علاقائی امور کے ماہر ، ممتاز صحافی اور تجزیہ نگارعقیل یوسف زئی کی تحریر
ماہ اکتوبر کی پندرہ اور سولہ تاریخ کو پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 23 ویں شنگھائی تعاون کانفرنس کا کامیاب انعقاد کیا گیا جس میں مختلف وفود اور وزرا ئے خارجہ کے علاوہ چین اور روس کے وزرائے اعظم نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی اور کانفرنس کے انعقاد کے بعد تمام مہمانوں سمیت رکن ممالک اور عالمی میڈیا نے نہ صرف یہ کہ پاکستان کے انتظامات اور میزبانی کو آن دی ریکارڈ سراہا بلکہ دو اہم ممالک کے وزرائے اعظم کی شرکت کو غیر معمولی اہمیت بھی دی ۔
کانفرنس میں شرکت کے لیے جب دوست ہمسایہ ملک چین کے وزیر اعظم لی چیانگ ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ہمراہ اسلام آباد پہنچے تو 21 توپوں کی سلامی سمیت شاندار انداز میں ان کا استقبال کیا گیا ۔ یہ کسی بھی چینی وزیر اعظم کا 11 سال بعد پاکستان کا پہلا دورہ تھا اس لیے حکومت پاکستان نے اس دورے کو غیر معمولی پروٹوکول سے نوازا ۔
آتے ہی چینی وزیر اعظم نے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ گوادر انٹرنیشنل ائیرپورٹ کا ورچوئل افتتاح کردیا جس کو اس خطے کے جدید ترین ائیر پورٹ کی حیثیت دی جارہی ہے ۔ وزیر اعظم لی چیانگ نے اپنے وفد کے ہمراہ پاکستان کے وزیر اعظم اور وزرا سے ایک تفصیلی دوطرفہ میٹنگ کی جس میں پاک چین تعلقات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور ان بڑے پروجیکٹس کی تفصیلات ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کی گئیں جو کہ پاکستان میں چین کے تعاون اور پارٹنر شپ سے جاری ہیں ۔
چینی وزیر اعظم نے پاکستان کو اپنا سب سے قریبی اسٹریٹجک پارٹنر قرار دیتے ہوئے کہا کہ سی پیک دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسا عظیم منصوبہ ہے جس کے ذریعے دونوں ممالک کے تعلقات کو ایک نئی سمت ملی ہے ۔ انہوں نے گوادر کو بھی خطے کی ترقی کے لیے اہم ترین قرار دیا اور اسے گیم چینجر پروجیکٹ کا نام دیا ۔
اس موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستان خطے کا اہم ترین ملک ہے اور چین نہ صرف یہ کہ اس اہم ملک کے ساتھ مختلف پروجیکٹس میں پارٹنر بنا ہوا ہے بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات ہر دور میں مثالی رہے ہیں ۔
اس دورے کے دوران پاکستان اور چین کے درمیان ریکارڈ 13 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے گئے ۔ اسی پیشرفت کا فوری نتیجہ ہے نکلا کہ چین نے اس کانفرنس کے صرف ایک ہفتے بعد ریلوے ٹریکس کی تعمیر اور بحالی کے لیے 23 اکتوبر کو تقریباً 6 ارب ڈالرز کے پیکج کا اعلان کیا ۔
چینی وزیر اعظم نے وزیر اعظم شہباز شریف کے علاوہ پاکستان کے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے ساتھ بھی ایک اہم اور تفصیلی ملاقات کی ۔ اس ملاقات میں دونوں شخصیات نے مختلف زیرِ تکمیل پروجیکٹس کی مجموعی صورتحال اور ان کے لیے سکیورٹی کے انتظامات پر بھی تبادلہ خیال کیا جبکہ وزیر اعظم نے پاکستان کے سکیورٹی انتظامات پر اعتماد کا اظہار کیا ۔ اس ملاقات کے دوران وزیر اعظم لی چیانگ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاک فوج کے کردار اور ملنے والی کامیابیوں کی تعریف کرتے ہوئے علاقائی امن و استحکام کے لیے پاکستان اور اس کی افواج کی کارکردگی کو نہ صرف سراہا بلکہ اسے چین کی جانب سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی ۔ اس میٹنگ میں افغانستان کی صورتحال کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دونوں دوست ممالک بعض علاقائی اور عالمی پراکسیز کے باوجود نہ صرف یہ کہ ایک دوسرے کے ساتھ ہرممکن تعاون جاری رکھیں گے بلکہ جاری پروجیکٹس کی تکمیل اور ان کے فوائد پر بھی بھرپور توجہ دیں گے ۔
چینی وزیر اعظم کی واپسی کے بعد بھارتی میڈیا نے شدید واویلا مچایا بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ پاکستان چین کے لیے ایک ناگزیر اتحادی کی حیثیت اختیار کر گیا ہے جس کے باعث بقول بھارتی میڈیا، جہاں ایک طرف پاکستان کی سکیورٹی بہت مضبوط ہوگئی ہے بلکہ پاکستان گوادر اور سی پیک کے ذریعے ترقی کے ایک نئے دور میں بھی داخل ہونے کو ہے ۔ بھارتی میڈیا نے شنگھائی تعاون کانفرنس میں چین اور روس کے وزرائے اعظم کی شرکت کو بہت اہم قرار دیا اور اس کو خطے کی ری ڈیزائننگ کا نام دیا ۔
جس طرح چین کے وزیر اعظم نے پاکستان کے وزیر اعظم اور آرمی چیف ، دیگر اعلیٰ ریاستی شخصیات سے خصوصی ملاقاتیں کیں اسی طرح روس کے وزیر اعظم بھی بہت مصروف رہے اور روسی میڈیا نے بھی اس کانفرنس کو بہت اہم قرار دیا ۔
اس تمام پیش رفت پر تبصرہ کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی نے " ہلال" کو بتایا کہ یہ کانفرنس اس حوالے سے بہت اہمیت کی حامل تھی کہ پاکستان نے ایک سیاسی بحران اور بعض قوتوں کی رکاوٹوں کے باعث نہ صرف اس کی میزبانی کی بلکہ تمام شرکا نے پاکستان کے کردار اور میزبانی کو سراہا بھی۔ گورنر کے بقول پاکستان کو ان سازشوں اور رکاوٹوں کا بخوبی اندازہ اور علم ہے جو کہ بعض اندرونی اور بیرونی قوتیں سی پیک سمیت بعض دیگر اہم پروجیکٹس کے خلاف کرتے آرہی ہیں تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ چین ان چیلنجز کے باوجود کبھی پیچھے نہیں ہٹا اور پاکستان کی بھی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ چینی مفادات اور پاکستان میں کام کرنے والے اس کے شہریوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ۔
ممتاز اینکر پرسن اور تجزیہ کار عادل شاہ زیب نے اپنے تاثرات میں کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا مذکورہ اجلاس نہ صرف یہ کہ بہت اہمیت کا حامل تھا بلکہ اس کی میزبانی پاکستان کے لیے ایک اعزاز کی بات تھی ۔ ان کے بقول یہ بات افسوسناک ہے کہ بعض منفی عناصر نے پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اس ایونٹ کو بھی متنازعہ بنانے کی کوشش کی مگر ریاستی اداروں نے ان کے عزائم کو ناکام بناتے ہوئے غیر معمولی انتظامات کیے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دوسروں کے علاوہ ہمارے حریف بھارت کے میڈیا اور وزیر خارجہ جے شنکر نے بھی پاکستان کی میزبانی کی تعریف کرتے ہوئے اس کا شکریہ ادا کیا ۔ عادل شاہ زیب کے مطابق پروپیگنڈا مشینری کی افواہوں اور مایوسی پھیلانے کے باوجود پاکستان تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگا ہے اور یہ تاثر بھی غلط ثابت ہوگیا ہے کہ پاکستان علاقائی یا عالمی تنہائی کا شکار ہے ۔
تبصرے