امتحان در امتحان، کبھی دہشت گردی کی عفریت،کبھی سیلاب کی تباہ کاریاں اورکبھی زلزلے کی افتاد۔ لاکھوں لوگوں کابے گھر ہونا ،جانی نقصان کا شمار نہیں، زمین کی سرکشی تو دیکھیے کہ جہاں آتش فشاں نے چاہا وہاںفشار پیدا کردیا، زمین نے ذرا سی کروٹ لی اور گھروںکے گھر منہدم ہوئے،مال وزر اور جان بھی ساتھ لے گئے، کسی زمین کے ٹکڑے میں جسم پھنس گیا، کہیں دبے ہوئے پتھروںکے نیچے بچوں اور بوڑھوںکی آہ وزاریاں سنائی دینے لگیں، جس دیوار کا سہارا لے کے ماں نے بچوںکو سینے سے چمٹانے کی کوشش کی وہی دیوار ان کے اوپر آگری۔
پاکستان میں8اکتوبر2005ء کے تباہ کن زلزلے کو آج19سال مکمل ہوئے، اس زلزلے میں ہزاروں افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ اس قیامت خیز زلزلے کویاد کرکے آج بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، ہستیوںکی ہستیاں اور بستیوںکی بستیاں زمین بوس ہوئیں توقرآن پاک کی آیات کا ترجمہ یاد آیا۔
ترجمہ:'' ہم کس قدر خوف اور بھوک اورمال اور جانوں اور مالوںکے نقصان سے تمہاری آزمائش کریںگے توصبرکرنے والوںکو اللہ کی خوشنودی کی بشارت سنادو۔ ان پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے توکہتے ہیںکہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اس کی طرف لوٹ کرجاناہے۔''
اس زلزلے میں مظفرآباد باغ کے بیشتر علاقوںکے علاوہ اسلام آباد کی مارگلہ ٹاورزکا ایک حصہ زمین بوس ہوگیاتھا اور خیبرپختونخوا اور آزادکشمیر میں بڑے پیمانے پر تباہی آئی تھی۔
ریکٹرسکیل پر یہ زلزلہ 15کلومیٹر زیرزمین آیا جس کی شدت 7.6ریکارڈ کی گئی تھی تباہ کن زلزلے سے بالاکوٹ کا95فیصد انفراسٹرکچر تباہ ہوا۔ ہزارہ اور راولاکوٹ میں ہزاروں افراد متاثرہوئے، پانچ لاکھ سے زائد لوگ بے گھرہوئے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ مظفرآباد تھا جہاں مکانات، سکولز،کالجز، دفاتر، ہسپتال، مارکیٹیں،پلازے ملبے کا ڈھیر بن گئے تھے خیبرپختونخوا کے554سکولز اورمانسہرہ کے161متاثرہوئے۔
8 اکتوبر 2005 کوآنے والا زلزلہ جو کشمیر سمیت پاکستان کے دیگر علاقوں میں آیااور یہ ملک کی تاریخ کے تباہ کن ترین قدرتی آفات میں سے ایک تھا۔ ذیل میں ہم اس زلزلے کے حوالے سے پاکستانی فوج کی امدادی کارروائیوں اور بحالی کے اقدامات پر روشنی ڈالتے ہیں۔
زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر 7.6تھی۔ اس زلزلے سے متاثرہ علاقے زیادہ تر شمالی پاکستان، آزاد جموں و کشمیر (AJK) اور خیبر پختونخوا (KPK) کے علاقے تھے۔
اس زلزلے میں اندازے کے مطابق 86,000 سے زائد افراد جاں بحق ہوئے، 69,000 زخمی اور 30 لاکھ کے لگ بھگ افراد بے گھر ہوئے۔
انفراسٹرکچر کی تباہی میں عمارتیں، سڑکیں، اور مواصلاتی نظام مکمل طور پر تباہ ہوا، خاص طور پر دور دراز پہاڑی علاقوں میں ترسیلات کا نظام بالکل ختم ہوگیا۔
ہر گھڑی تیار کامران ہیں ہم
جیسے ہوں حالات شادمان ہیں ہم
پاکستان فوج کا ہرمشکل میںفوری ردِ عمل ہمارے سامنے آتاہے،اگر ہم ایسے افتادوں کی تاریخ اٹھاکر دیکھیں توہمیں ہرمقام پر وردیوںمیں ملبوس افراد پانی کی گہرائیوںمیں اترتے، پہاڑوںکی چوٹیوں پر چڑھتے اورزمین میں دھنسے ہوئے لوگوںکو نکالنیکے لیے جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سخت دھوپ ،تیزبارش،آندھی اور طوفان میں ہرطرف نظرآتے ہیں۔ہماری افواج پاکستان کا یہی جذبہ ہے جو ہمیں 8اکتوبر2005کے زلزلے میں بھی نظرآیا اور وہ فوری طور پر متحرک ہوئے، زلزلے کے چند گھنٹوں کے اندر ہی پاکستانی فوج نے امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا۔
بچاؤ کی کارروائیاں شروع کی گئیں، فوجی اہلکاروں نے سڑکوں کو صاف کیا، ملبے تلے دبے افراد کو بچایا، ابتدائی طبی امداد فراہم کی اور زخمی شہریوں کو ہیلی کاپٹروں اور گاڑیوں کے ذریعے ہسپتال منتقل کیا۔
انجینئرنگ کی جتنی ٹیمیں تھیں وہ اپنی یونٹوںسے نکل کر تباہ شدہ سڑکوںکی تعمیرنومیں لگ گئیں اورجتنے دور دراز کے علاقے تھے جوکہ چھوٹے چھوٹے دریائوںاورنہروںکے اوپر بنے ہوئے پلوں کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے ان کو دوبارہ پلوںکے ذریعے آپس میں جوڑنے کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔
لاجسٹکس اورسامان کی فراہمی کے لیے ہیلی کاپٹرزفراہم کیے گئے اورپاک فوج کے ہیلی کاپٹرز کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا گیا تاکہ ان علاقوں تک پہنچا جا سکے جہاں لینڈ سلائیڈنگ اور سڑکوں کی تباہی کی وجہ سے رسائی ناممکن تھی اور وہاںپرلوگ زخموں،بھوک اور بیماری سے تڑپ رہے تھے۔ انہوں نے خوراک، پانی، خیمے اور طبی امداد فوری طور پرپہنچائی اورپناہ گزین کیمپ اور شیلٹرز کا بھرپور اہتمام کیا اور فوج نے بے گھر افراد کے لیے امدادی کیمپ قائم کیے اور ہزاروں افراد میں خیمے، کمبل اور دیگر ضروری اشیاء زندگی شمارکیے بنا تقسیم کیے۔
بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں اور پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کے ساتھ بھرپورتعاون کرتے ہوئے فوج نے تمام امدادی کوششوںکو ہرخاص وعام، ہر مصیبت زدہ تک پھیلادیا اور بین الاقوامی عطیات کا مثبت اورمربوط فائدہ اٹھایا۔
فوری طبی امدادکے لیے فوج نے متاثرہ علاقوں میں فیلڈ ہسپتال قائم کیے جواس وقت کی اہم ضرورت تھے کیونکہ شدید زخمیوںکو زندہ بچانا بھی بہت ضروری تھا اورزندہ بچ جانے والوں کو محفوظ مقامات تک پہنچانا بھی ضروری تھا۔اس لیے زخمیوں کا انخلاء شدیدزلزلے کے باوجود اسلام آباد، راولپنڈی اور دیگر بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں کیا گیا۔
ایسے حالات میں انسانوںکو بچالینا جتنا اہم ہوتاہے اتناہی ضروری یہ بھی ہے کہ شکست وریخت کے معاملات کو دیکھتے ہوئے بحالی اور تعمیر نو کاکام شروع کیاجائے۔ فوج کا طویل مدتی کردار ہمیشہ سے سراہاجاتا رہاہے اوریہاںبھی ابتدائی امداد کے بعد، پاک فوج طویل مدّتی بحالی کی کوششوں میں شامل رہی۔ انہوں نے حکومت اور بین الاقوامی عطیہ دہندگان کے تعاون سے سکولوں، ہسپتالوں اور گھروں کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کیا۔
انفراسٹرکچر کی ترقی اور ترویج میں انجینئرنگ کور نے سڑکوں اور پلوں جیسے کلیدی انفراسٹرکچر کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مواصلاتی نیٹ ورکس کو بحال کرنے میں مدد کی اور طویل مدتی امداد کی فراہمی کو آسان بنایا۔
سول اتھارٹیز اور این جی اوز کے ساتھ افواج پاکستان نے جس ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا اور اس قومی آفات کومات دینے کے لیے جس انتظام وانصرام سے گزرے وہ ایک مثال ہے۔ زلزلے نے پاکستان میں مربوط آفات کے ردعمل کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کیا، جس کے نتیجے میں نیشنل ڈیزاسٹرکے لیے ایراجیسا ادارہ بنا جو اب مینجمنٹ اتھارٹی (NDMA)کے طور پر کام کررہا ہے اس کی کی تشکیل میں فوج نے مدد کی۔ اس ادارے کے اس وقت کے قیام کے بعد سے آج تک اس کا کردار ہمیشہ سے اہم رہا اور بروقت کسی بھی افتاد سے پہلے اطلاعات فراہم کرنے کی ذمہ داری جس طریقے سے نبھارہے ہیں وہ بھی ایک مثال ہے۔
مؤثر ہم آہنگی کے لیے پاکستانی افواج نے این جی اوز، اقوام متحدہ کی ایجنسیوں، اور غیر ملکی افواج کے ساتھ مل کر امدادی سامان کی ترسیل اور امداد کی تقسیم میں مدد کی تاکہ امدادی کام زیادہ سے زیادہ مؤثرطریقے سے انجام پاسکے اورمتاثرین کو ان کا حق مل سکے۔اس حوالے سے فوجی ہسپتال اور طبی کیمپ طویل مدتی طبی امداد کے لیے قائم کیے گئے تاکہ متاثرہ آبادی کومدد فراہم کی جاسکے۔ایسی جو بھی افتاد ملک وقوم پر آتی ہے اس سے نکلنے کے لیے قیادت کا کردار بہت اہم ہوتاہے۔
اْس وقت کے صدر اورچیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف نے براہِ راست تمام تر اقدامات کو یقینی بنایا۔ ان کی قیادت نے اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ فوج امدادی کوششوں میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، جس سے فیصلے کرنے اور وسائل کی تقسیم میں تیزی آتی ہے۔
بین الاقوامی سطح پر بھی افواج پاکستان کے فوری اور مؤثر ردِعمل کو بڑے پیمانے پر سراہا گیا اورہمدردانہ کاوشوں کو بڑی عقیدت کی نظرسے دیکھاگیا۔ بین الاقوامی برادری، بشمول اقوامِ متحدہ، نے فوج کے اہم کردار کو تسلیم کیا جس نے مزید جانی نقصان کو کم کرنے میں مدد کی۔
قارئین فوجی امدادی کارروائیاں اس بات کی گواہ ہیںکہ یہ زلزلہ بڑے پیمانے پر آفات میں مربوط فوجی ردعمل کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اور ہمارے دلوںمیں افواج پاکستان کی عزت وتوقیر کو اوربڑھاتاہے ،خاص طور پر ایسی افتاد کے جن علاقوں میں شہری انفراسٹرکچر محدود یا ناکام ہو چکا ہو۔ پاکستانی افواج کی منظم، وسائل سے بھرپور اور بڑے پیمانے پر مداخلت امدادی اور بحالی کے عمل کے لیے انتہائی اہم تھی اور مستقبل میں ایسی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک معیار قائم کیاگیا اوراسی لیے سرحدوں اوردہشت گردی کی جنگ کے علاوہ قوم کووطن کے اندر جہاںبھی ضرورت پڑتی ہے افواج پاکستان کے نام کانعرہ لگایاجاتاہے۔
افواج پاکستان زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے