اگر میری کمزور اور جھکتی ہوئی آنکھیں دھوکہ نہیں کھارہیں تو تم حماد ہی ہو نا؟‘‘ مارکیٹ سے نکلتے ہوئے ایک نوجوان پر نظر پڑتے ہی ماسٹر صاحب نے سوال کیا۔
’’جی ماسٹر صاحب ! میں آپ کا شاگرد حماد ہی ہوں۔ آپ یہاں کیسے؟‘‘
’’ ابھی کچھ ہی دن قبل میرے بیٹے کا یہاں تبادلہ ہواہے۔ بس اسی کے ساتھ یہاں آگیا۔ یہاں قریب ہی رہائش ہے۔ بڑا نیک اور فرمانبردار ہے میرا بیٹا،بہت خیال رکھتا ہے میرا۔‘‘ ماسٹر صاحب ایک ہی سانس میں کہتے چلے گئے۔
’’ تم سناؤ بیٹا حماد ! کہاں تک پہنچے ؟ آج سے اٹھارہ سال پہلے غالباً تم چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے۔‘‘ ماسٹرصاحب نے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’جی سر! ماشاء اللہ آپ کو تو مجھ سے زیادہ یاد ہے۔ ‘‘ حماد نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’بارھویں کے بعد سے پی ایچ ڈی تک میں نے امریکہ میں پڑھائی کی۔ اب آخری سال ہے۔ اس کے بعد وہیں ملازمت شروع کرنے والا ہوں، دو سال تک آنے کا موقع نہیں ملے گا ، اس لیے ان دنوں پاکستان آیا ہوا ہوں۔‘‘
’’بیٹا! یہاں اپنے ملک میں رہنے میں کیا حرج ہے؟‘‘
بس ماسٹر صاحب!’’کیا بتاؤں، اس ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے۔ لوٹ مار، جھگڑے اور فساد یہی کچھ اس ملک کا مستقبل ہے۔‘‘
بیٹاحماد !’’ بس یہی غلطی ہے تمہاری اور تمہاری طرح کے نوجوانوں کی۔‘‘ماسٹر صاحب نےایسی منفی بات سنتے ہی حماد کی بات کاٹ دی۔
’’کیسی غلطی سر؟‘‘
’’بیٹا! جس دیس کی مٹی میں آپ کے آباؤاجداد کا خون شامل ہو۔ جہاں آپ پیدا ہوئے ہوں، پلے بڑھے ہوں،آپ کوپہچان اور شناخت دی ہو،آزادی سے جینے کا حق دیا ہو، رشتوں اور خون کی تمیز سکھائی ہو، چھوٹوں اور بڑوں کے درمیان ادب اور شفقت کا تصور قائم کیا ہو، جہاں اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ہواور سب سے بڑھ کرہم سب کو اپنی آغوش میں رکھ کر ہر طرح کے خطرے سے محفوظ رکھا ہو....اس کے بارے میں ایسی سوچ ناشکری کے زمرے میں آتی ہے۔ شاید تم بھی سوشل میڈیا کی منفی باتوں سے متاثرہوگئےہو۔ ایسے علم کا کیا فائدہ جو سچ اور جھوٹ میں فرق ہی معلوم نہ کرسکتا ہو۔ ـ‘‘ ماسٹر صاحب کہتے چلے گئے۔
’’لیکن ماسٹر صاحب ! اس ملک میں ....‘‘ حماد جذباتی لہجے میں بولا۔
’’بیٹا! کوئی ایسی دلیل ہے تمہارے پاس کہ ہمارے ملک کی خوبیوں اور کامیابیوں کو جھٹلا سکو۔ پاکستان 24 کروڑ لوگوںکا مسکن ہے۔ یہاں کے نوجوان بھرپور صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ کھیت کھلیان سونا اگل رہے ہیں، ہمارے کاریگر اور ہنرمندوں کی بنائی اشیاء دنیا بھر میں جارہی ہیں اور لوگ ان کے اعلیٰ معیار کی تعریف کرتے نظر آتے ہیں۔ تم نے یہاں اپنے گھر کے باہر جاکر دیکھا کہ سڑکوں کے جال بچھ رہے ہیں، نئی نئی آبادیاں بن رہی ہیں، لوگوں کوپہلے سے زیادہ سہولتیں میسر ہیں۔ لوگ اب سرکاری ملازمتوں پر ہی اکتفا نہیں کررہے بلکہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دوسرے نجی شعبوں میں اپنا نام روشن کررہے ہیں۔ اسی طرح ہمارے کھلاڑی دنیا بھر میں اپنے کھیل کی وجہ سے مشہور ہیں۔ کرکٹ، ہاکی ، سکواش اب بھی کھیلے جارہے ہیں اور ہمارے کھلاڑی اب بھی ملک کا نام روشن کررہے ہیں۔ ہاں! زندہ قومیں مقابلوں میں ہارتی جیتتی رہتی ہیں مگر مایوس نہیں ہوتیں۔ وہ پھر کوشش کرتی ہیں اور آخر کار فتح ان کی ہوتی ہے۔ تم نے ارشد ندیم کا ٹیلنٹ دیکھا جس نے پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے پیرس اولمپکس میں جیولین تھر و میں تاریخ رقم کرتے ہوئے اولمپکس میں نیا ریکارڈ بنایا اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ قوم نےاس کی فتح پر جس طرح خوشی کا اظہار کیا، وہ بھی تم نے دیکھا۔ بیٹا! چند لوگوں کےپروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اپنے ملک کو منفی نظروں سے دیکھنا چھوٹی سوچ کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ کفرانِ نعمت ہے۔ ‘‘ ماسٹر صاحب بڑے جوش و خروش سے حماد کو وہ کچھ بتا رہے تھے ، جن کا ذکر اس کے انٹرنیٹ کے اجنبی دوستوں نے کبھی نہیں کیا تھا۔
حماد کوحقیقت معلوم ہوگئی تھی۔ وہ واقعی انٹرنیٹ کےایک خول میں بند ہوچکا تھا جہاں سوشل میڈیا یک رُخی خبریں پیش کرکے اس کے دل میں اپنے وطن کے خلاف ہی نفرت گھول رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتا ماسٹر صاحب پھر گویا ہوئے۔
’’بیٹا! جہاں تک بات ہے بدامنی اور جھگڑوں کی تو بتائو ، دنیا کا کون سا خطہ یا ملک ہے، جہاں یہ رونما نہیں ہوتے۔ غریب یا ترقی پذیر ممالک تو ایک طرف، ترقی یافتہ ممالک بھی ان سے مستثنیٰ نہیں۔‘‘
’’وطن ایک آغوش ہے ماں کے پیار جیسی! ‘‘ ماسٹر صاحب نے آخری بات بڑی شفقت اور پیار سے کی تھی کہ حماد کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔
’’ماسٹر صاحب! مجھے یقین ہوگیا ہے کہ بڑے واقعی بڑے ہوتے ہیں۔ ہم کسی بات کو ایک زاویے سے سوچ رہے ہوتے ہیں جبکہ بڑے اسے حقیقت کےتناظر میں دیکھتے ہیں۔ آپ نے میری سوچ کے زاویوں کو صحیح سمت کی جانب گامزن کردیا ہے۔ میں عہد کرتا ہوں کہ نہ صرف اپنی سوچ بدلوں گا بلکہ دوسروں کو بھی حقیقت سے آگاہ کروں گا۔ اور ہاں وطن کی ترقی و فلاح کے لیے ہمیشہ کوشاں رہوں گا، کیونکہ
میرا دیس ہے پاکستان!‘‘
حماد کی باتیں سن کر ماسٹر صاحب نے اسے گلے سے لگا لیا۔
تبصرے