بابا جان یہ دیکھیں ، ہمار ی ایک اور کامیابی؟ جاثم کی بات پر اس کے ابو چونک اُٹھے۔ انہوں نے ایک نظر اخبار سے ہٹائی اور جاثم کا موبائل لے کر اسے غور سے دیکھنے لگے۔ یہ واقعی ایک یادگار لمحہ تھا ۔2024 ءکا پیرس اولمپکس، جب پوری دنیا نے ایک پاکستانی ہیرو کو اپنی صلاحیوں کا لوہا منواتے دیکھا۔ ارشد ندیم نے 92.97 میٹر کا حیران کن جیولین تھرو کرتے ہوئے اولمپک ریکارڈ توڑ دیا اور اولمپک گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔ جیسے ہی اس کا نیزہ فضا میں بلندی کو چھوتا ہوا دور جاگرا، کروڑوں دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ پاکستان کے ہر کونے میں جشن کا سماں تھا۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ گھروں، بازاروں اور گلیوں میں جشن کا سماں تھا۔ بچوں نے اپنے چہروں پر قومی پرچم پینٹ کروائے، نوجوانوں نے موٹرسائیکلوں پر پاکستانی پرچم لہرائے اور بزرگوں نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ ہر جگہ، ہر زبان پرایک ہی بات تھی،’’ ارشد ندیم نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جس نے پاکستان کے نام کو دنیا بھر میں روشن کر دیا ہے۔‘‘
’’بیٹا!ارشد ندیم کی کامیابی دراصل ہماری قوم کی جیت ہے۔ ارشد ندیم کی جیت نے نہ صرف اولمپکس کے میدان میں، بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کے نام کا ڈنکا بجا دیا۔ اس لمحے نے ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ پوری قوم کو یکجا کر دیا۔ یہ واقعی یومِ آزادی کا ایک ایسا تحفہ تھا جسے کبھی بھلایا نہیں جا سکے گا۔‘‘
جاثم اپنے ابو کی باتوں کو غور سے سن رہا تھا کہ اسی دوران جاثم کے چچا جان بھی آگئے۔ انہوں نے بھی سب سے پہلے ارشد ندیم کی فتح کی خوشخبری سنائی اورمبارک باد دی۔ انہوں نے بتایا کہ ’’ارشد ندیم اولمپک گولڈ میڈلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارے قومی ہیروہیں۔ انہوں نے چالیس سال بعد پاکستان کو گولڈ میڈل جتوا کر ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں ۔ یہ انفرادی مقابلوں میں پاکستان کا پہلا گولڈ میڈل بھی ہے۔‘‘
جاثم کالج میں پڑھتا تھا اوراسے کھیلوں سے کافی رغبت تھی۔ وہ ارشد ندیم کے بارے میں مزید جاننا چاہتا تھا۔چچا اس کے دل کی بات بھانپ گئے۔ اور بولے، ’’ بیٹا! ارشد ندیم اس سے قبل بھی کئی بار اپنے ملک کے لیے کامیابیاں سمیٹ چکا ہے۔ اس کی دیگر کامیابیوں میں چار سونے کے تمغے بھی شامل ہیں ۔ وہ 2020 کے ٹوکیو اولمپکس میں پانچویں پوزیشن حاصل کر چکا ہے۔ اسی طرح 2023 میں ورلڈ چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ اور 2022 میں کامن ویلتھ گیمز میں 90.18 میٹر کے فاصلے پر تھرو کر کے سونے کا تمغہ اپنے نام کر چکا ہے۔ہماری حالیہ کامیابی تو بذات خود ایک ریکارڈہے کیونکہ اس میں ارشد ندیم نے 92.97 میٹر لمبی تھرو کی ہے۔اس نوجوان نے 2008 کے بیجنگ میں منعقدہ اولمپکس میں بنایا گیا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا ۔‘‘
’’ماشاء اللہ ہمارے ملک میں بہت ٹیلنٹ ہے۔‘‘ ابا جان نے چچا کی باتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
’’بالکل بھائی جان! آپ نے دیکھا ہوگا کہ کرکٹ، ہاکی، سکواش، ٹیبل ٹینس،سنوکر، کبڈی، تائیکوانڈو سمیت بہت سے کھیلوں میں پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنے ٹیلنٹ سے دنیا کو حیران کردیا اور پاکستان کے پرچم کو سربلند کردیا۔ ارشد ندیم اس فہرست میں شامل ہونے والا ایک اور ایسا ستارہ ہے جس کی روشنی سے آج پورا پاکستان جگمگا رہا ہے۔ ارشد ندیم کی انتھک محنت، اپنے مقصد کے حصول کی لگن ، یکسوئی، ہمت اور کامیابی نے ہم سب کو ایک نیاولولہ اور جوش عطا کیا ہے۔ یہ ہمارے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ ارشد ندیم کے ساتھ عوام کی محبت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے قومی ہیروز کو اپنےدلوں میں بسائے رکھتے اور ان کی عزت و تکریم کرتے ہیں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی صلاحیتوں سے قوم کو یکجا کر کے ایک نئی امید دلاتے ہیں۔‘‘
چچا جان نے اپنی بات ختم کی تو بابا جان بولے:‘‘ ارشد ندیم کی جیت ہماری قوم کے لیے اُمید کی ایک کرن ہے۔ یہ ایک ایسا تحفہ ہے جس کی قدرو قیمت پاکستان سے محبت کرنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔بیٹا، ہمیشہ یاد رکھو! اپنی ذہانت، علم، بصیرت،خداداد صلاحیتوں اور عزم و ہمت سے کامیابی ملتی ہے۔ارشد ندیم نے انہی خوبیوں کی بدولت اپنا اور اپنے وطن کا نام روشن کیا ہے۔‘‘
جاثم نے بابا جان کی باتیں غور سے سنیں۔ اب اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ پاکستان کے لیے کتنی بڑی کامیابی ہے۔
تبصرے