علامہ محمد اقبال وہ مفکر اور شاعر ہیں، جنہوں نے برِصغیر کے مسلمانوں کو انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی سے نجات کے لیے الگ وطن کا تصور پیش کیا۔ ان کوآنے والی صدیوں کا شاعر کہا جاتا ہے۔ علامہ اقبال کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا کی 43 زندہ زبانوں میں اُن کی سوچ، فکر اور شخصیت پرسات ہزار سے زیادہ کتب اور 60 ہزار سے زیادہ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالات لکھے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔ بہرحال پاکستان اور بھارت کی یونیورسٹیوں میں علامہ اقبال کی اردو، فارسی شاعری اور شخصیت کے ہمہ جہت پہلوؤں پر تحقیق کے کام کے لیے 14 اقبال چیئرز کام کر رہی ہیں، جبکہ دنیا کے چھ ممالک میں بھی مختلف زبانوں میں تحقیقی کام کے لیے اقبال چیئرز مصروف عمل ہیں۔
اس کے علاوہ اقبال اکیڈمی کے یوٹیوب چینل پر علامہ اقبال کی شاعری اور اُن پر کیے گئے علمی اور تحقیقی کام سے ہر ماہ پانچ لاکھ سے زیادہ مرد و خواتین اور طلباء اور طالبات استفادہ کرتے ہیں۔ اقبال اکیڈمی کے ذرائع کے مطابق ان پانچ لاکھ میں سے 60 فیصد تعداد بیرونی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔
علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری سے جہاں اُمّتِ مسلمہ کو خواب ِغفلت سے بیدار کیا، وہیں انہوں نے اپنی شاعری میں نوجوان نسل کو فراموش نہیں کیا۔ 'شاہین' پرندوں کا بادشاہ کہلاتا ہے، اسی لیے انہوں نے اپنی شاعری میں مسلم نوجوانوں کو یہ سبق دیا ہے کہ جس طرح شاہین تمام پرندوں میں منفرد مرتبہ اور شان رکھتا ہے اسی طرح وہ بھی دنیا بھر کے نوجوانوں میں اپنی دانائی، خودی اور جرأت و بہادری کا لوہا منوائیں۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان اپنی بلند سوچ اور فکر کے ساتھ دنیا میں سربلندی اور عروج حاصل کریں۔
اسی طرح علامہ اقبال نوجوانوں کو عقاب اور شاہین کی مانند قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
نوجوانوں کو بلند ہمت اور عروج کا راستہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ:
اُدھر نہ دیکھ، اِدھر دیکھ اے جوان عزیز
بلند زور، دروں سے ہوا ہے فوارہ
اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوانوں کو مغرب کی نقالی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اپنے اسلاف کے روشن کارناموں کو دیکھنا چاہیے، اپنے اندر جرأت و ہمت پیدا کرو جس طرح فوارہ اپنے اندر کے زورکے ساتھ اُبلتا ہے۔
اس مناسبت سے اللہ تعالیٰ کے حضور، علامہ اقبال اس طرح دعا کرتے ہیں کہ
جوانوں کو سوز جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے
اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے دل کی تڑپ، جو ہر لمحہ کچھ کر گزرنے پرآمادہ رہتی ہے، وہ نوجوانوں کے اندر پیدا ہو جائے۔ میرا عشق اور میری نظر، جو ہمیشہ امتِ مسلمہ کے عروج و سربلندی کے لیے فکر مند ہے، وہ نوجوانوں کو عطا کر دے۔
اس کے برعکس جب علامہ اقبال نوجوانوں کی تن آسانی و سہل کوشی کو دیکھتے ہیں، تو یوں گویا ہوتے ہیں۔
ترے صوفے ہیں افرنگی ترے قالین ہیں ایرانی
لہو مجھ کو رُلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی
اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے علامہ اقبال نوجوانوں کو یہ پیغام دیتے ہیں اور سمجھاتے ہیں کہ
کبھی اے نوجواں مسلم، تدبر بھی کیا توُ نے
وہ کیا گردُوں تھا،تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا
یعنی اے نوجوان تم نے کبھی اپنے آپ کا جائزہ لیا ہے، اپنے ماضی کی جانب دیکھا ہے کہ تم بلند و بالا اور روشن ترآسمان کے ٹوٹے ہوئے تارے ہو، جس کی کامیابیوں اور کامرانیوں سے آج کی دنیا روشن اور منور ہے۔
علامہ اقبال اس بات پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ وہ نوجوانوں کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ
وہی جواں ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا
شباب جس کا ہے بے داغ، ضرب ہے کاری
وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان نوجوان تبھی اُمت ِمسلمہ کی آنکھوں کا تارا بن سکتے ہیں، جب وہ معاشرے کی خرابیوں اور برائیوں سے اپنی جوانی کو محفوظ رکھیں اور ان خرابیوں اور برائیوں کے خاتمے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔
اس لیے وہ اس بات کا بھی اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اگر جواں ہوں میری قوم کے جسور وغیور
قلندری مری کچھ کم، سکندری سے نہیں
یعنی اگر مسلمان نوجوان سستی و کاہلی کو چھوڑ کر اپنے اندر ہمت، جرأت اور بہادری کا وصف پیدا کر لیں تو یہی نوجوان دنیا بھر میں اپنی درویشی و فقیری کے بل بوتے پر راج اور حکمرانی کا خواب شرمندۂ تعبیر کر سکتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی وہ نوجوانوں کو یہ پیغام بھی دیتے ہیں :
حیا نہیں ہے زمانے کی آنکھ میں باقی
خدا کرے کہ جوانی تری رہے بے داغ
علامہ اقبال یقینااپنی نوجوان نسل کے مستقبل کے حوالے سے فکر مندتھے اس لیے انہوںنے یہ دُعا ئیہ شعر کہا۔
علامہ محمد اقبال نے اپنی شاعری میں مسلم نوجواں کو جا بجا پرندوں کے بادشاہ شاہین سے تشبیہہ دی ہے، اس سلسلہ میں ان کے کلام میں شاہین کا اکثر تذکرہ ملتا ہے۔ یہاں صفحات کی تنگ دامنی کی وجہ سے صرف چند اشعار پر اکتفاکیا جارہا ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور
علامہ اقبال اپنے اس شعر میں نوجوانوں کو بتا رہے ہیں کہ چیل اور عقاب دنوں ہی آسمان میں پرواز کرتے ہیں۔دورانِ پروازچیل کی نظر مردہ جانور پر ہوتی ہے جبکہ شاہین زندہ شکار کرتا ہے، اس لیے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ حرام کمانے اور کھانے کے بجائے رزقِ حلال تلاش کر کے کھائیں۔
تو شاہیں ہے، پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نئی نسل کو علامہ اقبال نے یہ نصیحت کی ہے کہ نوجوانوں کا یہ کام نہیں کہ معمولی معمولی باتوں پر ہمت چھوڑ دیں اور تھک ہار کر بیٹھ جائیں، مسلسل ناکامیوں کے بعد بھی نوجوانوں کو ہمت نہیں ہارنی چاہیے، کیونکہ یہ دنیا امکانات کی دنیا ہے، ہمت جرأت اور بہادری سے نئے امکانات اور مواقع نوجوانوں کے منتظر ہیں۔
گزر اوقات کر لیتا ہے وہ کوہ و بیاباں میں!
کہ شاہیں کے لیے ذلت ہے کار آشیاں بندی
پرندوں کی دنیا میں شاہین واحد پرندہ ہے جو دوسرے پرندوں کی طرح گھونسلے بنانے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتا، اس کے بجائے وہ پہاڑوں اور جنگلوں میں رات گزار لیتا ہے۔
علامہ اقبال نوجوانوں کو اس شعر میں بتا رہے ہیں کہ آپ اپنا وقت سنگ و خشت کے مکانات بنانے میں ضائع کرنے کے بجائے اپنے آپ کو ملک و قوم کی تعمیر وترقی میں لگادیں۔
شاہیں کبھی پرواز سے تھک کے نہیں گرتا
پُردم ہے اگر تُو، تو نہیں خطرۂ اُفتاد
شا ہین کو دوسرے پرندوں کے مقابلے میں یہ امتیاز حاصل ہے کہ دورانِ پرواز جلدی تھکتا نہیں، عام پرندے تھوڑی دیر اُڑنے کے بعدکسی درخت ،دیوار یا کسی بھی جگہ پر بیٹھ کر اپنی تھکن دُور کرتے ہیں، اس کے مقابلے میں شاہین اُونچی فضاؤں میں مسلسل پرواز کر کے اپنا شکار تلاش کر کے کامیاب و کامران لوٹتا ہے۔
علامہ اقبال کی سوچ اور فکر کے مطابق نوجوانوں کو زندگی کے تمام مراحل میں مشکلات اور رکاوٹوں کو دیکھ کر پریشان نہیں ہونا چاہیے، اگر ان کے اندر ہمت، جرأت اور عزم ہوگا تو بڑی سے بڑی مشکل بھی منزل تک پہنچنے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی ۔
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پردے
علامہ اقبال کی زندگی کا معمول تھا کہ وہ تہجد کے وقت بیدار ہو کر اللہ رب العالمین کے حضور سجدہ ریز ہوتے تھے، وہ چاہتے ہیں کہ نوجوان بھی اپنے معمولاتِ زندگی کو اس طرح استوار کریں کہ صبح اُٹھ کر اپنی زندگی کی سرگرمیوں کا آغاز کریں۔ اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان جوانوں کو اللہ تعالیٰ اتنی ہمت اور قوت عطا کرے کہ وہ عملی زندگی میں اپنی ذات ہی کے لیے نہیں، بلکہ ملک و قوم کی سربلندی کے لیے بھی کارہائے نمایاں انجام دے سکیں۔
مضمون نگار درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں
تبصرے