اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 01:55
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد یَومِ یکجہتی ٔکشمیر بھارتی انتخابات اور مسلم ووٹر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان سے غیرقانونی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور اس کا پس منظر پاکستان کی ترقی کا سفر اور افواجِ پاکستان جدوجہدِآزادیٔ فلسطین گنگا چوٹی  شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع اور مقامات  عالمی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث بھارتی نیٹ ورک بے نقاب عز م و ہمت کی لا زوال داستا ن قائد اعظم  اور کشمیر  کائنات ۔۔۔۔ کشمیری تہذیب کا قتل ماں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔۔ایک وحشیانہ اقدام ثقافت ہماری پہچان (لوک ورثہ) ہوئے جو وطن پہ قرباں وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں کانووکیشن کا انعقاد  اسسٹنٹ وزیر دفاع سعودی عرب کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  پُرعزم پاکستان سوشل میڈیا اور پرو پیگنڈا وار فئیر عسکری سفارت کاری کی اہمیت پاک صاف پاکستان ہمارا ماحول اور معیشت کی کنجی زراعت: فوری توجہ طلب شعبہ صاف پانی کا بحران،عوامی آگہی اور حکومتی اقدامات الیکٹرانک کچرا۔۔۔ ایک بڑھتا خطرہ  بڑھتی آبادی کے چیلنجز ریاست پاکستان کا تصور ، قائد اور اقبال کے افکار کی روشنی میں قیام پاکستان سے استحکام ِ پاکستان تک قومی یکجہتی ۔ مضبوط پاکستان کی ضمانت نوجوان پاکستان کامستقبل  تحریکِ پاکستان کے سرکردہ رہنما مولانا ظفر علی خان کی خدمات  شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن ہو بہتی جن کے لہو میں وفا عزم و ہمت کا استعارہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار کرگئے جو نام روشن قوم کا رمضان کے شام و سحر کی نورانیت اللہ جلَّ جَلالَہُ والد کا مقام  امریکہ میں پاکستا نی کیڈٹس کی ستائش1949 نگران وزیراعظم پاکستان، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر اور  چیف آف آرمی سٹاف کا دورۂ مظفرآباد چین کے نائب وزیر خارجہ کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  ساتویں پاکستان آرمی ٹیم سپرٹ مشق 2024کی کھاریاں گیریژن میں شاندار اختتامی تقریب  پاک بحریہ کی میری ٹائم ایکسرسائز سی اسپارک 2024 ترک مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے ڈپٹی چیف کا ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں ''اقبالیات'' پر لیکچر کا انعقاد صوبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں مقامی آبادی کے لئے فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد  بلوچستان کے ضلع خاران میں معذور اور خصوصی بچوں کے لیے سپیشل چلڈرن سکول کاقیام سی ایم ایچ پشاور میں ڈیجٹلائیز سمارٹ سسٹم کا آغاز شمالی وزیرستان ، میران شاہ میں یوتھ کنونشن 2024 کا انعقاد کما نڈر پشاور کورکا ضلع شمالی و زیر ستان کا دورہ دو روزہ ایلم ونٹر فیسٹول اختتام پذیر بارودی سرنگوں سے متاثرین کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کمانڈر کراچی کور کاپنوں عاقل ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کوٹری فیلڈ فائرنگ رینج میں پری انڈکشن فزیکل ٹریننگ مقابلوں اور مشقوں کا انعقاد  چھور چھائونی میں کراچی کور انٹرڈویژ نل ایتھلیٹک چیمپئن شپ 2024  قائد ریزیڈنسی زیارت میں پروقار تقریب کا انعقاد   روڈ سیفٹی آگہی ہفتہ اورروڈ سیفٹی ورکشاپ  پی این فری میڈیکل کیمپس پاک فوج اور رائل سعودی لینڈ فورسز کی مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینجز میں مشترکہ فوجی مشقیں طلباء و طالبات کا ایک دن فوج کے ساتھ پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد حق خودرادیت ۔۔۔کشمیریوں کا بنیادی حق استصوابِ رائے۔۔مسئلہ کشمیر کا حتمی حل انتخابات کے بعد کشمیرکی موجودہ صورتحال سالِ رفتہ، جموں وکشمیر میں کیا بدلا یکجاں ہیں کشمیر بنے گا پاکستان آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ ایک شاندار فضائی حربی معرکہ حسینہ واجد کی اقتدار سے رُخصتی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز شائننگ انڈیا یا  ہندوتوا دہشت گرد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل امیدوں، چیلنجز اور کامیابیوں کے نئے دور کا آغاز کلام اقبال مدارس رجسٹریشن۔۔۔حقائق کے تناظر میں اُڑان پاکستان پاکستان میں اردو زبان کی ترویج وترقی امن کی اہمیت مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے میری وفا کا تقاضا کہ جاں نثارکروں ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن بڑھتی ہوئی آبادی، درپیش مسائل اور ان کا حل تھیلیسیمیا سے بچا ئوکیسے ممکن ہے ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا چیلنج سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق - ہلال پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع کردہ ایک موثر سعی لا حاصل کا قانون یہ زمانہ کیا ہے ترے سمند کی گرد ہے مولانا رومی کے افکار و خیالات کشمیر جنت شہید کی آخری پاکستان کا مستقل آئین۔1973 بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا کویت کا سرکاری دورہ بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے بنگلہ دیش کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی ملاقات بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ البرق ڈیژن اوکاڑہ کی طرف سے مسیحی برادری کے لیے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد سیلرز پاسنگ آؤٹ پریڈ پاک بحریہ فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کمانڈر سدرن کمانڈ و ملتان کور کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ خصوصی نشست نمل یونیورسٹی ملتان کیمپس اور یونیورسٹی آف لیہّ کے طلبہ و طا لبات اوراساتذہ کا مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں تقریبِ بزمِ اقبال کاانعقاد ملٹری کالج سوئی میں سالانہ یوم ِوالدین کی تقریب آل پاکستان ایف جی ای آئی ایکسیلنس ایوارڈ کی تقریب 2024ء اوکاڑہ گیریثر ن، النور اسپیشل چلڈرن سکول کے بچوں کے لیے یومِ پاکستان، عزم ِنو کا پیغام 40 ء کا پیمان، 47ء کا جذبہ 2025 کا وَلوَلہ حال و مقام قراردادِ پاکستان سے قیام ِپاکستان تک مینارِ پاکستان: فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ قبائلی علاقوں کی تعمیر نو میں پاک فوج کا کردار ڈیجیٹل حدبندی: انفرادی ذمہ داری سے قومی سا لمیت تک امن کے لیے متحد پاکستان نیوی کی کثیر الملکی مشق اور امن ڈائیلاگ ماہ رمضان اور محافظین پاکستان  نعت شریف سرمایۂ وطن لیفٹیننٹ ارسلان عالم ستی شہید (ستارہ بسالت) شمالی وزیرستان ۔