اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 21:34
اداریہ۔ جنوری 2024ء نئے سال کا پیغام! اُمیدِ صُبح    ہر فرد ہے  ملت کے مقدر کا ستارا ہے اپنا یہ عزم ! روشن ستارے علم کی جیت بچّےکی دعا ’بریل ‘کی روشنی اہل عِلم کی فضیلت پانی... زندگی ہے اچھی صحت کے ضامن صاف ستھرے دانت قہقہے اداریہ ۔ فروری 2024ء ہم آزادی کے متوالے میراکشمیر پُرعزم ہیں ہم ! سوچ کے گلاب کشمیری بچے کی پکار امتحانات کی فکر پیپر کیسے حل کریں ہم ہیں بھائی بھائی سیر بھی ، سبق بھی بوند بوند  زندگی کِکی ڈوبتے کو ’’گھڑی ‘‘ کا سہارا کراچی ایکسپو سنٹر  قہقہے السلام علیکم نیا سال، نیا عزم نیا سال مبارک اُمیدِ بہار اے جذبہء دل معراج النبیﷺ   علم کی شمع روشنی قومی ترانے کے خالق ابوالاثرحفیظ جالندھری نئی زندگی سالِ نو،نئی اُمید ، نئے خواب ! کیا تمہیں یقین ہے صاف توانائی ، صاف ماحول پانی زندگی ہے! تندرستی ہزار نعمت ہے! قہقہے اداریہ  ہم ایک ہیں  میرے وطن داستان ِجرأت پائلٹ آفیسرراشد منہاس شہید کامیابی کی کہانی  امتحانات کی تیاری ہم ہیں بھائی بھائی ! حکایتِ رومی : جاہل کی صحبت  حسین وادی کے غیر ذمہ دار سیاح مثبت تبدیلی  چچا جان کا ریڈیو خبرداررہیے! ستارے پانی بچائیں زندگی بچائیں! قہقہے
Advertisements

ہلال کڈز اردو

خلائی سیرکاقصہ

اکتوبر 2024

’’جلدی کرو ،سیٹ بیلٹ باندھ لو، کہیں دیر نہ ہوجائے۔‘‘حاشر چلـایا۔
’’بھئی! ہمارا خلائی جہاز اپنی اُڑان بھرنے کو ہے ، آج ہم سبھی خلا کی سیر کو جارہے ہیں ۔‘‘یہ نائلہ کی آواز تھی۔پھر اس کے ساتھ ہی ایک خوفناک آواز گونجی ساتھ ہی بچوں کی حیرت اور خوشی سے بھرپور چیخیں بھی بلند ہوئیں۔
سدرہ آپی جیسے ہی کالج سے واپس آئیں تو انھیں پلے روم سے حاشر اور نائلہ کے ساتھ ساتھ دیگر بچوں کی آوازیں بھی سنائی دیں ۔
’’اُف یہ بچے بھی ناں...آج پھر انھوں نے کمرے میں اودھم مچا رکھا ہے ،ہر چیز تہس نہس کردی ہوگی۔‘‘یہ سوچتے ہوئے وہ بچوں کے کمرے کی جانب بڑھیں ،لیکن دروازہ کھولتے ہی سدرہ حیرت کے سمندر میں گم ہوگئی۔
کمرے میں خاصا اندھیرا تھا۔ دیواروں پر جگمگ کرتی باریک روشنیاں ستاروں کی مانند چمک رہی تھیں ۔کہیں چاند کا پوسٹر لگا تھا تو کسی جگہ سورج کی تصویر چارٹ پر دکھائی دے رہی تھی۔سدرہ آپی کو دیکھتے ہی ہارون چلایا :’’سدرہ آپی اس وقت ہم خلا میں چالیس ہزار کلومیٹر کی دوری سے آپ کو دیکھ رہے ہیں ۔ہمارے خلائی جہاز کی رفتار چھتیس ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔اور ہمارے زمین سےاڑان بھرے تقریبا ًایک گھنٹے سے زیادہ وقت ہوگیا ہے۔‘‘
