(بسلسلہ بانگ درا کے سو سال )
دانائے راز، حکیم الامت، ترجمان حقیقت، مفکر اسلام اور شاعر انقلاب ہونے کے ناتے علامہ محمد اقبال قوم کے لیے نوجوان نسل کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھے۔اسی لیے وہ نوجوان نسل کو قوم کا کل اثاثہ اور سہارا سمجھتے اور مضبوط، توانا اور باکردار نوجوانوں کو ملت اسلامیہ کی سربلندی کا ذریعہ قرار دیتے تھے۔ اسی لیے وہ اپنی فکر میں نوجوانوں کی اصلاح کی جانب خاص توجہ مرکوز کرتے ہیں اور نظم و نثر میں بار بار نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں تعمیر خودی، حرکت و عمل، جرأت کردار، غیرت و حمیت اور جہد مسلسل کے اسباق ازبر کراتے دکھائی دیتے ہیں۔ان کے ہر شعری مجموعے میں نوجوانوں کی تربیت و رہنمائی کا وافر سامان موجود ہے۔ بانگ درا، جو علامہ اقبال کا اولین شعری مجموعہ ہے،کا مطالعہ بھی یہی حقیقت عیاں کرتا ہے کہ علامہ اقبال ابتدا ہی سے امت مسلمہ کے لیے اس کے نوجوانوں کی اہمیت اور ان کی اصلاح و بیداری کی اہمیت سے پوری طرح واقف تھے۔اسی لیے اس اولین شعری مجموعے میں بھی وہ بار بار نوجوان نسل کو مخاطب کرتے ہوئے اسے ہر طرح سے بیدار کرنے،اپنی اصلاح کرنے اور قوم کے لیے میدان عمل میں اترنے پر ابھارتے دکھائی دیتے ہیں۔
نظم "طلبہ علی گڑھ کے نام'' 1908"میں لکھی گئی۔ بانگ درا کی اس نظم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں علامہ اقبال پہلی بار اپنی قوم کے نوجوانوں سے مخاطب ہوئے ہیں۔ ہندوستان میں یہ زمانہ سیاسی شورش کا زمانہ تھا اور مسلم قوم پستی اور مایوسی کا شکار تھی۔ مسلمانوں کے سامنے کوئی نصب العین نہ تھا، مغربی تہذیب کی یلغار تھی۔ نوجوان مغربی نظام تعلیم اور مغربی تہذیب سے متاثر ہو رہے تھے اور ان کے مکمل گمراہ ہو جانے کا قوی اندیشہ تھا۔ علامہ اقبال نے ان خطرات کو اپنی نوجوانی کے دور ہی میں محسوس کر لیا تھا۔ لہذا وہ اس نظم میں نوجوانوں کی اصلاح اور ان کے اندر جذبہ عشق و حرارت پیدا کرنے پر کمر بستہ دکھائی دیتے ہیں۔ وہ عقل و عشق کا موازنہ کرتے ہوئے نوجوانوں کو سبق دیتے ہیں کہ عقل یعنی تعلیم ضرور حاصل کرو مگر ان کی اور قوم کی کامیابی سچا عشق یعنی ذوقِ جنوں اختیار کرنے میں ہے۔اے میری قوم کے نوجوانوں! تم نے قوم کے محکوم اور غلام رہنمائوں کی تقاریر تو بہت سن لیں، اب ذرا ایک حریت پسند مرد مومن اور بلندی پر پرواز کرنے والے پرندے یعنی اقبال کا پیغام بھی سنو۔ زندگی کا راز سکون میں نہیں بلکہ مسلسل آگے بڑھنے میں ہے۔ جس شخص میں ذوق طلب نہیں اس کا انجام فنا ہے وہ شخص کبھی حیات ابدی حاصل نہیں کر سکتا۔ جام کی گردش اور آدمی کی گردش میں بہت فرق ہے یعنی عیش و عشرت اور چیز ہے اور قوم کے لیے حرکت و عمل اور چیز ہے۔صبح کے وقت بجھتی ہوئی شمع یہ سبق دیتی ہے کہ اگر زندگی میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو دل میں سوز و گداز پیدا کرو یعنی عشق کا راستہ اختیار کرو ۔
اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے
طائرِ زیرِ دام کے نالے تو سن چکے ہو تم
یہ بھی سنو کہ نال طائرِ بام اور ہے
آتی تھی کوہ سے صدا رازِ حیات ہے سکوں
کہتا تھا مورِ ناتواں لطفِ خرام اور ہے
جذبِ حرم سے ہے فروغ انجمنِ حجاز کا
اس کا مقام اور ہے، اس کا نظام اور ہے
موت ہے عیشِ جاوداں، ذوقِ طلب اگر نہ ہو
گردشِ آدمی ہے اور، گردشِ جام اور ہے
شمعِ سحر یہ کہہ گئی سوز ہے زندگی کا ساز
