بریگیڈیئر امجد علی چودھری(ر) کے تاثرات پر مبنی امجد حسین امجد کا مضمون
لاہور میں مال روڈ سے گزرتے ہوئے ائیرپورٹ کی طرف جائیں تو آرمی میوزیم کے قریب روڈ پر بریگیڈیئر امجد علی چودھری لکھا نظر آتا ہے۔ عزت و اقبال کی حامل پاکستان کی آرٹلری رجمنٹ کے اس مایہ ناز آفیسرنے برٹش آرٹلری رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ اپنی شاندار سروس کے دوران انہوں نے مختلف کمانڈ،سٹاف اور تدریسی فرائض انجام دیئے اور اپنے ساتھیوں، جونیئرز اور سینئرز میں یکساں مقبول تھے۔جنرل محمد موسیٰ کمانڈر ان چیف نے اپنی کتاب " میرا مؤقف" میں اور میجر جنرل شوکت رضا نے اپنی کتاب "عزت و اقبال"میں بریگیڈیئر امجد علی چودھری کو اعلیٰ ترین الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ بریگیڈیئر امجد علی چودھری نے اپنی کتاب "ستمبر 65 سے پہلے اور بعد " میں 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بارے چشم دید حقائق بیان کیے ہیں۔ انڈین آرمی کی سرکاری تاریخ اور دوسری کئی کتابوں میں اس عظیم سپاہی کی جنگی حکمت عملی اور بہادری کے قصے موجود ہیں۔ انہوں نے پاکستان کو اپنی آنکھوں کے سامنے بنتا دیکھا تھا اور وہ اس کی حفاظت کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے تھے۔وہ جنرل اختر ملک، کرنل تجمل حسین، برگیڈئیر عبد العلی ملک ، کرنل نثار 25 کیولری اور کرنل عبدالرحمان 16 ایس پی رجمنٹ کے ہم عصر تھے۔ اور انہوں نے جنرل ایوب سے میدان جنگ میں اعزاز وصول کیا تھا۔وہ عظیم قد کاٹھ اور مؤ ثر شخصیت کے مالک تھے۔وہ ایک عظیم لکھاری بھی تھے ۔انہوں نے 1984 میں سکول آف آرٹلری کے میگزین "زمزمہ" میں " چونڈہ کی جنگ میں توپخانے کا کردار " کے موضوع پر ایک عمدہ مضمون بھی لکھا تھا۔ محمد اسلم لودھی نے اپنی کتاب افواج پاکستان میں بریگیڈیئر امجد علی چودھری کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
بریگیڈیئر امجد علی چوہدری ہلال جرأت(9جنوری 1917 پونچھ 5 دسمبر 1990 لاہور)ایک پیشہ ورپاکستانی آرمی افسر تھے جنہوں نے 1965 کی پاک بھارت جنگ میں حصہ لیا تھا۔ انہیں چونڈہ کی جنگ کے دوران ان کی خدمات کے لیے اعزاز سے نوازا گیا تھا۔
وہ کشمیر میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد، شیر علی خان اپنے خاندان کے ساتھ دورے پر تھے۔ اپنی تعلیمی کامیابیوں کی وجہ سے، وہ اپنے پورے سکول اور کالج کیرئیر میں سکالرشپ ہولڈر رہے۔ چوہدری امجد نے گورنمنٹ کالج لاہور (اب گورنمنٹ کالج یونیورسٹی)سے انگریزی میں بی اے (آنرز)کیا۔
انہوں نے 1942 میں اس وقت کی برٹش انڈین آرمی میں 25 مائونٹین رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا تھا۔
برگیڈئیر امجد علی چودھری نے 1965 کی جنگ سے قبل کشمیر آپریشنز میں 4 کور آرٹلری کی کمانڈ کی۔ جب جنگ شروع ہوئی توان کی یونٹ نے چھمب کی جنگ اور کشمیر پر پاکستان کے زور کے دوران جوڑیاں کی جنگ میں حصہ لیا۔ اس یونٹ نے پاکستان میں سیالکوٹ سیکٹر میں چونڈہ کی لڑائی میں بھی حصہ لیا۔
آپریشن وینس1948
تنازع کشمیر پر کوئی بھی گفتگو اس کے پس منظر کو سمجھے بغیر معنی خیز نہیں ہو سکتی۔ بریگیڈیئرامجدعلی چوہدری اپنی کتاب میں بغاوت کے ابتداء کی بات کرتے ہیں۔ جس کے دوران ریاست جموں و کشمیر کی اکثریتی مسلم آبادی نے 1930 کی دہائی میں ہندو اکثریتی ڈوگرہ فوجوں کے خلاف بغاوت کی۔ اس کے بعد، بھارتی افواج 27 اکتوبر 1947کو اس بنیاد پر اس علاقے میں داخل ہوئیں کہ کشمیر کی ریاست بھارت سے الگ ہو گئی ہے۔ جیسا کہ مصنف کہتا ہے، پاکستانی باقاعدہ فوجیوں کو کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت صرف اس وقت دی گئی جب بھارت نے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا اور ایک بار جب ان کا پوری ریاست پر دعوی کرنے کا ارادہ واضح ہو گیا تھا۔بریگیڈیئر امجد چوہدری ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ بھارت نے سلامتی کونسل کو دی گئی اپنی پہلے کی یقین دہانی کو نظر انداز کیا کہ جنگ بندی کے لیے بات چیت کے دوران دونوں طرف سے کوئی جارحانہ اقدام نہیں کیا جائے گا۔ علاقے پر قبضہ کرنے کی بھارتی کوششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے، پاکستانی فوج نے جموں و کشمیر کے جنوبی سیکٹر میں محدود کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا کوڈ نیم " وینس"تھا۔اس آپریشن کے انچارج بریگیڈئیر شیر علی پٹوڈی تھے۔ اہم حملہ 10 دسمبر 1948 کو ہونا تھا، لیکن اس وقت سلامتی کونسل میں ہونے والی جنگ بندی مذاکرات کی متوقع کامیابی کی وجہ سے وہ حملہ منسوخ کر دیا تھا۔ بریگیڈئیر امجد علی چودھری اپنی کتاب میں 11بلوچ رجمنٹ کے پانڈو آپریشن کی بہت تعریف کرتے ہیں۔ 11بلوچ اس وقت کرنل شیر بہادر کے زیر کمانڈ تھی۔
چونڈہ کی جنگ میں آرٹلری کا کردار
ستمبر 1965کی جنگ برصغیر کی مختصر تاریخ میں ایک سے زیادہ وجوہات کی بنا پر اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ پاکستان پر حملہ کر کے بھارت نے ہمارے لوگوں کے ذہنوں میں اپنے جارحانہ عزائم اور ان کے خلاف مسلسل دشمنی کے بارے میں کوئی شک نہیں چھوڑا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی عوام پر یہ واضح کر دیا کہ جب تک وہ ان کے بارے میں بھارت کے رویے میں بنیادی تبدیلی کے قائل نہیں ہو جاتے، اگر وہ کبھی اپنی حفاظت کو کم کرتے ہیں تو وہ اپنے خطرے پر ایسا کریں گے۔ اس نے عددی برتری کے افسانے کو بھی چاک کر دیا۔ پاکستان اس جنگ سے باہر نکلا اور اپنی سرحدوں کا کامیابی سے دفاع کرنے کی صلاحیت پر اعتماد کے ساتھ اس دشمن کے خلاف نکلا جس کی عددی اور مادی برتری کم از کم1:4 ہے۔
25 کیولری نے کرنل نثارکے انڈر کمانڈ ہمارے گنوں والے علاقوں کی طرف دشمن کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے زبردست مقابلہ کیا۔ ہمارے ابزرورز نے سٹار شیلز کی مدد سے کبھی بھی دشمن کا پتہ نہیں کھویا اور ہم اپنی گنوں کے بڑے پیمانے پر فائر کرتے رہے یہاں تک کہ حملہ آخرکار ٹوٹ گیا۔ جب دشمن نے پیچھے بھاگنا شروع کیا تو وہ ہماری آگ کی لپیٹ میں آ گیا اور ہم ان کے انخلا کے راستے میں بھی گولے برساتے رہے۔ اس دن، ہمارے 8 انچ کے ہووٹزرزنے ہی 125 رائونڈ فی گن فائر کیے۔جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔مختصراً فوج کے تمام صیغوں نے باہمی تعاون اور بہتر حکمت عملی سے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے۔
خراج تحسین
1965 کی جنگ کے دوران پاکستان کے صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے 4 کور آرٹلری کی کارکردگی پر درج ذیل خراج تحسین لکھا:-
تمام حوالوں سے 4 کور آرٹلری کے کردار کو صرف شاندار کہا جا سکتا ہے۔ انہوں نے جو نتائج حاصل کیے وہ معجزانہ ہیں جس کے لیے وہ ہم سب کی مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں۔
فیلڈ مارشل محمد ایوب خان
صدر پاکستان
13 نومبر 1965
جنرل آصف نواز مرحوم کے بھائی شجاع نواز پاکستان آرمی کی تاریخ میں لکھتے ہیں:۔
"چھمب پرحملے کے لیے ایک جرأت مندانہ اور پیچیدہ توپ خانے کا منصوبہ کور آرٹلری کے پرجوش لیڈر بریگیڈیئر امجد علی خان چوہدری اور ان کے عملے نے میدان جنگ پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے تیار کیا تھا۔"
لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) محمود احمد ،آرٹلری کے مطابق، جنہوں نے 1965 کی جنگ کے سرکاری ذرائع پر بہت زیادہ تفصیلی اور مستند اکائونٹ کے طور پر لکھا ہے،
"چونڈہ پر دشمن کا حملہ... زیادہ تر آرٹلری کی فائرنگ سے ٹوٹ گیا۔ توپ خانے کا سب سے زیادہ جارحانہ استعمال کیا گیا۔... .1965 کی پاک بھارت جنگ کے کسی اور تھیٹر میں بندوقیں اتنی قریب نہیں آئیں کہبھارتی ٹینکوں کو۔ کئی بار زیر کیا جائے ، اور نہ ہی پاکستانی گنرز اپنے بحران کی گھڑی میں اس سے شاندار کام کر سکتے تھے"
چونڈہ کی جنگ پر آرمرڈ کورکے ایک آفیسر اور مؤرخ میجر (ریٹائرڈ)آغا ہمایوں امین نے بھی لکھا:-
4" کور آرٹلری بریگیڈ، جس کی سربراہی بریگیڈیئر امجد چوہدری کرتے تھے، جسے بہت سے ہم عصروں نے برصغیر کے بہترین آرٹلری افسروں میں سے ایک کے طور پر بیان کیا ہے ،انہوں نے چونڈہ کی جنگ میں اہم کردار ادا کیا تھا"
کرنل سید جمیل مختار شاہ کے مطابق برگیڈئیر امجد علی چودھری کی کتاب آپریشن "گرینڈ سلیم اور سیالکوٹ سیکٹر " کے بار ے میں بہترین آنکھوں دیکھا حال ہے۔ برگیڈئیر امجد علی چودھری نے اپنی کتاب میں (1947-48) کے آپریشن ، 1971 کی جنگ اور پاکستان کی نیوکلیر صلاحیت بارے بھی لکھا ہے۔ انہوں نے (1947-48) کے کشمیر آپریشن میں جنرل اکبر علی کے ساتھ کام کیا تھا۔کمانڈر کور آرٹلری کی حیثیت سے انہوں نے جنرل اختر ملک اور جنرل یحییٰ خان کے پلانز کو قریب سے بخوبی دیکھا تھا۔
چونڈہ کی1965 جنگ کے دوران ہلالِ جرأت کی سفارشات پر یہ الفاظ لکھے گئے۔
چونڈہ سیکٹر میں ڈویژنل آپریشن کے دوران کور آف آرٹلری نے اس کی تشکیل میں مؤثر طریقے سے مدد کرنے میں شاندار کام کیا۔ یہ بنیادی طور پر مؤثر توپ خانے کی مدد کی وجہ سے تھا کہ دشمن کی اعلیٰ افواج کے حملوں کو بھاری نقصان کے ساتھ شکست دی گئی۔ یہ خالصتا ً بریگیڈیئر امجد علی خان چوہدری کی ذاتی مثال، بہترین قائدانہ صلاحیتوں اور فرض شناسی کی وجہ سے تھا کہ نہ صرف دشمن کے حملوں کو شکست دی گئی بلکہ پوری ٹیم کو آخری لمحے تک لڑنے کی تحریک ملی۔ فرض شناسی اور بہادری کے اس نمایاں عمل کے لیے انھیں ہلالِ جرأت کے اعلی اعزاز سے نوازا گیا ہے۔
ریٹائرمنٹ اور وفات
بریگیڈیئر احسن رشید شامی شہید اور بریگیڈئیر امجد علی چودھری نے 1965 کی جنگ میں اعلی کارکردگی دکھائی ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بریگیڈئیر امجد علی چودھری لاہور میں رہتے تھے ۔جہاں 5 دسمبر 1990 کو وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ان کے بیٹے راشد امجد اکنامکس کے فیلڈ میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔
مضمون نگار عسکری و قومی موضوعات پر لکھتے ہیں۔
[email protected]
تبصرے