیام عمل میں لایا گیا۔وزیراعظم کی صدارت میں ایس آئی ایف سی کے اب تک کئی اجلاس ہوچکے ہیں۔ایس آئی ایف سی کے اجلاس میں آرمی چیف،چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی اورمتعلقہ وزراء شرکت کرتے ہیں۔ ایس آئی ایف سی کی کامیابی میں فوج کے کردار کونظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔ چین،سعودی عرب اورمتحدہ عرب امارات سمیت دوست ممالک اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے منصوبہ بندی کررہے ہیں،کئی منصوبوں کاآغاز بھی ہوچکاہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے قرضوں کے حصول میں بھی پاک فوج نے اہم کردار ادا کیاہے۔ بدقسمتی سے کچھ عرصے سے بعض لوگوں کی طرف یہ پروپیگنڈا کیاجارہاتھاکہ پاکستان خدانخواستہ ڈیفالٹ کرجائے گا۔پاکستان کے لیے قرضوں کی ادائیگی مشکل ہورہی ہے۔ آئی ایم ایف کے اجلاس میں تاخیریا کسی اجلاس کے ایجنڈے میں پاکستان کو قرضوں کی فراہمی کامعاملہ شامل نہ ہوسکے تورائی کاپہاڑ کھڑا کردیاجاتا کہ آئی ایم ایف پاکستان کوقرضہ نہیں دے رہا۔پاک فوج نے دشمنوں کے سارے خواب چکناچورکردیے ہیں۔ سرمایہ کاری سہولت کونسل نے ملک کومعاشی طورپرمضبوط بنانے،ایکسپورٹ میں اضافے اورسرمایہ کاری کے فروغ کے لیے کئی اہم اقدامات کیے ہیں۔آج عالمی معاشی ادارے پاکستان کے بارے میں مثبت رپورٹس دے رہے ہیں،پاکستان کوابھرتی ہوئی معیشتوں میں شامل کیاجارہاہے۔ میں اس سے پہلے ایک مضمون میں عالمی معاشی اداروں کے حوالے سے لکھ چکاہوں جنہوں نے پیشنگوئی کی ہے کہ اگلے چند برسوں میں پاکستان دنیا کی ایک بڑی معیشت ہوگا۔ہمارا درست سمت میں معاشی سفرجاری رہاتو پاکستان آج کے کئی ترقی یافتہ ممالک کوبھی پیچھے چھوڑ جائے گا۔ یہ کسی دیوانے کاخواب نہیں بلکہ عالمی اداروں اورمعاشی ماہرین کی رائے ہے۔ایس آئی ایف سی کاہدف ہے کہ اگلے چند سال میں 48سے 100 ارب ڈالر تک کی غیرملکی سرمایہ کاری حاصل کی جائے۔اس میں کافی حد تک کامیابی ملی ہے۔ چین کی سب سے بڑی الیکٹرک گاڑیوں کی کمپنی بی وائے ڈی نے مقامی کمپنی کے اشتراک کے ساتھ پاکستان میں جدید الیکٹرک گاڑیاں بنانے کے لیے سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔پاکستان میں الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری ایک انقلابی قدم ہوگا۔ خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کے تعاون سے 10 ارب ڈالرز سے زائد کی سرمایہ کاری سے نئی آئل ریفائنری کے قیام کے معاہدے پر بھی دستخط ہو چکے ہیں۔ چینی کمپنیوں کے تعاون سے پاکستان کے صحرا سرسبز کھیتوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔گرین پاکستان انیشی ایٹو صحرائے چولستان میں زراعت کی بحالی پر خصوصی توجہ دے رہا ہے۔ اس منصوبے میں چین سے درآمد کی جانے والی سمارٹ زرعی مشینری متعارف کرائی گئی ہے۔پاک فوج کے تعاون سے شرو ع کیے جانے والے منصوبوں کو مقامی کسانوں اورزمینداروں کی طرف سے بہت سراہاگیاہے جس سے ان کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا ہے اورآمدنی بھی بڑھی ہے۔پاکستانی کمپنیاں چینی شراکت داروں کے تعاون سے صحرائی علاقوں میں زراعت کو فروغ د ے رہی ہیں، 4500 ایکڑ رقبے پر کاشتکاری کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ چین پاکستان زرعی تعاون اورمنصوبوں سے نہ صرف ہماری زراعت تیزی سے ترقی کررہی ہے بلکہ فی ایکڑ پیداوار اورزرعی اجناس کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا ہے۔زراعت کی ترقی،معیشت کی بحالی میںفوج کے مثبت کردار کوکسی صورت نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔سی پیک منصوبوں سے خطے میں بڑی تبدیلی آرہی ہے خاص کرگودار پورٹ اورگوادر ائیرپورٹ مکمل ہونے کے بعد ترقی کے نئے راستے کھل گئے ہیں۔ساراسال گرم پانی ہونے کی وجہ سے گوادر پورٹ دنیا بھرکی تجارتی نقل وحمل کے لیے اہم بندرگاہ بن جائے گی۔اس سے سنٹرل ایشیاتک کے ممالک فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
سی پیک پاکستان اور چین کی کئی دہائیوں پرمحیط دوستی،اسٹرٹیجک تعاون اورایک دوسرے پراعتماد کامظہرہے۔ سی پیک کاپہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد دوسرے مرحلے پرکام جاری ہے۔ یہ گیم چینجرمنصوبہ ہے،اس کے مکمل ہونے کے بعد نہ صرف پاکستان ترقی کرے گا بلکہ خطے کی قسمت بھی بدل جائے گی۔ چین اورپاکستان دونوں ممالک چاہتے ہیں کہ تمام منصوبوں کوجلد ازجلد مکمل کیاجائے،لیکن دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ بعض ممالک کوچین اورپاکستان کایہ تعاون پسند نہیں، دہشت گرد تنظیموں کی مدد سے پاکستان میں چینی مہمانوں کونشانہ بنایاجارہاہے۔ حکومت نے چینی باشندوں کی حفاظت کے لیے سخت انتظامات کیے ہیں جس کے باعث چینی باشندوں اورماہرین کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے،اس کے باوجود اکادکا واقعات کے باعث ہمیں اپنے چینی مہمانوں کے آگے شرمندگی کاسامناکرناپڑتاہے۔ایساہی ایک واقعہ 6اکتوبر کو کراچی میں پیش آیاجہاں دہشت گردوں نے خود کش حملے میں چینی بھائیوں کونشانہ بنایا۔ پاک فوج اوردیگرفورسز چینی باشندوں کی حفاظت کے لیے تمام اقدامات اٹھارہی ہیں ،مجھے یقین ہے کہ اب اس قسم کی بزدلانہ دہشت گرد کارروائیوں کاخاتمہ ہوگا۔
سی پیک کے دوسرے مرحلے میں زراعت و صنعت کوخاص طورپرشامل کیا گیا ہے۔ ملک کے زرعی اور صنعتی شعبے میں ترقی کے لیے معیاری پیداواری صلاحیت کو بہتر بنایا جائے گا۔ پاکستان کی انٹرنیشنل انوویشن پارک لمیٹڈ اور چائنا نیشنل سیریلز، آئلز اینڈ فوڈ سٹفس کے درمیان معاہدے کے تحت بہت سی پاکستانی مصنوعات کو عالمی مارکیٹ تک ڈیوٹی فری رسائی ملے گی۔ اس معاہدے کے تحت پاکستان پاک چین فری ٹریڈ ایگریمینٹ کے ذریعے یورپی یونین، برطانیہ اور چین سمیت بڑی عالمی معیشتوں تک تجارتی معاہدوں کی بنیاد پر رسائی حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسٹائل کے شعبے میں تعاون بڑھانے کے لیے 200 ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں ڈیجیٹل تبدیلی اور سپلائی چین کی اصلاح کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے جاچکے ہیں ۔ چینی کمپنیوں کا پاکستان میں اپنی مصنوعات تیار کرنے کے لیے پاکستانی فرموں کے ساتھ مل کر کام کرنا ایک اہم سنگ میل ہے۔سی پیک کے دوسرے مرحلے میں صنعتی اور زرعی تعاون کے ذریعے مثبت نتائج حاصل ہوںگے اور معاشی ترقی کی راہ ہموار ہو گی۔ان تمام معاہدوں میں پاک فوج کے کردار کونظراندازنہیں کیاجاسکتا۔
ایک اوربڑا چیلنج اُن ممالک کی جانب سے بھی ہے جوپاک چین اسٹرٹیجک تعاون اورسی پیک منصوبوں سے خوفزدہ ہیں۔بعض ممالک سمجھتے ہیں کہ پاک چین منصوبوں سے خطے میں طاقت کاتوازن چین کے حق میں ہورہاہے۔ مغربی میڈیا میںکچھ دانشوروں کی طرف سے یہ تک کہاگیاکہ دنیادو بلاکوں میں تقسیم ہورہی ہے، ایک طرف امریکہ اوریورپی ممالک ہیں تودوسری طرف چین اورروس ہیں۔پاکستان کوچین اورمغربی بلاک میں سے کسی ایک کاانتخاب کرناپڑے گا۔ ہمارے لیے بہترین یہی ہے کہ چین کے ساتھ ساتھ امریکہ اوریورپی ممالک کے ساتھ بھی دوستانہ تعلقات قائم رکھے جائیں جس طرح سعودی عرب،متحدہ عرب امارات،ترکی،ایران اورقطرسے اچھے تعلقات ہیں۔مذہبی انتہاپسندی بھی پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔بعض تنظیمیں فرقہ پرستی اورمذہب کی آڑمیں غیرملکی ایجنڈے کوآگے بڑھانے کی کوششیں کررہی ہیں،بدقسمتی سے بہت سی فرقہ پرست تنظیموں کی ڈوریں بھی بیرون ملک سے ہلائی جارہی ہیں۔ مذہبی انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے پاک فوج نے جوکردار ادا کیاہے اسے نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔
قوم پرجب بھی کوئی آزمائش یاآفت آئی، چاہے وہ سیلاب کی شکل میں ہویازلزلہ کی صورت میں، پاک فوج نے اپنابھرپور کردار ادا کیا۔ لاکھوں لوگوں کی جانیں بچائیں۔ یہ سب بے لوث جذبے کے تحت کیاگیا۔کبھی ایسا نہیں ہوا کہ بلوچستان کے کسی دوردراز علاقے یاخیبرپختونخوا کے کسی علاقے میں جہاں پہنچنابھی مشکل ہوتاہے پاک فوج کے دستے سویلین کی مدد کے لیے نہ پہنچے ہوں۔ پاک فوج مصیبت کی ہرگھڑی میں قوم کے کام آئی اورلوگوں کی جانیں بچائیں۔2005 کازلزلہ جس میں 86ہزار سے 88ہزار تک افراد جاں بحق اورلاکھوں زخمی ہوئے،پاک فوج نے ایک بہت بڑا ریلیف آپریشن شروع کیا۔ملبے تلے پھنسے زخمیوں کواسپتالوں میں منتقل کیا،عارضی خیمہ بستیاں آباد کیں،جہاں زلزلے سے متاثرہ افراد کورکھاگیا۔ زلزلہ متاثرین کی بحالی کاکام کئی ماہ تک دن رات جاری رہا۔ افواج پاکستان اورسویلین اداروں نے زبردست کردار ادا کیا۔
پاکستان کو خطرہ مشرقی سرحد پر روایتی دشمن بھارت کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد پر سرگرم خوارج اور القاعدہ کے دہشتگردوں کے علاوہ بلوچ علیحدگی پسندگروپوں سے بھی ہے۔ اس تبدیلی کو مدنظر رکھتے ہوئے مغربی سرحد پر تعینات فوجیوں کی تعداد بھی بڑھائی گئی جو کبھی نہ ہونے کے برابر ہوا کرتی تھی۔پاک فوج روایتی جنگ کے ساتھ ساتھ غیرروایتی جنگ کامقابلہ کرنے کے لیے بھی تیارہے۔اس حوالے سے قومی سطح پرمکمل اتفاق رائے پایا جاتاہے۔چیلنج چاہے انڈیا کی طرف سے ہویاافغانستان کی طرف سے، پوری قوم پاک فوج کے ساتھ سیسہ پلائی دیوارکی طرح کھڑی ہے۔
پاکستان اوربھارت کے درمیان 1948ء 1965ء 1971ء اورکارگل میں جنگیں ہوچکی ہیں۔ ان جنگوں میں پاکستان نے اپنے سے کہیں بڑے دشمن کوہمیشہ دھول چٹائی ہے۔ہمارے جوانوں نے بہادری کی نئی داستانیں رقم کی ہیں،جس کااعتراف دشمنوں نے بھی کیاہے۔ان جنگوں کے علاوہ بھی بھارت نے جب بھی سرحدی خلاف ورزیاں کیں یالائن آف کنٹرول کوعبورکرنے کی کوشش کی پاک فوج نے اسے منہ توڑجواب دیا۔ بھارت کی جانب سے جنگ کاخطرہ ہمیشہ موجود رہاہے۔بھارت کے جارحانہ عزائم کے باعث پاکستانی افواج کے لیے ممکن نہیں کہ وہ اس دشمن کونظرانداز کریں،خاص کربھارتی وزیراعظم نریندرمودی کی ہندوتواپالیسیوں نے جنوبی ایشیاکی سلامتی کوداؤپرلگایاہوا ہے۔
مقبوضہ کشمیر کی آزادی اورپاکستان میں شمولیت بھی ہمارے لیے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔اقوام متحدہ کی قراردادوں اورہزاروں جانیں قربان کرنے کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام کوبھارت سے نجات نہیں مل سکی۔عالمی برادری نے بھی اپنے معاشی اورسیاسی مفادات کے باعث چپ سادھی ہوئی ہے اوربھارت کے خلاف کوئی عملی اقدام اٹھانے کے لیے تیارنہیں۔خطے میں پائیدارامن اورتباہ کن جنگ سے بچنے کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل لازمی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی آزادی صرف بیانات اورتقریروں سے ممکن نہیں،جب تک ہم پاکستان کومعاشی اوردفاعی اعتبارسے مزید طاقتورنہیں بنائیںگے، دنیاہماری بات نہیں سنے گی۔معاشی اوردفاعی لحاظ سے بھارت سے زیادہ طاقتورپاکستان ہی مقبوضہ کشمیر کوآزادی دلواسکتاہے۔غزہ پراسرائیلی مظالم اوربعض ممالک کے دوہرے معیارسے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ طاقتورکی آوازہی سنی جاتی ہے۔
ان تمام چیلنجزسے نمٹنے کے لیے ہمیں اسی جذبے کی ضرورت ہے جوآزادی کے وقت اس قوم میں موجود تھا۔ذاتی مفادات سے بالاترہوکرصرف اورصرف پاکستان کے لیے سوچیں۔اپنے سیاسی،مذہبی،فقہی،لسانی اورہرقسم کے تعصب کوایک طرف رکھ دیں۔اس قومی جذبے کے ساتھ ہم پاک فوج کے شانہ بشانہ اپنے اندرونی اوربیرونی دشمنوں کوشکست دے سکتے ہیں اورملک کوترقی کی راہ پرگامزن کرسکتے ہیں،پاکستان کامستقبل روشن ہے اوردنیاکے غیرجانبدار معاشی وسماجی ماہرین یہ بات تسلیم کرتے ہیںکہ جتنے وسائل اورصلاحیتیں پاکستانی قوم کے پاس ہیں اگرہم صحیح سمت میں جدوجہد کریں توپاکستان آئندہ چند برسوں میں دنیاکے پانچ بڑے ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوسکتاہے۔
تبصرے