گرمی عروج پر تھی۔ سورج جیسے زمین کو جھلسا دینے والا تھا۔ سڑکیں تپ رہی تھیں، ہوا میں نمی کا شائبہ تک نہیں تھا اور لوگوں کی سانسیں بوجھل ہو چکی تھیں۔ لیکن انہی تپتی دوپہروں میں، احمد نامی ایک نوجوان طالب علم، اپنے خوابوں کا پیچھا کرتے ہوئے، ہمت اورعزم کا پیکر بنا ہوا تھا۔
احمد کے دل میں اپنے دادا کی قربانیوں کی گہری چھاپ تھی۔ اس کے دادا نے قیامِ پاکستان کے وقت، ہجرت کا وہ کٹھن سفر طے کیا تھا جو لاکھوں مسلمانوں نے پاکستان کے خواب کی تعبیر کے لیے کیا تھا۔ بچپن سے ہی احمد اپنے دادا کی داستانیں سنتا آیا تھا۔ داستانیں جو ان کے خاندان کی قربانیوں اور وطن سے محبت بھرپور تھیں۔ قیامِ پاکستان کے بعد احمد کے دادا نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کی اور اپنی ساری زندگی وطن کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔
دہشت گردی کے خلاف لڑتے ہوئے، احمد کے دادا نے بنوں چھاؤنی میں جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی یہ قربانی احمد کے دل میں اُتر گئی تھی۔ دادا کی قربانیوں اور وطن کے ساتھ ان کی غیر متزلزل محبت نے احمد کے دل میں یہ جذبہ پیدا کیا کہ وہ بھی ملک کے لیے کوئی اہم کام کرے۔
ایک دن، جب گرمی نے حد سے تجاوز کیا تو احمد نے محسوس کیا کہ شہر میں درختوں کی بہت کمی ہے اسی لیے گرمی کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ماحول کو بچانے کا ایک اہم راستہ شجر کاری ہو سکتا ہے۔ وہ جان گیا تھا کہ اگر شہر میں بڑے پیمانے پر درخت نہ لگائے گئے تو آنے والے دنوں میں یہ گرمی ناقابلِ برداشت ہو جائے گی۔
احمد کویہ بھی معلوم تھا کہ اوزون کی تہہ سورج کی مضر شعاعوں، خاص طور پر الٹرا وائلٹ، سے زمین کی حفاظت کرتی ہے لیکن فضائی آلودگی اور کیمیائی مادوں کے استعمال نے اسے شدید نقصان پہنچایا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف ماحول میں گرمی بڑھ رہی ہے بلکہ جلدی امراض، آنکھوں کی بیماریاں اور دیگر سنگین مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔اس نے سوچا کہ درخت لگانا نہ صرف زمین کو سرسبز کرے گا بلکہ اوزون کی تہہ کو پہنچنے والے نقصان کوبھی کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا کیونکہ درخت ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کر کے آکسیجن پیدا اور فضائی آلودگی کو کم کرتے ہیں۔
اس نے اپنے دوستوں کو جمع کیا اور شجرکاری کی مہم شروع کرنے کا عزم کیا۔ اس کا مقصد صرف درخت لگانا نہیں تھا بلکہ انہیں اس وقت تک پروان چڑھانا تھا جب تک وہ مکمل طور پر بڑے اور سایہ دار نہ بن جائیں۔ یہ مہم صرف ماحول کو بہتر بنانے کا ذریعہ نہیں تھی بلکہ احمد کے لیے یہ ایک قوم کی خدمت تھی۔ جس کی سرحدوں کی حفاظت اس کے دادا نے کی تھی اور اب وہ اس قوم کے مستقبل کی حفاظت کرنا چاہتا تھا۔
محدود وسائل کے باوجود، احمد اور اس کے دوستوں نے اپنی جیب سے پیسے جمع کیے اوربہت سے پودے خریدے۔ انہوں نے اپنے محلے کے لوگوں کو بھی اس مہم میں شامل کیا ۔ سب نے مل کر درخت لگانے کا کام شروع کر دیا۔ احمد نے لوگوں کو درختوں کی اہمیت اور فوائد سے آگاہ کیا۔ اس نے بتایا کہ درخت نہ صرف گرمی کو کم کرتے ہیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ اور ہماری صحت اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ احمد نے یہ بھی وضاحت کی کہ کس طرح درخت لگانے سے اوزون کی تہہ کو مزید نقصان سے بچایا جا سکتا ہے۔
بارش کا موسم قریب آتے ہی احمد اور اس کے ساتھیوں نے شہر کے مختلف علاقوں میں سایہ دار درخت لگائے۔ بارشوں نے ان درختوں کو نئی زندگی بخشی اور محلے کا ماحول ایک دم خوشگوار ہو گیا۔ ہوا میں تازگی اور منظر میں خوبصورتی چھا گئی۔
آہستہ آہستہ احمد کی یہ مہم ایک کامیاب تحریک میں بدل گئی۔ اس کی محنت اور لگن کو دیکھ کر لوگوں نے بھی اسے سراہا اور اس کی حوصلہ افزائی کی۔ احمد کی اس کاوش نے اسے اپنی یونیورسٹی میں بھی نمایاں کر دیا، جہاں مختلف سماجی تنظیموں کے نمائندے ایک سیمینار میں شریک تھے۔ احمد کو اپنے تجربات شیئر کرنے کا موقع ملا۔ سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے اس نے جوش و خروش سے کہا،’’یہ وطن ہم سب کا ہے۔ ہمارے فوجی جوان ہماری سرحدوں کے محافظ ہیں ۔ وہ ملکی امن و استحکام کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن اب بات صرف سرحدوں تک نہیں رہی۔ہم سب کو اس وطن کی ترقی اور خوشحالی میں اپنا فعال کردار ادا کرنا ہو گا۔ہمیں ہر شعبے میں اپنے ملک کی خدمت کرنی ہوگی۔ اس کے مستقبل کو سنوارنا ہوگا۔ چھوٹے چھوٹے اقدامات جیسے درخت لگانا، آنے والے وقت میں بڑے مثبت نتائج دے سکتے ہیں۔ درخت نہ صرف گرمی کو کم کرتے ہیں بلکہ اوزون کی تہہ کو بھی بچانے میں مدد دیتے ہیں جو کہ ہماری زمین کے لیے نہایت ضروری ہے۔‘‘
تمام حاضرین احمد کی باتیں سن کربہت متاثر ہوئے ۔ انہوں نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔اس موقع پر لوگوں نے عزم کیا کہ وہ بھی اس مہم کا حصہ بن کر اپنے وطن کو خوبصورت اور ماحول کو پرفضا بنائیں گے۔
احمد کی شجرکاری مہم نہ صرف اس کے محلے بلکہ پورے شہر میں ایک مثال بن گئی۔ یہ ثابت ہو گیا کہ اگر عزم ہو تو چھوٹے چھوٹے قدم بھی ملک کی ترقی میں بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں۔
تبصرے