جنگِ ستمبر 1965ء کا ذکر ذہن میں آتے ہی جہاں افواجِ پاکستان کے زریں کارنامے ذہن میں آتے ہیں وہاں فورا ان کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ملّی ترانوں کا احساس بھی ابھرتا ہے ۔ جنگ ِ ستمبر اور ہماری ملّی شاعری گویا لازم و ملزوم ہوچکے ہیں اسی لیے یہ مفروضہ بھی عام ہوچکا ہے کہ اس جنگ کی فتح میں ملّی ترانوں نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ اب یہ مفروضہ تو تحقیق طلب ہوسکتا ہے جس پر صاحبِ مضمون کو اختلاف ہے تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان ہی ملّی ترانوں نے جنگ کے دوران جہاں اپنے وطن اور مجاہدوں کے لیے نت نئے خیالات کے ساتھ جذبات عیاں کیے وہاں سلہٹ تا کراچی پوری قوم کو ایک قوم کی صورت متحد رکھا جس کا اظہار اُس دور کے بعد پھر کبھی دیکھنے میں نہ آسکا ۔ جس پر قتیل شفائی مرحوم اپنے ترانے میں یوں منظر کشی کرتے ہیں :
'' علی کی تیغ کے جوہر سے قلم لے کر
دل ِ شبیر کے شوقِ شہادت سے علَم لے کر
ابھارے حریت کے ولولے ملّی ترانوں نے
وطن کی آبرو رکھ لی وطن کے پاسبانوں نے ''
( اس نغمے کو ریڈیو پاکستان کراچی پر شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں نے ریکارڈ کروایا تھا )
جنگ سے قبل ہماری ملّی شاعری کا مرکز و محور وطن کے نظارے ' سلامتی کی دعائیں ' پرچم سے عقیدت یا پھر بانیانِ پاکستان اور بالخصوص قائدِ اعظم محمد علی جناح کی مدح سرائی ہی تھی لیکن جیسے مئی 1965ء میں رن آف کچھ کی جنگ شروع ہوئی اور اُس میں پاکستان کو فتح نصیب ہوئی تو حکومت ِ پاکستان کی جانب سے کوشش کی گئی کہ ملّی ترانوں کے مزاج میں مجاہدانہ رنگ بھی شامل کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی ترتیب دی گئی جس کے نگراں جمیل الدین عالی تھے ۔ اسی منصوبے کے تحت انھوں نے اپنا مقبول ملّی نغمہ '' اے وطن کے سجیلے جوانو! میرے نغمے تمھارے لیے ہیں '' تحریر کیا تھا جبکہ قتیل شفائی نے '' اے میرے وطن کے پاسبان زندہ باد '' جیسا نغمہ لکھا مگر درحقیقت اُس وقت بھارت کی جانب سے جنگ کی ایسی فضاء قائم ہوچکی تھی کہ قوم کے سخن وَر اب رزمیہ شاعری کی جانب بھی متوجہ ہونے لگے تھے ۔ اتفاق سے جب مذکورہ ترانے تیار ہوئے تو جنگ کا آغاز ہوچکا تھا اسی لیے ان کا شمار بھی بلا جھجھک جنگِ ستمبر کے ہی ترانوں میں کیا جاتا ہے ۔
چھ ستمبر 1965ء کو جیسے ہی طبل ِ جنگ بجا تو علی الصبح ناصر کاظمی لاہور ریڈیو سٹیشن پہنچ چکے تھے جہاں انھوں نے افواجِ پاکستان کے لیے پہلا ترانہ '' ہمارے پاک وطن کی شان … ہمارے شیر دلیر جوان '' تحریر کیا ۔ یہ ترانہ ایک روایتی انداز کا ترانہ تھا جسے ناصر کاظمی نے اپنے مخصوص انداز یعنی چھوٹی بحر میں تحریر کیا جس میں وہ کہتے ہیں :
'' خدا کا سایہ ان کے ساتھ … خدا کا ہاتھ ہے ان کا ہاتھ
ہے ان کے دم سے پاکستان … ہمارے شیر دلیر جوان ''
(یہ نغمہ سلیم رضا اور ساتھیوں نے لاہور ریڈیو پر ریکارڈ کروایا تھا )
ناصر کاظمی نے جنگ کے دوران سب سے زیادہ ملّی ترانے لکھنے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا ۔ وہ ہر روز ایک نیا ترانہ تخلیق کرتے جس میں افواجِ پاکستان کے ساتھ ساتھ وطن سے عقیدت کے جذبات بھی شامل ہوتے ۔ ناصر کاظمی چونکہ خود موسیقی کے رموز سے بھی آگاہ تھے اسی لیے انھوں نے تمام ترانے موسیقی کو مد نظر رکھ کر ہی تحریر کیے پھر وہ اپنی رومان پسند طبیعت کو ملّی ترانوں سے بھی ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنے ایک نغمے میں کہتے ہیں :
'' تو ہے میری زندگی اے مِرے پیارے وطن
تو ہے میری روشنی اے مِرے پیارے وطن
پاک تیرے آبشار پاک ہیں ترے جبل
پاک تیری کھیتیاں پاک تیرے پھول وپھل
جلوۂ صبح ِ ازل ''
( یہ نغمہ ملکہ ٔ موسیقی روشن آراء بیگم نے ریکارڈ کروایا تھا )
اسی ترانے میں ناصر کاظمی نے ''عرش کے محراب '' کی ایک نئی ترکیب بھی اردو ادب میں استعمال کرتے ہوئے اشعار کہے :
''تیری فضاء پر کھلے چاند ستاروں کے راز
عرش کے محراب میں پڑھتے ہیں شاہیں نماز
پاک دل و پاک باز ''
اس جنگ میں بھارت نے لاہور' سیالکوٹ اور سرگودھا کو باضابطہ نشانہ بنایا تھا اسی لیے شعرائے کرام نے ان شہروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اُن میں ناصر کاظمی بھی پیش پیش تھے ۔ ارضِ مولدِ اقبال سیالکوٹ کے نام اُن کا ترانہ '' سیالکوٹ تو زندہ رہے گا '' ہر خاص و عام کی زبان پر تھا بلکہ اب اس کا مصرع تو سیالکوٹ کے شہریوں کے لیے باعثِ فخر بن چکا ہے ۔ اس ترانے میں ناصر کاظمی شہرِ سیالکوٹ کو یوں سلام پیش کرتے ہیں :
'' تیری سرحد سرحد پر دشمن کا قبرستان بنا ہے
تیری جانبازی کا سکہ دنیا نے اب مان لیا ہے
پاک فوج ہے تیری محافظ ایک وار بس اور دکھا دے
اٹھ اور نام علی کا 'لے کر دشمن کو مٹی میں ملادے
زندہ رہے گا ' زندہ رہے گا سیالکوٹ تو زندہ رہے گا ''
( یہ نغمہ سلیم رضا اور ساتھیوں نے لاہور ریڈیو پر ریکارڈ کروایا تھا )
سرگودھا کے لیے بھی ناصر کا قلم رواں ہوتا ہے تو شاہینوں کے اس شہر کو '' زندہ دلوں کا گہوارہ'' کہلواجاتا ہے ۔ یہ اتنا مقبول ہوا کہ جنگ کے ایک عرصے بعد تک سرگودھا کے مشاعروں میں صرف یہی نغمہ پڑھنے کے لیے ناصر کاظمی کو دعوت دی جاتی کیونکہ اس میں رزمیہ جذبات کے ساتھ ساتھ انھوں نے سرگودھا کی فضاء کا عوامی منظر بھی خوب پیش کیا تھا :
'' سورج سے گھر ' چاند سی گلیاں ' جنت کی تصویر
بانے چھیل چھبیلے گبرو 'غیرت کی شمشیر
سبک چال نخریلے گھوڑے ' کڑیل نیزہ باز
آنکھیں تیز کڑکتی بجلی ' تاروں کی ہم راز''
اس کے بعداسی ترانے میں ناصر کا قلم اپنے شاہینوں کو یوں خراجِ تحسین پیش کرتا ہے :
'' ہردم اس کے جٹ طیارے اڑنے کو تیار
تیز ہوا بازوں کا چوکس دستہ چوکس اور ہشیار
دشمن کے کتنے طیارے پل میں کیے برباد
سرگودھا کے جانبازوں کو وقت رکھے گا یاد
زندہ دلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر ''
( اس ترانے کو عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں نے لاہور ریڈیو پر ریکارڈ کروایا )
جنگِ ستمبر میں شاعروں نے وطن اور افواجِ پاکستان کے لیے نئی نئی تراکیب ' تمثیلات اور استعارات استعمال کیے جو اُس سے قبل اردو زبان میں نہ تھے ۔ معروف شاعر حمایت علی شاعر کی نظم ''لہو '' جوشِ خطابت کا ایسا نمونہ ہے جس میں انھوں نے پہلی بار بہتے ہوئے خون کو پرچم بنانے کا عزم کیا اس کے علاوہ وہ وطن کے ہر ذرے کی شادابی اور ہر اہلِ وطن کے چہرے پر مسکراہٹ کو سرحد پہ بہتے ہوئے خون کا ہی نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں :
'' ہم اس لہو کا علَم بنالیں ' سنان و سیف و قلم بنالیں
وطن کو دے کے مقام ِ کعبہ اسی کو احرام ہم بنالیں
یہ خاک ماتھے پہ مل کے نکلیں اسے نشان ِ حشم بنالیں
جو نقش اس نے بنادیا ہے اسی کو نقشِ قدم بنالیں
برس پڑیں دشمنوں کے سر پر ' وطن کو تیغِ دو دم بنالیں
ہم اس لہو کا علم بنالیں …!!
یہ خون سرمایہ ٔ وطن ہے ' یہ خون رنگِ رخِ چمن ہے
یہ خون دلہن کا خواب ِ رنگیں ' یہ خون بچوں کا بھولپن ہے
یہ خون ہر ماں کے سر کی چادر ' یہ خون ہر باپ کا بدن ہے
یہ خون دہقان کا پسینہ ' یہ خون ہر کھیت کی پھبن ہے
یہ خون سرمایہ ٔ وطن ہے ''
( یہ نغمہ ریڈیو پاکستان کراچی پر تاج ملتانی اور بعد ازاں حبیب ولی محمد نے ریکارڈ کروایا )
ممتاز خطیب و صحافی مولانا شورش کاشمیری بھی جوش ِ وطن کے ساتھ قلم کا محاذ سنبھالتے ہیں تو اپنا سب کچھ وطن کے نام کرتے ہوئے کہتے ہیں:
'' میں تو کیا میرا سارا مال و منال … میرا گھر بار میرے اہل و اعیال
میرے ان ولولوں کاا جاہ و جلال … میری عمر ِ رواں کے ماہ و سال
میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے
میری عزت کا پاسباں ہے وطن … میری غیرت کا ترجماں ہے وطن
میرے اسلاف کا نشاں ہے وطن … دوستو! ان دنوں جواں ہے وطن
میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے ''
( یہ ترانہ دلشاد بیگم' منیر حسین اور ساتھیوں نے لاہور ریڈیو پر پیش کیا تھا )
جنگِ ستمبر میں ہر محاذ ِ جنگ پر مشرقی پاکستان کے دلیر جوان و افسران بھی بے جگری سے لڑ رہے تھے ۔ میجر (بعد ازاں بنگلہ دیش کے جنرل) ضیاء الرحمن نے سیالکوٹ کے میدان میں داد ِ شجاعت دیتے ہوئے ''ہلالِ جرأت'' بھی اپنے نام کیا تھا جبکہ لاہور کی سرحد پر مشرقی پاکستان کے غازیوں نے اپنے خون سے بہادری کی تاریخ لکھ دی تھی اسی لیے شورش کاشمیری ان غازیوں کو سلام ِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
''میں نے دیکھا ہے انھیں مانندِ تیغِ بے نیام
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام
ان کی آوازوں میں شہنائی نہیں تکبیر ہے
ان کے تابڑ توڑ حملوں کا صلہ کشمیر ہے
کوئی بھی بنا سکتا نہیں ان کو کبھی اپنا غلام
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام ''
( اس نغمے کو سلیم رضا' شاہ جہاں بیگم اور ساتھیوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر گایا )
شورش کا تحریر کردہ یہ ترانہ اتنا مقبول ہوا کہ بعد ازاں اسے بنگال رجمنٹ کا سرکاری ترانہ بھی قرار دیا گیا ۔
شاعرِ مزدور احسان دانش کا تحریر کردہ نغمہ '' مجاہدینِ صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو '' جنگِ ستمبر کا پہلا نغمہ تھا جو سب سے پہلے نصابی کتب کا حصہ بھی بنا ۔ اس ترانے میں احسان دانش کا جوش اس قدر بلندی پر نظر آتا ہے کہ وہ سبز پرچم کا چاند ستارہ فلک پر کچھ اس طرح دیکھتے ہیں :
'' قدم اٹھاؤ اس طرح زمیں کا دل دہل اٹھے
وہ فقرہ ٔ ہائے گرم ہو کہ رنگ ِ چرخ جل اٹھے
بنازشِ کمال ِ فن بڑھے چلو بڑھے چلو
جبل جبل دمن دمن بڑھے چلو بڑھے چلو
جو راہ میں پہاڑ ہوں تو بے دریغ اکھاڑ دو
اٹھاؤ اس طرح نشاں ' فلک کے دل میں گاڑ دو
وہ دار یا کہ ہو رسن ' بڑھے چلو بڑھے چلو
مجاہدین صف شکن بڑھے چلو ' بڑھے چلو ''
( یہ نغمہ افتخار نظامی اور ساتھیوں نے ریڈیو پاکستان کراچی پر جنگ کے آغاز میں ہی ریکارڈ کروایا تھا )
ملکہ ٔ ترنم نورجہاں کی فرمائش پر احسان دانش نے اُن کے لیے بھی ایک ترانہ تحریر کیا جس میں اپنے مجاہدوں کو جہاں آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہے ہیں وہاں وہ توپوں کے دہانے سے نکلتی آگ کو ''منزل کی روشنی '' بھی قرار دیتے ہوئے اس طرح اشعار کہتے ہیں :
'' یہ دور آگ نہیں روشنی ہے منزل کی
قدم ملا کے بڑھواور قدم بڑھائے چلو
مسافروں میں مسافت کا ذکر کیا معنی
فضاء پکار رہی ہے قدم بڑھائے چلو
بلند کرکے چلو اپنے دیس کا پرچم
یہ عظمتوں کا نشاں ہے نشاں اٹھائے چلو
امید ِ فتح رکھو اور عَلَم اٹھائے چلو ''
جنگِ ستمبر کے شعری ادب کا ذکر ہو اور صوفی غلام مصطفی تبسم کا ذکر نہ ہو تو موضوع ادھورا رہ جاتا ہے کیونکہ صوفی صاحب نے جنگ کے دوران ملکہ ٔ ترنم نورجہاں کو یادگار پنجابی ملی ترانے لکھ کر دیے جو آج بھی زبان زد ِ عام ہیں ۔میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں ' کرنیل نی جرنیل نی اور ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے جیسے نغمات تاریخ سے کبھی بھی فراموش نہیں ہوں گے ۔ انھوں نے ملکہ ٔ ترنم نورجہاں کو ایک اردو ترانہ بھی لکھ کر دیا جو تینوں مسلح افواج کی شان کچھ اس طرح بیان کرتا ہے :
'' یہ ہواؤں کے مسافر ' یہ سمندروں کے راہی
میرے سربکف مجاہد میرے صف شکن سپاہی
یہ تیرا یقین ِ محکم تیری ہمتوں کی جاں ہے
تیرے بازوؤں کی قوت ترے عزم کا نشاں ہے
تو ہی راہ تو ہی منزل تو ہی میرِ کارواں ہے
یہ زمیں تری زمیں ہے ' یہ جہاں ترا جہاں ہے
تیرے پاؤں میں ہے قوت تیرے ہاتھ میں ہے شاہی
یہ ہواؤں کے مسافر ' یہ سمندروں کے راہی ''
صوفی غلام مصطفی تبسم کا تحریر کردہ ایک ترانہ شہنشاہِ غزل مہدی حسن صاحب نے کراچی ریڈیو سے بھی پیش کیا جس میں صوفی صاحب بھارت کی طرف سے مسلط کردہ جنگ پر دنیا کو پہلے ہی باورکرا رہے ہیں کہ اس جنگ میں یقینی جیت ہماری ہی ہوگی ۔ مہدی حسن کی ساز و آواز میں وہ کہتے ہیں :
''ہم پرچم ِ آزادی لہراتے ہوئے آئے
طوفان کی لہروں کو شرماتے ہوئے آئے
وہ دیکھ کہ دشمن پر اب خوف سا طاری ہے
سن لے یہ جہاں والے اب جیت ہماری ہے ''
جنگ ِ ستمبر نے جہاں ہمارا تخلیقی قومی ادب وضع کیا وہاں اُن شعراء کو بھی قومی صف میں لاکھڑا کیا جن کی مضطرب سوچ سے وطن کے نام بے باک اور پرجوش ترانوں کا سوال ہی مشکل لگتا تھا مگر جب جون ایلیا جیسے شاعر '' ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کرتے ہیں '' جیسا نغمہ لکھتے ہیں تو ہر نقاد بھی حیران ہوجاتا ہے ۔ جون جو چھوٹی بحروں میں ندامت اور بے کیفی کے شاعر مانے جاتے ہیں اپنے اس نغمے میں غازیوں کو اس طرح سلام پیش کرتے ہیں :
'' جو دشمنوں کو دبائے ہوئے ہیں اُن کو سلام
جو اُن کے خوں میں نہائے ہوئے ہیں ان کو سلام
جو کم ہیں پھر بھی جو چھائے ہوئے ہیں اُن کو سلام
ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کرتے ہیں ''
( یہ نغمہ تاج ملتانی ' زوار حسین ' ایس بی جون' خورشید بیگم اور ساتھیوں کی ا وازوں میں تیار کیا گیا )
پھر وہ ساکنان ِ لاہور کو بھی خوب نذرانہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
'' لاہور سربلند ہے لاہور زندہ باد …لاہور تو ہے شہر ِ درخشندہ زندہ باد
لاہور تو وطن کا نشان ِ جلال ہے …ارضِ سیالکوٹ ہی تیری مثال ہے
تجھ پر کوئی نگاہ اٹھے کیا مجال ہے … یہ تیرا دبدبہ یہ ترا طور زندہ باد ''
( اس نغمے کو احمد رشدی اور ساتھیوں نے ریڈیو پاکستان کراچی پر ریکارڈ کروایا تھا )
جون کے بڑے بھائی رئیس امروہوی کا نام بھی جنگی ترانوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں جنھوں نے ریڈیو پاکستان کے لیے ٹیلی فون پر ہی ''خطہ ٔ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام '' جیسا نغمہ لکھوادیا تھا ۔ رئیس امروہوی نے دوران ِ جنگ شہنشاہ ِ غزل مہدی حسن خاں کے لیے '' اللہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقیں ہے جیسا نغمہ بھی تحریر کیا تھا جس میں قرآنی تلمیحات بھی موجود ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :
'' مسلم کی ہر اک جنگ میں ہے امن کا عنواں
اک ہاتھ میں تلوار ہے اک ہاتھ میں قرآں
اس لشکرَ جرار کی کیا شان ہے کیا شاں
بڑھتے ہوئے غازی ہیں کہ چڑھتا ہوا طوفاں
جزو فتح کوئی منزل ِ مقصود نہیں ہے
اب فتحِ مبیں ' فتح ِ مبیں ' فتحِ مبیں ہے ''
سیالکوٹ کے لیے تحریر کردہ ترانے میں وہ جنگ کا منظر نامہ اس طرح پیش کر رہے ہیں :
'' وہ بڑھ رہی ہے جوانانِ صف شکن کی سپاہ … فرار جنگ سے دشمن ہوا بحال ِ تباہ
چلے چلو کہ ہے تائید ِ ایزدی ہمرا ہ … بحق ِ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ الاَّاللّٰہْ
نشان ِ فتح ِ مبیں شان ِ کردگار کو دیکھ … سیالکوٹ کے میدان ِ کارزار کو دیکھ ''
( یہ نغمہ مہدی حسن خاں اور ساتھیوں نے ٹرانسکرپشن سروس ریڈیو پاکستان کراچی پر ریکارڈ کروایا تھا )
پاکستان میں اردو کی پہلی خاتون صاحب ِ دیوان شاعرہ ادا جعفری بھی قلم کو بطور ہتھیار بناتی ہیں تو خاک ِ وطن سے اس طرح مخاطب ہوتی ہیں:
'' کہاں کہاں سے تمنا کے قافلے گزرے …وفا کی راہ میں کیا کیا نہ مرحلے آئے
یہیں پہ خون ِ شہیدان سے لالہ زار کھلے … یہیں پہ اہلِ شجاعت گلے بقاء سے ملے
یہ خاک ِ پائے مجاہد ہے اس کا احترام کرو … لگاؤ آنکھ سے اس خاک کو ' سلام کرو ''
( یہ پرفکر ملی نغمہ ایس بی جون اور ساتھیوں نے ریڈیو پاکستان کراچی پر ریکارڈ کروایا تھا )
جنگ ِ ستمبر اور قومی و ملّی شاعری پر اب تک بے شمار مضامین اور مقالے لکھے جاچکے ہیں جو دراصل اس بات کا اظہار ہیں کہ یہ جنگ صرف ایک جنگ نہ تھی بلکہ ہماری ملّی حیات کا ایسا سرمایہ ہے جس پر جب جب لکھا جائے گا ہمارے قومی شعور کا ایک نیا دریچہ کھلتا جائے گابقول احمد ندیم قاسمی :
'' یہ ہے گلستاں آنے والی نسلوں کی امیدوں کا
اس کا ہر اک پھول ہمیں پیغام ہزار نویدوں کا
اس کی بنیادوں میں لہو ہے ' ایک صدی کے شہیدوں کا
( یہ نغمہ سلیم رضا ' نذیر بیگم اور ساتھیوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ریکارڈ کروایا تھا )
افکار کے خزانے ، جنگِ ستمبر کے ملی ترانے
مضمون نگارمختلف قومی و ملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ملی نغموں کے حوالے سے حال ہی میں ان کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔
[email protected]
تبصرے