پاک دھرتی کے چنداور سپوت امر ہوئے اے شہیدو تم وفاکی کائنات ہو سرحد کے پاسبان زیرو ویسٹ مینجمنٹ، وقت کی ایک ضرورت پاکستان کے سر کا تاج گلگت  بلتستان ماضی و مستقبل حجاب است ۔ پریشان اور غمگین ہونا چھوڑیے بلوچستان کے ماتھے کا جھو مر زیارت  مایہ ناز انٹرنیشنل ایتھلیٹ نیوٹن اور سائنس رومی اور اقبال کی فلسفیانہ بحث رشتوں کی اہمیت یومِ یکجہتی کشمیر اہل پاکستان کا فقید المثال دن قرار دادِ پاکستان چیف آف نیول سٹاف بنگلہ دیش کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ملاقات  ریاستی سیکرٹری اور نائب وزیر دفاع ہنگری، کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ملاقات  چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورہ سعودی عرب   چیف آف آرمی سٹاف کا دورۂ مظفرآباد  بنگلہ دیش کے چیف آف دی نیول سٹاف کی آرمی چیف سے ملاقات  چیف آف آرمی اسٹاف کا نوجوان طلبا کے ایک اجتماع سے خطاب چیف آف آرمی سٹاف کادورۂ بلوچستان  نویں کثیر الملکی
Advertisements

ہلال اردو

بانگِ درا اور علامہ اقبال کا ذہنی و فکری ارتقا

نومبر 2024

بانگِ درا علامہ اقبال کا اولین اُردو مجموعہ کلام ہے۔یہی وہ شاہکار مجموعہ ہے جو علامہ کی ہمہ گیر شہرت کا سنگ بنیاد بنا۔ بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی عوام میں اسی کی بدولت انہیں لازوال شہرت حاصل ہوئی۔
شرح بانگ درا،یوسف سلیم چشتی، صفحہ(3)
 اردو کے معروف ادیب دانشور اور نقاد شیخ عبدالقادر بانگ درا کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ ''یہ دعوے سے کہا جا سکتا ہے کہ ُاردو میں آج تک کوئی ایسی کتاب اشعار کی موجود نہیں جس میں خیالات کی یہ فراوانی ہو اور اس قدر مطالب و معانی یکجا ہوں اور کیوں نہ ہو ایک صدی کے چہارم حصے کے مطالعے اور تجربے اور مشاہدے کا نچوڑ اور سیر و سیاحت کا نتیجہ ہے۔بعض نظموں میں ایک ایک شعر اور ایک ایک مصرع ایسا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون لکھا جا سکتا ہے۔''
(دیباچہ بانگ درا )
بانگ درا میں اگر ایک طرف مطالعہ فطرت اور مشاہدہ قدرت پر مبنی کیفیات و تاثرات ملتے ہیں تو دوسری طرف حسن و عشق تصوف، تعلیم اخلاق، مقاصد زندگی اور طنزومزاح کی رنگا رنگی بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس میں ہم اقبال کو ایک وطن پرست شاعر کے روپ میں بھی دیکھ سکتے ہیں اور اسلامی شاعر کے روپ میں بھی۔اس میں خوبصورت قدرتی مناظر بھی ہیں تو گہرے فلسفیانہ خیالات بھی، بچوں اور نوجوانوں کے لیے رہنمائی بھی ہے اور معاصر سیاسی پر بے لاگ تبصرہ بھی۔ اس میں امت مسلمہ کی حالت زار کا نوحہ بھی ہے اور اس کے لیے حرکت و عمل کا پیغام اور امید کا سامان بھی ۔اس میں قومی و ملی نظمیں بھی ہیں تو رومان بھی، خیالات بھی۔اس میں طنز و مزاح بھی ہے، غزلیں بھی ہیں، مرثیے بھی ہیں اور رحمت اللعالمین حضورۖ کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کے مہکتے ہوئے مقدس نذرانے بھی۔ بقول مولانا غلام رسول مہراس میں ان کے کمال فکر کی گومگوں گلکاریاں دیکھی جا سکتی ہیں اور حسن خیال اور دل آویزی بیان کے ایسے رنگا رنگ مرقعے کسی دوسری کتاب میں نہیں مل سکتے(مطالب بانگ درا، غلام رسول مہر، صفحہ 3)
بانگ درا اپنے اسی تنوع،رنگا رنگی اور علامہ کی فکر اور شاعری کی ابتدا سے لے کر 1924 ء تک کے طویل عرصے کے کلام پر محیط ہونے کے باعث، اقبالیاتی تحقیق اور فکر و فنِ اقبال کی تفہیم کا اہم ترین ذریعہ قرار پاتی ہے۔فکر و فنِ اقبال کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے اقبال کے فکری و فنی ارتقا کو سمجھنا از حد ضروری ہے اور بانگ درا اس مقصد کے حصول کا ایک اہم ترین ماخذ ہے۔ اس ضمن میں عبدالمجید سالک لکھتے ہیں کہ اس کتاب سے علامہ اقبال کی رفتار فکر اور ان کی شاعری کے ارتقا کا اندازہ بوجہ احسن کیا جا سکتا ہے۔ 
(ذکر اقبال، عبدالمجید سالک، صفحہ 293 )اور بقول مولانا غلام رسول مہرفکر اقبال کے ارتقائی مدارج کا مکمل اور جامع اندازہ بانگِ درا ہی سے ہو سکتا ہے۔
(مطالب بانگ درا غلام رسول مہر صفحہ 3) لہٰذا علامہ اقبال کی شخصیت کو سمجھنے اور مطالعہ فکر اقبال میں بانگِ درا کی اہمیت مسلم ہے اور اسے علامہ اقبال کے فکری و فنی ارتقا کے سمجھنے میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ 
علامہ اقبال نے بانگِ درا کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے 
حصہ اول : ابتدا ء   تا 1905 ئ
حصہ دوم : 1905 ء  تا 1908ئ
حصہ سوم : 1908 ء  تا 1924 ئ
بانگ درا کا بالاستیعاب مطالعہ بتاتا ہے کہ علامہ اقبال نے یہ تقسیم انتہائی سوچ سمجھ کر کی ہے۔ان تینوں حصوں کو واضح طور پر علامہ اقبال کی فکر کے تین ادوار قرار دیا جا سکتا ہے اور ان تینوں ادوار میں ان کی فکر اور شاعری کی خصوصیات کو بآسانی الگ الگ شناخت کیا جا سکتا ہے۔ان تینوں ادوار میں علامہ اقبال کی فکر اور شاعری مسلسل ارتقا پذیر رہی ہے۔ ہندی قومیت سے مسلم قومیت تک اور جغرافیائی وطن پرستی سے امت مسلمہ کے آفاق گیر تصور تک کا یہ سفر دلچسپ بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ 
حصہ اول : ابتدا ء سے 1905 ء تک 
بانگ درا کے پہلے حصے میں ابتدا سے لے کر 1905 ء یعنی یورپ جانے سے پہلے تک کا کلام شامل ہے۔اس دور میں علامہ اقبال پر حبِ وطن اور اتحاد وطن کا جذبہ غالب تھا۔ اس دور کی نظمیں ہمالہ، صدائے درد، تصویر درد، آفتاب، ترانہ ہندی،ہندوستانی بچوں کا گیت  اور نیا شوالہ ان کے ایسے ہی جذبات کی بہترین عکاسی کرتی ہیں۔
اس طر ح نظم ہندوستانی بچوں کا قومی گیت دیکھیے کہ اس دور میں علامہ اقبال  ہندی 
قومیت،ہندوستانی وطنیت اور اتحاد وطن کی بات کس قدر جوش و خروش سے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
چشتی نے جس زمیں میں پیغامِ حق سنایا
 نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
 تاتاریوں نے جس کو اپنا وطن بنایا
 جس نے حجازیوں سے دشتِ عرب چھڑایا
 میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
علامہ اقبال کے اس دور کی غزلوں پر داغ اور امیر کا رنگ خاصا نمایاں ہے اور کئی نظموں میں وہ مشہور مغربی شعرا مثلا ایمرسن لانگ فیلو کوپر اور ٹینی سن وغیرہ کے خیالات کو اردو کا جامہ پہناتے دکھائی دیتے ہیں۔ 
اس دور میں علامہ اقبال مطالعہ مناظر فطرت اور کائناتی حسن  کی جانب بہت متوجہ ہیں اور اس حوالے سے ان کا اضطراب، جستجو اور تذبذب بہت نمایاں ہے،جو خوبصورت منظر نگاری کا روپ دھار لیتا ہے۔ہمالہ، گل رنگین، آفتاب صبح، چاند، اختر صبح، گلِ رنگین، ابر کوہسار، ماہ نو اور پیام صبح میں ان کی فطرت پسندی ،دلکش منظر نگاری کی صورت میں اپنے جلوے دکھا رہی ہے۔
اس دور میں علامہ نے بچوں کے لیے بھی خوبصورت نظمیں لکھیں جن میں ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری، بچے کی دعا ماں کا خواب پرندے کی فریاد اور ہمدردی نمایاں ہیں۔
 نوجوان شاعر کے اس ابتدائی دور کی نظموں میں گہرے فلسفیانہ خیالات بھی ملتے ہیں۔ اس ضمن میں نظموں؛ گل رنگین، خفتگان خاک سے استفسار، شمع، ماہ نو، انسانِ بزم قدرت، بچہ اور شمع، جگنو اور دل جیسی نظمیں انتہائی اہم ہیں جو گہرے فلسفیانہ خیالات سے معمور ہیں۔نوجوان شاعر خدا، انسان اور کائنات کے اہم مسائل اور موضوعات مثلاً حیات،ماخذِحیات،مقاصدِحیات،انجامِ حیات، موت،حیات بعد الموت، چاند، آفتاب، پھول، ابر، خودی، عشق اور حسن پر بحث کرتا اور سوالات اٹھاتا ہے،یہاں تک کہ وہ خفتگانِ خاک سے بھی استفسارات کرتا دکھائی دیتا ہے۔وہ انسانی زندگی اور کائنات کے رازوں کو جاننا چاہتا ہے۔
حصہ دوم :1905ء  تا  1908 ئ
بانگ درا کا دوسرا حصہ 1905 ء سے 1908 ء تک کے عرصے کی شاعری پر مشتمل ہے۔ یہ علامہ کے قیام یورپ کا دور ہے۔علامہ اقبال کا قیام یورپ ان کے ذہن و فکر کی تبدیلی اور پختگی کے لحاظ سے انتہائی اہم ہے۔وہاں انہوں نے مغربی تہذیب و سیاست کو قریب سے دیکھا اور مغربی نظریہ قومیت و وطنیت کے مفاسد کھل کر ان کے سامنے آ گئے جس نے ان کے قلب و نظر میں عظیم انقلاب پیدا کر دیا۔اس بڑی ذہنی و فکری تبدیلی کی جانب، سات ستمبر 1921ء کے ایک خط بنام وحید احمد مدیر نقیب کے نام میں،علامہ اقبال نے خود واضح اشارہ کیا ہے۔
اس زمانے میں سب سے زیادہ بڑا دشمن اسلام اور اسلامیوں کا نسلی امتیاز و غیر ملکی قومیت کا خیال ہے۔ 15 برس ہوئے جب میں نے پہلے پہل اس کا احساس کیا اس وقت میں یورپ میں تھا اور اس احساس نے میرے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یورپ کی آب و ہوا نے مجھے مسلمان کر دیا۔
 اب وہ علاقائیت سے بین العلاقائی اور رنگ و نسل کے جغرافیائی امتیازات سے انسانی مساوات کے آفاقی تصور کی جانب بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔لہٰذا اس دور کی نظموں میں کہیں وطن پرستی نظر نہیں آتی بلکہ وہ وطنیت کے تصور کو خیر باد کہہ کر اسلامی ملت کے آفاق گیر تصور کی جانب بڑھتے دکھائی دیتے ہیں۔
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمارۖ نے بنایا 
بنا ہمارے حصارِ ملت کی اتحادِ وطن نہیں ہے 
اور اس حصے کی نظم "پیامِ عشق" کے ذرا یہ اشعار بھی دیکھیے 
 وجود افراد کا مجازی ہے، ہستیِ قوم ہے حقیقی
 فِدا ہو مِلت پہ یعنی آتش زنِ طلسمِ مجاز ہو جا
 یہ ہند کے فرقہ ساز اقبال آزری کر رہے ہیں گویا
 بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا
اس حصے کی نظم میں "طلبہ علی گڑھ کے نام" کے مطالعے سے بھی اس ذہنی تبدیلی کا اندازہ ہوتا ہے کہ اب علامہ علی گڑھ کالج کے مسلم نوجوانوں کو "جذب حرم" اور "فروغ انجمن حجاز" کا پیغام دیتے ہیں۔
صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اب علامہ اقبال نے ہندی قومیت اور علاقائی وطنیت کے تصور کو خیرباد کہہ کر اس کے بجائے اسلامی تعلیمات اور ملت اسلامیہ کی بات شروع کر دی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یورپ میں اسلامی اصولوں، اسلامی تاریخ اور مسلمانوں کے خلاف اہل مغرب کی چیرہ دستیوں کا قریب سے مطالعہ کیا اور اپنی ملت سے ان کا تعلق اور بھی استوار اور مضبوط تر ہو گیا۔لہٰذا انہوں نے اپنی شاعری کو اسلام کی اشاعت اور ملت اسلامیہ کے لیے وقف کرنے کا واضح اعلان کر دیا۔
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو 
شرر فشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا
اُمت مسلمہ کا یہ نوجوان شاعر اب یورپ ہی میں بیٹھ کر بڑے وثوق سے یورپی تہذیب کی تباہی و بربادی کا اعلان کر رہا ہے 
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان ہی ہے 
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہو گا 
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی 
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا 
ساتھ ہی وہ مسلمانوں کی غلامی کے خاتمے اور اُمت مسلمہ کی آزادی،بیداری اور  سربلندی کی نوید بھی سناتا دکھائی دیتا ہے 
سنا دیا گوشِ منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر 
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہو گا
 نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا 
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا 
اس دور میں ان کے ہاں اضطراب اور تذبذب ختم ہو چکا ہے اور یقین،اعتماد،پختگی اور ملت کے لیے پیغام کا رنگ واضح ہو گیا ہے۔اب اس نوجوان نے اپنی قوم کی رہنمائی،خدمت اسلام اور ملت کی سربلندی کا مصمّم ارادہ کرتے ہوئے اسے اپنا نصب العین بنا لیا ہے۔اس حصے کی نظم "عبدالقادر کے نام" نہ صرف ان کے ان ارادوں اور نصب العین پر مکمل روشنی ڈالتی ہے بلکہ ان کی ذہنی تبدیلی اور فکری ارتقا کا ایک اہم موڑ بھی قرار پاتی ہے: 
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا اُفق خاور پر 
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں 
اس چمن کو سبق آئینِ نو کا دے کر
قطرۂ شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں 
دیکھ یثرب میں ہوا ناقہ لیلیٰ بیکار 
قیس کو آرزئوے نَو سے شناسا کر دیں 
شمع کی طرح جییں بزم گہ عالم میں
خود جلیں، دیدہ اغیار کو بینا کر دیں 
حصہ سوم: 1908 ء  تا 1924 ئ
بانگ درا کا تیسرا حصہ علامہ اقبال کی یورپ سے واپسی یعنی 1908 ء سے لے کر 1924 ء تک کے کلام پر مشتمل ہے۔ اب علامہ کے خیالات میں یکسر تبدیلی آ چکی ہے اور "ترانہ ہندی" لکھنے والا شاعر اب "ترانہ ملی" لکھنے لگا ہے اور یورپ جانے سے پہلے:
' ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا'  کے گیت گانے والا شاعر اب  'مسلم ہیں ہم، وطن ہے سارا جہاں ہمارا'  کے راگ الاپنے لگا ہے۔
علامہ اقبال نے بانگ درا کے دوسرے حصے میں اپنے جس منشور کا اعلان کیا تھا کہ
 میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درمانہ کارواں کو 
شرر فشاں ہوگی اہ میری میری شرر مرا شعلہ بار ہو گا 
اب وہ پوری طرح اپنے اس منشور پر عمل پیرا دکھائی دیتے ہیں۔ان کے موضوعات میں اب انتہائی وسعت آ چکی ہے اور اب اس کے موضوعات بادل،چاند، دریا،ستارہ اور ابر وغیرہ نہیں بلکہ ذاتِ باری تعالیٰ، حیات، کائنات،خودی،بے خودی،یقین، عقل،عمل، جہد ِمسلسل اور عشق قرار پاتے ہیں۔ اب وہ پوری قوت کے ساتھ افراد قوم کو یہ پیغام سناتے  دکھائی دیتے ہیں کہ
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا 
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا 
خودی میں ڈوب جا غافل یہ سر زندگانی ہے 
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہو جا 
حضورۖ سے ان کی عقیدت و محبت بہت بڑھ گئی ہے اور اس حصے کی نظموں اور غزلوں میں یہ پاکیزہ محبت جگہ جگہ اپنے جلوے دکھا رہی ہے۔
کرم اے شاہ عرب و عجم کے کھڑے ہیں منتظر کرم 
وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنہیں دماغِ سکندری
اسی طرح نظم "صدیق"، "بلال" اور "جنگ یرموک کا ایک واقعہ" میں بھی عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ بے مثال جھلکیاں نور بکھیرتی دکھائی دیتی ہیں۔ 
اس حصے کی نظموں میں علامہ اقبال انگریز سامراج کی مسلم دشمنی کی جانب بھی اشارے کرتے،اس کے خلاف آواز اٹھاتے اور مسلمانوں کو اپنے حق کے لیے اٹھ کھڑا ہونے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔
اس دور کی معرکة ا لآراء نظمیں خضرِراہ،خطاب باجوانانِ اسلام، مسلم، شعاعِ آفتاب، نوید ِ صبح، تعلییمِ جدید، مذہب،شمع اور شاعر،شکوہ،جوابِ شکوہ اور طلوعِ اسلام، شاعر کے ایسے ہی ولولہ انگیز جذبات سے مملو ہیں۔ ان تخلیقات پر اسلامیت کا رنگ بہت نمایاں ہے اور اس دور کو بجا طور پر اقبال کی شاعری کا "اسلامی دور" قرار دیا جا سکتا ہے۔ صرف نظموں کے عنوانات مثلا "صدیق"، "کفر و اسلام"، "بلال مسلمان اور تعلیم جدید"، "مذہب"، "جنگ یرموک کا ایک واقعہ"، "شب ِ معراج"، "طلوعِ اسلام"، "فاطمہ بنتِ عبداللہ"، اور "خضرِ راہ" ہی سے اقبال کے اسلامی جذبات و احساسات کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس دور کے کلام میں استعمال ہونے والی زیادہ تر تلمیحات و اشارات کا تعلق بھی اسلام اور تاریخ اسلام سے ہے مثلا رسول پاکۖ،صدیق، عمر، بلال، بوعبیدہ، علی رضی اﷲتعالیٰ عنہم اجمعین شاخِ ہاشمی، شاخِ خلیل، روح الامیں،  وادیِ فاراں، وادیِٔ ایمن، شبِ معراج، جنگ ِیرموک سینا اور فارابی وغیرہ۔ اس دور کی غزلوں کے مضامین بھی روایتی نہیں بلکہ یہ غزلیں شاعر ِاسلام کے پیغام اور فکر کی ترویج کا فریضہ انجام دے رہی ہیں۔ ان میں، اس دور کی نظموں کی طرح، اسلامی رنگ اور فکرِ ملت کے جذبات و احساسات کا اثر نمایاں ہے۔ بانگ درا کے آخر میں "ظریفانہ" کے عنوان کے تحت درج قطعات بھی اقبال کی قومی و ملی سوچ کے آئینہ دار ہیں۔ یہاں وہ ہلکے پھلکے انداز میں افراد ملت کی کوتاہیوں پر طنز کرتے اور انہیں اصلاح احوال کی جانب راغب کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں مغربی تہذیب سے دامن بچانے اور اپنی تہذیب و تمدن پر کاربند رہنے کا درس دیتے ہیں۔  
بانگ درا کے تیسرے حصے کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پہلے اور دوسرے حصے کے مقابلے میں اب زبان کے ساتھ ساتھ شاعر کے افکار و خیالات میں بھی انقلاب پیدا ہو چکا ہے۔  شاعر ہندی قومیت سے مسلم قومیت تک کا سفر طے کر چکا ہے اور وطنیت کے محدود دائرے سے نکل کر آفاقیت کا پیامبر بن گیا ہے۔ اسے مسلمان بیدار ہوتے اور غلامی کی زنجیریں پاش پاش ہوتی نظر آ رہی ہیں۔وہ پورے جوش و جذبے سے اپنی قوم کے افراد کو تعمیرِ خودی، یقین محکم، عمل پیہم، جہد مسلسل، صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق دے رہا ہے اور قوم کو پورے اعتماد سے طلوع اسلام اور دنیا کی امامت کی نوید سنا رہا ہے۔ 
 اب ہمارا شاعر ملت اسلامیہ کے مسائل حل کرنے کے لیے حضرت خضر سے سوال و جواب میں مصروف ہے اور صحرا نوردی، زندگی،  سلطنت اور سرمایہ و محنت کے اسرار جان کر انہیں دنیائے اسلام پر آشکار کرنا چاہتا ہے تاکہ ملت اسلامیہ کا در ماندہ کارواں ایک بار پھر منزل کی جانب جادہ پیما ہو جائے۔اس دور کی یہی خصوصیات علامہ اقبال کو دیدہ بینائے قوم کا عظیم منصب عطا کرتی ہیں اور ان کے ترانے کی آواز قوم کے درماندہ کارواں کے لیے  بانگ درا کا روپ دھار لیتی ہیں۔
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
 ہوتا ہے جہاں پیما پھر کارواں ہمارا