الیکشن میں ہارے ہوئے نریندر مودی نے جیسے تیسے کر کے سرکار تو بنا لی ہے مگر یہ سرکار مسلمانوں کے لیے خرکار بن کر سامنے آئی ہے۔ مسلمانوں کے لیے بھارت میں سُکھ کا سانس لینا پہلے بھی مشکل تھا لیکن اب مودی کے غنڈ ے بے شرم ہو کر ساری حدود پھلانگ چکے ہیں۔ نریندر مودی بھارت سے مسلمانوں کا صفایا کرنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن ان کے تمام شیطانی عزائم اب تک مکمل طور پر ناکام ہوتے آئے ہیں۔ ان کی اپنی پارٹی جو بھارت میں سب سے زیادہ مقبول تھی، ملک کے تازہ ترین انتخابات میں کٹ ٹو سائز ہو گئی ہے۔543 کے ایوان میں جو جماعت کبھی 303 رکنی تھی اور پروں پہ پانی نہیں پڑنے دیتی تھی 240 کی رہ گئی ہے، 272 کی سادہ اکثریت اس کے قابل نہیں ہے اور حکومت بنانے کے لیے دوسری جماعتوں کی محتاج ہے۔ اس نے اپنی طاقت اور بھارتی ووٹر کا اعتماد صرف اس لیے کھو دیا ہے کہ ہندو ووٹر اب سمجھ گیا ہے کہ مودی کی پالیسیاں جلد یا بدیر بھارت کو توڑ دیں گی، بھارت کو جہنم بنا دیں گی جس میں زندگی امن سے گزارناممکن نہ ہو گا۔
بھارت کے مسلمانوں نے بھی اپنے اکثریتی علاقوں میں نتائج کو متاثر کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ مسلمان تمام انتخابات میں ایسا کرتے ہیں لیکن تازہ ترین انتخابات میں انہوں نے زیادہ سرگرمی سے حصہ لیا اور بی جے پی مخالف جماعتوں کو بہت سی سیٹیں جیتنے میں مدد کی۔ مودی اور ان کی پارٹی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ مسلمانوں نے پولنگ اور نتائج کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ اس لیے اب مودی اور ان کی پارٹی مسلمانوں کے لیے پہلے سے زیادہ خطرناک ہے۔ ان کی پارٹی کے غنڈے مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں اور انہیں بغیر کسی قانونی کارروائی کے کھلے عام قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
حال ہی میں بی جے پی رہنما کرنیل سنگھ نے نئی دہلی کے علاقے کالکاجی میں مسلمانوں پر بچھڑے کو مارنے اور لاش پھینکنے کا الزام لگایا اور48گھنٹوں کے اندر اندر دو لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔ کرنیل سنگھ نے سنگم وہار علاقے میں ایک پولیس افسر کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ:"آپ کے پاس 48 گھنٹے ہیں ان (مسلمانوں)کے خلاف جو آپ کر سکتے ہیں کریں، ورنہ چاہے یہاں ڈیڑھ لاکھ یا 2 لاکھ مسلمان ہوں، ہم ان سب کو مار ڈالیں گے"۔
بی جے پی رہنما کے مسلم نفرت پر مبنی بیان پر علاقے کے رہائشیوں نے مسلم مارچ نکالنے کا فیصلہ کیا مگر پولیس کی جانب سے مارچ کی اجازت نہ دی گئی ۔مقامی مسلم رہنمائوں نے شکایت درج کرائی جس میں بی جے پی لیڈر کی گرفتاری اور اس کے خلاف قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے)کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا مگر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا ۔ہندوتوا کے حامی مسلسل علاقے کا دورہ کر تے رہے اور مسلمانوں کے خلاف زہر اُگل کر "انہیں پاکستان بھیج دو"، "کٹوے" اور "دہشت گرد" کے نعرے لگا تے رہے ، اشتعال انگیز بیان سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا جس کے باعث درجنوں مسلم خاندان علاقے سے نقل مکانی پر مجبور ہو گئے ۔
