شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے خواب کی حسین تعبیر ''پاکستان''ہماری پہچان، آن بان اور شان ہے۔ قائدِ اعظم کا ہم پر احسان عظیم ہے جو یہ ارضِ پاک ہمیں نصیب ہوئی اور اس کی بدولت ہم آزاد وطن کے شہری کہلانے کے حق دار قرار پائے۔''پاکستان''کا لغوی معنی ہے ''پاک لوگوں کی سرزمین'' کیا یہ ممکن ہے کہ پاک لوگ اپنی سرزمین کی ناشکری اور بے قدری کریں، اسے برا بھلا کہیں، نامساعد حالات اور اداروں کو کوستے رہیں اور اپنی ناکامیوں کے لیے قصوروار ٹھہرائیں؟
دھرتی ماں کی ذرخیز کوکھ سے جنم لینے والی بیش بہا نعمتوں کے میسر ہوتے ہوئے بھی اگر آج ہم دگر گوں حالات کا شکار ہیں تو یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ناانصافی، بدامنی، مہنگائی، غربت سمیت بیسیوں معاشی اور معاشرتی مسائل حالات کے بگاڑ کی اصل وجہ ہیں۔ اپنے اردگرد دیکھیں تو ہر دوسرا شخص مایوسی و ناامیدی میں لپٹا، پاکستان کے حالات سے متنفر اور وطن چھوڑنے کے لیے پر تولتا نظر آتا ہے۔ درحقیقت کوئی بھی ملک مسائل سے مبرا نہیں ہوتا۔ حالات کو دن رات برا بھلا کہنے، کوسنے، کمی و محرومی پر واویلا مچانے اور اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے سے نہ حالات بدلتے ہیں اور نہ ہی یہ عمل باشعور قوم کو زیب دیتا ہے۔
ارضِ پاکستان کی بقا، استحکام اور ترقی کی خاطر تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ گزشتہ چند برسوں میں سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو جس قدر تیزی سے اپنا اسیر بنایا ہے یہ امر اب باعث تعجب نہیں رہا۔نوجوان نسل کی سوچ اور رجحانات پر ملکی حالات اور سوشل میڈیا نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ گفتگو کے انداز، معلومات سے استفادہ کرنے کے طریقہ کار، اپنے آس پاس کی دنیا کو دیکھنے کا زاویہ اور ملکی حالات پر نامناسب رائے دہی، یہ سب ہمارے رجحانات کے زیر اثر آ چکا ہے۔ سماجی معاملات سے لے کر ہمارے طرز عمل تک سب کو سوشل میڈیا نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ ایک دوسرے سے روابط میں آسانی کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا ہماری سماجی اور اخلاقی اقدار کے لیے خطرے کی گھنٹی بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا کا منفی استعمال کر کے نوجوان نسل کو گمراہ اور ان کے اذہان کو آلودہ کرنے کی کوشش کئی برسوں سے جاری ہے۔نوجوانوں کو ان منفی اثرات سے بچانے کی خاطر ٹھوس حفاظتی اقدامات اٹھانے کی ضرورت آج جتنی شدید ہے اس سے قبل کبھی نہ تھی۔ سماجی روابط کے مختلف پلیٹ فارمز پر پیش کیے جانے والے مواد، خبروں اور حقائق کی درستی ایک سنگین مسئلہ کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ہمیں کسی بھی غلط خبر یا افواہ پر آنکھیں بند کر کے یقین کرنے کے بجائے اس کو جانچنے، پرکھنے اور تحقیق کرنے کی عادت کو فروغ دینا ہو گا۔ سنی سنائی منفی باتوں اور شک و شبہات کو آگے پھیلانے کا مطلب ہے برائی اور فساد کی راہ ہموار کرنا جو کہ کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں۔
جگہ جگہ کچرا پھینکنے، قیمتی وسائل بشمول پانی، بجلی، گیس کو مال مفت سمجھ کر ضائع کرنے، ٹریفک اشارے توڑنے، دوسروں کا حق مارنے، ہیرا پھیری کرنے، پرتشدد اور انتہا پسندانہ رویہ رکھنے اور انسانیت و اخلاقیات سے عاری غیر ذمہ دار افراد بھی اگر حالات اور اداروں کو برا بھلا کہنے کی عادت بنا لیں تو یہ انتہائی مضحکہ خیز طرز عمل ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ''عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی...''اور عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔ اچھی نیت ہمیشہ اچھی سوچ کی مرہون منت ہوتی ہے۔ مثبت اور اچھی سوچ سے ہم برے سے برے حالات سے بھی امید کی کرن ڈھونڈ کر آگے بڑھ سکتے ہیں کہ زندہ اقوام کا ہمیشہ یہ ہی شیوا رہا ہے۔ہم کیسے اپنی سوچ، حالت اور حالات بدلیں؟ کیسے بہتری کی کوشش، محنت اور جستجو کریں؟ اپنے گردوپیش میں کیا اچھے بدلاؤ لائیں؟ یہ سوالات ہمیں گاہے بگاہے خود سے پوچھتے رہنا چاہیے۔ گلی و محلے کی حد تک اگر صفائی ستھرائی، امن و سکون، ناانصافی کا خاتمہ اور ضرورت مندوں کی مدد کا سلسلہ شروع کریں تو سوچیں کیسے اچھے بدلاؤ آ سکتے ہیں۔ ایسا کرنے سے یقیناً بہت سوں کے حالات بہتر ہوں گے اور ان کی سوچ کا رخ بدلے گا۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ترجمہ: ''بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے، اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اسے کوئی ٹال نہیں سکتا۔ اللہ کے سوا ایسوں کی مدد کرنے والا کوئی نہیں۔''(سورة رعد)
وطن عزیز کے ابتر حالات کو افواج سے نتھی کر کے برا بھلا کہنا اور منفی پہلو دیکھتے رہنا لکیر پیٹنے کے مترادف ہے، جس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ نوجوان ہر ملک میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاک وطن کی کمر میں اس لیے بھی خمیدہ پن آ رہا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کمزور، غیر فعال اور اپنی جگہ سے ہٹ رہی ہے۔ غیر معمولی اور قابل اذہان کی اکثریت بیرون ملک میں بسنے کی متمنی ہے تاکہ اپنی زندگی اور حالات سنوار سکے۔ زندہ قوم اپنے حالات بدلنے، کچھ کر دکھانے کا جذبہ، اور فکر و عمل میں تبدیلی لانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں قابل و باصلاحیت افراد کی کمی ہرگز نہیں۔ارفع کریم (مرحومہ) سمیت کئی باشعور پاکستانی نوجوان ایسے ہیں جنھوں نے حالات اور وسائل کو رکاوٹ نہیں بننے دیا اور عالمی سطح پر اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
علم و عمل پر اکساتا شعر پڑھا تو خوب جاتا ہے پر عمل ندارد۔۔۔ افسوس! علامہ اقبال سے منسوب کیا جانے والا یہ شعر مولانا ظفر علی خان کا ہے۔ ایسا ہی کچھ حال سوشل میڈیا پر جابجا دیکھنے کو ملتا ہے، جہاں کسی سے کچھ بھی منسوب کرنا اور موردالزام ٹھہرانا عام رویہ بن چکا ہے۔
تنائو کے ماحول میں اگر ہم اپنی فہم و فراست کو بروئے کار لا کر تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو یہ سمجھنے میں کامیاب ہو سکیں گے کہ کون سے ایسے عوامل ہیں جو بحیثیت قوم ہمارے لیے سود مند ہیں اور کون سے اقدام باعث شرم اور نقصان دہ۔
''ایمان، اتحاد، تنظیم''۔۔۔ کیا پاکستانی سات دہائیاں گزرنے کے باوجود قائد اعظم کے اس قول کی عملی تشریح بن سکے ہیں؟
سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے ہر ممکن احتیاط برتنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا شئیر کیا ہوا مواد ان شرپسند گروہ اور تنظیموں کی توجہ کا مرکز نہ بنے جو ہمارے رجحانات دیکھتے ہوئے غیر محسوس طریقے سے اپنا حصہ بنا کر انتشار اور فساد پھیلانے کا سبب بنتی ہیں۔ پاکستانی افواج دہشت گردوں سے لڑنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں، لیکن جوش و جذبے اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ انھیں پوری قوم کے بھروسے اور تعاون کی بھی ضرورت ہے۔
واصف علی واصف کے سنہرے الفاظ ہیں''پریشانی حالات سے نہیں، خیالات سے پیدا ہوتی ہے۔''
دیکھیے یہ کس قدر گہرا اور جامع خیال ہے۔ا گر غور و فکر کریں تو سمجھ سکیں گے کہ ہمارے خیالات ہی درحقیقت ہر عمل کی بنیاد ہیں۔ ہم جیسا سوچتے ہیں ویسابولنا، سننا اور دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ مثبت فکر و عمل رکھنے والا منفی پن اور برائی کا پرچار کرے، ملک اور حالات میں کیڑے نکالنے کو اپنا شیوہ بنائے۔
آئیے تہیہ کریں کہ دھرتی ماں کے حالات اور ادارے کو برا بھلا کہنے کے بجائے اپنی محنت اور قابلیت کے بل بوتے پر اسے سنوارنے پر دھیان دیں گے۔ اپنی فکری، علمی اور عملی صلاحیت بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔پاکستان کے حالات اور مقدر بدلنے کے لیے ہمیں بحیثیت قوم اپنی سوچ اور رویے بدلنے کی اشد ضرورت ہے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
(علامہ محمد اقبال)
مضمون نگار سماجی ومِلّی موضوعات پرلکھتی ہیں۔
[email protected]
تبصرے