اردو(Urdu) English(English) عربي(Arabic) پښتو(Pashto) سنڌي(Sindhi) বাংলা(Bengali) Türkçe(Turkish) Русский(Russian) हिन्दी(Hindi) 中国人(Chinese) Deutsch(German)
2025 22:40
مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ بھارت کی سپریم کورٹ کا غیر منصفانہ فیصلہ خالصتان تحریک! دہشت گرد بھارت کے خاتمے کا آغاز سلام شہداء دفاع پاکستان اور کشمیری عوام نیا سال،نئی امیدیں، نیا عزم عزم پاکستان پانی کا تحفظ اور انتظام۔۔۔ مستقبل کے آبی وسائل اک حسیں خواب کثرت آبادی ایک معاشرتی مسئلہ عسکری ترانہ ہاں !ہم گواہی دیتے ہیں بیدار ہو اے مسلم وہ جو وفا کا حق نبھا گیا ہوئے جو وطن پہ نثار گلگت بلتستان اور سیاحت قائد اعظم اور نوجوان نوجوان : اقبال کے شاہین فریاد فلسطین افکارِ اقبال میں آج کی نوجوان نسل کے لیے پیغام بحالی ٔ معیشت اور نوجوان مجھے آنچل بدلنا تھا پاکستان نیوی کا سنہرا باب-آپریشن دوارکا(1965) وردی ہفتۂ مسلح افواج۔ جنوری1977 نگران وزیر اعظم کی ڈیرہ اسماعیل خان سی ایم ایچ میں بم دھماکے کے زخمی فوجیوں کی عیادت چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورۂ اُردن جنرل ساحر شمشاد کو میڈل آرڈر آف دی سٹار آف اردن سے نواز دیا گیا کھاریاں گیریژن میں تقریبِ تقسیمِ انعامات ساتویں چیف آف دی نیول سٹاف اوپن شوٹنگ چیمپئن شپ کا انعقاد یَومِ یکجہتی ٔکشمیر بھارتی انتخابات اور مسلم ووٹر پاکستان پر موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات پاکستان سے غیرقانونی مہاجرین کی واپسی کا فیصلہ اور اس کا پس منظر پاکستان کی ترقی کا سفر اور افواجِ پاکستان جدوجہدِآزادیٔ فلسطین گنگا چوٹی  شمالی علاقہ جات میں سیاحت کے مواقع اور مقامات  عالمی دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ پاکستانی شہریوں کے قتل میں براہ راست ملوث بھارتی نیٹ ورک بے نقاب عز م و ہمت کی لا زوال داستا ن قائد اعظم  اور کشمیر  کائنات ۔۔۔۔ کشمیری تہذیب کا قتل ماں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اور بھارتی سپریم کورٹ کی توثیق  مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ۔۔ایک وحشیانہ اقدام ثقافت ہماری پہچان (لوک ورثہ) ہوئے جو وطن پہ قرباں وطن میرا پہلا اور آخری عشق ہے آرمی میڈیکل کالج راولپنڈی میں کانووکیشن کا انعقاد  اسسٹنٹ وزیر دفاع سعودی عرب کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  پُرعزم پاکستان سوشل میڈیا اور پرو پیگنڈا وار فئیر عسکری سفارت کاری کی اہمیت پاک صاف پاکستان ہمارا ماحول اور معیشت کی کنجی زراعت: فوری توجہ طلب شعبہ صاف پانی کا بحران،عوامی آگہی اور حکومتی اقدامات الیکٹرانک کچرا۔۔۔ ایک بڑھتا خطرہ  بڑھتی آبادی کے چیلنجز ریاست پاکستان کا تصور ، قائد اور اقبال کے افکار کی روشنی میں قیام پاکستان سے استحکام ِ پاکستان تک قومی یکجہتی ۔ مضبوط پاکستان کی ضمانت نوجوان پاکستان کامستقبل  تحریکِ پاکستان کے سرکردہ رہنما مولانا ظفر علی خان کی خدمات  شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن ہو بہتی جن کے لہو میں وفا عزم و ہمت کا استعارہ جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا ہے جذبہ جنوں تو ہمت نہ ہار کرگئے جو نام روشن قوم کا رمضان کے شام و سحر کی نورانیت اللہ جلَّ جَلالَہُ والد کا مقام  امریکہ میں پاکستا نی کیڈٹس کی ستائش1949 نگران وزیراعظم پاکستان، وزیراعظم آزاد جموں و کشمیر اور  چیف آف آرمی سٹاف کا دورۂ مظفرآباد چین کے نائب وزیر خارجہ کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے ملاقات  ساتویں پاکستان آرمی ٹیم سپرٹ مشق 2024کی کھاریاں گیریژن میں شاندار اختتامی تقریب  پاک بحریہ کی میری ٹائم ایکسرسائز سی اسپارک 2024 ترک مسلح افواج کے جنرل سٹاف کے ڈپٹی چیف کا ایئر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں ''اقبالیات'' پر لیکچر کا انعقاد صوبہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں مقامی آبادی کے لئے فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد  بلوچستان کے ضلع خاران میں معذور اور خصوصی بچوں کے لیے سپیشل چلڈرن سکول کاقیام سی ایم ایچ پشاور میں ڈیجٹلائیز سمارٹ سسٹم کا آغاز شمالی وزیرستان ، میران شاہ میں یوتھ کنونشن 2024 کا انعقاد کما نڈر پشاور کورکا ضلع شمالی و زیر ستان کا دورہ دو روزہ ایلم ونٹر فیسٹول اختتام پذیر بارودی سرنگوں سے متاثرین کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد کمانڈر کراچی کور کاپنوں عاقل ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کوٹری فیلڈ فائرنگ رینج میں پری انڈکشن فزیکل ٹریننگ مقابلوں اور مشقوں کا انعقاد  چھور چھائونی میں کراچی کور انٹرڈویژ نل ایتھلیٹک چیمپئن شپ 2024  قائد ریزیڈنسی زیارت میں پروقار تقریب کا انعقاد   روڈ سیفٹی آگہی ہفتہ اورروڈ سیفٹی ورکشاپ  پی این فری میڈیکل کیمپس پاک فوج اور رائل سعودی لینڈ فورسز کی مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینجز میں مشترکہ فوجی مشقیں طلباء و طالبات کا ایک دن فوج کے ساتھ پُر دم ہے اگر تو، تو نہیں خطرۂ افتاد بھارت میں اقلیتوں پر ظلم: ایک جمہوری ملک کا گرتا ہوا پردہ ریاستِ پاکستان اورجدوجہد ِکشمیر 2025 ۔پاکستان کو درپیش چیلنجز اور کائونٹر اسٹریٹجی  پیام صبح   دہشت گردی سے نمٹنے میں افواجِ پاکستان کا کردار شہید ہرنائی سی پیک 2025۔امکانات وتوقعات ذہن سازی ایک پیچیدہ اور خطرناک عمل کلائمیٹ چینج اور درپیش چیلنجز بلوچستان میں ترقی اور خوشحالی کے منصوبے ففتھ جنریشن وار سوچ بدلو - مثبت سوچ کی طاقت بلوچستان میں سی پیک منصوبے پانی کی انسانی صحت اورماحولیاتی استحکام کے لیے اہمیت پاکستان میں نوجوانوں میں امراض قلب میں اضافہ کیوں داستان شہادت مرے وطن کا اے جانثارو کوہ پیمائوں کا مسکن ۔ نانگا پربت کی آغوش ا یف سی بلوچستان (سائوتھ)کی خدمات کا سفر جاری شہریوں کی ذمہ داریاں  اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ''کشور ناہید''۔۔ حقوقِ نسواں کی ایک توانا آواز نہ ستائش کی تمنا نہ صِلے کی پروا بسلسلہ بانگ درا کے سو سال  بانگ درا کا ظریفانہ سپہ گری میں سوا دو صدیوں کا سفر ورغلائے ہوئے ایک نوجوان کی کہانی پاکستانی پرچم دنیا بھر میں بلند کرنے والے جشنِ افواج پاکستان- 1960 چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا جمہوریہ عراق کا سرکاری دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کا اورماڑہ کے فارورڈ نیول آپریشنل بیس کا دورہ  چیف آف آرمی سٹاف، جنرل سید عاصم منیر کی نارووال اور سیالکوٹ کے قریب فیلڈ ٹریننگ مشق میں حصہ لینے والے فوجیوں سے ملاقات چیف آف آرمی سٹاف کاوانا ، جنوبی وزیرستان کادورہ 26ویں نیشنل سکیورٹی ورکشاپ کے شرکاء کا نیول ہیڈ کوارٹرز  کا دورہ نیشنل سکیورٹی اینڈ وار کورس کے وفد کا دورہ نیول ہیڈ کوارٹرز جمہوریہ آذربائیجان کے نائب وزیر دفاع کی سربراہ پاک فضائیہ سے ملاقات  گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج کی طالبات اور اساتذہ کا ہیڈکوارٹرز ایف سی بلوچستان (ساؤتھ) کا دورہ کمانڈر کراچی کور کا صالح پٹ میں تربیتی مشقوں اور پنوں عاقل چھائونی کا دورہ کمانڈر پشاور کورکی کرنل شیر خان کیڈٹ کالج صوابی کی فیکلٹی  اور کیڈٹس کے ساتھ نشست مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کا پاک فوج کے ساتھ یادگار دن ملٹری کالج جہلم میں یوم ِ والدین کی تقریب کی روداد 52ویں نیشنل ایتھلیٹکس چیمپئن شپ 2024 کا شاندار انعقاد    اوکاڑہ گیریژن میں البرق پنجاب ہاکی لیگ کا کامیاب انعقاد ملٹری کالج جہلم میں علامہ اقبال کے حوالے سے تقریب کا انعقاد حق خودرادیت ۔۔۔کشمیریوں کا بنیادی حق استصوابِ رائے۔۔مسئلہ کشمیر کا حتمی حل انتخابات کے بعد کشمیرکی موجودہ صورتحال سالِ رفتہ، جموں وکشمیر میں کیا بدلا یکجاں ہیں کشمیر بنے گا پاکستان آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ ایک شاندار فضائی حربی معرکہ حسینہ واجد کی اقتدار سے رُخصتی کے بعد پاکستان اور بنگلہ دیش میں دوطرفہ تعلقات کے نئے دور کا آغاز شائننگ انڈیا یا  ہندوتوا دہشت گرد خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل امیدوں، چیلنجز اور کامیابیوں کے نئے دور کا آغاز کلام اقبال مدارس رجسٹریشن۔۔۔حقائق کے تناظر میں اُڑان پاکستان پاکستان میں اردو زبان کی ترویج وترقی امن کی اہمیت مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے میری وفا کا تقاضا کہ جاں نثارکروں ہرلحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن بڑھتی ہوئی آبادی، درپیش مسائل اور ان کا حل تھیلیسیمیا سے بچا ئوکیسے ممکن ہے ماحولیاتی آلودگی ایک بڑا چیلنج سانحہ مشرقی پاکستان مفروضے اور حقائق - ہلال پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع کردہ ایک موثر سعی لا حاصل کا قانون یہ زمانہ کیا ہے ترے سمند کی گرد ہے مولانا رومی کے افکار و خیالات کشمیر جنت شہید کی آخری پاکستان کا مستقل آئین۔1973 بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا کویت کا سرکاری دورہ بنگلہ دیش کی مسلح افواج کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی چیف آف آرمی سٹاف سے ملاقات سربراہ پاک بحریہ ایڈمرل نوید اشرف سے بنگلہ دیش کے پرنسپل اسٹاف آفیسر کی ملاقات بنگلہ دیش کے پرنسپل سٹاف آفیسر کی قیادت میں اعلیٰ سطحی دفاعی وفد کا ائیر ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد کا دورہ البرق ڈیژن اوکاڑہ کی طرف سے مسیحی برادری کے لیے فری میڈیکل کیمپ کا انعقاد سیلرز پاسنگ آؤٹ پریڈ پاک بحریہ فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد کمانڈر سدرن کمانڈ و ملتان کور کی بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ خصوصی نشست نمل یونیورسٹی ملتان کیمپس اور یونیورسٹی آف لیہّ کے طلبہ و طا لبات اوراساتذہ کا مظفر گڑھ فیلڈ فائرنگ رینج کا دورہ اوکاڑہ گیریژن میں تقریبِ بزمِ اقبال کاانعقاد ملٹری کالج سوئی میں سالانہ یوم ِوالدین کی تقریب آل پاکستان ایف جی ای آئی ایکسیلنس ایوارڈ کی تقریب 2024ء اوکاڑہ گیریثر ن، النور اسپیشل چلڈرن سکول کے بچوں کے لیے یومِ پاکستان، عزم ِنو کا پیغام 40 ء کا پیمان، 47ء کا جذبہ 2025 کا وَلوَلہ حال و مقام قراردادِ پاکستان سے قیام ِپاکستان تک مینارِ پاکستان: فنِ تعمیر کا اعلیٰ نمونہ قبائلی علاقوں کی تعمیر نو میں پاک فوج کا کردار ڈیجیٹل حدبندی: انفرادی ذمہ داری سے قومی سا لمیت تک امن کے لیے متحد پاکستان نیوی کی کثیر الملکی مشق اور امن ڈائیلاگ ماہ رمضان اور محافظین پاکستان  نعت شریف سرمایۂ وطن لیفٹیننٹ ارسلان عالم ستی شہید (ستارہ بسالت) شمالی وزیرستان ۔پاک دھرتی کے چنداور سپوت امر ہوئے اے شہیدو تم وفاکی کائنات ہو سرحد کے پاسبان زیرو ویسٹ مینجمنٹ، وقت کی ایک ضرورت پاکستان کے سر کا تاج گلگت  بلتستان ماضی و مستقبل حجاب است ۔ پریشان اور غمگین ہونا چھوڑیے بلوچستان کے ماتھے کا جھو مر زیارت  مایہ ناز انٹرنیشنل ایتھلیٹ نیوٹن اور سائنس رومی اور اقبال کی فلسفیانہ بحث رشتوں کی اہمیت یومِ یکجہتی کشمیر اہل پاکستان کا فقید المثال دن قرار دادِ پاکستان چیف آف نیول سٹاف بنگلہ دیش کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ملاقات  ریاستی سیکرٹری اور نائب وزیر دفاع ہنگری، کی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی سے ملاقات  چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا دورہ سعودی عرب   چیف آف آرمی سٹاف کا دورۂ مظفرآباد  بنگلہ دیش کے چیف آف دی نیول سٹاف کی آرمی چیف سے ملاقات  چیف آف آرمی اسٹاف کا نوجوان طلبا کے ایک اجتماع سے خطاب چیف آف آرمی سٹاف کادورۂ بلوچستان  نویں کثیر الملکی
Advertisements

ہلال اردو

افکار کے خزانے

ستمبر 2024

  جنگِ ستمبر 1965ء کا ذکر ذہن میں آتے ہی جہاں افواجِ پاکستان کے زریں کارنامے ذہن میں آتے ہیں وہاں فورا ان کارناموں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ملّی ترانوں کا احساس بھی ابھرتا ہے ۔ جنگ ِ ستمبر اور ہماری ملّی شاعری گویا لازم و ملزوم ہوچکے ہیں اسی لیے یہ مفروضہ بھی عام ہوچکا ہے کہ اس جنگ کی فتح میں ملّی ترانوں نے کلیدی کردار ادا کیا ۔ اب یہ مفروضہ تو تحقیق طلب ہوسکتا ہے جس پر صاحبِ مضمون کو اختلاف ہے تاہم اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان ہی ملّی ترانوں نے جنگ کے دوران جہاں اپنے وطن اور مجاہدوں کے لیے نت نئے خیالات کے ساتھ جذبات عیاں کیے وہاں سلہٹ تا کراچی پوری قوم کو ایک قوم کی صورت متحد رکھا جس کا اظہار اُس دور کے بعد پھر کبھی دیکھنے میں نہ آسکا ۔ جس پر قتیل شفائی مرحوم اپنے ترانے میں یوں منظر کشی کرتے ہیں :



'' علی  کی تیغ کے جوہر سے قلم لے کر 
 دل ِ شبیر کے شوقِ شہادت سے علَم لے کر 
ابھارے حریت کے ولولے ملّی ترانوں نے 
 وطن کی آبرو رکھ لی وطن کے پاسبانوں نے ''
( اس نغمے کو ریڈیو پاکستان کراچی پر شہنشاہِ غزل مہدی حسن خاں نے ریکارڈ کروایا تھا )
جنگ سے قبل ہماری ملّی شاعری کا مرکز و محور وطن کے نظارے ' سلامتی کی دعائیں ' پرچم سے عقیدت یا پھر بانیانِ پاکستان اور بالخصوص قائدِ اعظم محمد علی جناح کی مدح سرائی ہی تھی لیکن جیسے مئی 1965ء میں رن آف کچھ کی جنگ شروع ہوئی اور اُس میں پاکستان کو فتح نصیب ہوئی تو حکومت ِ پاکستان کی جانب سے کوشش کی گئی کہ ملّی ترانوں کے مزاج میں مجاہدانہ رنگ بھی شامل کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی ترتیب دی گئی جس کے نگراں جمیل الدین عالی تھے ۔ اسی منصوبے کے تحت انھوں نے اپنا مقبول ملّی نغمہ '' اے وطن کے سجیلے جوانو! میرے نغمے تمھارے لیے ہیں '' تحریر کیا تھا جبکہ قتیل شفائی نے '' اے میرے وطن کے پاسبان زندہ باد '' جیسا نغمہ لکھا مگر درحقیقت اُس وقت بھارت کی جانب سے جنگ کی ایسی فضاء قائم ہوچکی تھی کہ قوم کے سخن وَر اب رزمیہ شاعری کی جانب بھی متوجہ ہونے لگے تھے ۔ اتفاق سے جب  مذکورہ ترانے تیار ہوئے تو جنگ کا آغاز ہوچکا تھا اسی لیے ان کا شمار بھی بلا جھجھک جنگِ ستمبر کے ہی ترانوں میں کیا جاتا ہے ۔ 
چھ ستمبر 1965ء کو جیسے ہی طبل ِ جنگ بجا تو علی الصبح ناصر کاظمی لاہور ریڈیو سٹیشن پہنچ چکے تھے جہاں انھوں نے افواجِ پاکستان کے لیے پہلا ترانہ '' ہمارے پاک وطن کی شان … ہمارے شیر دلیر جوان '' تحریر کیا ۔ یہ ترانہ ایک روایتی انداز کا ترانہ تھا جسے ناصر کاظمی نے اپنے مخصوص انداز یعنی چھوٹی بحر میں تحریر کیا جس میں وہ کہتے ہیں :
'' خدا کا سایہ ان کے ساتھ … خدا کا ہاتھ ہے ان کا ہاتھ 
  ہے ان کے دم سے پاکستان … ہمارے شیر دلیر جوان ''
(یہ نغمہ سلیم رضا اور ساتھیوں نے لاہور ریڈیو پر ریکارڈ کروایا تھا )
ناصر کاظمی نے جنگ کے دوران سب سے زیادہ ملّی ترانے لکھنے کا اعزاز بھی اپنے نام کیا ۔ وہ ہر روز ایک نیا ترانہ تخلیق کرتے جس میں افواجِ پاکستان کے ساتھ ساتھ وطن سے عقیدت کے جذبات بھی شامل ہوتے ۔ ناصر کاظمی چونکہ خود موسیقی کے رموز سے بھی آگاہ تھے اسی لیے انھوں نے تمام ترانے موسیقی کو مد نظر رکھ کر ہی تحریر کیے پھر وہ اپنی رومان پسند طبیعت کو ملّی ترانوں سے بھی ہم آہنگ کرتے ہوئے اپنے ایک نغمے میں کہتے ہیں :
'' تو ہے میری زندگی اے مِرے پیارے وطن 
تو ہے میری روشنی اے مِرے پیارے وطن 
پاک تیرے آبشار پاک ہیں ترے جبل 
پاک تیری کھیتیاں پاک تیرے پھول وپھل 
جلوۂ صبح ِ ازل ''
( یہ نغمہ ملکہ ٔ موسیقی روشن آراء بیگم نے ریکارڈ کروایا تھا )
اسی ترانے میں ناصر کاظمی نے ''عرش کے محراب '' کی ایک نئی ترکیب بھی اردو ادب میں استعمال کرتے ہوئے اشعار کہے :
''تیری فضاء پر کھلے چاند ستاروں کے راز
عرش کے محراب میں پڑھتے ہیں شاہیں نماز 
پاک دل و پاک باز ''
اس جنگ میں بھارت نے لاہور' سیالکوٹ اور سرگودھا کو باضابطہ نشانہ بنایا تھا اسی لیے شعرائے کرام نے ان شہروں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا اُن میں ناصر کاظمی بھی پیش پیش تھے ۔ ارضِ مولدِ اقبال سیالکوٹ کے نام اُن کا ترانہ '' سیالکوٹ تو زندہ رہے گا '' ہر خاص و عام کی زبان پر تھا بلکہ اب اس کا مصرع تو سیالکوٹ کے شہریوں کے لیے باعثِ فخر بن چکا ہے ۔ اس ترانے میں ناصر کاظمی شہرِ سیالکوٹ کو یوں سلام پیش کرتے ہیں :
'' تیری سرحد سرحد پر دشمن کا قبرستان بنا ہے 
تیری جانبازی کا سکہ دنیا نے اب مان لیا ہے 
پاک فوج ہے تیری محافظ ایک وار بس اور دکھا دے 
اٹھ اور نام علی کا 'لے کر دشمن کو مٹی میں ملادے 
زندہ رہے گا ' زندہ رہے گا سیالکوٹ تو زندہ رہے گا ''
( یہ نغمہ سلیم رضا اور ساتھیوں نے لاہور ریڈیو پر ریکارڈ کروایا تھا )
سرگودھا کے لیے بھی ناصر کا قلم رواں ہوتا ہے تو شاہینوں کے اس شہر کو '' زندہ دلوں کا گہوارہ'' کہلواجاتا ہے ۔ یہ اتنا مقبول ہوا کہ جنگ کے ایک عرصے بعد تک سرگودھا کے مشاعروں میں صرف یہی نغمہ پڑھنے کے لیے ناصر کاظمی کو دعوت دی جاتی کیونکہ اس میں رزمیہ جذبات کے ساتھ ساتھ انھوں نے سرگودھا کی فضاء کا عوامی منظر بھی خوب پیش کیا تھا :
'' سورج سے گھر ' چاند سی گلیاں ' جنت کی تصویر
بانے چھیل چھبیلے گبرو 'غیرت کی شمشیر 
سبک چال نخریلے گھوڑے ' کڑیل نیزہ باز
آنکھیں تیز کڑکتی بجلی ' تاروں کی ہم راز''
اس کے بعداسی ترانے میں ناصر کا قلم اپنے شاہینوں کو یوں خراجِ تحسین پیش کرتا ہے :
'' ہردم اس کے جٹ طیارے اڑنے کو تیار 
تیز ہوا بازوں کا چوکس دستہ چوکس اور ہشیار
دشمن کے کتنے طیارے پل میں کیے برباد
سرگودھا کے جانبازوں کو وقت رکھے گا یاد
زندہ دلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر ''
( اس ترانے کو عنایت حسین بھٹی اور ساتھیوں نے لاہور ریڈیو پر ریکارڈ کروایا )



جنگِ ستمبر میں شاعروں نے وطن اور افواجِ پاکستان کے لیے نئی نئی تراکیب ' تمثیلات اور استعارات استعمال کیے جو اُس سے قبل اردو زبان میں نہ تھے ۔ معروف شاعر حمایت علی شاعر کی نظم ''لہو '' جوشِ خطابت کا ایسا نمونہ ہے جس میں انھوں نے پہلی بار بہتے ہوئے خون کو پرچم بنانے کا عزم کیا اس کے علاوہ وہ وطن کے ہر ذرے کی شادابی اور ہر اہلِ وطن کے چہرے پر مسکراہٹ کو سرحد پہ بہتے ہوئے خون کا ہی نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں :
'' ہم اس لہو کا علَم بنالیں ' سنان و سیف و قلم بنالیں 
وطن کو دے کے مقام ِ کعبہ اسی کو احرام ہم بنالیں 
یہ خاک ماتھے پہ مل کے نکلیں اسے نشان ِ حشم بنالیں 
جو نقش اس نے بنادیا ہے اسی کو نقشِ قدم بنالیں 
برس پڑیں دشمنوں کے سر پر ' وطن کو تیغِ دو دم بنالیں 
ہم اس لہو کا علم بنالیں …!!
یہ خون سرمایہ ٔ وطن ہے ' یہ خون رنگِ رخِ چمن ہے
یہ خون دلہن کا خواب ِ رنگیں ' یہ خون بچوں کا بھولپن ہے 
یہ خون ہر ماں کے سر کی چادر ' یہ خون ہر باپ کا بدن ہے 
یہ خون دہقان کا پسینہ ' یہ خون ہر کھیت کی پھبن ہے 
یہ خون سرمایہ ٔ وطن ہے ''
( یہ نغمہ ریڈیو پاکستان کراچی پر تاج ملتانی اور بعد ازاں حبیب ولی محمد نے ریکارڈ کروایا )
ممتاز خطیب و صحافی مولانا شورش کاشمیری بھی جوش ِ وطن کے ساتھ قلم کا محاذ سنبھالتے ہیں تو اپنا سب کچھ وطن کے نام کرتے ہوئے کہتے ہیں:
'' میں تو کیا میرا سارا مال و منال … میرا گھر بار میرے اہل و اعیال
میرے ان ولولوں کاا جاہ و جلال … میری عمر ِ رواں کے ماہ و سال 
میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے 
میری عزت کا پاسباں ہے وطن … میری غیرت کا ترجماں ہے وطن
میرے اسلاف کا نشاں ہے وطن … دوستو! ان دنوں جواں ہے وطن 
میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے ''
( یہ ترانہ دلشاد بیگم' منیر حسین اور ساتھیوں نے لاہور ریڈیو پر پیش کیا تھا )
جنگِ ستمبر میں ہر محاذ ِ جنگ پر مشرقی پاکستان کے دلیر جوان و افسران بھی بے جگری سے لڑ رہے تھے ۔ میجر (بعد ازاں بنگلہ دیش کے جنرل) ضیاء الرحمن نے سیالکوٹ کے میدان میں داد ِ شجاعت دیتے ہوئے ''ہلالِ جرأت'' بھی اپنے نام کیا تھا جبکہ لاہور کی سرحد پر مشرقی پاکستان کے غازیوں نے اپنے خون سے بہادری کی تاریخ لکھ دی تھی اسی لیے شورش کاشمیری ان غازیوں کو سلام ِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
''میں نے دیکھا ہے انھیں مانندِ تیغِ بے نیام 
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام 
ان کی آوازوں میں شہنائی نہیں تکبیر ہے 
ان کے تابڑ توڑ حملوں کا صلہ کشمیر ہے 
کوئی بھی بنا سکتا نہیں ان کو کبھی اپنا غلام 
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام ''
( اس نغمے کو سلیم رضا' شاہ جہاں بیگم اور ساتھیوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر گایا )
شورش کا تحریر کردہ یہ ترانہ اتنا مقبول ہوا کہ بعد ازاں اسے بنگال رجمنٹ کا سرکاری ترانہ بھی قرار دیا گیا ۔
شاعرِ مزدور احسان دانش کا تحریر کردہ نغمہ '' مجاہدینِ صف شکن بڑھے چلو بڑھے چلو '' جنگِ ستمبر کا پہلا نغمہ تھا جو سب سے پہلے نصابی کتب کا حصہ بھی بنا ۔ اس ترانے میں احسان دانش کا جوش اس قدر بلندی پر نظر آتا ہے کہ وہ سبز پرچم کا چاند ستارہ فلک پر کچھ اس طرح دیکھتے ہیں :
'' قدم اٹھاؤ اس طرح زمیں کا دل دہل اٹھے 
وہ فقرہ ٔ ہائے گرم ہو کہ رنگ ِ چرخ جل اٹھے 
بنازشِ کمال ِ فن بڑھے چلو بڑھے چلو 
جبل جبل دمن دمن بڑھے چلو بڑھے چلو
جو راہ میں پہاڑ ہوں تو بے دریغ اکھاڑ دو 
اٹھاؤ اس طرح نشاں ' فلک کے دل میں گاڑ دو 
وہ دار یا کہ ہو رسن ' بڑھے چلو بڑھے چلو 
مجاہدین صف شکن بڑھے چلو ' بڑھے چلو ''
( یہ نغمہ افتخار نظامی اور ساتھیوں نے ریڈیو پاکستان کراچی پر جنگ کے آغاز میں ہی ریکارڈ کروایا تھا )
ملکہ ٔ ترنم نورجہاں کی فرمائش پر احسان دانش نے اُن کے لیے بھی ایک ترانہ تحریر کیا جس میں اپنے مجاہدوں کو جہاں آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہے ہیں وہاں وہ توپوں کے دہانے سے نکلتی آگ کو ''منزل کی روشنی '' بھی قرار دیتے ہوئے اس طرح اشعار کہتے ہیں :
'' یہ دور آگ نہیں روشنی ہے منزل کی 
قدم ملا کے بڑھواور قدم بڑھائے چلو 
مسافروں میں مسافت کا ذکر کیا معنی 
فضاء پکار رہی ہے قدم بڑھائے چلو 
بلند کرکے چلو اپنے دیس کا پرچم 
یہ عظمتوں کا نشاں ہے نشاں اٹھائے چلو 
امید ِ فتح رکھو اور عَلَم اٹھائے چلو ''
جنگِ ستمبر کے شعری ادب کا ذکر ہو اور صوفی غلام مصطفی تبسم کا ذکر نہ ہو تو موضوع ادھورا رہ جاتا ہے کیونکہ صوفی صاحب نے جنگ کے دوران ملکہ ٔ ترنم نورجہاں کو یادگار پنجابی ملی ترانے لکھ کر دیے جو آج بھی زبان زد ِ عام ہیں ۔میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں ' کرنیل نی جرنیل نی  اور ایہہ پتر ہٹاں تے نئیں وکدے جیسے نغمات تاریخ سے کبھی بھی فراموش نہیں ہوں گے ۔ انھوں نے ملکہ ٔ ترنم نورجہاں کو ایک اردو ترانہ بھی لکھ کر دیا جو تینوں مسلح افواج کی شان کچھ اس طرح بیان کرتا ہے :
'' یہ ہواؤں کے مسافر ' یہ سمندروں کے راہی 
میرے سربکف مجاہد میرے صف شکن سپاہی 
یہ تیرا یقین ِ محکم تیری ہمتوں کی جاں ہے 
تیرے بازوؤں کی قوت ترے عزم کا نشاں ہے 
تو ہی راہ تو ہی منزل تو ہی میرِ کارواں ہے 
یہ زمیں تری زمیں ہے ' یہ جہاں ترا جہاں ہے 
تیرے پاؤں میں ہے قوت تیرے ہاتھ میں ہے شاہی 
یہ ہواؤں کے مسافر ' یہ سمندروں کے راہی ''
صوفی غلام مصطفی تبسم کا تحریر کردہ ایک ترانہ شہنشاہِ غزل مہدی حسن صاحب نے کراچی ریڈیو سے بھی پیش کیا جس میں صوفی صاحب بھارت کی طرف سے مسلط کردہ جنگ پر دنیا کو پہلے ہی باورکرا رہے ہیں کہ اس جنگ میں یقینی جیت ہماری ہی ہوگی ۔ مہدی حسن کی ساز و آواز میں وہ کہتے ہیں :
''ہم پرچم ِ آزادی لہراتے ہوئے آئے 
طوفان کی لہروں کو شرماتے ہوئے آئے
وہ دیکھ کہ دشمن پر اب خوف سا طاری ہے
سن لے یہ جہاں والے اب جیت ہماری ہے ''
جنگ ِ ستمبر نے جہاں ہمارا تخلیقی قومی ادب وضع کیا وہاں اُن شعراء کو بھی قومی صف میں لاکھڑا کیا جن کی مضطرب سوچ سے وطن کے نام بے باک اور پرجوش ترانوں کا سوال ہی مشکل لگتا تھا مگر جب جون ایلیا جیسے شاعر '' ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کرتے ہیں '' جیسا نغمہ لکھتے ہیں تو ہر نقاد بھی حیران ہوجاتا ہے ۔ جون جو چھوٹی بحروں میں ندامت اور بے کیفی کے شاعر مانے جاتے ہیں اپنے اس نغمے میں غازیوں کو اس طرح سلام پیش کرتے ہیں :
'' جو دشمنوں کو دبائے ہوئے ہیں اُن کو سلام 
جو اُن کے خوں میں نہائے ہوئے ہیں ان کو سلام
جو کم ہیں پھر بھی جو چھائے ہوئے ہیں اُن کو سلام 
ہم اپنے صف شکنوں کو سلام کرتے ہیں ''
( یہ نغمہ تاج ملتانی ' زوار حسین ' ایس بی جون' خورشید بیگم اور ساتھیوں کی ا وازوں میں تیار کیا گیا )
پھر وہ ساکنان ِ لاہور کو بھی خوب نذرانہ پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں :
'' لاہور سربلند ہے لاہور زندہ باد …لاہور تو ہے شہر ِ درخشندہ زندہ باد
لاہور تو وطن کا نشان ِ جلال ہے …ارضِ سیالکوٹ ہی تیری مثال ہے 
تجھ پر کوئی نگاہ اٹھے کیا مجال ہے … یہ تیرا دبدبہ یہ ترا طور زندہ باد ''
( اس نغمے کو احمد رشدی اور ساتھیوں نے ریڈیو پاکستان کراچی پر ریکارڈ کروایا تھا )
جون کے بڑے بھائی رئیس امروہوی کا نام بھی جنگی ترانوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں جنھوں نے ریڈیو پاکستان کے لیے ٹیلی فون پر ہی ''خطہ ٔ لاہور تیرے جانثاروں کو سلام '' جیسا نغمہ لکھوادیا تھا ۔ رئیس امروہوی نے دوران ِ جنگ شہنشاہ ِ غزل مہدی حسن خاں کے لیے '' اللہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقیں ہے جیسا نغمہ بھی تحریر کیا تھا جس میں قرآنی تلمیحات بھی موجود ہیں ۔ وہ کہتے ہیں :
'' مسلم کی ہر اک جنگ میں ہے امن کا عنواں 
اک ہاتھ میں تلوار ہے اک ہاتھ میں قرآں 
اس لشکرَ جرار کی کیا شان ہے کیا شاں 
بڑھتے ہوئے غازی ہیں کہ چڑھتا ہوا طوفاں 
جزو فتح کوئی منزل ِ مقصود نہیں ہے 
اب فتحِ مبیں ' فتح ِ مبیں ' فتحِ مبیں ہے ''
سیالکوٹ کے لیے تحریر کردہ ترانے میں وہ جنگ کا منظر نامہ اس طرح پیش کر رہے ہیں :
'' وہ بڑھ رہی ہے جوانانِ صف شکن کی سپاہ … فرار جنگ سے دشمن ہوا بحال ِ تباہ 
چلے چلو کہ ہے تائید ِ ایزدی ہمرا ہ … بحق ِ اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ الاَّاللّٰہْ 
نشان ِ فتح ِ مبیں شان ِ کردگار کو دیکھ … سیالکوٹ کے میدان ِ کارزار کو دیکھ ''
( یہ نغمہ مہدی حسن خاں اور ساتھیوں نے ٹرانسکرپشن سروس ریڈیو پاکستان کراچی پر ریکارڈ کروایا تھا )
پاکستان میں اردو کی پہلی خاتون صاحب ِ دیوان شاعرہ ادا جعفری بھی قلم کو بطور ہتھیار بناتی ہیں تو خاک ِ وطن سے اس طرح مخاطب ہوتی ہیں:
'' کہاں کہاں سے تمنا کے قافلے گزرے …وفا کی راہ میں کیا کیا نہ مرحلے آئے 
یہیں پہ خون ِ شہیدان سے لالہ زار کھلے … یہیں پہ اہلِ شجاعت گلے بقاء سے ملے 
یہ خاک ِ پائے مجاہد ہے اس کا احترام کرو … لگاؤ آنکھ سے اس خاک کو ' سلام کرو ''
( یہ پرفکر ملی نغمہ ایس بی جون اور ساتھیوں نے ریڈیو پاکستان کراچی پر ریکارڈ کروایا تھا )
جنگ ِ ستمبر اور قومی و ملّی شاعری پر اب تک بے شمار مضامین اور مقالے لکھے جاچکے ہیں جو دراصل اس بات کا اظہار ہیں کہ یہ جنگ صرف ایک جنگ نہ تھی بلکہ ہماری ملّی حیات کا ایسا سرمایہ ہے جس پر جب جب لکھا جائے گا ہمارے قومی شعور کا ایک نیا دریچہ کھلتا جائے گابقول احمد ندیم قاسمی :
'' یہ ہے گلستاں آنے والی نسلوں کی امیدوں کا 
اس کا ہر اک پھول ہمیں پیغام ہزار نویدوں کا 
اس کی بنیادوں میں لہو ہے ' ایک صدی کے شہیدوں کا 
( یہ نغمہ سلیم رضا ' نذیر بیگم اور ساتھیوں نے ریڈیو پاکستان لاہور پر ریکارڈ کروایا تھا )
افکار کے خزانے ، جنگِ ستمبر کے ملی ترانے


مضمون نگارمختلف قومی و ملی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ ملی نغموں کے حوالے سے حال ہی میں ان کی ایک کتاب بھی شائع ہوئی ہے۔
[email protected]