میجر جمال شیران شہید کے حوالے سے نسیم الحق زاہدی کی تحریر
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے ۔موت زندگی کے اختتام کا نہیں بلکہ لامحدود زندگی کے آغاز کا نام ہے ۔ہر ذی روح نے انتقال کرنا ہے جو لوگ زندگی جیسی نعمت کو کسی عظیم مقصد کی خاطر قربان کردیتے ہیں ،وہ حیات جادواں پالیتے ہیں ۔دینِ اسلام میں اللہ کی راہ میں اپنی جان کو قربان کر دینے والوں کو شہید کہا جاتا ہے ۔ ایسے ہی ایک بہادر سپوت میجر جمال شیران شہید بھی ہیں جو11نومبر 1986ء کو بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے تربت میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد میر شیران مسقط میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔میجر جمال شیران شہید نے ابتدائی تعلیم تربت کے ایک مقامی اسکول سے حاصل کی ،بلوچستان ریذیڈینشل کالج سے ایف اے کرنے کے بعد 2006ء میں پاکستان آرمی میں شمولیت اختیار کی ،دوسالہ پی ایم اے لانگ کورس کرنے کے بعد انہوں نے 2008ء میں کمیشن حاصل کیا اور سیاچن میں تعینات یونٹ کو جوائن کیا۔ بعد ازاں2011ء میں وطن عزیز کی حفاظت کے لیے باجوڑ ایجنسی میں آپریشن المیزان میں بھرپور شرکت کی اور دہشت گردوں کے خلاف جاری اس جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا ۔اُنہوں نے اپنی سروس کے دوران یونٹ کی جانب سے سپرد کردہ تمام کاموں میں خاص طور پر سیلاب سے بچائو کے حوالے سے ڈیوٹی کے دوران قابل ستائش کردار ادا کیا۔اُن کے بھائی شعیب احمد بتاتے ہیں کہ میجر جمال شیران جس وقت پیدا ہوئے تھے تواس وقت بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں کی وجہ سے یہاں کے حالات میدان جنگ جیسے تھے، دہشتگرد تنظیمیں ریاست پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف برسرپیکار تھیں ۔والد محترم میرشیران نے اسی وقت یہ فیصلہ کر لیاتھا کہ وہ اپنے لخت جگر جمال کو پاک فوج میں بھیجیں گے ،وہ پاکستان اور خصوصاً بلوچستان کو ہر قسم کی دہشت گردی سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں اور بھائی جمال شیران نے یہ ثابت کردیا کہ ان کی رگوںمیں خون کی جگہ وطن کی محبت دوڑتی تھی۔ شہادت سے دوسال پہلے فرنٹئیرکور (ایف سی) خیبر پختونخواکے ایلیٹ انسداد دہشت گردی یونٹ میں تعینات کیا گیا،اُنہوں نے خیبر پختونخوا میں آپریشن ''ردالفساد ''میں بطور اسپیشل آپریشن گروپ کے کمانڈنگ آفیسر کے بھرپور کردار ادا کیا اور دہشت گردوں کے خلاف مختلف کامیاب حملوں کی قیادت بھی کی۔
شہید کے بھائی شعیب احمد بتاتے ہیں کہ میجر جمال شیران ایک انتہائی محبت کرنے والے انسان تھے۔ ان کا پہلا اور آخری عشق وطن تھا ،وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ عزیز اپنی دھرتی ہے جس نے مجھے عزت دی، نام دیا، مقام دیا ،اس مقدس مٹی کے مجھ پر بڑے قرض ہیں۔ انہوں نے وطن سے محبت کا حق ادا کردیا،شعیب احمد بتاتے ہیں کہ میجر جمال شیران صوم صلوة کے پابندتھے۔ وہ ہمیشہ اپنے لیے شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے۔میجر جمال شیران بلوچ 17جولائی 2018ء کو پشاور کے علاقے حیات آباد میں ایک مصروف چوک میں اپنے جوانوں سمیت ڈیوٹی دے رہے تھے کہ ایک خود کش حملہ آور نے اپنی موٹر سائیکل کواُن کی گاڑی سے ٹکرا دیا ،اس حملے میں میجر جمال شیران سمیت تین فوجی جوان زخمی ہوئے۔ جس کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کرتے ہوئے کہا کہ میجر جمال شیران ان کی ہٹ لسٹ میں سرفہرست تھے۔وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جام شہادت نوش فرماگئے ۔(اللہ تعالیٰ اُن کی شہادت کو قبول فرمائے۔آمین)
شہید کے جسد خاکی کو خصوصی طیارے کے ذریعے کراچی اور پھر وہاں سے تربت لایا گیا۔فٹ بال گرائونڈ تربت میں اُن کا نماز جنازہ ادا کیا گیا جس میں اعلیٰ عسکری قیادت کے علاوہ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے سیکڑوں افراد نے شرکت کی۔اُن کو پورے فوجی اعزاز کے ساتھ تربت کے علاقے پٹھان کہور کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا ۔شہید میجر جمال شیران کے بھائی شعیب احمد بتاتے ہیں کہ شہادت سے سات ماہ قبل ہی بھائی رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعائوں کو قبول کرتے ہوئے اُنہیں شہادت کے منصب پرفائز کیا۔ 23مارچ 2023کو حکومت پاکستان کی جانب سے اُن کو تمغہ ِبسالت سے نوازا گیا۔
مضمون نگار مختلف قومی اخبارات ورسائل کے لیے لکھتے ہیں اور متعدد کتب کے مصنف ہیں۔
[email protected]
تبصرے