ہر انسان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ بے مقصد زندگی بے مزہ ہوتی ہے۔ زندگی کی مسرت سے انسان صرف اس وقت لطف اندوز ہوسکتا ہے جب اس کے سامنے کوئی مقصد ہو۔ جیسے ہر انسان کی زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے اسی طرح ہمارے ملک کے محافظ ہمارے فوجی جوانوں کی زندگی کا مقصد صرف اس ملک کی حفاظت کرنا ہے اور وہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنی جان کی بازی تک لگا دیتے ہیں۔
ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم رات کو سکون کی نیند سوتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ملک کی سرحدوں کی اور ہماری حفاظت کرنے کے لیے ہمارے جوان دن رات پہرہ دیتے ہیں۔ جن کا مقصد صرف اور صرف اس ملک وقوم کی حفاظت اور ترقی وخوشحالی ہے۔ ہمارا فوجی جوان جب اپنے جسم پر اپنا یونیفارم پہن لیتا ہے تو سمجھو کہ اس نے ایک عہد کر لیا اور اپنے آپ سے قسم کھالی کہ اب اس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف اس ملک وقوم کی حفاظت کرنا ہے اور اس مقصد کو اپنا فرض سمجھ کر نبھانا ہے۔
ایک فوجی جوان جب اپنے گھر سے نکلتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ وہ اب جس راستے پر چل نکلا ہے یہی اس کی زندگی کا مقصد اور سرمایہ ہے۔ جہاں وہ اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑ آتا ہے اس کے ذہن میں بس اس ملک اور قوم کا خیال ہوتا ہے جس کا وعدہ اس نے اپنے آپ سے کر رکھا ہوتا ہے۔
اپنے پیچھے وہ اپنی ماں ، بہن ، بیوی اور بچوں کو اللہ کے آسرے پر چھوڑ کر خود اس ملک کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتا ہے۔ چاہے وہ صحرا کی گرم تپتی لوہو یاکشمیر کے بلندو بالا پہاڑ ہوں، سیاچن کی سرد ترین برفیلی راتیں ہوں یا پانی کی تیز موجیں ہوں وہ کبھی نہ پیچھے ہٹتا ہے نہ گھبراتا ہے اس کا مقصد صرف اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر خود کو ملک کے لیے وقف کرنا ہے۔
ہم اپنے شہیدوں کا خون کبھی ضائع نہیں ہونے دے سکتے کیونکہ انہوں نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر ہماری حفاظت کی۔ وہ چاہے میجر عزیز بھٹی شہید ہو یا میجر شبیر شبیرشریف شہید، وہ پائلٹ راشد منہاس شہید ہو یا حوالدار لالک جان شہید، وہ جنرل سرفراز شہید ہو یا کیپٹن عزیر ملک شہید۔ وہ کسی کے بیٹے بھی تھے، کسی کے بھائی اور باپ بھی تھے۔جنہوں نے اس ملک کے لیے اپنی جان کی پراوہ تک نہیں ۔ کس کیلئے؟ اس ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمارے محافظ تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔ کل وہ تھے جنہوں نے شہید ہو کر اس ملک کا سر فخر سے بلند کیا اور آج اور بہت سے مائوں کے لال ہیں جو سینہ تان کر دشمنوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑے ہیں۔ ہمارے محافظ ہمارا فخر ہیں ان ہی کی وجہ سے آج ہم آزاد کھلی فضا میں سانس لے رہے ہیں۔ ہمارے شہید ہمارا فخر ہیں۔اگر ہم بات کریں ہمارے محافظوں کی زندگی کی تو بہت مشکل اور کھٹن حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔
سیاچن کے برف سے ڈھکے پہاڑوں پر چڑھنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔ یخ بستہ سرد راتوں میں جہاں اپنوں سے دور اکیلے صرف اس ملک کی حفاظت اور اپنے فرض کے لیے لڑ رہے ہوتے ہیں ۔ وہ جگہ جہاں آج کے جدید دور میں رہتے ہوئے بھی کسی قسم کا نیٹ ورک کام نہیں کرتا، جہاں سردی کے دن رات اور بھی کھٹن ہوجائیں، برف باری کی وجہ سے راستے بند ہوجائیں ۔ آمدورفت اور بھی مشکل ہوجاتی ہے ۔ گھر والوں سے دور ہوتے ہیں ۔ موبائل فون تک کام نہیں کرتے۔ مہینوں نہ گھر والوں کی کوئی خیر خبر ہوتی ہے۔ وہ تنہا ملک کے لیے دن رات کھڑے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کشمیر کے بلند وبالا پہاڑوں میں بھی کچھ اسی طرح کے حالات ہوتے ہیں۔ جہاں دشمن بھی سامنے کھڑا ہوتا ہے اور ہمارا جوان اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس ملک کے لیے دن کی روشنی ہو یا رات کا اندھیرا، ڈٹ کر کھڑا ہوتا ہے۔ جہاں صرف ایک ہی بات کا خیال رہتا ہے کہ پتہ نہیں کب کوئی سر سراتی گولی دشمن کی طرف سے آئے اور آپ کا سینہ چیرتی ہوئی گزر جائے۔ گھر والوں سے بے خبر صرف اس ملک اور قوم کی فکر ہو۔
بالکل اسی طرح صحرا کی گرم تپتی جھلستی گرمی میں جہاں سورج آپ کے سر پر کھڑا ہو اور آپ یونیفارم میں پسینے سے شرابور کھڑے رہیں صرف ملک اور قوم کی حفاظت کے لیے صرف اپنا فرض ادا کرنے کی فکر میں باقی سب فکروں سے آزاد ہوکر ۔ ایسے حالات میں کسی کی ماں اپنے بیٹے کی آواز سننے کے لیے مہینوں انتظار کرتی ہے، اپنے بیٹے کی آہٹ سننے کے لیے دن رات دعائیں کرتی ہے۔ کسی کی بہن اپنے بھائی کا انتظار کرتی ہے، کسی کی بیوی اپنے خاوند اور کسی کے بچے اپنے باپ سے ملنے کے لیے دن رات انتظار کرتے ہیں۔ یہ بہت مشکل لمحات ہوتے ہیں جو صرف ایک جوان کے گھر والے ہی سمجھ سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں آج کل کچھ ایسے عناصر ہیں جو اس ملک کو توڑنے کے لیے دن رات فوج کے خلاف غلط افواہیں پھیلاتے ہیں۔ ان کے لیے یہی ایک پیغام ہے کہ ایسا سوچنے اور کرنے سے پہلے ایک دفعہ ان جوانوں کی جگہ ڈیوٹی کر کے دکھائیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ آپ کے کچھ بھی کہنے سے ان کے گھر والوں کی کتنی دل آزاری ہوتی ہے۔
میں ہمیشہ یہ سوچتی ہوں کہ جوان اس ملک کے لیے اپنی جان قربان کردیتا ہے۔ شہید ہوکر اپنے ملک کا نام روشن کرتا ہے۔ لیکن اسکے بعد اس کے گھر والے اس کو دیکھے اور محسوس کیے بغیر اسکی یاد میں کیسے جیتے ہیں۔ یہ سب سوچ کر دل بھر آتا ہے، آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔ پھر یہی سوچ کل کو مطمئن کرتی ہے کہ ایک فوجی جوان کا صرف ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ اس ملک اور قوم کا محافظ ہے اور اس نے اپنا حق ادا کردیا اوریہی اس کی زندگی کا مقصد تھا جو پورا ہوا۔
مضمون نگار شعبہ تدریس سے وابستہ ہیں اور مختلف موضوعات پر لکھتی ہیں۔
تبصرے