نومبر 1947ء کا کربناک عشرہ ،جب لاکھوں مسلمانان جموں کا قتل عام ہوا
کشمیریوں کے لیے نومبر ایسا بدقسمت مہینہ ہے کہ جب 1947ء میں اس ماہ کے دوران اسلام اور پاکستان سے محبت کے جرم میں ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ کی فوج اور ہندو انتہا پسند آر ایس ایس ودیگر مقامی و غیر مقامی مسلح جتھوں کے بے ہنگم ہجوم اور خفیہ طور پر بھارتی حکمران جواہر لال نہرو کے حکم پر پیرا ملٹری فورسز کے دستوں نے جموں کے علاقوں میں صرف 2 ہفتوں کے دوران 4لاکھ کے لگ بھگ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔
جموں وکشمیر کے دنیا بھر میں مقیم کشمیری اور جموں وال مسلمان نومبر 1947 ء کے اس وحشیانہ،سفاکانہ قتلِ عام کی یاد میں ہر سال 6 نومبر کو یوم شہدائے جموں مناتے چلے آرہے ہیں اور جموں کے شہداء کے ورثا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے عظیم شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
قارئین کرام نومبر1947 ء کے یہ افسوسناک واقعات اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور کانگریسں کی اس ہندو توا پالیسی کا نتیجہ ہیں جو انھوں نے تقسیم برصغیر سے قبل ہی بنائی تھی اور پاکستان بننے کو اپنی ناکامی قرار دیتے ہوئے اکھنڈ بھارت کے نظریے کو پروان چڑھانے کا عندیہ دیا۔
تقسیم ہند کے اعلان اور دنیاکے نقشے پر مدینہ منورہ کے بعد دوسری اسلامی ریاست پاکستان کا معرض وجود میں آنا ہی ہندو توا کی موت ہے اور اسی بنا پر ہندوستانی مسلمانوں پر ظلم وتشدد شروع کردیا گیا، ان کی جان ومال، عزت و آبرو محفوظ نہیں رہی، لاکھوں ہندوستانی مسلمانوں کو ہجرت کے وقت نہایت بے رحمی کے ساتھ شہید کیا گیا، اکتوبر میں ہندوؤں اور ڈوگروں نے جموں و کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام کا منصوبہ بنایا اور اس سازش کا علم جب مظفرآباد، پونچھ اور میرپور کے مسلم زعما کو ہوا تو انھوں نے ایک فیصلہ کن جنگ آزادی کا فیصلہ کیا اور مظفرآباد میں صوبہ سرحد(خیبر پختونخوا )کے قبائلی مجاہدین نے 22 اکتوبر کو اللہ اکبر کے نعروں کی گونج میں یلغار کردی۔ اہلیان مظفرآباد بشمول وادیِ نیلم اور وادیِ جہلم ،کرناہ ، اوڑی تا سری نگر بھی عوام نے جہادکی صدا بلند کرکے 23 اکتوبر تک ڈوگرہ کو سری نگر سے آگے بھگا دیا۔ یکایک پونچھ کے غیور عوام اور جموں سے ملحقہ میرپور و بھمبر کے مسلمانوں نے بھی لاٹھیوں، کلہاڑیوں، تلواروں اور پتھروں کی مدد سے ڈوگرہ کی افواج کا صفایا کیا اور 24 اکتوبر کو ایک انقلابی حکومت جس کا نام آزاد ریاست جموں وکشمیر رکھا گیا، قائم ہوگئی جس کے پہلے سربراہ غازی ملت بیرسٹر سردار محمد ابراہیم خان مقرر ہوئے، یہ صورتحال بھارت اور ڈوگرہ کے لیے خلاف توقع تھی کیونکہ وہ تو مظفرآباد اور پونچھ میں مسلمانوں کی اکثریت ختم کرنے کے لیے قتل عام کا منصوبہ بنا چکے تھے لہٰذا انقلابی حکومت کے قیام کے بعد ڈوگرہ اور بھارتی حکومت نے جموں کو سازشوں کا گڑھ بنا لیا کیونکہ وہاں اس وقت ہندو 39 فیصد تھے جبکہ ویلی میں محض 2 فیصد، جبکہ 98 فیصد مسلم آبادی تھی۔
اب جموں سے مسلم اکثریت کو ختم کرنا تھا تاکہ ہندو آباد کاری کرکے پورا جموں وکشمیر واپس حاصل کیا جاسکے، یہ مذموم عزائم کشمیر سے معزول کیے گئے مہاراجہ ہری سنگھ کے تھے اور وزیراعظم ہند جواہر لال نہرو اسکی پشت پر تھا اور طے ہوا کہ نومبر کے پہلے ہفتے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کاٹ کر شہید کرنا ہے اور پھر اس واقعے میںمسلمانوں کی ایک بڑی تعداد جو دو سے چار لاکھ کے قریب ہے ،کو شہید کر دیا گیا تھا اور 5 لاکھ کے قریب مسلمان جموں سے ہجرت پر مجبور کر دیے گئے تھے۔ جموں کے قتل عام کی اصل تعداد ابھی تک نامعلوم ہے کیونکہ سرکاری ریکارڈ نے مسلمانوں کے قتل عام کی تفصیلات کو دبانے کی پوری کوشش کی ہے۔ مگر یہ تعداد لاکھوں میں تھی ، قتل عام کے ان سفاکانہ واقعات کے نتیجے میں جموں میں مسلمان اکثریت سے اقلیت میں آ گئے جو واقعہ سے پہلے کل آبادی کا 61فیصد تھے ۔
ان سب افسوسناک واقعات سے قبل جموں وکشمیر کے معروضی حالات مسلمانوں کے حق میں جاری تھے جو بھارتی حکمرانوں اور کانگریس کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔
تقسیم ہند سے قبل 3 جون 1947 ء کو پاکستان کے قیام کا اعلان ہوا تو اسلامیہ جموں و کشمیر نے بے حد خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ 19 جولائی 1947 ء کو مسلمانان کشمیر کی مسلمہ قیادت سری نگر میں اکھٹی ہوئی اور سردار ابراہیم خان کے گھر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے ریاست کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد متفقہ منظور کی ، 14 اگست کو پاکستان بننے کا اعلان ریڈیو پر سنا گیا تو اگلے ہی روز 15 اگست 1947 ء کو ریاست کے ہر شہر اور قصبہ میں کشمیریوں نے خوب جشن منایا اور چراغاں کیا گیا۔جموں اور سرینگر میں پاکستان کے شیدائیوں نے جلوس نکالے اور " نعرہ تکبیر، اللہ اکبر " " نعرہ رسالت ۖ ، محمد رسول ۖ پاکستان زندہ باد " اور "قائد اعظم زندہ باد " اسلام زندہ باد ، ''پاکستان سے رشتہ کیا لا الہ الا اللہ "کے نعروں کے علاوہ "کشمیر بنے گا پاکستان " کے نعرے بلند کیے۔ اس جوش و خروش کو دیکھ کر ہندو اور ڈوگرہ حکومت لرز گئی اور اس نے مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا۔ کیونکہ ڈوگرہ کی مظفرآباد اور پونچھ میں قتل عام کا منصوبہ، اللہ نے ناکام کردیا تھا اب یہ ڈر چکے تھے کہ کہیں جموں میں بھی پختون قبائلی مجاہدین کیذریعے پونچھ، میرپور اور مظفرآباد کے مقامی مجاہدین داخل ہو کر مسلم بھائیوں کی داد رسی نہ کرلیں، چنانچہ قتل عام منصوبہ کے تحت جموں کے علاقوں اودھم پورہ ، ریاسی ، کھٹوعہ، رام سو، رام نگر، یانیہ اورکوٹلی غرض یہ کہ ہر قصبے کو مسلمانوں کے خون سے رنگ دیا گیا۔ ہزاروں سادہ لوح دیہاتی وشہری باشندوں کو دھوکے اور فریب سے گھروں سے باہر نکال کر گولیوں کا نشانہ بنا دیا۔ ہزاروں عفت مآب بچیوں اور خواتین کو اغوا کیا گیا۔ یہ قتل عام اتنی منظم سازش سے ہوا کہ جموں شہر اور سرینگر میں کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی اور یہاں تک کہ جب نومبر کے ابتدائی دنوں میں جموں میں قتل عام ہوا تو سری نگر میں کسی کو علم نہ ہو سکا۔
دراصل یہ سب کچھ صرف ڈوگرہ نہیں بلکہ اسے مہرہ بنا کر کانگریسی حکومت کی ایما پر کیا گیا۔ پرانی دستاویزات سے معلوم ہوا کہ " آچاریہ کر پلانی، جو اس وقت کانگریس کے صدر تھے، نے جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کا حکم دیا تھا اور وزیراعظم ہند پنڈت جواہر لال نہرو کی اسے پوری سپورٹ حاصل تھی جسکا تذکرہ اوائل سطور میں کرچکا ہوں۔ اس وقت صورتحال یہ تھی کہ مسلم کانفرنس کے صدر چودھری غلام عباس اور جناب اے آر سا سرکار پس دیوار زنداں تھے اور مسلم کانفرنس بد قسمتی سے انتشار کا بھی شکار تھی۔ قوم کو صحیح قیادت حاصل نہ تھی اور ریاست کے پاکستان کے الحاق یا آزاد خود مختار رہنے کا مسئلہ بھی منظم سازش کے تحت پیدا ہو چکا تھا۔ جموں کے مقامی مسلم رہنما حالات پر قابو نہ پاسکے تھے کیونکہ جب جموں میں قتل عام ہورہا تھا تو یہ لوگ پاکستان منتقل ہوچکے تھے اور پیش آمدہ مسائل کا اندازہ نہ کر سکے۔
جموں میں ان بحران کے دنوں میں میاں نصیر الدین اور محمد شریف ٹھیکیدار اور منشی معراج الدین احمد نامی معززین نے مسلمانوں کی قیادت کی۔ نوجوانوں کے سرخیل عبدالمجید بٹ تھے۔ جموں میں ہندوئوں کے ظلم و جبر کا مقابلہ نوجوانوں نے جس بہادری اور شجاعت سے کیا اسکی مثال نہیں ملتی۔ جب ہندوئوں اور ڈوگرہ قیادت نے دیکھا کہ مسلمان کسی طور پر ان کے قابو میں نہیں آ رہے اور غلام بن کر رہنے کو تیار نہیں تو انہوں نے پہلے فرقہ وارانہ فسادات کی سازش کی، پھر اعلان کیا کہ مسلمانوں کے لیے پرکشش پیکج ہے ان کے پاکستان جانے کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ۔ اس لیے تمام مسلمان پولیس لائن گرائونڈ جموں میں پہنچ جائیں۔ اس موقع پر میاں نصیر الدین کے گورنر جموں سے مذاکرات بھی ہوئے۔ ان میں یہ طے پایا کہ جموں میں حالات سدھر جائیں تو مسلمان واپس ریاست میں آ جائیں گے، پاکستان کے عشق میں دیوانے مسلمان اپنے آبائو اجداد کی وراثت کو چھوڑ کر پولیس لائن جموں میں صرف چند جوڑے کپڑے اور کچھ زاد راہ لے کر پہنچ گئے یہ لوگ پاکستان زندہ باد کے نعرے بلند کرتے رہے، اس اثنا میں 5 نومبر 1947 ء کو ایک قافلہ تیار کیا گیا۔ مگر اسے چیت گڑھ سیالکوٹ لے جانے کی بجائے کھٹوعہ روڈ پر لے جایا گیا۔ یہاں مسلمان مہاجرین کی بسوں پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا اور ماوا کا مقام مسلمانان جموں کے لیے قتل گاہ بن گیا۔ اس قافلے میں کم از کم 4 ہزار افراد شامل تھے، لیکن شہر میں اس قتل عام کی خبر تک نہ ہوئی۔
دوسرے روز 6 نومبر1947ء کو یہ کہانی پھر دہرائی گئی اس روز 70 ٹرکوں میں لوگوں کو بٹھایا گیا اور اس روز سب سے زیادہ خون بہایا گیا۔ یہ سانحہ ستواری کے علاقہ میں پیش آیا۔
7 نومبر1947 ء کے قافلے میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ان سے "نازیت" کی روح بھی کانپ اٹھی اور شیطان نے بھی اپنا چہرہ چھپا لیا۔ جموں کے معززین کی کثیر تعداد جامِ شہادت نوش فرما گئی۔ ہزاروں بچیوں کو اغوا کر لیا گیا۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ 4 نومبر 1947 ء کو بھارت کے نمائندے کنور دلیپ سنگھ نے مسلمانوں کے وفد کو کہا تھا کہ مسلمانوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ جموں کو خالی کر دیں اور یہاں سے چلے جائیں۔ جب انہیں یہ کہا گیا کہ وہ اپنے وطن کو نہیں چھوڑ سکتے۔ کیا کانگریس کی یہی سیکولر پالیسی ہے؟ تو انہیں کہا گیا کہ اس وقت کانگرس کی یہی پالیسی ہے۔ اس وقت تک شیخ عبداللہ نے ریاستی حکومت کے اختیارات سنبھال لیے تھے۔ مگر ستم یہ ہے کہ سرینگر میں جموں کے حالات کا کسی کو علم نہ ہونے دیا گیا۔بہرحال جموں میں سب کچھ بھارت کی نگرانی میں ہوا۔
جموں کے دیہات میں جو ظلم و ستم ہوا وہ ہندوئوں کی بربریت کا زندہ ثبوت ہے۔ مسلمان فوجیوں کو پہلے ہی غیر مسلح کر لیا گیا تھا اور دیہات کو نذر آتش کرنے کی مہم شروع ہو چکی تھی۔ جموں ، اکھنور ، راجپورہ، چینی ، ریاستی ، کھٹوعہ ، سانبہ، اودھم پور، مسلمانوں کی متقل گاہیں بن گئیں۔ یہی عمل کوٹلی میر پور،بھمبر اور دوسرے علاقوں میں دہرایا گیا۔ مواضعات، بیر نگر، سلنی ، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل اکتوبر کے مہینے میں شروع ہو چکاتھا۔ رد عمل کے طور پر جموں و کشمیر کے لوگوں نے ہتھیار سنبھال لیے اور ڈوگرہ فوج کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔وہ میدان کار زار میں نکل پڑے اور مسلح جدوجہد کا آغاز کر دیا تھا۔ صرف اکتوبر کی بات کی جائے تو 20 اکتوبر 1947ء کو اکھنور کے مقام پر 14 ہزار مسلمانوں کو شہید کیا گیا تھا۔ یہ قتل عام اتنا درد ناک اور خوفناک تھا کہ پنڈت جواہر لال نہرو وزیر اعظم کو کہنا پڑا کہ مجھے دلی افسوس ہے اور اس حادثہ میں حکومت ہند کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر اس وقت کے منصف مزاج راہنماؤں اور صحافیوں نے لکھا تھا کہ یہ بات غلط ہے کیونکہ یہ سب کچھ بھارتی فوج کی نگرانی میں ہوا تھا اور بھارت کی پالیسی کے مطابق خونی ڈرامہ رچایا تھا۔
قارئین! کشمیریوں پر ڈوگرہ اور پھر بھارتی افواج کے مظالم کا سلسلہ سوا صدی سے جاری ہیں۔ اب تک 6 لاکھ سے زائد کشمیری شہید کیے جاچکے ہیں۔ آج جو کچھ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کر رہا ہے وہ بھی کسی فساد سے کم نہیں ہے۔ 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر کو تقسیم کرنے کے ساتھ اسے بھارتی یونین کا حصہ بنانا اسکی الگ پہچان ختم کرنے اور دس سال بعد ریاست میں ڈھونگ انتخابات کروانے جیسے اقدامات ثابت کررہے ہیں کہ بھارتی حکمران اور اسکی اسٹیبلشمنٹ آج بھی ہندو توا کے اس نظریہ پر قائم ہے اور اسی کے ذریعے وہ جموں وکشمیر پر مستقل قبضے کے جتن کررہے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بھارت آج بھی اکتوبر اور نومبر 1947 ء کے فسادات والی سوچ رکھتا ہے جب جموں کی مسلم اکثریت قتل عام کے ذریعے اقلیت میں بدل دی تھی۔ آج بھارت غیر قانونی طور پر جموں وکشمیر میں ہندوئوں کو لاکر بسا رہا ہے اور انہیں جعلی ڈومیسائل بنوا کر ڈیمو گرافی بدلنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ میرواعظ کشمیر مولانا عمر فاروق نے نظر بندی کے بعد عدالتی حکم پر رہائی کے بعد خطبہ جمعہ میں کہا کہ کشمیریوں کا سب کچھ چھین لیا گیا ہے، ہماری خصوصی حیثیت کوختم کردیا، شناخت تک چھین لی ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی زیر قبضہ ریاست جموں وکشمیر میں بھارتی ہندوئوں کو 52 لاکھ ڈومیسائل جاری کردیئے گئے ہیں تاکہ کل بھارت ہندو اکثریت کا دعویٰ کرکے استصواب رائے کا مرحلہ بھی جعل سازی سے جیت جائے مگر یہ اسکی بھول ہے۔ دنیا میں انصاف کے پیمانے موجود ہیں اس لیے بھارت قتل و غارت یا جعلی ڈومیسائل مہم سے جموں و کشمیر کو کبھی حاصل نہیں کر سکے گا۔
مضمون نگار ایک کشمیری صحافی اور تجزیہ نگارہیں جو مظفرآباد سے شائع ہونے والے ایک روزنامہ کے ایڈیٹر ہیں۔
[email protected]
تبصرے