اس کے ساتھ ہی دیواروں پر مختلف رنگ کی بتیاں اور کئی مناظر تبدیل ہوئے، سدرہ نے حیرت سے کونے میں دیکھا ،جہاں شہروز میاں ،چاچو کے پراجیکٹر کو چلانے کی تھوڑی بہت کامیاب کوشش میں تھے۔
ایک لمحے کے لیے سدرہ ٹھٹک کر رہ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے لیکن ذرا غور کرنے پر پتا چلا تو اس کی ہنسی کا فوارہ چھوٹ گیا۔ اس نے دیکھا کہ بچوں نے کمرے کے ایک کونے میں خلائی سٹیشن بنا رکھا ہے جبکہ دوسری طرف ایک صوفے کے اوپرکپڑا ڈال کر اسے خلائی جہاز بنا رکھا تھا۔ کچھ بچے اس کے اوپر بیٹھے اس کو خلائی جہاز بنا کر اڑان بھر رہے تھے۔
 پورا کمرہ جگمگ کرتی لائٹوں یعنی ستاروں، سورج، چاند کی تصاویر اور دیگر خلائی چیزوں سے بھرا ہوا تھا۔ بچوں کے اس دلچسپ کھیل دیکھ کر سدرہ بجائے انھیں ڈانٹنے کے ،ان کی حوصلہ افزائی کرنے لگی۔
 ’’اچھابھئی ! بچو... !یہ بتاؤ کہ تمہیں خلائی جہاز کی رفتار کا کیسے علم ہوا؟‘‘سدرہ آپی نے دلچسپی سے سوال کیا۔
’’ ہم نے فلکیات پر بنی ایک ڈاکیومنٹری میں دیکھا تھا کہ خلائی جہاز کی رفتار 36 ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔‘‘نائلہ نے فوراََ جواب دیا۔
 سدرہ آپی نے نائلہ کو شاباش دی اور خنسا سے سے مخاطب ہوئیں: 
’’خنسا!بھئی تم فلکیات کے بارے میں کیا جانتی ہو؟‘‘
خنسا کہنے لگی :’’ آپی مجھے اتنا پتا ہے کہ خلا بہت بڑی دنیا کا نام ہے اور اس میں ایک بلیک ہول بھی ہوتا ہے۔ اس میں ستارے اورسیارے سورج کے گرد گھومتے گھومتے ٹوٹ کر آن گرتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے واشنگ مشین کاچکر گھومتا ہے۔مشین میں بھی بلیک ہول طرز کا ایک سوراخ ہوتا ہے۔‘‘ 
سدرہ آپی نے ہارون سے پوچھا :’’ہارون تم بتاؤ کہ کہکشاں کسے کہتے ہیں؟‘‘
 ہارون تھوڑی دیر سوچنے لگا پھر اس نے کہا کہ گلیکسی یعنی کہکشاںاس کو کہتے ہیں جس میں اربوں کی تعداد میں ستارے پائے جائیں ۔ان میں سے زیادہ تر ستارے ہماری زمین اور سورج سے کئی ہزار گنا بڑے ہیں ۔اس بات سے آپ اندازہ لگالیں کہ جہاں اتنے بڑے بڑے اربوں ستارےہوں گے وہ کہکشاں کتنی بڑی ہوگی۔ہارون نے جواب دیا تو آپی نے خوش ہوکر اسے شاباش دی،اتنے میں شہروز بول اُٹھا :
’’ہارون بھائی! آپ یہ بھی تو بتائیں کہ اللہ کی اس کائنات میں ایک نہیں بلکہ ہزاروں ،لاکھوں بڑی بڑی کہکشائیں ہیں ۔‘‘
’’بالکل شہروز ! ایسا ہی ہے۔اس سے ہمیں اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا پتا چلتا ہے ،اور یہ بھی کہ ہماری زمین بلکہ ہمارا پورا نظام ِ شمسی اس کائنات میں ریت کے ایک ذرے کی طرح ہے۔‘‘اس بار نائلہ نے جواب دیا تھا۔
’’کوئی بتا سکتا ہے کہ ہماری کہکشاں کا نام کیا ہے؟‘‘



سدرہ آپی نے سوال کیا تو خنسا نے فوراََ ہاتھ کھڑا کیا اور ساتھ ہی جواب دے ڈالا:’’ ہماری کہکشاں کا نام ہے ملکی وے۔‘‘
’’بالکل درست جواب... ‘‘سدرہ آپی نے خوش ہوکر کہا۔ساتھ ہی انھوں نے خوش خبری سنائی کہ سب بچوں کی علم فلکیات میں دلچسپی دیکھ کر وہ ماموں جان کو دعوت دیں گی کہ وہ ایک دن اپنی جدید دوربین کے ساتھ تشریف لائیں تاکہ بچے عملی طور پر ان ستاروں اور سیاروں کا نظارہ کرسکیں ۔
تین دن بعد ماموں ارشد واقعی اپنی دور بین کے ساتھ حاضر ہو چکے تھے۔ بچوں کی خوشی دیدنی تھی۔ رات کو کھانے سے فارغ ہوکر وہ سبھی خورشید انکل کےفارم ہاؤس کی جانب روانہ ہو گئے،جوکہ آم کے باغات کے بیچوں بیچ واقع تھا۔ گھپ اندھیرے میں آنے کا مقصد ستاروں سے بھرے آسمان کو واضح دیکھنا تھا۔ بچوں کو صبح اسکول سے چھٹی تھی ،چنانچہ سبھی نےفارم ہائوس کی چھت پر ڈیرے ڈال لیے تھے۔
تمام روشنیاں گل کردی گئی تھیں ۔اب آسمان پر جگ مگ کرتے تارے بڑے واضح اور روشن تھے۔ماموں جان نے دور بین ایک بہتر جگہ پر سیٹ کی اور اس کا زاویہ درست کرکے ایک آنکھ سے اس میں سے کچھ دیکھنے لگے۔پھر انھوں نے اس کا ایک آئی پیس تبدیل کیا اور بچوں سے مخاطب ہوئے:
’’لو جی بچو! تمہاری دلچسپی کا سامان یہاں تیار ہے۔‘‘
جوش میں آکر بچوں نے باری باری دور بین میں دیکھنا شروع کیا ،ماموں جان ساتھ ساتھ بچوں کو وضاحت سے سمجھا رہے تھے۔ 
’’بچو! ہماری کہکشاں میں آٹھ بڑے سیارے پائے جاتے ہیں ۔ان کے نام عطارد،زہرہ زمین ،مریخ ،مشتری،زحل، یورینس،نیپچون ہیں۔ دیکھو،وہ سورج کا سب سے قریبی سیارہ عطارد۔یہ سورج کے قریب ہونے کے باوجود سورج سے پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ کلو میڑ فاصلے پر ہے ،یہ 88دنوں میں اپنا چکر سورج کے گرد مکمل کرتا ہے ،یعنی یہاں پرسال 88دنوں کا ہوتا ہے۔اسی طرح زہرہ سیارہ ،یہ نظام شمسی کا گرم ترین سیارہ ہے ،اس کا سورج سے فاصلہ دس کروڑ اسی لاکھ کلومیٹر ہے۔یہاں پر سال 225دنوں کا ہوتا ہے۔اس کے بعد نمبر آتا ہے ہماری زمین کا ،زمین سور ج سے چودہ کروڑ چھیانوے لاکھ کلومیڑ دور ہے ،یہاں پر ایک سال 365 دنوں کا ہوتا ہے۔آگے ہے مریخ ،زمین کے علاوہ یہ واحد سیارہ ہے جس کو انسا ن نے مسخر کیا ہے۔اس کا سورج سے فاصلہ تئیس کروڑ کلو میٹر ہے ،اس سے آگے ہے سب سےزیادہ روشن سیارہ مشتری،یہ سورج سے تقریبا َاٹھہتر کروڑ کلو میٹرکی دوری پر واقع ہے، یہاں سال 4380دنوں کا ہوتا ہے۔ اس پر اگر پہنچنا ہو تو ہزاروں بلکہ لاکھوں نوری سال درکار ہوں گے۔‘‘
ماموں جان تفصیل بتاتے ہوئے رُکے تو بچے حیرت سے یہ سب سن رہے تھے ،
ماموں جان !’’ یہ نوری سال کیا ہوتا ہے بھلا ؟حاشر نے حیرت سے سوال کیا تھا۔‘‘
