لیفٹیننٹ ناصر حسین سلہریا 24نومبر1997ء کو مظفر آباد آزاد کشمیر میں خالد نصیر سلہریا ایڈووکیٹ اور پروفیسر رخسانہ یعقوب سلہریا کے ہاں پیدا ہوئے۔ناصر حسین کے والد گرامی خالد نصیر سلہریا آزاد کشمیر پولیس میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر تھے، انہوں نے 17جون 2001ء کومظفر آباد میں دوران ڈیوٹی ایک حادثے میں شہادت پائی ۔ پروفیسر رخسانہ یعقوب سلہریا ''ہلال''سے گفتگو کرتے ہوئے بتا رہی تھیں کہ''خاوند کی شہادت کے بعد مجھے سسرال نے جو محبت اور شفقت دی وہ میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ سسر اور ساس نے مجھے بالکل والدین کی طرح پیار دیا،میرے سر پرہمیشہ دست ِ شفقت رکھا۔ یہ لوگ اپنے بچوں کی طرح میرا خیال نہ رکھتے تو میں کبھی کامیابی کی اس دہلیز تک نہ پہنچ پاتی اور اپنے معصوم بچوں کی تربیت نہ کر پاتی ۔جب میری شادی ہوئی، اس وقت میں نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہوئی تھی۔شوہر کی وفات کے بعد میں نے مزید تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔
پروفیسر رخسانہ یعقوب سلہریا بتارہی تھیں'' اللہ تعالیٰ نے مجھے تین بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی۔ ناصر شہید سب سے بڑے بیٹے تھے ۔میرے دو بیٹے اب بھی پاک فوج میں افسر ہیں۔لیفٹیننٹ ناصر حسین نے ابتدائی تعلیم مظفر آباد سے حاصل کی اورراولپنڈی میں دی پیراگون سکول اینڈ کالج سے میٹرک فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ ناصر حسین بہت محنتی اور ذہین بچہ تھا۔وہ ابھی ساڑھے تین سال کا تھاکہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیااور ایک چھوٹی عمر سے ہی اس پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہو گئیں ۔ دادا جان،دادی جان، ناناجان اور نانی جان کی بے ا نتہا شفقت و محبت میں اس کا وقت گزرتا گیا۔ ہم 8اکتوبر 2005میں قیامت خیز زلزلے کے بعد راولپنڈی میں ناصر کے نانا جان کے گھر رہائش پذیر ہوئے اوراس کا تعلیمی سفر جاری رہا۔ ناصر حسین نے دوران تعلیم ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کی اور اپنی کلاس کے مانیٹر رہے۔انہیں تقریری مقابلوں میں بہت دلچسپی تھی ،اپنی کلاس میں ہونے والے مقابلوں میں ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں میں خوب حصہ لیتے ۔ناصر نے ایف ایس سی کا امتحان قائد اعظم کالج چکلالہ سکیم تھری سے نمایاں نمبروں سے پاس کیا۔ ناصر حسین نے مئی2016ء میں کمیشن حاصل کیا اور پی ایم اے کاکول سے فوجی تربیت حاصل کی ۔بہترین کارکردگی کی بنیاد پر رائل ملٹری کالج آسٹریلیا کے لیے سلیکٹ ہو ئے اور دوسال وہاں زیرتربیت رہے۔
شہید کی والدہ نے یادوں کے دریچوں سے جھانکتے ہوئے بتایا کہ ناصر بہت زیادہ محنتی اورباصلاحیت نوجوان تھا۔ رائل ملٹری کالج آسٹریلیا میں بھی انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا خوب لوہا منوایا اور پوزیشن حاصل کی ۔ اس سیشن میں 16ممالک کے کیڈٹس تھے۔ناصر شہید نے اس اکیڈمی سے'' بیسٹ فارن کیڈٹ ایوارڈ'' اور Oratory Excellence Award حاصل کیے۔
ناصر شہید آسٹریلیا سے واپس آیاتواپنی کامیابی پر بہت خوش تھا کیونکہ آسٹریلیا کے اس معروف فوجی ادارے سے دو میڈلز حاصل کر کے پاس آئوٹ ہونا ایک بڑی اچیومنٹ تھی ۔شہید کا مکمل ریکارڈ گواہ ہے کہ وہ جس تعلیمی یا فوجی ادارے میں بھی گئے انہوں نے میڈلز حاصل کیے۔ صرف 22سال کی عمر میں اتنی زیادہ کامیابیاں سمیٹنا کوئی معمولی بات نہیں ۔آسٹریلیا سے واپس آکر وہ پاک فوج کے ایئر ڈیفنس گروپ میں شامل ہوئے۔یونٹ میں انہوں نے بڑی دلجمعی اور مشقت سے کام کیا۔ ایک ماہ بعد ان کی پوسٹنگ وزیرستان ہو گئی جہاں اس نے خود کو بڑے اچھے انداز سے پیش کیا اور دفاع وطن کے لیے بہت سی سختیاں برداشت کیں۔ انہوں نے نقشوں کی مدد سے حالات کو سمجھ کر شاندار کارکردگی کامظاہرہ کیا۔شمالی وزیرستان میں وہ چھ ماہ رہے اوربہت سے آپریشنز میں براہ راست حصہ لیا۔وزیرستان سے انہیں کورس کے لیے آرمی ایئر ڈیفنس سکول کراچی بھیج دیا گیا،اس ادارے سے بھی وہ میڈل لے کرآئے۔ کراچی سے واپس آکر وہ 17دن میرے پاس لاہور میں رہے ۔اس کے بعد دوبارہ شمالی وزیرستان چلے گئے''۔
وزیرستان میں بھی انہوں نے بڑی جرأت اور حوصلے کامظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنا ٹائم پیریڈبہت اچھا گزارا اور مختلف آپریشنز میں حصہ لیا۔میرا بیٹا ، میرا روح رواں ، میری مشکلات میں ہمیشہ میرے ساتھ کھڑا ہونے والا،وہ چونکہ بڑا تھا اس لیے اسے میرا بہت زیادہ احساس رہتا تھا۔ اس نے اپنی کامیابی کے لیے بڑی محنت کی ۔وہ اکثر کہتا تھا کہ میں اس لیے بہت محنت کرتاہوں کہ مجھے اپنی والدہ اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا احساس ہے ۔ جب پی ایم اے کاکو ل میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی تو میڈیکل کالج میں سیٹ بھی آچکی تھی تو اس کے باوجود آپ نے پاک فوج کیوں جائن کی؟ناصر نے جواب دیا کہ میرے چھوٹے تین بہن بھائی ہیں۔میری والدہ سنگل مدر ہیں۔مجھے میڈیکل تو بہت پسند ہے لیکن میں اس لیے فوج میں آیا کہ میں ملک کی خدمت بہتر انداز میں کر سکوں گا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے چھوٹے تین بہن بھائیوں اور ماما کو سپورٹ کر سکوں گا۔میں اپنا میڈیکل میں جانے کا خواب بہن بھائیوں کے ذریعے پورا کروں گا۔''یوں انہوں نے اپنے وطن اوراپنے بہن بھائیوں کے لیے بہت بڑی قربانی دی۔
شہید کی والد ہ بتارہی تھیں کہ'' بڑے بچے کی والدین کے ہاں بڑی جگہ ہوتی ہے۔لیفٹیننٹ ناصر حسین کی میرے دل میں بہت زیادہ جگہ تھی ۔ وہ میرا سب سے بڑا بیٹا، میرا بیسٹ فرینڈ تھا۔اس کی کمی کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی۔وہ میرے ساتھ بہت زیادہ باتیں کرتا۔اس نے بہت چھوٹی سی عمر میں بہت زیادہ محنت کی۔ میری ہرضرورت کا بہت خیال رکھتا۔وہ دودوگھنٹے فون پر باتیں کرتا رہتا اور میرے ساتھ بالکل چھوٹی چھوٹی باتیں شیئر کرتا ۔اسے یہی فکر لگی رہتی کہ ماما آپ پریشان نہ ہوا کریں ، اسے میرا بہت احساس رہتا۔ اکثر پوچھتا کہ ماما آپ تھک تو جاتی ہوں گی۔ جب وہ فوج میں گیا توکہتا کہ ماما میں سوچتاہوں کہ آپ نے ہمارے لیے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اپنی جان کو کھپا کر ہماری اچھی تعلیم و تربیت کی۔جس وقت والدین کے بچے ان کی محنت کا یوں اعتراف کرتے ہیں تو پھر والدین اپنی ساری تکالیف بھول جاتے ہیں۔میں اکثر اس کے فون کی ریکارڈنگ کر لیتی تھی اور پھر بعد میں اس کی آواز سنتی رہتی۔ میں اکثر اپنے بچے کے نمبر پر اب بھی کال کرتی ہوں لیکن جواب نہیں آتا۔شہید کی والدہ نے بتایا کہ ''ناصرجب چھوٹا تھا توا سے ہیلی کاپٹر بہت پسند تھا ،جب میں نے اسے یہ کھلونا لے کر دیا تو وہ اسے اڑا کر بہت زیادہ خوش ہوتا۔، اس کی یہ خوشی مجھے آج بھی بہت یاد آتی ہے۔اسے بچپن سے ہی کریز تھا کہ میں آرمی میں افسر کے طور پر جائوں۔ وہ فوج کی یونیفارم پہن کر بہت پرجوش ہو جاتا۔ ناصر حسین سے میری آخری ملاقات25جولائی2020ء کو ہوئی جب وہ ایک ہفتے کی چھٹی پر گھر آئے اور2اگست کو واپس وزیرستان چلے گئے۔ دوستمبر 2020ء کی رات کو دوبارمیری ان کے ساتھ فون پر گفتگو ہوئی ، انہوں نے بہت زیادہ باتیں کیں اورتین ستمبر2020ء کی صبح نو بجے وہ ہم سب کو اداس چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملے''۔
قارئین کرام ! وطن عزیز کی اس باہمت ماں کے بہادر بیٹے لیفٹیننٹ ناصر حسین نے 3 ستمبر2020ء کی صبح شمالی وزیرستان کے علاقے گھڑیوم سیکٹرمیں سڑک کنارے دہشت گردوں کی جانب سے نصب کی گئی بارودی سرنگ کے بلاسٹ ہونے سے اپنے دو جوانوں نائیک محمد عمران اورسپاہی عثمان اختر کے ہمراہ جام شہادت نوش کیا۔آپ کی نماز جنازہ یونیورسٹی گرائونڈ مظفر آباد( آزادکشمیر) میں ادا کی گئی اور آپ کوپورے فوجی اعزاز کے ساتھ سپر دخاک کیاگیا۔ ناصر حسین کو وطن کی خاطر دلیرانہ انداز سے لڑتے ہوئے جان قربان کرنے پر ''تمغۂ بسالت''سے نوازا گیا۔
شہید کی والدہ نے مزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے بیٹے ناصر شہید کی لاہور کے لیے پوسٹنگ آگئی اور ہم لاہور شفٹ ہوگئے۔ میں نے اپنی تعلیم جاری رکھی ۔ اب میں گیریژن کالج فار گرلز لاہور میں اسلامیات ڈیپارٹمنٹ میں پر وفیسر ہوں۔اس کے علاوہ میں دیگر سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتی رہتی ہوں۔ میں نے شہدائے افواج پاکستان کے والدین کا ایک فورم بنایا ہوا ہے اور میں ان والدین سے رابطے میں رہتی ہوں۔ شہیدوں کے والدین کے مابین ایک دکھ اور درد کا رشتہ ہوتا ہے اور جب ہم ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو بڑا سکون بھی میسرآتا ہے ، ہم اپنے بچوں کی یادیں بھی تازہ کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔جب تک کوئی انسان کسی تکلیف سے نہیں گزرتا تو اسے اس کا اندازہ بھی نہیں ہوتا ۔ ہم شہداء کے والدین کا دکھ ایک جیسا ہے اور ہم ایک دوسرے کے دل کے بہت قریب ہیں۔یہ رشتہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔اس کے علاوہ میں مختلف مقامات اور اولڈ ہائوسز وغیرہ میں بھی جاتی ہوں اور دکھی خواتین کے مسائل سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔بہت سی خواتین ایسی ہیں جو سنگل مدر ہیں اور ان کی زندگی میں بہت سی رکاوٹیں ہیں۔ان کاکوئی ذریعہ معاش نہیں، ایجوکیشن نہیں۔میں کوشش کرتی ہوں کہ ایسی خواتین سے مل کر ان کی حوصلہ افزائی کروں اور ان کو آگے بڑھنے کے لیے ان کی مدد کروں۔ میرا مشن یہ ہے کہ اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں، دوسروں کے لیے جیاجائے جس سے ہمارا رب بھی راضی ہواور ہم خود کو بھی پرسکون محسوس کریں''۔
مضمون نگار شعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں۔
تبصرے