میجر جنرل شفیق احمد(ریٹائرڈ)ستارۂ جرأت کی یادوں پر مبنی رابعہ رحمن کی تحریر
میجر جنرل شفیق احمد(ستارۂ جرأت)1934ء میں ضلع خوشاب سون سکیسر کی ویلی نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ہائی سکول میں عربی کے استاد تھے۔میجر جنرل شفیق احمد چار بھائی تھے جن میں ایک لیفٹیننٹ کرنل اقبال احمد بلوچ رجمنٹ سے ریٹائرہوئے، کرنل افتخار احمدVetranaryڈاکٹر تھے، مختار احمد سول نوکری کرتے تھے، میجر جنرل شفیق احمد سب سے چھوٹے تھے۔نوشہرہ ہائی سکول سے میٹرک پاس کیا، ان کا کہنا ہے کہ میں پڑھائی سے زیادہ کھیل کا شوقین تھا، والی بال اور فٹ بال کے ساتھ ساتھ میرا اصل شوق کبڈی تھا۔ سرگودھا گورنمنٹ کالج سے ایف اے کیا اور لاہور گورنمنٹ کالج سے بی اے میں داخلہ لیا۔ ہمارے مضافاتی علاقوں کوMarshel Racesکہاجاتاہے کیونکہ یہاں سے فوج میں بھرتی ہونا ایک اعزاز کی بات سمجھا جاتاتھا اورآج بھی سمجھاجاتاہے۔ مجھے بھی فوج میں جانے کاشوق تھا مگر میں نے کبھی اس کا اظہار نہیں کیاتھااوراسی لیے اپنے فوجی بھائیوں سے مشورے کے بغیرہی فوج میں بھرتی کے لیے امتحان دے دیا، میرے بڑے بھائی سرگودھا میں تھے انہوں نے اخبار پڑھا تو نتیجہ آیا ہوا تھا، انہوں نے میرا نام پڑھا تومجھ سے پوچھاکیا تم نے فوج میں بھرتی کے لیے امتحان دیاتھامیں نے کہا جی! تو وہ خوشی سے مجھ سے لپٹ گئے اورکہا تم تو پاس ہوگئے ہو۔
میں 1952میں آئی ایس ایس بی گیا وہاں سے پاس ہونے کے بعد Joint Service Pre Cadet School Trainingمیں تربیت دی گئی اور1853ء میںPMAچلاگیا،1955ء مارچ میں کمیشن ملا، سیالکوٹ میں12th Frontier Force Regment جوائن کی،سیالکوٹ کے بعد پلٹن آزادکشمیر چلی گئی، اکتوبر1964ء میں میری شادی ہوگئی اس دوران میں نے وہ تمام کورسز جوRotienکے مطابق فوج کے ہوتے ہیں مکمل کرلیے۔ ان سے ہمارا Vision وسیع ہوتاہے، پھر سٹاف کورس کی باری آئی تو1964ء میں کوئٹہ چلے گئے،1965ء میں کورس ابھی مکمل نہیں ہواتھاتو سندھ کے بارڈر میں انڈیا پاکستان کی مختصر سی جھڑپیں شروع ہوگئیں جن کی خبریں ہم سنتے رہتے تھے، ہمارے اندر جذبہ جوش مارتا تھا، یہ جھڑپیں بریگیڈ VS ڈویژن تھیں، پھر کشمیر میں بھی جھڑپیں جاری تھیں۔
یوں1965ء کی پاک بھارت جنگ کا6ستمبرکو آغاز ہوا، ہمارا کورس بند ہوگیا اورہم سب کو مختلف یونٹوں میں واپس بھیج دیاگیا۔
اس وقت میری یونٹ سیالکوٹ تھی، میں کیپٹن تھا چونڈہ کے محاذ پر میری پلٹن 13 ایف ایف تعینات تھی۔
میں نے جوائن کیا تو اسی دن چونڈہ کے مقام پہ دفاع اختیارکیا۔ میں10ستمبرکو پہنچ گیا تھا۔ لڑائی شروع ہوچکی تھی، وہاں پہ آرمرڈ ڈویژن تھے، انڈیا کا بھی آرمرڈ ڈویژن تھا جس میں200ٹینک تھے، پاکستانی فوج کا بھی آرمرڈ ڈویژن آگیا تھا جس میں 150 سے 200کے قریب ٹینک تھے۔ اس میں شک نہیں کہ اس میں ٹینک کی آپس میں گھمسان کی جنگ ہوئی تھی، وہاں پہ ٹینکوں کے علاوہ انفینٹری کی لڑائی بھی تھی جسے ہم پیادہ فوج کی لڑائی کہتے ہیں۔ وہاں ہمارے ٹینک ابھی نہیں پہنچے تھے توInfantry Brigadeنے بارڈرپر جہاں دشمن آگیا تھا اور ہماری وہاںزیادہ نفری نہیں تھی انفنٹری بریگیڈ کیAdvance پارٹی نے دشمن کو کافی پیچھے دھکیل دیاتھا، اسکے بعد وہاںArmedبریگیڈ آگیاتھا لیکن چند دنوں بعد دوبارہ انفینٹری کی ضرورت پڑی توہماری انفینٹری بریگیڈکو حکم ملاکہ چونڈہ جوکہCentral Placeتھا جہاں ساری سڑکیں آکے ملتی تھیں وہاں پہ دفاع لے لیں توہماری14 Bloch,2 Punjab, 3FF ہم تین پلٹونز اور ٹینکوں کی رجمنٹ25کیولری رجمنٹ نےDefence لیا،یہاں پر آخری اورسب سے اہم گھمسان کی لڑائی چونڈہ کے مقام پر ہوئی جس میں6مائونٹین ڈویژن انڈیا کا انفینٹری ڈویژن تھا۔ انہوں نے چونڈہ پر حملہ کیا ان کی پانچ پلٹونزنے18اور19کی رات کو چونڈہ پر قبضہ کرنیکے لیے حملہ کیا ان کا منصوبہ یہ تھاکہ حملہ کرنے کے بعد جب رات کو وہ کامیاب ہوجائیں گے تو صبح پھر ٹینک آجائیں گے تو اپنی کارروائی شروع کردینگے کیونکہ رات کو ٹینک زیادہ بااثرآپریشن نہیں کرسکتے۔
اللہ کے فضل سے میری3FFکی دوکمپنیاں تھیں،14Blochکی دو کمپنیاں تھیں ان پر پانچوں حملے ناکام ہوئے، ان کے ٹینک آگے نہ آسکے۔
میں کمپنی کمانڈر تھا ہماری نفری کم تھی۔ ہمارے پاس صرف75کے قریب آدمی تھے۔ ہمارے کچھ جونیئر آفیسر بھی کم تھے، میری کمپنی پہ20راجپوت اور5جموں کشمیر بٹالین کا حملہ ہوا تھا بٹالین میں تقریباً ہزار کے آگے پیچھے نفری ہوتی ہے۔
20راجپوت پلٹن کا حملہ ہمارے70آدمیوں نے پسپا کردیا، گائوں جسورا میں بھی حملہ کیامیں بھی اس دفاع میں شامل تھا۔
میرے ساتھ کیپٹن عبدالوحیدکاکڑ تھے جو بعد میں (چیف آف آرمی سٹاف بن گئے تھے) ہم نے مل کر دشمن کی 5 جموں کشمیر بٹالین کے کافی لوگ مارے، پھر6مرہٹہ نے ہمارے بٹالین ہیڈکوارٹرپہ حملہ کیا اور وہ بھی ناکام رہے۔ ہم نے بعد میں ان کی لاشیں گنتی کیں اور ایک افسر لیفٹیننٹ چوہان کومیں نے قیدی بنایا ۔ جب 6مرہٹہ ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا تھا توگھمسان کی لڑائی ہوئی تھی۔Hand to Handلڑائی میں جس میں مکا، رائفل یا گتھم گتھا ہوناشامل تھا، اس میں دو افسر اور پچاس جوان6 مرہٹہ کے قیدی بنائے، اس وقت ہمارے جوانوں، افسروں کا جوش وجذبے ان کے جوش وجذبہ سے کہیں زیادہ تھا کیونکہ ہم مسلمان مجاہد تھے ہم موت اور شہادت کو ہی اصل زندگی سمجھتے ہیں ہماری پلٹن کے 70 فوجی شہید اور 100کے قریب اس معرکے میں زخمی ہوئے۔
اللہ کے فضل سے ہماری کارکردگیوں اور بہادری پہ انعامات ملے،میرا صوبیداراور ایک اردلی شیرخان سپاہی شہید ہوئے، ہمارے کیپٹن کاکڑ زخمی ہوئے مگر وہ واپس نہ گئے اور ہیڈکوارٹرمیں ہی رہے، ہم نے دیکھے تو نہیں کوئی فرشتے آتے ہوئے لیکن یقین ہے کہ اللہ کی غائبانہ مدد ضرور تھی۔
ہمارے ساتھ14بلوچ تھی اس پہ انڈیاکی14راجپوت نے حملہ کرنا تھا، وہ آتے ہوئے راستہ بھول گئے، ایسا چکر ہواکہ انہوں نے اپنی ہی پلٹن پر حملہ کردیا اور ان کی پلٹن نے یہ سوچ کرکہ مسلمانوں نے حملہ کردیا ہے ڈر کے بھاگ گئے، یہ اللہ کی غائبانہ مدد ہی تھی۔ انڈین خود لکھتے ہیںکہ14راجپوت جس نے اپنی5جاٹ پر حملہ کیا دونوں تتربتر ہوگئیں ۔ معجزے اللہ نے دکھائے، مومن مجاہد کی مدد اللہ کرتاہے جہاد فی سبیل اللہ کا جذبہ کبھی ناکام نہیں ہوتا۔
1965ء میں افواج پاکستان کے وسائل کم تھے توہماری قوم میں ہربچے ہرعورت، ہرمرد نے اپنی مال اور اولاد مددکے لیے پیش کیے۔
1964ء میں جو کشمیر میں جھڑپیں ہوئیں اگر وہ وہیں ختم ہوجاتیں تو یہ جنگ نہ ہوتی مگر ہندوئوں نے غرورکیا اور جارحیت اختیارکی۔ آخر مسلمان افواج پاکستان نے ان کا غرور اللہ کی مدد سے توڑ دیا۔
کچھ اہم واقعات کی تفصیل مجھے یوں یاد آرہی ہے کہ:
10تاریخ صبح سے لے کر بارہ تیرہ دن تک مجھے بالکل یاد نہیں کہ میں نے کھانا کھایا تھا یا نہیں کھایا تھا، یہ بھی یاد نہیں کہ سویا تھاکہ نہیں سویا تھا، ہم اکثر اونگھ لیاکرتے تھے تو گولے کی آواز سے پھر ہوشیار ہوجاتے تھے۔
میں ایک جگہ ٹینک کے پاس بیٹھااور ہدایت دے رہاتھاکہ یہاں نیچے تار بچھی ہے آپ یہاں سے نہ گزریں تو اتنی دیر میں دشمن نے گولہ مارا جو میرے آگے گرا مگر میں زخمی نہ ہوایہ اللہ کامعجزہ تھا۔
میجرجنرل شفیق احمدنے ریٹائرمنٹ کے وقت اپنی پلٹن کویہ کہا اگر جنگ ہوئی اور ہم پیش قدمی کریں تو میرے لیے ایک ٹینک ضرور رکھنامیں آخری سانس تک بھی تم لوگوںکے ساتھ رہوں گا۔ پھرانہوں نے کہاکہ میں تو آج بھی ٹریننگ دینے کو تیار ہوں جو تجربہ ہم نے حاصل کیا مورچے کھودنا، ہتھیار استعمال کرنا اور ان کی صفائی، نجانے اورکیاکچھ سب ٹریننگ دوںگامجھے آج بھی ساری ٹریننگ ازبرہے۔
ایمان کو تازہ اور خون کو گرمانے کے لیے ایسے مجاہدوںسے ملاقات ان کی گفتگو سننا بہت ضروری ہے۔
میجر جنرل شفیق نے بتایا جب وحیدکاکڑ زخمی ہوئے تو وہ ایک کمپنی کمانڈکررہے تھے انہیں ہیڈکوارٹر بھیج دیاگیا، لیفٹیننٹ طارق کو کہاکہ وہ کمانڈکریں تووہاںمیں نے Volunteerکیا اورکہاکہ میں کمانڈکرلوںگا میں ایجوٹینٹ تھا جو دفتر میں بیٹھتاہے مگر کمانڈرآگے جوانوں کے ساتھ ہوتاہے وہ جذبہ آج بھی محسوس کرتاہوں تو سینہ فخر سے پھول جاتاہے۔
کچھ آدمی ایک جگہ جمع تھے، رات کے اندھیرے میں پتہ نہیں چل رہاتھاکہ یہ کون ہیں۔ میں نے وحیدکاکڑکو اپنی جگہ بٹھایا جو کہ زخمی ہونے کے باوجود کمپنی کی معاونت کو آئے تھے، میں کھیتوںمیںCrawlکرتے ہوا بناکسی خوف کے آگے بڑھا تو مجھے''بھگوان،داس'' کے لفظ سنائی دیے۔فوراً دفاع کی تیاری کی اور فائر کھول دیا، فائر ہم نے زمین اور آسمان کی طرف نہیں بلکہ درمیان میں کیا تاکہ ان کا نقصان ہوسکے۔
6مرہٹہ نے جب ہماری کمپنی پہ حملہ کیا تو وہ نعرے لگارہے تھے چونکہ جموں کشمیر کی اس بٹالین میں ہندو، سکھ اورمسلمان سب موجود تھے وہ جے ہند اور نعرہ تکبیر کے نعرے لگارہے تھے ہمارے بندوں میں سے کسی نے کہہ دیاکہ یہ تو اپنے لوگ ہیں میں چند قدم آگے بڑھا تو ان کا بھی ایک آدمی آگے بڑھا بلاخوف وخطر میں نے پوچھاwho are you، اس نے کہا لیفٹیننٹ چوہان5جموں کشمیر، میں نے فوراً کہاHands upاورDrop your Weaponوہاں بھگدڑ مچ گئی ہم نے فائر کھول دیے چوہان کو قیدی بنالیا۔
ہمارا دفاع کامیاب ہوا،دشمنBRBسے آگے نہ آسکا، چونڈہ میں بھی شکست ہوئی کئی مقام سے انہوں نے اپنے قدم ہٹالیے۔
ہمارے دوکمپنی کمانڈر میجر دوست محمد، لیفٹیننٹ طارق،ڈاکٹرقیس، نائب صوبیدار اللہ دتہ، صوبیدار عناب گل کو ستارۂ جرأت ملا۔ حوالدار اللہ دتہ اور دوسپاہیوں کو تمغۂ جرأت ملا۔
23ستمبر کوCease Fire ہوا24کو ہم چھمپ جوڑیاں چلے گئے۔
ہندو فوجی اپنے زخم چاٹتے اور اپنی لاشیں اکھٹی کرتے رہ گئے۔
مضمون نگار ایک قومی اخبار میں کالم لکھتی ہیں اور متعدد کتابوں کی مصنفہ بھی ہیں۔
[email protected]
تبصرے