’’بیٹا ! کائنات چونکہ بہت بڑی ہے،اس لیے اسکے فاصلوں کا حساب عام کلومیٹر، میل یا عام مہینوں اور سالوں سے نہیں لگایا جاسکتا ،بلکہ اس کے لیے نوری سال کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ کائنات کی سب سے تیز رفتار چیز روشنی ہے۔یہ تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ کے حساب سے سفر کرتی ہے۔ یہی روشنی ایک سال میں جتنا فاصلہ طے کرے، اسے ہم نوری سال کہتے ہیں ۔ ‘‘
بچوں کو ایک اور چیز سیکھنے کو ملی تھی۔ وہ جوش میں آکر باری باری ریت کے ذروں کی مانند سیاروں اور ستاروں کا عکس دوربین سے دیکھ رہے تھے۔ ماموں جان اس جدید فلکیاتی دوربین (ٹیلی سکوپ) کے مختلف آئی پیسز تبدیل کیے جارہے تھے۔انھوں نے بچوں کو بتایا کہ ہماری کہکشاں ملکی وے کے تمام سیاروں اور چند ستاروں کو اس دور بین کی مدد سے دیکھا جاسکتا ہے۔
’’ماموں جان ! سب سے پہلے انسان نے خلا میں کب قدم رکھا تھا ؟‘‘ہارون نے سوال کیا۔
ّّبیٹا ! یہ1957ء کا سال تھا جب انسان نے پہلی بار خلا میں اپنا زمینی سیٹیلائٹ بھیجا تھا۔اس کے بعد تو گویا یہ رستہ سب کے لیے آسان ہوگیا ،لیکن اتنا آسان بھی نہیں تھا۔ دس سال بعد عالمی سطح پر ایک خلائی معاہدہ تشکیل دیا گیا۔اس میں پاکستان بھی شامل تھا۔ ماموں جان نے بتایا۔‘‘
’’جی ماموں جان ! مجھے علم ہے ، پاکستان کے خلائی ادارے کا نام سپارکو ہے اور پاکستان بھی اپنے مصنوعی سیٹیلائٹ خلا میں بھیج چکاہے۔ ‘‘
شہروز نے چہک کر کہا 
 ماموں جان نے اسے شاباش دی۔ساتھ ہی انھوں نے بتایا کہ بچو ! حال ہی میں ہم نےچائنہ کی مدد سے چاند پر بھی اپنا مشن بھیجا ہے۔
’’ماموں جان ! ہمیں آپ سے خلا یا فلکیات کے بارے میں مزیدبہت کچھ جاننا ہے۔‘‘نائلہ نے کہا 
ماموں جان نے جواب دیا :’’بچو!یہ موضوع ایک نہ ختم ہونے والا حیرت کاسمندر ہے۔اس کے لیے ایک نشست کم ہے۔بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ اس پر جتنا لکھا،بولا اور پڑھا جائے وہ بہت تھوڑا ہے ،اس لیے وقت کی کمی کے باعث آج ہم یہیں پراختتام کرتے ہیں ۔‘‘
بچوں کا اس سرگرمی سے ابھی دل نہیں بھرا تھا ،مگر رات کے بارہ بجنے والے تھے۔اب انھیں واپس روانہ ہونا تھا۔ آج بچوں نے دوربین کی مدد سے ایسی ایسی چیزیں اپنی آنکھ سے دیکھیں کہ جن کے بارے میں پڑھتے یا سنتے آئے تھے۔ ان سبھی نے ماموں جان کا بے حد شکریہ ادا کیا۔راستے میں سبھی عزم کرچکے تھے کہ بڑے ہوکر وہ سائنس دان بنیں گے اور پاکستان کی جانب سے خلائی مشن صرف چاند پر ہی نہیں بلکہ مریخ پر بھی روانہ کریں گے۔ 
اس عزم کے ساتھ ہی ان کے چہروں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