2 لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکی قتل عام نہیں بلکہ دراصل نسل کشی ہے لیکن بدقسمتی سے انسانی حقوق کی کسی بین الاقوامی تنظیم نے نوٹس نہیں لیا۔ کسی بھی ملک نے اس دھمکی کی مذمت نہیں کی اور نہ ہی بھارتی وزیراعظم سے غنڈوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ یہاں ایک اور بات قابل غور ہے کہ نسل کشی ایک ایسا لفظ یا صورتحال ہے جہاں اقوام متحدہ کو خود اس ریاست کے خلاف تعزیری کارروائی شروع کرنی چاہیے جہاں ایسی دھمکیاں دی جاتی ہیں لیکن اقوام متحدہ بھی اس معاملے پر خاموش ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت بھارت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی تاریخ بہت طویل ہے جس میں اقلیتیں خاص طورپرمسلمان بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ہندوئوں نے کبھی بھی مسلمانوں کو بھارتی شہری تسلیم نہیں کیا اور اس کا واضح ثبوت مسلمانوں کی نسل کشی کے بیشمار واقعات ہیں گزشتہ ایک دہائی سے بھارت پر قابض مودی سرکار نے تمام حدیں پار کرتے ہوئے بھارت کی سب سے بڑی اقلیتی آبادی مسلمانوں کو نشانے پر رکھ لیا۔
بی جے پی سرکار نے سب سے پہلے جموں کشمیر کے مسلمانوں کے خلاف سازش کی اور دو نکاتی حکمت عملی اپنائی،
1۔سینئر قیادت کو گرفتار کر کے انہیں وادی سے دور بھارت میں جیلوں میں بند رکھنا۔ کہ وہ اپنے کارکنوں اور رشتہ داروں سے کٹ جائیں اور تنہائی میں مر جائیں۔ بھارت قدرتی موت بنا کر ان کو مارنے کے الزام سے بچ جائے اور ان سے چھٹکارا بھی حاصل ہو جائے۔
2 ۔نوجوان پرجوش کارکنوں کو ہٹ لسٹ میں ڈال دیا گیا اور فورسز کو گولی مارنے کا فری ہینڈ دے دیا گیا- کشمیری تحریک کے نوجوانوں کو ختم کیا جائے، تحریک کمزور اور بعد میں ختم ہو جائے۔ لیکن کشمیریوں کا عزم بھارتی فوج سے زیادہ مضبوط ہے۔ وہ اب بھی بے خوف کھڑے ہیں جبکہ مودی سرکار ہاری ہوئی ہے۔ لوک سبھا میں اپوزیشن مودی سے پوچھتی ہے کہ جموں کشمیر میں آپ کا اگلا منصوبہ کیا ہے جہاں آپ صرف لیفٹیننٹ گورنرز کے ساتھ نظام چلا رہے ہیں؟ اور مودی کے پاس جواب دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔
مودی سرکار کی مسلمانوں کو کچلنے کی پالیسی کا دوسرا مرحلہ بھارت کے مسلمانوں کے لیے مشکل وقت لے کر آیا۔ یہاں مودی کے غنڈوں نے کھلے عام مسلمانوں کو ہندو بنانے کی مہم چلائی اور ہندوئوں کو ڈومیسائل پر کشمیر منتقل کرنے کے لیے راغب کیا جہاں وہ گوری لڑکیوں سے شادی کر سکتے ہیں۔ یہ بھارتی معاشرے کی بدترین پستی تھی جو بصورت دیگر چمکتا ہوا بھارت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ مودی کی پچھلی دو حکومتوں کے دوران سیکڑوں بھارتی مسلمان مارے گئے اور کون نہیں جانتا کہ گجرات ریاست میں مودی ہی تھا جہاں بی جے پی کے ہندو غنڈوں نے ایک ہی دن میں 2 ہزار مسلمانوں کو قتل کیا تھا۔
مودی نے تیسری بار اقتدار حاصل کرتے ہوئے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی تقریروں میں مسلم مخالف بیان بازی کو اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔ بیساکھیوں کا سہارا لیتے ہوئے تیسری بار اقتدار میں آتے ہی مودی اور بی جے پی کے کارندوں کی جانب سے مسلمانوں کے خلاف بیان بازی اور دھمکیوں نے مزید زور پکڑلیاہے۔
عید قربان بھارت کے مسلمانوں کے لیے ہمیشہ انتہائی حساس اور مشکل وقت ہوتا ہے۔ مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کے طور پر جانوروں کی قربانی کرتے ہیں لیکن فاشسٹ ہندو انہیں کرنے نہیں دیتے۔رواں سال عید قرباں پربی جے پی اور ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس کے حامیوں نے گائے کے گوشت کے خلاف ایک زہر آلود مہم کا آغاز کر دیا ۔
بھارت کی 29 ریاستوں میں سے 24 ریاستوں نے گائے کو ذبح کرنے یا گائے کا گوشت بیچنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے ۔ مدھیہ پردیش کے ضلع منڈلا میں گائے کا گوشت فریج میں رکھنے کے الزام میں بھارتی انتظامیہ نے مسلمانوں کے 11 مکانات منہدم کر دیے، عید کے موقع پر ریاست اتر پردیش کے شہر علی گڑھ میں فرید نامی مسلم شہری کو دن دھاڑے ہندوئوں انتہاپسندوں نے نشانہ بنایا۔اس سے قبل بھی ہندو انتہاپسندوں نے عید کے موقع پر قربانی کرتے ہوئے تین مسلمانوں کو ہائی وے پر تشدد کا نشانہ بنایا جبکہ ہسپتال لے جانے کے بعد بھی ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی گئی۔اتر پردیش میں بھی مودی اور بی جے پی کی کئی دہائیوں کی حکومت میں مسلمانوں پر تشدد اور حملے آسمان کو چھو چکے ہیں۔
بھارت بھر میں ہندو مذہبی انتہا پسندوں نے گائے کے ذبح کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے جس میں متعدد مسلمانوں کو قتل جیسے سنگین اقدامات کا ارتکاب کیا گیا۔ بی جے پی نے ہر لحاظ سے بھارتی سرزمین مسلمانوں کے لیے تنگ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے ایسے واقعات یہ پیغام دیتے ہیں کہ بھارت صرف ہندوئوں کا ملک ہے جبکہ مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
نریندر مودی کی ہندتوا حکومت کی نفرت انگیز پالیسیوں کی وجہ سے بھارت ایک اور تقسیم کے دہانے پر ہے۔ اس انتہا پسند ہندو نظریے کا سب سے بڑا شکار وہ مسلمان ہیں جن کی بھارت میں آبادی یورپ کے بڑے ممالک آسٹریلیا، کینیڈا اور دنیا کے دیگر کئی ممالک سے زیادہ ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے رہنما اسد الدین اویسی نے لوک سبھا میں کہا کہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی سرکاری مردم شماری میں بتائے گئے اعدادو شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ یقینی طور پر معلوم وجوہات کی بنا پر اسے اصل تعداد سے کم دکھایا گیا ہے۔
مودی حکومت بھارت میں مسلمانوں کے بھارتی ہونے سے انکار کر رہی ہے۔ مودی اور انتہا پسند ہندو، مسلمان فاتح محمود غزنوی اور ظہیر الدین بابر وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں درانداز کہتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کا وارث قرار دے کر بھارت سے نکل جانے کی وارننگ دیتے رہتے ہیں۔نریندر مودی کو اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور خود سے پوچھنا چاہیے کہ کیا آپ خود بھارت میں گھس بیٹھئے نہیں ہیں؟
یہ سمجھنے کے لیے بہت اہم نکتہ ہے۔ مودی اور اس کے ساتھی جو ہمیشہ بھارت کے مسلمانوں کو درانداز قرار دیتے ہوئے ان کی مذمت کرتے ہیں، وہ خود بھارت کے اصلی باشندے نہیں ہیں۔ تاریخ واضح ہے کہ آریہ وسطی ایشیا سے ہندوستان آئے۔ بھارت کے برہمن، مودی اور اس کے ساتھی بھی انہی آریائیوں کی نسلیں ہیں۔ ہندوستان کے اصل باشندے وہ ہیں جنہیں یہ نام نہاد اعلیٰ ذات کے ہندو اچھوت یا آدی واسی(قبائلی جو زیادہ تر جنگلوں میں یا شہروں سے باہر رہتے ہیں)کہتے ہیں۔
یہ بھی ایک معلوم حقیقت ہے کہ بھارت میں برہمن اچھوتوں اور دیگر جنہیں وہ نچلی ذات کہتے ہیں کو مندروں میں داخل نہیں ہونے دیتے اور نہ ہی انہیں اونچی ذات کے پاس بیٹھنے کی اجازت ہے۔ اگر ان کی گلی سے کوئی نچلی ذات والا گزرتا ہے تو وہ اسے مارتے ہیں۔ یہاں ہم دو باتیں سمجھ سکتے ہیں۔
1 ۔جب وہ اپنے ہی دھرم کے لوگوں کے ساتھ اس قدر ظالم ہیں تو وہ مسلمانوں کے ساتھ کتنے ظالم ہوں گے۔
2۔وہ جانتے ہیں کہ نچلے طبقے کے لوگ ان جیسے نہیں ہیں ۔برہمن جانتے ہیں کہ یہ اچھوت آدی واسی ہی بھارت کے حقیقی باسی ہیں لیکن ان سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے انہیں جھوٹے وعدوں کے ساتھ اپنے پیچھے لگائے رکھتے ہیں۔ اگر اچھوت یا آدی واسی انہیں ووٹ نہیں دیتے ہیں تو بی جے پی ایک چھوٹی پارٹی بن جائے گی ان کے بغیر برہمن ہندو بھارت میں اقلیت بن جائیں گے۔
مودی اور ان کے قسم کے بھارتی لیڈروں کو ماضی سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ جب انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کو کچلنے کا ارادہ کیا تو پاکستان وجود میں آیا، اب جب وہ مسلمانوں کو بھارت سے ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو موجودہ بھارت کے اندر سے ایک اور پاکستان اُبھر سکتا ہے۔ مزید یہ کہ بھارت میں نہ صرف مسلمان اپنے شہری حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں بلکہ دیگر علیحدگی کی تحریکیں بھی زور پکڑ رہی ہیں۔
خالصتان تحریک نے بھارت کے لیے بہت بڑے چیلنجز کھڑے کیے ہیں۔ سکھوں نے پورے پنجاب، ہریانہ، ہماچل پردیش، راجستھان کے کچھ حصوں، اترپردیش میں بھی مقبولیت حاصل کی ہے۔ انہوں نے بھارت سے باہر اپنے علیحدہ وطن کے لیے کینیڈا سے آسٹریلیا تک ریفرنڈم کرائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت نے کینیڈا اور امریکہ میں بین الاقوامی جرائم کو منظم کیا اور وہاں کے سکھ رہنمائوں کو قتل کیا۔ اس کے بعد شمال مشرقی ریاستوں ناگا لینڈ، منی پور، آسام اور دیگر میں علیحدگی کی تحریکیں زوروں پہ ہیں، بھارتی فوج کتنی اطراف پہ لڑ سکتی ہے اور مودی اور اس کے غنڈے عوام کو کہاں کہاں دبا سکتے ہیں اورکب تک بھارت کو متحد رکھ سکتے ہیں؟ آخرکار انہیں شکست کا منہ دیکھنا ہے۔
صرف جموں کشمیر کی تحریک آزادی ہی بھارت اور اس کی فوج کی بڑی ناکامی ہے۔ مودی تمام طاقت اور ہتھیاروں اور ظلم کے ساتھ کشمیریوں کو دبانے میں ناکام رہے۔ مودی کو جلد ہی کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بحال کرنا پڑے گا کیونکہ ان کے پاس اس علاقے کے لیے کوئی متبادل انتظامی منصوبہ نہیں ہے۔ خصوصی حیثیت کی بحالی سے کشمیر کی تحریک آزادی کو مزید تقویت ملے گی جو اس تنازعہ کے جلد حل کی راہ ہموار کرے گی۔ مودی ناکام ہو چکے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ بھارت کو بھی ناکام بناتے ہیں اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں یا امن پسند ہندو لیڈر متحد ہو کر بی جے پی کے غنڈوں سے نجات حاصل کر لیتے ہیں؟بہرحال یہ فیصلہ کرنے کا وقت ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
نہ صرف مسلمان اور سکھ بلکہ دلت اچھوت بھی بھارت میں برہمن راج کے مودی نظریے کا شکار ہیں۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق انتہا پسند ہندوئوں کے دلتوں کے خلاف سب سے زیادہ مظالم اتر پردیش میں درج کروائے گئے جن کی تعداد 15,368 ہے ،راجستھان میں 8952، مدھیہ پردیش میں 7733، بہار میں 6509، اڈیسہ میں 2902، مہاراشٹر میں 2743، آندھرا پردیش میں 2315، اور کرناٹک میں 1977 دلتوں کیخلاف پرتشدد واقعات رپورٹ ہوئے۔
10 جولائی 2024 کو اتر پردیش کے ضلع شراواستی میں 15 سالہ دلت نابالغ لڑکے کو شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ نام نہاد اونچی ذات کے تین نوجوانوں نے دلت لڑکے کو بری طرح مارا پیٹا اور پھر زبردستی پیشاب پلایا۔ دلت لڑکا ٹیکنیشن کا کام کرتا ہے اور تقریبات میں سائونڈ سسٹم لگاتا ہے۔ اونچی ذات کے لوگوں سے اپنے کام کی اجرت مانگنا مہنگا پڑگیا۔ دلت لڑکے نے انتہاپسند نوجوانوں کیخلاف ایف آئی آر درج کروائی جس کے بعد تینوں کو گرفتار کرلیا گیا مگر کوئی قانونی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی عدالت میں پیش کیا گیا۔
مضمون نگار مختلف اخبارات میں بطور ایڈیٹر خدمات انجام دے چکے ہیں اور اسلام آباد سے انگریزی سفارتی بین الاقوامی میگزین شائع کرتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے