مارچ 2023 کی ایک سہانی شام کو ڈیفنس اسلام آباد کے ایک خوبصورت گھر کے رنگوں اور خوشبوئوں میں بسے کشادہ لان میں رنگ برنگے آنچلوں کی قوس قزح نے پورے ماحول کو رنگین بنا دیا تھا ۔ہلکے فیروزی اور بے بی پنک کے کنٹراسٹ سے آ راستہ کرسیوں، میزوں ،پھولوں ،گلدانوں اور دیگر خوبصورت سجاوٹ سے سانولی ہوتی شام نمایاں ہو رہی تھی اور ایک چھوٹا ساسٹیج بھی تکمیل کے آخری مراحل میں تھا اور اس کے ساتھ ہی ننھے منے بلبوں کے روشن ہوتے ہی جیسے ہر طرف مدھم رنگین روشنیوں کا غبار ساچھا گیا ہو۔ مغرب کی نماز کے بعد مہمان آنا شروع ہو گئے تھے بیگم اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ شیر عالم مہمانوں کو ریسیو کر رہے تھے۔ یہ تمام رنگا رنگی کیپٹن حاشر اور علینہ کی نکاح کی تقریب کے حوالے سے ہو رہی تھی۔
علینہ اپنے والدین کی سب سے پہلی اولاد تھی۔ اس کی دو بہنیں اور ایک بھائی اس سے چھوٹے تھے ۔علینہ اے ایم سی میں میڈیکل کے چوتھے سال میں تھی بہت ہی معصوم اور سنجیدہ سی بچی جوہر وقت اپنی پڑھائی میں مصروف رہتی اور ہمیشہ ٹاپ کرتی ۔پھر ہمیشہ کی طرح ماں باپ کو اپنی پہلی اولاد کی شادی بہت جلدی کرنے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے بریگیڈیئر ریٹائرڈ شیر عالم نے بھی اپنے ایک بچپن کے دوست ملک فیروز(جو کہ ایک بہت کامیاب بزنس مین تھے)ان کے بیٹے کیپٹن حاشر سے اپنی بیٹی کا رشتہ طے کر دیا۔ رخصتی علینہ کی ڈگری مکمل ہونے کے بعد متوقع تھی۔
وقت سبک رفتاری سے گزررہا تھا اور چپکے سے مارچ ایک بار پھر آن پہنچا اورعلینہ پچھلے ہی ہفتے کاکول سے پاس آؤٹ ہو کر گھر آئی تھی ا ور اس کی پہلی پوسٹنگ سی ایم ایچ راولپنڈی ہی میں ہو گئی تھی اور ہاؤس جاب کا تھکا دینے والا کام شروع ہو گیا تھا ۔
حاشر کے والدین شادی کی باقاعدہ تاریخ لینے آگئے اور پھر رمضان مبارک کے بعد عید کے اگلے ہی ہفتے شادی کی تاریخ طے ہو گئی ۔
حاشر کو ہمیشہ سے فوج کی نوکری بہت اچھی لگتی تھی خاکی یونیفارم ،شانوں پر سٹارز، سر پر ٹوپی اور ہاتھ میں چھڑی یہ اس کا خواب تھا۔ خاص طور پر جب ٹی وی پر کسی شہید کو پرچم میں لپٹا دیکھتا تو اس کے رخسار جوش سے دہک اٹھتے اور فوج میں جانے کی خواہش مزید پختہ ہو جاتی ۔
آج میں اپنے کندھوں پر کپتانی کے سٹارز لگائے ہوئے بنوں کے سنگلاخ کینٹ میں اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے متعین ہوں۔ اس وقت میرے دل و دماغ کی کیفیت بہت عجیب سی ہو رہی ہے۔ ہر طرف ملک میں آئی دہشت گردی کی لہر تیز ہو گئی تھی۔ دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے کتنے ہی فوجی جوان شہید ہو گئے، یہ تو اپنی جگہ دوسری طرف شادی ہونے والی تھی اور میرے دل و دماغ پر علینہ کا خوبصورت چہرہ چھایا رہتا تھا۔ کبھی میرا دل چاہتا تھا کہ میں سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر 'لیووِد پے 'اپلائی کر لوں اور گھر چلا جائوں اور آرام سے شادی کی تیاریاں کروں پھر مجھے خیال آتا کہ نہیں مشکل وقت میں چھوڑ کر جانے والا سچا سپاہی نہیں ہوتا ،لہٰذا میں بٹالین ہیڈ کوارٹر میں بیٹھا اپنے فرائض انجام دے رہا تھا ۔میری ڈیوٹی اس وقت دفتری نوعیت کی تھی۔
اور پھر مسز شیر عالم کو خیال آیا کہ بچیاں تو ان کی مدد ہی نہیں کرواتی ہیں اور علینہ ڈیوٹیوں میں مصروف ہوتی ہے ۔لہٰذا اب انہوں نے بریگیدئیر شیر عالم کی ایک چہیتی پھپھو کو وزیر آباد سے بلوا لیا۔جب علینہ ہاسپٹل سے گھر آئی تو لاؤنج میں ایک عمر رسیدہ خاتون بیٹھی تھیں جنہیں سب بی جان کہتے تھے۔ وہ ماشااللہ 80برس کی خاتون تھیں لیکن بغیر کسی سہارے کے بالکل سیدھی بیٹھی ہوئی تھیں اور ان کی رعب دار آواز باہر لان تک آرہی تھی لیکن علینہ کو ان کی شخصیت میں دو چیزیں بہت اچھی لگیں،ایک ان کی آنکھوں سے چھلکتی بے ریا محبت اور دوسری ان کی چوڑیوں سے بھری کلائیاں اور مہندی سے رچے ہاتھ۔
آج چاند رات تھی علینہ کے سسرال سے بہت خوبصورت عید کا جوڑا چوڑیاں اور نہ جانے کیا کیا لوازمات آئے ۔بی جان بھی حاشر کی والدہ سے مل کر بہت خوش ہوئیں اور وہ بھی ان سے مل کر بہت متاثر نظر آرہی تھیں۔ ابھی مہمان واپس گئے ہی تھے کہ علینہ کے فون کی گھنٹی بجی ۔ حاشر اپنی خوبصورت آواز کے ساتھ موجود تھے ۔جناب !چاند رات مبارک ہو۔ آپ کو بھی ۔علینہ نے مسکرا کے کہا ۔سنا ہے آج آپ نے اپنے ہاتھوں پہ بہت خوبصورت مہندی لگائی ہے ۔جی ۔۔۔وہ ہمارے ہاں بی جان آئی ہوئی ہیں ان کو مہندی کا بہت شوق ہے، انہوں نے ہی مجھے زبردستی مہندی لگوائی ہے۔ بقول ان کے سہاگنوں کو مہندی ضرور لگانی چاہیے کیا آپ ہمیں اپنی مہندی والے ہاتھ نہیں دکھائیں گی اتنا شوق ہے تو آجایے، علینہ نے بڑی ادا سے کہا اچھا یہ بات ہے تو پھر کھولیے دروازہ علینہ چونک گئی جی۔۔۔۔ جی ہاں دروازہ کھولیے۔ علینہ جھجکتی ہوئی گیٹ کی طرف بڑھی تو سچ مچ گیٹ کے باہر گاڑی کھڑی تھی اورعلینہ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھول دیا ۔
السلام علیکم جناب!
جی وعلیکم السلام ابھی اتنی ہی بات ہوئی تھی کہ علینہ کی بہنوں کے قہقہے گونج اٹھے اور حاشر کی گاڑی میں بھی اس کی بہنیں موجود تھیں۔ اچھا تو تم لوگوں نے مل کر مجھے بے وقوف بنایا ہے۔ بنایا نہیں بلکہ ثابت کیا ہے، علینا کی چھوٹی بہن نے قہقہہ لگا کر کہا ۔نہ بھائی ہماری بھابھی کو کوئی بھی بے وقوف نہ کہے حاشر کی بہنیں بھی گاڑی سے باہر نکل آئیں اور اس خوبصورت سرپرائز پر علینہ کا دل خوشی سے کھل اٹھا اور علینہ کی بہنیں جو اس پلان کا حصہ تھیں انہوں نے علینہ کو گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر دھکیل دیا ۔کچھ ہی دیر بعد وہ دونوں ایک ریسٹورنٹ میں موجود تھے۔حاشر نے علینہ سے کہااپنے ہاتھ تو دکھائیے ادھر علینہ نے ہاتھ دکھانے کی بجائے دونوں مٹھیاں بھینچ کر ہاتھ پیچھے کر لیے، وہ بہت شرما رہی تھی اس کے ہاتھوں پر اس کی بہن نے خوبصورت مہندی کے نقش و نگار کے ساتھ ساتھ حاشر کا نام بھی لکھ دیا تھا ۔ حاشر کے اسرار پر علینہ نے اپنی دونوں مٹھیاں اس کے سامنے کھول دیں اس کی خوبصورت مخروطی انگلیوں پر مہندی بہت خوبصورت لگ رہی تھی اور عین ہتھیلی کے بیچ میں حاشر کا نام لکھا ہوا تھا ۔حاشر نے اپنی جیب سے کنگن نکالے اور کہا میری آرزو تھی کہ میں اپنی تنخواہ میں سے اپنی بیوی کو پہلا تحفہ کنگن دوں گا تاکہ اس کی کلائیاں ہمیشہ سجی رہیں۔ یہ کہہ کر اس نے کنگن علینہ کی کلائیوں میں پہنا دیئے اور کہا کہ یہ عید کا تحفہ ہے اور میں نہیں چاہتا کہ ان کنگنوں کو اپنی کلائیوں سے جدا کرو۔ اور ہاں امی بتا رہی تھیں کہ تم نے ہاؤس جاب کے بعد شادی کرنی ہے ۔ حاشر نے بڑی گھمبیرتا سے کہا بیگم صاحبہ ہم فوجیوں کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اس لیے اس لیے غیر ضروری تاخیر اچھی نہیں ہوتی ۔آپ جانتی ہیں کہ ایک فوجی کی بیوی اس کی دوسری محبت ہوتی ہے اس کی پہلی محبت اس کی دھرتی ہے اور اس کا پہلا فرض دھرتی کی حفاظت اور یاد رکھیے کہ جب اس کی دھرتی پکارتی ہے تو پھر نہ اسے حنائی ہاتھوں کا خیال رہتا ہے نہ کنگن سے سجی کلائیوں کا ۔آپ جانتی ہیں مجھے اس دن کا کتنا انتظار ہے جب ہم دونوں یونیفارم پہن کر دفتر کے لیے نکلیں گے ۔اور ویٹر آئس کریم لے کر آ گیا اور حاشر نے آئس کریم کا باؤل علینہ کی طرف بڑھا دیا۔حاشر رات کو ہی واپس لوٹ گیا تھا اسے مزید چھٹی نہیں ملی تھی۔
شادی میں سات دن رہ گئے تھے ۔ علینہ کو مایوں بٹھا دیا گیا تھا ۔ حاشر بھی آنے والا تھا کہ اچانک حاشر کی کال آ گئی ۔وہ بہت جلدی میں تھا۔چار دن بعد میں بھی آنے والا ہوں لیکن ان چار دنوں میں آپ سے کوئی ٹیلی فونک رابطہ نہیں ہو سکے گا کیونکہ ہم ایک آپریشن کے لیے وزیرستان جا رہے ہیں ۔ دعا کرنا کہ میں سر خرو لوٹوں ۔علینہ کا دل دھک سے رہ گیا، اسے کیا سوجی شادی کے عین دنوں میں سرچ آپریشن پر جانے کی لیکن وہ ایک فوجی کی بیوی تھی وہ ایسی بات کر کے اس کا حوصلہ کم نہیں کرنا چاہتی تھی اللہ آپ کو اپنے حِفظ و امان میں رکھے اور آپ سر خرو ہو کر لوٹیں ۔ علینہ نے ڈبڈبائی ہوئی آنکھوں سے حاشر کو دعا دی اور کال کٹ گئی۔
سر پرائز دینے کا شوقین کیپٹن حاشر چار دن سے پہلے اچانک آن پہنچا ۔قومی پرچم میں لپٹا ہوا پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ۔ حاشر کے پرچم میں لپٹے اور پھولوں سے سجے تابوت پر نظر پڑتے ہی علینہ کے ذہن میں صرف ایک ہی سوال تھا کیا اسے میرا ذرا خیال نہیں شادی سے چار دن پہلے آپریشن پر جانے کی کیا ضرورت تھی ؟اس ایک سوال نے اس کے ذہن کو اس بری طرح جھنجوڑا کہ اسے نروس بریک ڈائون کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور پندرہ دن تک ہسپتال میں داخل رہنے کے بعدجب وہ گھر لائی گئی تو علینہ صرف یہی سوچتی رہتی کہ کیا انہیں نہیں معلوم تھا کہ حاشر کی شادی ہونے والی ہے اور حاشر نے کیوں نہیں سوچا کہ میں ہاتھوں پر مہندی لگائے اس کا انتظار کر رہی ہوں ۔وہ سچ کہتا تھا کہ جب اس کی دھرتی پکارتی ہے تو پھراسے حنائی ہاتھوں کا خیال نہیں آئے گا ۔وہ تھا ہی بے وفا۔ اس سارے عرصے میں حاشر کے گھر والے اور بہنیں بھی آئیں اور اسے اس طرح بیگانہ پا کر آنکھوں میں آنسو لیے واپس لوٹ گئیں۔حاشر کی شہادت کے بعد سے اب تک اس کی آنکھوں سے ایک بھی آنسو نہیں نکلا تھا ۔
علینہ ڈپریشن کی انتہا پر تھی، ابھی تک میڈیکل لیو پر تھی ۔ اس کی خشک بنجر آنکھیں اور لبوں پر جمی خاموشی سب گھر والوں کو کاٹے جا رہی تھی۔ایک دن بی جان اس کے کمرے میں آئیں ۔ان کے آتے ہی ان کی مہندی کی خوشبو اور چوڑیوں کی کھنکھناہٹ سے علینہ کا دل کٹنے لگا ۔ بیٹی میں تم سے ایک سوال پوچھوں ۔تمھاری آنکھوں کی تپش اور چہرے کی سنگلاخی کا سبب کیا ہے ؟ کیا تم قدرت کو موردِ الزام ٹھہرا رہی ہو جس نے تمھیں رخصتی سے قبل ہی بیوگی کی چادر اوڑھا دی ہے یا اپنے نصیب سے شاکی ہو، بیٹا کچھ تو بولوتاکہ تمھارے دل کا بوجھ ہلکا ہو ۔بی جان مجھے حا شر سے گلہ ہے وہ آپریشن پر جاتے ہوئے کتنا خوش اور پرجوش کیوں تھا کیا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس آپریشن میں صرف دہشت گرد ہی نہیں وہ خود بھی جان سے جا سکتا تھا ،اسے میرا ذرا خیال نہ آیا ۔وہ پہلے بھی تو چھٹی لے سکتا تھا اس نے مجھے بیچ منج دھار میں چھوڑ دیا ،نہ میں کنواری ہوں نہ بیاہتا ،نہ سہاگن ہوں نہ بیوہ ،میری حیثیت کیا ہے؟ میرا مستقبل کیا ہے ؟کوئی میری حالت کا اندازہ لگا ہی نہیں سکتا ۔علینہ کا لہجہ بہت تلخ تھا ۔بیٹی میں تمھارے جذبات کا اندازہ لگا سکتی ہوں کیوں کہ میں بھی تمھاری ہی طرح کے حالات سے دوچار ہو چکی ہوں۔ چھوٹی دادی کے لہجے میں برسوں کا کرب جھلک رہا تھا ۔سننا چاہتی ہو تم تو سنو :
یہ1965 ء کی بات ہے ،اگست کا مہینہ تھا ۔ہمارا گاؤں سیالکوٹ کے بارڈر کے بالکل ساتھ تھا۔چاول کی فصل کی بوائی کے فورا بعد میری شادی دس ستمبر کو طے ہو گئی تھی اور پھر سات دن پہلے مجھے مایوں بٹھا دیا گیا ۔ پیلا جوڑا اور سبز اور پیلی چوڑیاں میرے ہاتھوں میں پہنا دی گئیں۔ مہندی کی رات آ گئی ۔میرے ہاتھوں میں بھر بھر کر مہندی لگائی گئی۔دونوں گھروں میں ایک دیوار ہی تو تھی جس کی وجہ سے ہر خوشی سانجھی تھی۔ رات دیر تک تھک ہار کر جسے جہاں جگہ ملی وہیں ڈھر ہو گئے کہ اچانک صبح کاذب کو گولیو ں کی دھڑ دھڑ اور بموں کی آواز نے جگا دیا ۔پتہ چلا کہ بھارت نے چھپ کر شب خون مارا ہے بھارتی فوج دیہاتوں کو روندتی ہوئی آگے بڑھ رہی تھی ۔پورے گاؤں میں افراتفری مچ گئی ۔مسجدوں میں اعلان ہونے لگے کہ گاؤں خالی کر کے سیالکوٹ کی طرف روانہ ہو جائیں۔ کیونکہ دشمن کے ٹینک دیہاتوں کو روندتے چلے جا ر رہے ہیں۔اور پھر ہنگامی طور پر سب لوگ گاؤں سے نکلنے لگے ۔تب میں نے اپنے کزن کو دیکھا جس کے ہاتھ پر دیہاتی رواج کے مطابق مہندی اور کلائی پر رنگین رومال بندھا ہوا تھا اور بھاگ بھاگ کر روانگی کے انتظام کر رہا تھا فورًا ہی ایک لاری کا انتظام کیا گیا ۔ سب عورتوں لڑکیوں اور بزرگوں کو اس میں بٹھا کر سیالکوٹ کی طرف روانہ کر دیا گیا ۔میرے جہیز سے سجا اور مہمانوں سے بھرا گھر دیکھ کر میری ماں بلک بلک کر رو رہی تھی۔ ہم نے زیور او رروپے سنبھالے اور جلدی سے لاری میں بیٹھنے لگے کہ اچانک میرے کزن نے میرا ہاتھ تھام لیا ۔ اللہ کے حوالے زندگی رہی تو ضرور ملیں گے ۔سب گھر والوں اور عورتوں کی ذمہ داری تمہیں سونپ رہا ہوں ۔کیوں تم ساتھ نہیں چل رہے ۔میں نے ہراساں ہو کر پوچھا۔ نہیں ابھی بہت سی عورتیں باقی ہیں ۔ساتھ والے گاؤں کی بھی یہیں اکٹھی ہو گئیں ہیں ہم انہیں بے یارو مددگار چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں ۔ میں نے ابھی اس وقت تمھاری طرح سوچا تھا۔ میں نے کہا ان کی حفاظت ان کے مرد جانیں تم ہمارے ساتھ چلو۔تم اپنے آپ کو خطرے میں کیوں ڈالتے ہو میں نے اس کی کلائی مضبوطی سے تھام لی تھی۔ نہیں زبیدہ۔ یہ سب بھی ہماری ہی عزتیں ہیں ۔جب تک یہاں سے آخری عورت بچہ اور بزرگ نہیں نکل جاتے میں کہیں نہیں جا سکتا۔ جاؤ اللہ کے حوالے۔اس نے اپنی کلائی چھڑاتے ہوئے میرے مہندی اور چوڑیوں سے سجے ہاتھ دیکھے تو جیسے ٹھٹھک گیا ۔زبیدہ ان ہاتھوں اور کلائیوں کو کبھی بھی سونا نہ کرنا میں رہوں یا نہ رہوں ۔ اس کی آواز جذبوں کی شدت سے بوجھل ہو رہی تھی۔اسی اثنا میں میری ماں نے مجھے پکارا۔مجھے یاد ہے اس نے آخر میں کہا تھا کہ آج اگر میں ان سب لوگوں کو چھوڑ کر تمھارے ساتھ یونہی چلا چلوں تو کیا تم ایک بھگوڑے کی بیوی کہلانے کی اذیت برداشت کر سکو گی ؟نہیں ناں ۔ سوچو اگر مجھے کچھ ہو گیا تو تم شہید کی بیوہ کہلاؤ گی ۔ شہید جو ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور پھر ہم سب لاری میں بیٹھ گئے ۔ ہماری لاری بہت مشکل سے بچتی بچاتی گجرانوالا کے گاؤں اروب میں جا پہنچی اور وہاں کے لوگوں نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور مہاجرین اور انصار کی یاد دہرا دی۔ تبھی بعد میں آنے والوں نے بتایا کہ میرے سر کا تاج ملک و ملت کی ماؤں بیٹیوں کو بچاتے ہوئے دشمن کی گولیوں کا نشانہ بن گیا ۔بس بیٹی بعد کی کہانی بہت طویل ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ میں نے اس وقت سے لے کر آج تک اپنے شوہر کی آخری خواہش کے مطابق کبھی اپنے ہاتھوں کو مہندی اور کلائیوں کو چوڑیوں سے سونا نہیں ہونے دیا۔ میرے دل میں یہ فخر ہی بہت ہے کہ میرے سر کا سائیں 1965 کی جنگ کا شہید ہے ۔ اب تم بتائو اگر حاشر بھی ان کٹھن حالات میں چھٹی لے کر آ جاتا تو تم قوم کے خود غرض سپوت کی بیوی کہلانا پسند کرتی یا ملک کے رکھوالے کی بیوہ ۔بی جان کے آنکھوں کی چمک ہیروں کو بھی خیرہ کر رہی تھی۔
علینہ کو یوں لگا کہ اس کے جسم میں جیسے ایک بجلی سی دوڑ گئی ہو، میں کیا سوچ رہی تھی۔ میں خود ایک فوجی ہوں اور فوجی کی بیٹی ہوں ۔میں کیسے خود غرض ہو سکتی ہوں ۔۔۔۔یہ میری خاکی وردی کی توہین ہے ۔دیہات کی ان پڑھ عورت نے بھی بھگوڑے کی بیوی بننا پسند نہیں کیا اور میں نے یہ کیسے سوچ لیا حاشر نے مجھے جو اعزاز بخشا ہے میں اس کی اہمیت کو بھول بیٹھی تھی۔ آپ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ بی جان آپ دیکھیے گا کہ میں اپنے شوہر کی اس قربانی کو آگے بڑھاؤں گی اور اپنی خاکی وردی کی لاج رکھتے ہوئے وطن عزیزکی خدمت پر جان دینا میری آرزو ہو گی ۔یہ سب کہتے ہوئے اس کی بنجر آنکھیں یک دم سیراب ہو گئی تھیں اس کے اندر کا سارا غبار اس کی آنکھوں کے ذریعے باہر آ گیا تھا ۔اگلی ہی صبح سب نے مسکراتی آنکھوں سے دیکھا کہ علینہ خاکی ساڑھی میں ملبوس اپنے سینے پر علینہ عالم کے بجائے علینہ حاشر کے نام کی پلیٹ لگائے سی ایم ایچ کی طرف روانہ ہو گئی تھی جہاں اسے اپنے شوہرکی دی ہوئی قربانیوں کو مزید آگے بڑھانا تھا اور اس کی طرح سر خرو ہونا تھا۔یہی وطن عزیز کی بیٹیوں کی روایت ہے خواہ وہ بارڈر کی جنگ ہو یا دہشت گردی کی ۔
مضمون نگار معروف ماہرِ تعلیم ادیبہ اور شاعرہ ہیں۔مختلف قومی، ملی و ادبی موضوعات پر لکھتی ہیں۔
تبصرے