غم کد نمود میں شرطِ دوام اور ہے
(طلبہ علی گڑھ کے نام ،کلیات اقبال اردو،اقبال اکادمی لاہور،1990، صفحہ 140)
اس نظم کا آخری شعر انتہائی قابل غور ہے۔غلامی کے دور میں علامہ اقبال بڑی جرات سے نوجوان نسل کو انقلاب کے لیے تیار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ اے نوجوانو! تمہاری شراب میں ابھی پختگی نہیں آئی اور شوق بھی ابھی حد کمال کو نہیں پہنچا۔ لہٰذا ابھی شراب کے برتن پر انگریزی اینٹ (ڈھکن) رہنے دو۔ دراصل رمز و ایما کی زبان میں علامہ اقبال نوجوان نسل کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ اگر وہ انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں اور انگریز حکمرانوں کو اپنے ملک سے نکال باہر کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے ارادوں اور ذوق و شوق میں پختگی پیدا کرنا ہوگی۔ یہ سیدھا سیدھا انقلاب کا سبق ہے جو ایک غلام قوم کا حریت پسند شاعر اپنی نوجوان نسل کو دے رہا ہے۔
بادہ ہے نیم رس ابھی شوق ہے نا رسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پہ تم خشتِِ کلیسا ابھی
نظم عبدالقادر کے نام میں نوجوان اقبال اپنے نوجوان دوست عبدالقادر کو ظلمت یعنی ظلم و جبر کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے اور بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دینے کی دعوت دیتا دکھائی دیتا ہے۔ دراصل یہ نظم صرف عبدالقادر کے نام نہیں بلکہ ایک نوجوان حریت پسند شاعر کا پیغام ملت کے تمام نوجوانوں کے نام ہے۔ 1907 میں لکھی گئی اس نظم میں علامہ اقبال نے اپنے اور اپنے دوست عبدالقادر کے توسط سے نوجوانوں کو ان کے مقصد حیات،مستقبل کی جدوجہد اور قوم کی خدمت کے لیے عزم مصمم کی ضرورت سے آگاہ کر دیا ہے۔آج بھی یہ نظم اپنے اندر جوش و جذبہ پیدا کرنے کی ایک عجیب کیفیت رکھتی ہے اور نوجوانوں کو ملک و قوم کے لیے کچھ کر گزرنے پر رضا مند کرنے اور ابھارنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔
اٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افقِ خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
ایک فریاد ہے مانندِ سپند اپنی بساط
اسی ہنگامے سے محفل تہ و بالا کر دیں
اہلِ محفل کو دِکھا دیں اثرِ صیقلِ عشق
سنگِ امروز کو آئین فردا کر دیں
جلو یوسفِ گم گشتہ دِکھا کر ان کو
تپش آمادہ تر از خونِ زلیخا کر دیں
اس چمن کو سبق آئینِ نمو کا دے کر
قطر شبنمِ بے مایہ کو دریا کر دیں
رختِ جاں بت کد چیں سے اٹھا لیں اپنا
سب کو محوِ رخِ سعدی و سلیمی کر دیں
دیکھ! یثرِب میں ہوا ناق لیلی بیکار
قیس کو آرزوئے نو سے شناسا کر دیں
بادہ دیرینہ ہو اور گرم ہو ایسا کہ گداز
جگرِ شیشہ و پیمانہ و مِینا کر دیں
گرم رکھتا تھا ہمیں سردیِ مغرب میں جو داغ
چِیر کر سینہ اسے وقفِ تماشا کر دیں
شمع کی طرح جیِئں بزم گہِ عالم میں
خود جلیں، دید اغیار کو بینا کر دیں
ہر چہ در دل گذرد وقفِ زباں دارد شمع
سوختن نیست خیالے کہ نہاں دارد شمع
(عبدالقادر کے نام،کلیات اقبال اردو، صفحہ 158)
غلامی کے بے شمار نقصانات اور قباحتوں میں سے ایک قباحت یہ بھی ہے کہ محکوم قوم فاتح قوم سے جہاں سیاسی طور پر مغلوب ہوتی ہے، وہاں تہذیبی اور تمدنی طور پر بھی مغلوب ہو جاتی ہے اور یہاں تک کہ اس کے دینی عقائد بھی فاتح حکمرانوں کی تہذیب اور نظریات سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ لہٰذا یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ برصغیر میں مسلم نوجوان انگریزی تہذیب اور تعلیم سے بری طرح متاثر ہو کر، بے راہ روی، لادینیت اور الحاد کا شکار ہوئے۔ علامہ اقبال چونکہ دل میں قوم کا درد رکھتے تھے اور ان کے نزدیک قوم کی فلاح و بقا اور آزادی کے لیے نوجوان نسل کا راہِ راست پر رہنا ضروری تھا۔وہ نوجوانوں کو مغربی تہذیب سے متاثر ہوتا نہیں دیکھ سکتے تھے۔اسی لیے وہ نوجوانوں کی بے راہ روی اور دین سے دوری پر خون کے انسو روتے ہیں۔
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ
گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما
لے کے آئی ہے مگر تیش فرہاد بھی ساتھ
تخمِ دیگر بکف آریم و بکاریم ز نو
کانچہ کشتیم ز خجلت نتواں کرد درو
(تعلیم اور اس کے نتائج، کلیات اقبال اردو، صفحہ 238 )
اسی طرح نظم تہذیب حاضر میں نوجوانوں پر مغربی تہذیب کے اثرات اور اس کے نتیجے میں ان کی بے راہ روی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں
حرارت ہے بلا کی باد تہذیبِ حاضر میں
بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تنِ خاکی
کِیا ذرے کو جگنو دے کے تابِ مستعار اس نے
کوئی دیکھے تو شوخی آفتابِ جلوہ فرما کی
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بے باکی
(تہذیب حاضر کلیات اقبال اردو صفحہ 253 )
علامہ اقبال نے بانگ درا ہی کی ایک اور نظم فردوس میں ایک مکالمہ میں حضرت سعدی شیرازی اور مولانا حالی کے مابین ایک مکالمے کی صورت میں، قوم میں پیدا ہو جانے والی خرابیوں کا ذکر کرتے ہوئے، نسل نو میں الحاد کے اثرات پر کچھ یوں افسوس کا اظہار کیا ہے
ہاتِف نے کہا مجھ سے کہ فردوس میں اک روز
حالی سے مخاطب ہوئے یوں سعدیِ شیراز
اے آنکہ ز نورِ گہرِ نظمِ فلک تاب
دامن بہ چراغِ مہ و اخترزدہ ای باز!
کچھ کیفیتِ مسلمِ ہندی تو بیاں کر
واماند منزل ہے کہ مصروفِ تگ و تاز
مذہب کی حرارت بھی ہے کچھ اس کی رگوں میں؟
تھی جس کی فلک سوز کبھی گرمیِ آواز
باتوں سے ہوا شیخ کی حالی متاثر
رو رو کے لگا کہنے کہ اے صاحبِ اعجاز
جب پیرِ فلک نے ورق ایام کا الٹا
آئی یہ صدا، پا گے تعلیم سے اعزاز
آیا ہے مگر اس سے عقیدوں میں تزلزل
دنیا تو ملی، طائرِ دیں کر گیا پرواز
دِیں ہو تو مقاصد میں بھی پیدا ہو بلندی
فطرت ہے جوانوں کی زمیں گیر زمیں تاز
مذہب سے ہم آہنگیِ افراد ہے باقی
دِیں زخمہ ہے، جمعیتِ مِلت ہے اگر ساز
بنیاد لرز جائے جو دیوارِ چمن کی
ظاہر ہے کہ انجامِ گلستاں کا ہے آغاز
پانی نہ مِلا زمزمِ ملت سے جو اس کو
پیدا ہیں نئی پود میں الحاد کے انداز
یہ ذکر حضورِ شہِ یثرِب میں نہ کرنا
سمجھیں نہ کہیں ہند کے مسلم مجھے غماز
خرما نتواں یافت ازاں خار کہ کشتیم
دیبا نتواں بافت ازاں پشم کہ رشتیم
(فردوس میں ایک مکالمہ ،کلیات اقبال اردو، صفحہ 274 )
نظم کا آخری فارسی شعر حضرت شیخ سعدی کا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جو کانٹا ہم نے بویا ہے اس سے کھجور کا پھل حاصل نہیں کیا جا سکتا اور جو اون ہم نے کاتی ہے اس سے ریشم نہیں بنا جا سکتا۔ مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی تہذیب اور دین کو چھوڑ کر مغربی تہذیب اپنا لی ہے تو اس سے کبھی اچھے نتائج نہیں نکلیں گے اور ہم کبھی کامیاب نہ ہو سکیں گے۔
مغربی تہذیب کے اثرات نے ہماری نوجوان نسل میں جو خرابیاں پیدا کی علامہ اقبال مسلسل ان کے مضر اثرات سے آگاہ کرتے رہے۔
وہ مغربی تہذیب اپنانے کے باعث نوجوانوں میں پیدا ہو جانے والی خرابیوں مثلا بے لگام آزادی بے باکی، رقابت، خود فروشی، ناشکبائی اور ہوس ناکی پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں اور نوجوانوں میں پیدا ہو جانے والی ان خرابیوں کو بار بار اجاگر کر کے ان سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں
حرارت ہے بلا کی باد تہذیبِ حاضر میں
بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تنِ خاکی
کِیا ذرے کو جگنو دے کے تابِ مستعار اس نے
کوئی دیکھے تو شوخی آفتابِ جلوہ فرما کی
نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے
یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بے باکی
تغیر آگیا ایسا تدبر میں، تخیل میں
ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی
کِیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن
مناظر دِلکشا دِکھلا گئی ساحر کی چالاکی
حیاتِ تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا
رقابت، خودفروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی
فروغِ شمعِ نو سے بزمِ مسلم جگمگا اٹھی
مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ اِدراکی
تو اے پروانہ! ایں گرمی ز شمع محفلے داری
چو من در آتشِ خود سوز اگر سوزِ دلے داری
(تہذیب حاضر، کلیات اقبال اردو، صفحہ 253 )
علامہ اقبال نوجوان نسل میں در آنے والی خرابیوں کی اصلاح کے لیے طنز و مزاح کا حربہ بھی استعمال کرتے ہیں۔ بانگ درا کے آخر میں علامہ نے اکبر الہ ابادی کے رنگ میں ظریفانہ کے عنوان سے جو طنزیہ و مزاحیہ قطعات لکھے ہیں ان میں سے کئی قطعات میں نوجوان نسل کی اصلاح کی کوشش کی ہے مثلا دیکھیے کہ مغربی تہذیب کے زیر اثر نوجوان نسل میں در آنے والی بے باکی، جو بالآخر بزرگوں کی بے ادبی کی حدیں چھونے لگتی ہے، پر کس طرح طنز کر کے نوجوانوں کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں
تہذیب کے مریض کو گولی سے فائدہ!
دفعِ مرض کے واسطے پِل پیش کیجیے
تھے وہ بھی دن کہ خدمتِ استاد کے عوض
دل چاہتا تھا ہدی دِل پیش کیجیے
بدلا زمانہ ایسا کہ لڑکا پس از سبق
کہتا ہے ماسٹر سے کہ بِل پیش کیجیے
(کلیات اقبال اردو صفحہ 317 )
علامہ بانگ درا میں بار بار مسلم نوجوانوں کو مغربی تہذیب کی خرابیوں سے دامن بچاتے ہوئے اپنے دین اور تہذیب و تمدن پر مضبوطی سے قائم رہنے کا سبق دیتے ہیں۔ وہ امت مسلمہ کی شاندار تاریخ سے باکردار اور جرأت مند نوجوانوں کی مثالیں پیش کر کے نوجوان نسل کو بھی اپنے اندر جرأت کردار و قوت گفتار پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ بانگ درا کی نظم فاطمہ بنت عبداللہ اس کی بہترین مثال ہے۔ فاطمہ عرب لڑکی تھی جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی۔ علامہ اقبال اس کی جرأت کردارکو خراج تحسین و عقیدت پیش کرتے ہوئے، نوجوان نسل کو اس بہادر لڑکی کا کردار اپنانے کی تلقین کرتے ہیں۔
فاطمہ! تو آبروئے امتِ مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ سعادت، حورِ صحرائی! تری قسمت میں تھی
غازیانِ دیں کی سقائی تری قسمت میں تھی
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سِپر
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب، اپنی خاکستر میں تھی!
اپنے صحرا میں بہت آہو ابھی پوشیدہ ہیں
بجلیاں برسے ہوئے بادل میں بھی خوابیدہ ہیں!
(فاطمہ بنت عبداللہ کلیات اقبال اردو صفحہ 243 )
اسی طرح نظم جنگ یرموک کا ایک واقعہ میں علامہ اقبال جنگ کے دوران ایک مسلم نوجوان کے عشق رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ملاقات کے والہانہ شوق کا قصہ انتہائی دلکش انداز میں پیش کر کے مسلم نوجوانوں کو بھی اپنے قلب و ذہن میں ایسے ہی پاکیزہ جذبات پیدا کرنے کی متبرک و مقدس تعلیم دیتے ہیں ۔
صف بستہ تھے عرب کے جوانانِ تیغ بند
تھی منتظر حِنا کی عروسِ زمینِ شام
اک نوجوان صورتِ سیماب مضطرب
آ کر ہوا امیرِ عساکر سے ہم کلام
اے بوعبیدہ رخصتِ پیکار دے مجھے
لبریز ہو گیا مرے صبر و سکوں کا جام
بے تاب ہو رہا ہوں فراقِ رسول میں
اک دم کی زندگی بھی محبت میں ہے حرام
جاتا ہوں میں حضورِ رسالت پناہ میں
لے جاں گا خوشی سے اگر ہو کوئی پیام
یہ ذوق و شوق دیکھ کے پرنم ہوئی وہ آنکھ
جس کی نگاہ تھی صفتِ تیغِ بے نیام
بولا امیرِ فوج کہ وہ نوجواں ہے تو
پِیروں پہ تیرے عشق کا واجب ہے احترام
پوری کرے خدائے محمد تری مراد
کتنا بلند تیری محبت کا ہے مقام!
پہنچے جو بارگاہِ رسولِ امیں میں تو
کرنا یہ عرض میری طرف سے پس از سلام
ہم پر کرم کِیا ہے خدائے غیور نے
پورے ہوئے جو وعدے کیے تھے حضور نے
(جنگ یرموک کا ایک واقعہ، کلیات اقبال اردو صفحہ 276 )
اور آخر میں نوجوانوں کے لیے بانگ درا کی مشہور نظم خطاب بہ جوانان اسلام یہ ایک انتہائی دلکش اور اثر آفرین نظم ہے جس میں اپنی ملت بالخصوص ملت کے نوجوانوں کے حوالے سے علامہ اقبال کے دلی جذبات و احساسات کا اظہار ہوا ہے۔ علامہ اقبال اس خوبصورت درسی نظم میں قوم کے نوجوانوں کی حالت اور انداز و اطوار کا ان کے آبائو اجداد کی حالت اور طرز عمل سے موازنہ کرتے ہیں اور موازنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ
'' تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی ''
یہ نظم آج کے مسلم نوجوانوں کے لیے بھی ایک زبردست تازیانہ عبرت ہے۔ اگر امت مسلمہ کے تمام نوجوان بالعموم اور پاکستانی نوجوان بالخصوص اس نظم کو حرزِ جاں بنائیں اور اپنے عظیم بزرگوں سے اپنی حالت کا موازنہ کرتے ہوئے عبرت پکڑیں اور مغربی تہذیب کی خرابیوں سے اپنا دامن بچاتے ہوئے بزرگوں کی سی جرأت کردار، قوت گفتار، تمدن آفرینی، جہانگیری، جہاں داری، جہاں بانی، جہاں آرائی، فقر، غیرت مندی جہد مسلسل اور علم کا ذوق و شوق اپنے اندر پیدا کر لیں تو ان کی قوم کے لیے آگ، آج بھی انداز گلستان پیدا کر سکتی ہے،وہ ستاروں سے آگے کی منزلوں کے راہی بن سکتے ہیں اور قوموں کی امامت کا فریضہ ادا کر سکتے ہیں۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کِیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبت میں
کچل ڈالا تھا جس نے پاں میں تاجِ سرِ دارا
تمدن آفریں، خلاقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا
سماں الفقر و فخری کا رہا شانِ امارت میں
بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روے زیبا را
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا
غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے
جہاںگیر و جہاںدار و جہاںبان و جہاںآرا
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارا
تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار وہ کردار، تو ثابت وہ سیارا
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلم سے کوئی چارا
مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
(خطاب بہ جوانان اسلام، کلیات اقبال اردو، صفحہ (207)
مضمون نگار ایک معروف ماہر تعلیم ہیں۔ اقبالیات اور پاکستانیات سے متعلق امور میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے