یوں تو بانگِ درا کی ساری شاعری ہی بے مثل و باکمال ہے۔ ہر غزل دل کش اور ہر نظم شاندار مگر طویل نظموں کی تو بات ہی اور ہے۔ بانگ درا اگر ایک حسین و جمیل جسم ہے تو طویل نظموں کی حیثیت اس جسم میں دل کی سی ہے۔ طویل نظمیں بانگ درا کا حسن اور شان ہیں۔ یہ نظمیں نہ صرف بانگ درا بلکہ شاعر مشرق کی بھی پہچان ہیں؛مثلا شکوہ، جواب شکوہ،سے کون واقف نہیں۔ لوگوں کو ان نظموں کے بند کے بند یاد ہیں، ان کے اکثر اشعار اور مصرعے بچوں کو ازبر ہیں اور زبان زد عام ہیں۔ اکثر بزرگوں کو تو یہ طویل نظمیں پورے کی پوری یاد ہوتی تھیں۔آج بھی ایسے محبانِ اقبال موجود ہیں جنہیں یہ نظمیں زبانی یاد ہیں اور وہ انہیں خوش الحانی سے پڑھتے ہیں۔شکوہ، جواب شکوہ سمیت بانگ درا کی باقی طویل نظمیں بھی اپنے اندر ایسی تاثیر اور سوز و گداز رکھتی ہیں کہ آج بھی امت مسلمہ کے دلوں کو اسی طرح تڑپاتی ہیں جس طرح سو سال قبل تڑپاتی اور جوش و جذبہ بیدار کرتی تھیں۔ بانگ درا کو منصہ شہود پر آئے سو سال کا عرصہ گزر چکا مگر یہ نظمیں آج بھی اسی طرح تر و تازہ ہیں، پوری آب و تاب سے جگمگا رہی ہیں اور قوم کے لیے رہنمائی کا گراں قدر سامان اپنے جلو میں لیے دعوت مطالعہ دے رہی ہیں۔
علامہ اقبال کی طویل نظموں کی اہمیت و افادیت بیان کرتے ہوئے معروف اقبال شناس ماہر اقبالیات ادیب دانشور محقق اور نقاد ڈاکٹر فرمان فتح پوری رقم طراز ہیں:
علامہ اقبال کی نظمیں سب کی سب شاعرانہ محاسن سے مالا مال ہیں لیکن بعض نظمیں جو دوسری نظموں کے مقابلے میں قدرے طویل بھی ہیں، خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ان نظموں میں بھی شکوہ، جواب شکوہ، والدہ مرحومہ کی یاد میں، شمع و شاعر، خضر راہ، طلوع اسلام، ذوق و شوق، مسجد قرطبہ، ساقی نامہ اور ابلیس کی مجلس شوریٰ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ان کی حیثیت اقبال کے جسد شعری میں دل کی سی ہے اور ان کے فکر و فن کی جملہ لطافتیں ان میں اس طرح یکجا ہو گئی ہیں کہ اقبال کا قاری اگر ان کے بقیہ اردو کلام سے بے نیاز بھی گزر جائے تو وہ بھی ان نظموں کے ذریعے اقبال کی عظمت شاعرانہ کا پورا اندازہ لگا سکتا ہے۔
ان نظموں کا مطالعہ قاری کو الفاظ و معانی اور فکر و فن کے نئے جہانوں میں لے جاتا ہے۔ان نظموں میں علامہ اقبال کے فکر و فن کی جولانیاں آسمانوں کی بلندیوں اور وسعتوں کو چھوتی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ نظمیں تگ و تاز زندگانی میں امت مسلمہ کے لیے زادِ راہ اور مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔ان میں امت مسلمہ کے لیے عبرت کا سامان بھی ہے اور منزل کا نشان بھی۔یہ نظم مسلمانوں کو آگے سے آگے بڑھنے پر ابھارتی ہیں،منزل کا پتہ دیتی ہیں اور منزل تک پہنچنے کے طریقے اور راز بتاتی ہیں۔
بانگ درا کی پہلی طویل نظم "شکوہ" ہے۔اس انوکھی نظم میں شاعرِ اسلام اور ترجمان حقیقت نے مسلمانوں کی ذلت ورسوائی، مفلوک الحالی، محکومی اور بے سر و سامانی کی شکایت بارگاہ رب العزت میں بڑے درد مندانہ اور مؤثر انداز میں کی ہے
ہے بجا شیوئہ تسلیم میں مشہور ہیں ہم
قصۂ درد سناتے ہیں کہ مجبور ہیں ہم
سازِ خاموش ہیں، فریاد سے معمور ہیں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم
اے خدا ! شکوئہ اربابِ وفا بھی سن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھی سن لے
یہ شاعر مشرق کی وہ معرکہ آرا نظم ہے کہ جس کی مثال دنیا کی کسی بھی زبان کے ادب میں ملنا محال ہے۔اس نظم نے وجود میں آتے ہی اہل علم و فن اور نقادان ادب کو چونکا دیا تھا۔علامہ کی طویل نظموں میں یہ نظم انتہائی بلند مقام کی حامل ہے اور ایک بالکل نیا اور نرالہ انداز لیے ہوئے ہیں۔بقول مولانا ماہر القادری
اک نئی طرز، نئے باب کا آغاز کیا
شکوہ اللہ کا اللہ سے بصد ناز کیا
معروف اقبال شناس اور ماہر اقبالیات ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی مرحوم نظم "شکوہ" کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
اقبال کی طویل نظموں میں "شکوہ" ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔یہ پہلی طویل نظم ہے جس میں اقبال نے مسلمانوں کے دورِ عظمت و شوکت اور ان کی موجود زبوں حالی کو ایک ساتھ نہایت فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے اور انداز شکوے کا ہے اور شکوہ بھی اللہ سے۔ اردو کا شعری سرمایہ اس انداز سے بالکل ناآشنا تھا۔
یہ درماندہ، غلامی کی زنجیروں میں جکڑی اور ذلت و پستی میں گری ہوئی پریشان حال مسلم قوم کے دل کی آواز تھی۔ لہٰذا مسلمانوں کے ہر قریے اور ہر گھر میں بڑی درد مندی سے پڑھی گئی اور تخلیق کے ایک سو تیرہ سال گزر جانے کے باوجود آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ یہ نظم ( 1911 ) میں تخلیق ہوئی اور اسی سال انجمن حمایت اسلام لاہور کے چھبیسویں سالانہ اجلاس،جو ریواز ہوسٹل، اسلامیہ کالج ریلوے لاہور میں منعقد ہوا، میں پڑھی گئی۔ یہ نظم چھ چھ مصرعوں کے اکتیس بندوں پر مشتمل ہے اور مسدس ترکیب بند ہیت میں لکھی گئی ہے۔ کمال نظم ہے۔اپنے قاری پر سحر طاری کر دیتی۔
بانگ درا کی دوسری طویل نظم' شمع اور شاعر' ہے جو 1912 میں لکھی گئی اور اسی سال انجمن حمایت اسلام کے 27 ویں سالانہ اجلاس منعقدہ 16 اپریل 1912 میں پڑھی گئی جو ریواز ہاسٹل لاہور کے صحن میں منعقد ہوا۔ یہ نظم ترکیب بند ہیت کے 11 بندوں پر مشتمل ہے۔ یہ ایک رمزیہ، ایمائیہ اور مکالماتی نظم ہے۔پروفیسر سروری نے اس نظم کو "بانگ درا کا دل" کہا ہے اور ڈاکٹر یوسف حسین خان لکھتے ہیں کہ "یہ نظم اقبال کے آرٹ کا اعلی نمونہ پیش کرتی ہے۔ شاعر اپنی ایمائی قوت سے سامع کو اپنی ذہنی بلندیوں کی سیر کراتا ہے۔
نظم کا پہلا بند فارسی میں ہے۔شاعر اضطراب اور درد و کرب کی حالت میں شمع کو دیکھتا ہے جو مستقل مزاجی سے جل رہی ہے اور اس کے گرد بے شمار پروانے جمع ہیں جنہیں شمع جلا کر خاک بنا رہی ہے مگر پروانوں کا طواف جوش و خروش سے جاری ہے اور ان کے عشق میں کمی نظر نہیں آتی یہ منظر دیکھ کر شاعر کا کرب اور اضطراب بڑھ جاتا ہے اور اسے شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وہ تنہا ہے اور پروانوں کے سے سوز اور دیوانگی سے محروم ہے۔دراصل شاعر کی حیثیت عالم اسلام کے علامتی فرد کی ہے جو شمع سے سوال کرتا ہے کہ اگرچہ میں بھی تیری طرح مدتوں عشق کی آگ میں جلا ہوں لیکن اس کا کیا سبب ہے کہ میرے شعلے کا طواف کرنے کے لیے کوئی پروانہ نہیں آیا۔میری روح سے سیکڑوں جلوے ظاہر ہیں مگر کوئی شخص ان کا تماشا نہیں دیکھتا یعنی میری قوم میرے پیغام کی طرف متوجہ نہیں ہوتی۔اے شمع تو نے جہان کو روشن کرنے والی آگ کہاں سے حاصل کی ہے جس کے باعث تو نے پروانوں کے اندر کلیم کا سا سوز پیدا کر دیا ہے؟ گویا رمز و ایما کے پردے میں شاعر شمع سے یہ سوال کر رہا ہے کہ امت مسلمہ پہلے سے جوش و جذبے کو کھو کر کیوں مردہ ہو چکی ہے اور کیا اسے پھر وہی جوش و جذبہ اور حرکت و حرارت حاصل ہو سکتی ہے؟ اور کیا اس کی نشاط ثانیہ کی کوئی صورت ہو سکتی ہے؟ نظم کے باقی دس بند اسی سوال کے جواب پر مشتمل ہیں۔
نظم کے اس حصے میں علامہ اقبال نے شمع کی زبانی، امت مسلمہ کے حوالے سے، اپنا درد و کرب سمیٹ کر رکھ دیا ہے اور ملت اسلامیہ کے ماضی، حال اور مستقبل پر تفصیلی بحث کی ہے۔قومی زوال کے اسباب بتائے ہیں،مسلمان کو اس کے مقام و مرتبے سے آگاہ کیا ہے، اسے عمل کا راستہ دکھایا ہے اور روشن مستقبل کی امید دلائی ہے۔ بقول پروفیسر یوسف سلیم چشتی "اگرچہ قوم کی مجرمانہ غفلت کی داستان انتہائی دردناک انداز میں بیان کی ہے لیکن اس تلخابہ کے بعد تریاق بھی مہیا کیا ہے یعنی دوبارہ سر بلندی کا طریقہ بھی بتا دیا ہے۔"
اسی طرح شمع و شاعر کا شمار "بانگ درا" کی ان اہم ترین نظموں میں ہوتا ہے جن کا جواب قدیم و جدید اردو شاعری میں نہیں مل سکتا۔ بعض نقاد تو اسے بانگ درا کی بہترین نظم قرار دیتے ہیں۔نظم واقعی پڑھنے بلکہ بار بار پڑھنے اور عمل کرنے کے لائق ہے۔
بانگ درا کی تیسری طویل نظم 'جواب شکوہ' ہے،جو' شکوہ' کے جواب میں لکھی گئی۔ یہ نظم 1913 میں لکھی گئی اور موچی دروازہ لاہور کے باہر ایک جلسہ عام میں سنائی گئی جو مولانا ظفر علی خان کے زیر اہتمام جنگ بلقان کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا۔یہ بھی ایک منفرد اور بالکل نئے انداز کی نظم ہے جس میں علامہ اقبال نے انتہائی چابک دستی اور فنکاری سے اپنی ہی نظم شکوہ میں، اللہ تعالی کی بارگاہ میں، کی جانے والی شکایتوں کے جوابات اللہ تعالی کی طرف سے دیے ہیں۔ بقول سید عابد علی عابد ''جواب شکوہ میں بارگاہ ربانی سے مسلمانوں کی شکایات کا جواب ملتا ہے،ان کی زبوں حالی کی توجیہ ملتی ہے،ان کی زیاں کاری کے اسباب کی نشاندہی کی جاتی ہے،ان کے زوال کا کھوج لگایا جاتا ہے اور ایسی پستی اور ایسی بلندی کے رموز حل کیے جاتے ہیں۔''
نظم' جواب شکوہ' مسدس ترکیب بند ہیت میں ہے اور کل 36 بندوں پر مشتمل ہے ۔
سب سے پہلے علامہ نے اپنی نظم شکوہ کی اثر انگیزی بیان کی ہے کہ چونکہ وہ باتیں دل سے نکلی تھیں، لہذا آسمان تک پہنچ گئیں پھر جواب شکوہ کی مختصر تمہید ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کی حالت زار کے حقیقی اسباب بیان کیے گئے ہیں۔
بانگ درا کی چوتھی طویل نظم "والدہ مرحومہ کی یاد میں" ہے جو 1914 میں لکھی گئی۔ یہ نظم علامہ اقبال نے اپنی والدہ مرحومہ کی وفات پر ان کی یاد میں لکھی تھی۔گویا اسے علامہ اقبال کی والدہ مرحومہ کا مرثیہ بھی کہا جا سکتا ہے۔اس کی ہیئت ترکیب بند کی ہے اور یہ کل تیرہ بندوں کے چھیاسی اشعار پر مشتمل ہے۔ نظم کا اصل موضوع تو والدہ محترمہ کی وفات پر رنج و غم کا اظہار ہے، جس کا تعلق جذبات و احساسات سے ہے مگر فکری لحاظ سے بھی یہ نظم انتہائی بلند پایہ ہے کہ اس میں علامہ اقبال نے اپنا فلسفہ حیات و ممات انتہائی دلکشی سے شعری قالب میں ڈھال دیا ہے۔بقول سید وقار عظیم
''والدہ مرحومہ کی یاد میں اردو میں اقبال کی شاید واحد نظم ہے جس میں وہ پڑھنے والے کو فکر اور جذبہ دونوں کے دام میں اسیر نظر آتے ہیں۔''
علامہ نے اس نظم میں پہلے مختصر طور پر فلسفہ جبر و قدر پیش کیا ہے کہ
پھر انسانی ذہن پر اس فلسفے کا رد عمل دکھایا ہے کہ انسان خدا کی مشیت کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے۔پھر والدہ مرحومہ کے تصور سے بچپن کی یادیں تازہ کی گئی ہیں اور بتایا ہے کہ ماں کی نظر میں جوان بیٹا بھی بچہ ہی ہوتا ہے۔علامہ نے انتہائی جذباتی انداز میں اپنے احساساتِِ رنج و غم کو بیان کیا ہے۔چھٹے بند میں بتایا ہے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں اور ساتویں بند سے علامہ اپنے فلسفہ حیات و ممات کے بیان کا آغاز کیا ہے۔
بانگ درا کی پانچویں طویل نظم' خضرِ راہ' ہے۔ یہ بھی ایک معرکہ آرا طویل نظم ہے جو ترکیب بند ہئیت کے گیارہ بندوں پر مشتمل ہے۔یہ نظم انجمن حمایت اسلام کے 27 ویں سالانہ جلسے منعقدہ 16 اپریل 1922 میں علامہ اقبال نے ترنم سے انتہائی رقت آمیز انداز میں پڑھ کر سنائی۔ چشم دید گواہوں کا بیان ہے کہ 20ہزار کا مجمع بے اختیار رو رہا تھا اور خود اقبال کا تو یہ حال تھا کہ پڑھتے پڑھتے بار بار رک جاتے کیونکہ مسلسل رونے کی وجہ سے ہر شعر کے بعد گریہ گلو گیر ہو جاتا تھا۔اس جلسے میں موجود بزرگوں اور علامہ اقبال کے کئی دوستوں کا بیان ہے کہ علامہ اقبال پر جس قد ررقت یہ نظم پڑھتے ہوئے طاری ہوئی اتنی کبھی نہیں ہوئی۔ساری نظم ہی انتہائی رنج و علم اور سوز و گذار میں ڈوبی ہوئی ہے۔ دراصل علامہ اقبال نے جب یہ نظم لکھی تو یہ زمانہ مسلمانوں کے لیے انتہائی نکبت و ادبار کا زمانہ تھا۔جنگ عظیم دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے تباہی و مصیبت کا پیغام لائی تھی اور دنیا اسلام کی حالت بد سے بدتر ہو چکی تھی۔سلطنت عثمانیہ بکھر چکی تھی، دنیائے عرب کے ٹکڑے ہو چکے تھے، عرب انگریزوں کے دام فریب میں گرفتار ہو چکے تھے، بیت المقدس پر صلیبی پرچم لہرا رہے تھے، دمشق اور بغداد پر غیر قابض تھے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت انتہائی المناک تھی تحریک ہجرت کی ناکامی نے انہیں انتہائی مایوسی اور رنج و غم میں مبتلا کر دیا تھا۔ جلیانوالہ باغ کے الم ناک سانحے نے ان کے رنج و الم میں اور بھی اضافہ کر دیا۔ایسے میں جب علامہ اقبال نے یہ نظم پڑھی تو وفورِ جذبات سے وہ بالکل بے قابو تھے۔ان پر اور سارے مجمعے پر رقت طاری تھی۔جب انہوں نے یہ شعر پڑھا کہ
آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحان مقصود ہے
تو علامہ اقبال کے ساتھ بیس ہزار کا مجمع بھی بے اختیار رونے لگا اور ہر طرف سے آہ و بکا بلند ہونے لگی۔
بانگ درا کی آخری طویل نظم "طلوع اسلام'' ہے جو انجمن حمایت اسلام کے 38ویں سالانہ اجلاس منعقدہ مارچ 1923 میں پڑھی گئی۔یہ ترکیب بند ہئیت میں لکھی گئی ہے اور اس کے کل نو بند ہیں۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ بھی ایک بے نظیر نظم ہے۔ بقول کلیم الدین احمد
'' اقبال کا مخصوص رنگ طلوع اسلام کے ہر شعر میں جلوہ گر ہے۔خیالات کا فلسفیانہ عمق ان کی صداقتِ بے پناہ، طرز ادا کی شان و شوکت۔ ہر شعر موثر ہے اور اس کا اثر جوش آور ہے۔دل مردہ میں روحِ زندگی دوڑ جاتی ہے اور ترقی کا جذبہ موج زن ہوتا ہے۔ خصوصا ًنوجوان قارئین تو بے چین ہو جاتے ہیں۔''
اس دور میں دنیا بھر میں مسلمانوں کی حالت گزشتہ سالوں کے مقابلے میں خاصی حوصلہ افزا اور اطمینان بخش ہو چکی تھی۔ ترکوں کو مصطفی کمال پاشا کی قیادت میں یونانیوں کے خلاف زبردست کامیابیاں حاصل ہو رہی تھی۔ 1922ء میں انہوں نے سمرنا پر قبضہ کر لیا جس پر ہندوستان میں زبردست خوشی منائی گئی اور مساجد میں گھی کے چراغ جلائے گئے۔مصر نے برطانیہ کے خلاف آزادی کا اعلان کر دیا۔ مراکش میں ہسپانوی فوج کے خلاف مجاہدین کا پلہ بھاری تھا۔ایران میں بھی انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں۔ ہندوستان میں تحریک ترک موالات زوروں پر تھی، جس نے ہندوستان کے مسلمانوں میں بیداری اور جوش و جذبے کی زبردست ہل چل پیدا کر دی تھی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دنیا بھر میں سارا عالمِ اسلام بیدار ہو کر سامراجیت اور غلامی کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ علامہ اقبال نے مسلمانوں کی اسی بیداری کو ''طلوع اسلام''سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ اقبال نے اس نظم میں مسلمانوں کی بیداری پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے انتہائی پرجوش انداز میں انہیں روشن مستقبل کی نوید سنائی ہے۔مولانا غلام رسول مہر کے بقول''یہ نظم سراسر احیائے اسلامیت کے پرمسرت جذبات سے لبریز ہے۔'' یہ نظم مسرت و شادمانی اور رجائیت کے جذبات سے مملو ہے۔علامہ مسلمانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ اگر وہ اپنے اندر ایمان کی حرارت پیدا کر لیں تو ساری دنیا پر غالب آ سکتے ہیں۔شاعر مشرق نظم کے آغاز ہی میں مسلمانوں کو جہانِ نو کی نوید سناتے ہیں، پھر کائنات میں مسلم کا مقام، اس کا کردار اور خصوصیات بتاتے ہیں۔جنگ عظیم کے نتائج اور اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے مغرب سے مایوسی کا اظہار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ مغرب کے انسانیت سوز مظالم نے مسلمانوں کو بیدار کر دیا ہے اور وہ اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔مسلمان ہی انسانیت کا مستقبل ہیں۔ اگر وہ آج بھی ابراہیم علیہ السلام کا سا ایمان اور یقین پیدا کر لیں،فرقہ واریت ختم کر کے ایک ہو جائیں،خودی کو مضبوط کر لیں اور جرأت کردار اپنا لیں تو دنیا کی امامت ان کے ہاتھ میں آ سکتی ہے اور ان کا مستقبل تابندہ تر ہو سکتا ہے۔ علامہ مسلمانوں کو واضح طور پر روشن مستقبل کی خوشخبری سناتے ہیں اور بیداری کی اس لہر پر بے پایاں مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے
پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے
مکاں فانی، مکیں آنی، ازل تیرا، ابد تیرا
خدا کا آخری پیغام ہے تو، جاوداں تو ہے
حنا بندِ عروسِ لالہ ہے خونِ جگر تیرا
تری نسبت براہیمی ہے، معمارِ جہاں تو ہے
تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی
جہاں کے جوہرِ مضمر کا گویا امتحاں تو ہے
جہانِ آب و گِل سے عالمِ جاوید کی خاطر
نبوت ساتھ جس کو لے گئی وہ ارمغاں تو ہے
یہ نکتہ سرگزشتِ مِلتِ بیضا سے ہے پیدا
کہ اقوامِ زمینِ ایشیا کا پاسباں تو ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
بانگ درا کی یہ طویل نظمیں بیسویں صدی کے ایک نابغہ روزگار مسلم رہنما اور فکر اسلامی کے عظیم شاعر کی فکر و فن کے ایسے تابناک جواہر ریزے ہیں کہ جن کی ملکوتی روشنی رہتی دنیا تک خضرِ راہ بن کر امت مسلمہ کو آگے سے آگے بڑھنے کا راستہ دکھاتی رہے گی،سامان سفر تازہ کرتی رہے گی اور راز ہائے الوندی بتاتی رہے گی۔ یہ محض نظمیں نہیں بلکہ روشنی کے مینار ہیں۔افرادِ قوم کو چاہیے کہ انہیں اپنے ماتھے کا جھومر بنائیں۔انہیں پڑھیں، پڑھائیں، سمجھیں، سمجھائیں اور ان کی تعلیمات کو منزل کے راستے کا سامان بنا لیں۔
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی
مضمون نگار ایک معروف ماہر تعلیم ہیں۔ اقبالیات اور پاکستانیات سے متعلق امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے