پاکستان جغرافیائی طور پر ایسی جگہ پر واقع ہے کہ جہاں پر ایک طرف اس کا ازلی دشمن بھارت ہے جو ہر وقت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھتا ہے جبکہ اس کی دوسری طرف افغانستان ہے جس کے ساتھ سیکڑوں کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے جہاں پر باڑ لگانے کے باوجود افغان حکومت کی زیر سرپرستی در اندازیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔بھارت نے پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے سرحدی علاقوں میں طویل عرصہ سے ''سرمایہ کاری'' کر رکھی ہے۔ قندھار کو بجا طور پر بھارت کا بیس کیمپ کہا جا سکتا ہے جہاں سے بیٹھ کر پاکستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی سنگین کارروائیاں ہوتی ہیں۔پاکستان میں گرفتار ہونے والے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو نے کئی کہانیاں طشت از بام کی ہیں۔اس کے انکشافات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی تمام کاروائیوں کا ''کھرا '' بھارت یا افغانستان کی طرف جاتا ہے۔افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اس مرتبہ دہشت گرد حملوں کا انداز قدرے مختلف ہے۔عوامی مقامات کو نشانہ بنانے کے بجائے سکیورٹی فورسز کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔انکا مقصد یہ ہے کہ فورسز کے مورال کو گرایا جائے۔
دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت مختلف چیلنجوں سے گزر رہا ہے ۔ان حالات میں پاکستان کا دوست ملک چین واحد ملک ہے جو سی پیک کے منصوبوں پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔
2009 سے لے کر اب تک ملک میں متعدد چھوٹے یا بڑے آپریشن ہو چکے ہیں اور ہر آپریشن کی کامیابیوں اور قربانیوں کی اپنی اپنی داستان ہے۔ یہ مضمون ان تفصیلات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔(اس موضوع پر میری ایک مستقل کتاب ''دہشت گردی سے سیاحت تک''شائع ہوچکی ہے)سب سے پہلے کیا جانے والاآپریشن 'سوات' ایک کامیاب ترین آپریشن تھا ۔اگرچہ اس میں لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو بے گھر ہونا پڑا تھا لیکن وہاں پر فوج نے نہ صرف ریاستی رٹ بحال کر دی تھی بلکہ دشت گردوں کو بھی ٹھکانے لگانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔2014کے آپریشن ضرب عضب کی ایک اپنی اہمیت ہے جبکہ 2017 کے آپریشن رد الفساد کی کامیابی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔تا ہم ماضی کے مقابلے میں آج صورتحال مختلف ہے۔قبائلی اضلاع میں سے ضلع منفرد مسائل سے دوچار ہے۔
آپریشن کے خدوخال کیا ہوں گے؟
موجودہ حالات میں آپریشن عزمِ استحکام کی اشد ضرورت ہے۔اس حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی مہم چلائی گئی۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ یہ معروف معنوں میں ملٹری آپریشن نہیں ہوگا۔
'عزمِ استحکام کوئی ملٹری آپریشن نہیں ہے'
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے ایک پریس کانفرنس میں اسکے خدوخال پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 'آپریشن عزمِ استحکام' سے متعلق غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں اور اسے متنازع بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آپریشن عزم ِاستحکام دہشت گردوں کے خلاف ایک ہمہ گیر مہم ہے۔ لیکن یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ یہ 'ضربِ عضب' آپریشن کی طرح ہو گا اور لوگوں کو بے دخل کیا جائے گا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ 24 جون کو وزیرِ اعظم ہاؤس کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کر کے بھی وضاحت کی گئی، لیکن پھر بھی غلط فہمیاں پھیلائی جا رہی ہیں۔
لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے آپریشن کی اہمیت بیان کرتے ہوے کہا کہ پاکستان، افغانستان سرحد پر غیر رجسٹرڈ گاڑیاں دہشت گردوں کی آمد و رفت کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔
افغانستان کے تاجکستان اور دیگر ملکوں کے ساتھ بھی بارڈرز ملتے ہیں، لیکن پاکستان کے ساتھ 'سافٹ بارڈر' کے ذریعے کروڑوں، اربوں روپے کا کاروبار ہو رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ افغان شہری دیگر ممالک میں ویزے لے کر جاتے ہیں، لیکن پاکستان میں 'تذکرہ' اور شناختی کارڈز دکھا کر داخل ہو جاتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس آپریشن میں خفیہ معلومات کی بنیاد پر کارروائی ہو گی۔
جون کے آخری عشرے میں ہونے والے ایپیکس کمیٹی کے اجلاس میں وزیراعظم نے واضح طور پر کہا کہ ملک میں دہشت گردی کے مسئلے کو صرف ایک ادارے پر نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے صوبوں پر بھی زور دیا کہ وہ اپنا کردار ادا کریں اور ساتھ ساتھ حکومت نے عدلیہ سے بھی مدد مانگی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی کے خلاف کارروائی کریں اور ان کو عدالت سے ریلیف ملنا شروع ہوجائے۔حکومت کی کوشش ہے کہ انسداد دہشت گردی کے مقصد سے جاری قومی ایکشن پلان میں ایک نئی روح اور جذبہ پیدا کیا جائے۔
اس کے ذریعے شدت پسندوں اور ان کے حامیوں کو واضح پیغام بھی دینا ہے کہ ریاست پاکستان کمزور نہیں ہوئی اور ان کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔
مضمون نگار لاہور اور کراچی میں قائم جسٹس پیرمحمد کرم شاہ انسٹیٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے بانی ڈائریکٹر ہیں۔
[email protected]
تبصرے