پاک فضائیہ کے شاہینوں کے شاندار کارنامے
پاک فضائیہ کی تاریخ کے مطابق صوبہ سندھ کے'رن آف کچھ' نامی علاقے میں بھارتی فوجیں5 اور 6اپریل 1965 کی درمیانی شب پاکستان کے علاقے میں گھس آئیں اور پاکستانی چوکی سے100 گزکے فاصلے پر خندقیں کھودنا شروع کردیں۔ پاکستان کی بری فوج نے مناسب جوابی کارروائی کرکے بھارتیوں کو واپس اُن کے علاقے میں دھکیل دیا۔ اس طرح 'رن آف کچھ' کی سرحد پر دشمن نے جنگ کی ابتداء کردی۔
پاک فضائیہ کے کمانڈر انچیف، ایئر مارشل نور خان نے23 اگست کو آدھی رات کو2 بجے بے حد خطرناک آپریشنل مشن کی سربراہی کا فیصلہ کیا، کیونکہ اُس شب موسم انتہائی خراب تھا۔علاقے کے خدوخال اور وہاں جاری شورش کے باعث یہ ایک ہیجان انگیز مہم تھی۔ نمبر35ٹرانسپورٹ ونگ کے آفیسر کمانڈنگ ، ونگ کمانڈر زاہد بٹ کو کنٹرول لائن سے خطرناک حد تک دور علاقے میںرسدگرانے کا مشن سونپا گیاتھا، زاہد بٹ اور ان کے قابل نیوی گیٹر رضوان نے اُس رات وادیٔ کشمیر میں کیے جانے والے ایک پُر خطر مشن کی ذمہ داری قبول کی تھی اور خطرے سے بھرپور مہم میں پاک فضائیہ کے کمانڈر انچیف بنفسِ نفیس خود اُن کے ہمراہ تھے۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں پاک فضائیہ کے کمانڈر انچیف نے اس طرح اگلی صفوں سے ایئر فورس کی ذاتی طور پر کمان کی، بادلوں سے باہر آتے ہی جہازکے عین نیچے ڈراپ زون(Drop zone) تھا، رَسد گرانے کے لیے جہاز کو نیچے آنا تھا اور اس طرح جہاز حفاظتی زون سے باہرآ جاتا ۔اس لیے زاہد نے رسد نہ گرانے کافیصلہ کیا۔ اس موقع پر کمانڈر انچیف نے مشورہ دیا کہ زاہد دائیں جانب موجود پہاڑ سے بچتے ہوئے، ہم پہلے اوپر بلندی پر جاتے ہیں اور وہاں سے پھر چکر لگا کر واپس آئیں گے، یہ انتہائی نظم و ضبط اور مہارت کے کمال دکھانے کا وقت تھا۔ زاہد بٹ اور ان کے نیوی گیٹر نے یہ ناممکن کام کر دکھایا اور اگلے چکر میں پُھرتی سے ڈراپ زون میں رسد گرا دی۔ بعدمیں بارھویں ڈویژن نے اس بات کی تصدیق کی کہ زاہد بٹ نے 500 میٹر کی درستگی کے ساتھ رسد صحیح جگہ پر گرائی تھی، جب مشن کی کامیابی اور خود کمانڈر اِن چیف کی اس مہم میں شرکت کی خبر باقی پاک فضائیہ کے اسٹیشنوں پر پہنچی تھی تو تمام ایئر فورس کے افراد جذبۂ فخر سے سرشار ہو گئے اور ایئر چیف نے قیادت کی اس اعلیٰ مثال کے ذریعے پاک فضائیہ کے ہر رکن میں ولولے اور حوصلے کی ایک نئی روح پھونک دی۔
اختر ملک کی نمبر 12 ڈویژن کے ہاتھوں شدید نقصان سے دوچار بھارتی فوج نے یکم ستمبر 1965 کی صبح 11 بجے فضائی مدد طلب کر لی۔ شام کو تقریباً 4 بج کر 40 منٹ پر بھارتی فضائیہ کے چارویمپائر(vampires) طیاروں کی پہلی فارمیشن نے پٹھان کوٹ سے پروازکی، پٹھان کوٹ بیس سے پانچ پانچ منٹ کے وقفوں سے12 ویمپائرز طیارے تین حصوں میں فضا میں بلند ہوئے جبکہ اختر ملک چھمب آپریشن کے بعد علاقے سے دشمن کا صفایا کرنے میں مصروف تھے اور اب بھارتی فضائیہ کی کلوز ایئر سپورٹ( سی اے ایس )ان کی آخری امید اور سہارا تھی۔ بہرحال لیفٹیننٹ جنرل ہر بخش سنگھ اور جنرل جو گندرا سنگھ کی ڈائریوں کے مطابق ویمپائرز کی پہلی اورآخری فارمیشن نے اپنی ہی بھارتی فوج کی صفوں پر حملہ کر دیا اور اس طرح خود اپنی فوجوں کی تباہی کا سبب بنے۔ کچھ عرصہ قبل شائع ہونے والی کتاب History Of indo- Pak warمیں صفحہ نمبر 70 پر بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے اور اس کے علاوہ جنرل جوگندر سنگھ نے 1965 اور 1971 کی جنگوں کے حالات (Behind the Scene) میں نہایت صاف گوئی سے رقم کیے ہیں( صفحہ نمبر 117 )کہ بھارتی فضائیہ کے حملوں کی وجہ سے3- Mahar رجمنٹ کو ضمنی نقصان اٹھانا پڑا، ایک اور بلند مرتبہ کے فوجی جنرل لکشمن سنگھ نے بھی بڑی غلطی کا اعتراف کیا ہے کہ یہ بھارتی فضائیہ کی ذلت آمیز جنگی شروعات تھیں ۔
پاک فضائیہ کے چوٹی کے ہوا باز' سرفراز رفیقی 'اپنے ونگ مین فلائٹ لیفٹیننٹ 'امتیاز بھٹی' کے ساتھ تھے، کہ انہیں سکیسر کے سیکٹر آپریشن سینٹر سے چار ویمپائرز طیاروں کی دوسری فارمیشن سے لڑنے کے لیے بھیجا اور بہت جلد ہی سرفراز رفیقی نے ان جہازوں کو دیکھ لیا اور بڑی مہارت سے دو ویمپائر طیاروں کو2 سے 3منٹ میں اپنی گنوں کے ذریعے آگ کے گولوں میں تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ایک اور طیارہ امتیاز بھٹی کی چلائی گئی گولیوں کا نشانہ بن کر زمین بوس ہو گیا، جبکہ چوتھا ویمپائر جہاز جسے فلائٹ لیفٹیننٹ ایس وی پاتھک اُڑا رہے تھے، بھاگنے میں کامیاب ہو گیا، تاکہ اپنی فارمیشن کی تباہی کی داستانِ عبرت باقی ساتھیوں کو سنا سکے۔ البتہ اس جہاز میں بھی امتیاز کی چلائی گئی گولیوں کے باعث جا بجا سوراخ ہو چکے تھے، اس خطرناک فضائی معرکے سے تھوڑی دیر بعد ہی کمانڈر اِن چیف ایئر مارشل نور خان ایک جیٹ T-30 ٹرینر جہاز کے ذریعے سرگودہا پہنچے اور وہاں انہوں نے سرفراز رفیقی اور امتیاز بھٹی کو شاندار کارکردگی پر ذاتی طور پر مبارکباد دی۔
اگلا مقابلہ تین ستمبر کو 6 نیٹ فائٹر طیاروں(Gnats) سے ہوا۔ جن سے مقابلے کے لیے دو ایف 86 طیارے بھیجے گئے ،جن کی قیادت پیشہ ور فائٹر پائلٹ فلائٹ لیفٹیننٹ یوسف کر رہے تھے۔ اگرچہ علاقے میں موجود ایف 104 طیارہ ان کی مدد کے لیے بھیجا گیا۔ اس خوفناک فضائی جنگ میں جہاں ان کے مدِّ مقابل چھ نیٹ فائٹر طیارے تھے ایسے میں یوسف کو بھارتی ہوابازفلائٹ لیفٹیننٹ کیلور(Keelor) نے نشانہ بنایا۔ اس فضائی معرکہ آرائی میں یوسف کے ایلی ویٹر کو شدید نقصان پہنچا۔ مگر اُن کی ہمت اور مہارت کی داد دینی چاہیے کہ اس نے 1:6 کے فرق کے باوجود تن تنہا، بے جگری سے ان کا مقابلہ کیا، کیونکہ ان کا ساتھی ہوا باز پیچھے رہ گیا تھا اور موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک نیٹ نے اُن پر حملہ کر دیا۔ یہاں ان چارمیٹیر(Myterer)طیاروں کا ذکر نہیں کیا گیا، جنہیں چارے کے طور پر استعمال کیا گیا تھا۔ یوسف کو یہ بہت بڑا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے نقصان زدہ طیارے کو اڑاتے ہوئے وہ مہارت دکھائی کہ خود اور اپنے دوسرے ساتھی کو بھی چھ نیٹ طیاروں کے چنگل سے بچا لائے۔مکی(Micky) عباس جوF-104 طیارہ اڑا رہے تھے، نے بھی یوسف کے بچاؤ میں اہم کردار ادا کیا۔
ایک فضائی معرکہ آرائی کا پُر مزاح اور بھارتی فضائیہ کے لیے باعث ندامت کردار سکواڈرن لیڈر سکند(Sikind) کا ہے جو نیٹ سکواڈرن کے فلائٹ کمانڈر تھے اورآٹھ شپ فارمیشن کا حصہ تھے۔ غالباً الیکٹریکل خرابی اور کم ایندھن کے باعث فارمیشن سے الگ ہو کر راستہ بھول گئے۔ بقول ان کے وہ پسرور' ہوائی پٹی' کو 'پٹھان کوٹ' ہوائی اڈہ سمجھ کر لینڈ کر گئے۔ جبکہ عقابی نگاہوں والے حکیم اللہ انہیں فضا میں اپنے F-104 لڑاکاجہاز سے دیکھ رہے تھے اور نیٹ طیارے کو نشانہ بنانے کے لیے بے چینی کے عالم میں ہوائی پٹی پر چکر لگا رہے تھے، یہ یقینا ان کی ہی دہشت تھی کہ سکند اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا اور ایک بے قاعدہ سے ہوائی پٹی جس کے گرد پٹھان کوٹ جیسے پہاڑ بھی نہ تھے، وہاں لینڈ کر گیا اور قیدی بنا لیا گیا ۔
ڈھاکہ میں صرف 10 عدد F-86 طیارے تھے، وہ بھی دشمن کے9 سے 10 سکواڈرن میں بُری طرح گھرے ہوئے ،لیکن پاک فضائیہ کے اس نمبر4 1سکواڈرن اور زمینی عملے میں لڑنے مرنے اور بہت کچھ کر گزرنے کا جذبہ موجود تھا۔ اس لیے انہوں نے 'جام نگر 'جیسے انتہائی دُور ہدف پر 7 ستمبر کو تین مرتبہ حملے کیے اور حیران کن، قابلِ رشک نتائج حاصل کیے، کیونکہ وہاں کے سٹیشن کمانڈر گروپ کیپٹن غلام حیدر بہترین، بروقت فیصلے کرنے والے کمانڈر تھے۔
اب پاک فضائیہ کے بمبار طیاروں کی کارکردگی پر روشنی ڈالی جائے گی، جس میں نمبر7 اور 8سکواڈرن کے B-57 شامل ہیں۔ دشمن کی مخالفانہ کارروائیوں کے شروع ہی میں چند روز قبل چار B-57 طیارے پشاور منتقل کر دیے گئے، جبکہ باقی طیارے ماڑی پور میں موجود بیس 'مسرور' میں سکواڈرن لیڈر (بعد ازاں ایئر کموڈور )رئیس رفیع اور سکواڈرن لیڈر نجیب کی کمانڈ میں تھے۔ ان دونوں ہوا بازوں نے بتایا کہ انہیں دوپہر کے کھانے کے وقت 'جام نگر' پر حملے کی آپریشنل ذمہ داری سونپی گئی، لہٰذا جہازوں کو بموں اور گنوں سے لوڈ کر دیا گیا اور ساتھ ہی راکٹوں کو بھی جہازوں پر لوڈ کر دیا گیا اورشام تقریباً چھ بجے، چھ 57-B طیاروں کی فارمیشن کے ساتھ جام نگر ایئر فیلڈ پر دوبارہ حملہ کرنے اور پھر رات کے اندھیرے میں ان حملوں کو مسلسل جاری رکھنے کے لیے ایک ایک بمبار جہاز کی مدد سے جاری رکھنا تھا۔ یہ تمام حملے منصوبہ بندی کے مطابق کامیاب رہے، جس کے ذریعے دشمن کے دو جہازوں کو تباہ اور کئی تنصیبات کو نقصان پہنچایا گیا۔
منصفین نے تصدیق کی ہے کہ آدم پور پر بمبار طیاروں کے پہلے حملے میں، او آر پی (Operation Readiness Platform) پردو Mig- 21 طیارے تباہ ہوئے تھے اور یہ کارنامہ اس B-57 بمبار طیارے کا تھا۔ جس کے ماہر، پیشہ ور ہوا باز کو تعریفاً"8- Pass Charlie" کا نام دیا گیا تھا۔ جام نگر پر B-57حملوں سے چار ویمپائر طیارے نشانہ بنائے گئے تھے۔ دیگر کئی ولولہ انگیز مشنوں میں دِلاور ہوابازوں میں سکواڈرن لیڈر اختر بخاری، رئیس، رفیع، سکندر محمود(ایک اعلیٰ درجے کے ہواباز) نجیب اور اورنگ زیب (ایک لائق نیوی گیٹر )کے علاوہ جری و جرأت مند ونگ کمانڈر بل لطیف اور ان کے دوسرے عملے کے افراد شامل ہیں۔جنگ کے دوران نوجوان بمبار پائلٹ نے اپنے زخمی گُردے کے باوجود، دشمن کی ایئر فیلڈ پر حملے جاری رکھے۔ ان کا گردہ اس قدر زخمی تھا کہ انہیں مسلسل خون آرہا تھا۔ لیکن انہوں نے کسی کو اس بارے میں نہیں بتایا۔ سکواڈرن لیڈر اختر بخاری نے انتہائی پُر خطرمشن پر پرواز کی، انہیں بھارتیوں کی رات کے وقت مزاحمت جانچنے کے واسطے دشمن کے علاقے میں دور تک پرواز کرنا تھی اور خود کو دشمن کے Mig-21 مزاحمتی طیارے پر نمودار کرنا تھا۔ ایک اور مشن جس کا تذکرہ اہم ہے وہ دن کی روشنی میں رئیس رفیع اور فیروز کا، سری نگر ایئر بیس پر حملہ تھا۔ ان دو بمبار طیاروں نے ا یسکورٹ کی فراہمی کے لیے ارشد سمیع، غنی اکبر اور خالد لطیف کی فارمیشن کی سربراہی کاکام سونپا گیاتھا۔
سب سے زیادہ اعلیٰ مشن جس میں بمبار طیارے نے کمال کر دیا، فلائٹ لیفٹیننٹ الطاف شیخ اور ان کے نیوی گیٹر بشیر چوہدری کا تھا۔ 15 ستمبر کو الطاف نے آدم پور پر ایک حملے کے بجائے، تین حملے کیے،آخری حملے میں جہاز کا Bomb hang up ہو گیا۔ الطاف کے تمام طریقوں کے باوجود بھی ریلیز نہ ہوا۔ انہوں نے طیارہ شکن توپوں کی شدید فائرنگ میں بھی چوتھی بار حملہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اس خیال کے ساتھ بم گرائے کہ ایئر فیلڈ پر موجود بھارتیوں کو یہ معلوم نہ ہو سکا کہ بموں میں Delay Fuses) (Time تھے۔ اس بار بدقسمتی سے ان کا جہاز نشانہ بن گیا اور اب کی بار اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ جلتے ہوئے جہاز سے باہر کود جاتے، اُصول کے مطابق انہوں نے نیوی گیٹر کو پہلے ایجیکٹ کیا اور پھر خود ایجیکٹ ہو گئے۔ الطاف شیخ اور بشیر چوہدری طیارہ شکن توپوں کی شدید گولہ باری کے باوجود بحفاظت اپنے اپنے پیراشوٹ کو کنٹرول کرتے ہوئے زمین پر اتر گئے، مگر اس دوران الطاف شیخ کا ٹخنہ بری طرح زخمی ہو گیا۔ انہوں نے رات کے اندھیرے میں فرار ہونے کی کوشش کی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ الطاف شیخ اور بشیر چوہدری کے فرار کی داستان بڑی سنسنی خیز ہوتی۔ قریب تھا کہ مشتعل سکھوں کا ہجوم ان کی جان لے لے لیتا کہ بھارتی سکیورٹی فورس کے ایک افسر نے عین موقع پر پہنچ کر ان کی جان بچائی۔
B-57 بمبار طیاروں کے حملے اکثر مواقع کی مناسبت سے ہو رہے تھے، جن سے خاطرخواہ کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ ہر بار جب بھارتی ہوا ابازجوابی حملوں کے لیے پرواز کی کوشش کرتے ،اُن پر بموں کی بارش شروع ہو جاتی۔ کئی حملوں میں'آل کلیئر 'کا سائرن سنائی دیا گیا، مگر جیسے ہی بھارتی ہوا بازوں نے ٹیک آف کی تیاری کی B-57 بمبار طیاروں نے پھر بمباری کا آغاز کر دیا۔
18 ستمبر انبالہ پر حملے کیے گئے ۔یہ ہدف پشاور سے 400 میل کے فاصلے پر تھا اور اسے روس کے فراہم کردہ میزائلوں' SA-2' جو زمین سے فضا میں مار کرتے ہیں، کے ذریعے محفوظ دفاعی حصار قائم کیا گیا تھا۔ یہ میزائل زیادہ بلندی پر موجود، اہداف کے لیے مخصوص تھے۔ جبکہ 6 ہزار فٹ سے کم بلندی پر غیر مؤثرتھے، اس لیے بمبار طیارے اس سے کم بلندی پرواز کرتے۔ فیصلہ یہ کیا گیا کہ ہزار پاؤنڈ کے بموں کے ساتھ( Skip bombing) کے منصوبے پر عمل کرنا زیادہ بہتر رہے گا۔ یہ ایک خطرناک مہم تھی۔ دشمن کے علاقے میں دُور تک جانے کی ضرورت تھی۔ انبالہ حملوں میں ایک اہم پہلو ہوا بازوں کی ایمانداری تھی، مشن کے بعد کی رپورٹوں میں کھری اور جامع تعریف دکھائی دیتی ہے۔ سکواڈرن نجیب اپنی مشن کی رپورٹ کے بعد لکھتے ہیں:'' ان کی کم بلندی سے بمباری کے نتائج حوصلہ شکن تھے، کیونکہ ان کے' رن وے' پر گرائے گئے بم جو ہزار پاؤنڈ کے تھے، ٹینس کے کسی بال کی طرح لڑھک رہے تھے، ان میں سے بہت تو ایئر فیلڈ سے باہر جا کر پھٹے، مگر اس کے باوجود دشمن کے لیے ان بموں کا ایئر فیلڈ سے اندر یا باہر پھٹنا، یکساں خطرے اور دہشت کا باعث بنا رہا۔''
سکوارڈرن لیڈر نجیب کی قیادت میں یہ حملے اگلی رات تین مرتبہ دہرائے گئے، اور اس کارروائی میں ان کا ساتھ ساتھی ونگ کمانڈر لطیف اور فلائٹ لیفٹیننٹ اے ایم کے لودھی نے بھرپور انداز میں دیا۔ گزشتہ شب کے تجربے کی روشنی میں انہوں نے ہدف سے کافی پہلے بم گرائے، طیارہ شکن توپوں کے گولوں کی روشنی میں گرد و نواح کا ماحول مکمل نورانی بنا ہوا تھا۔ لہٰذا انہوں نے یکے بعد دیگرے کئی حملوں میں صحیح طریقے سے اہداف کو نشانہ بنایا اور سب کے سب خیریت سے واپس پہنچ گئے۔ 1965 کی جنگ کی باضابطہ بھارتی تاریخ کے مطابق ہمارے B-57 بمبار طیاروں نے '12'بھارتی فائٹر جہاززمین پر تباہ کردیے۔3 ٹرانسپورٹ طیارے ناکارہ بنا دیے اوراس کے علاوہ 17 جہازوں کو اس قدر نقصان پہنچادیا کہ وہ کم از کم جنگ کے دوران دوبارہ اُڑنے کے قابل نہ رہے۔ اس کے برعکس بھارتی فضائیہ پشاور رن وے کی دائیں کنارے پر صرف ایک بم گرانے میں کامیاب ہوئی، رن وے کی مرمت چار گھنٹوں میں کر کے اُسے قابل استعمال بنا لیا گیا۔ تمام جنگ کے دوران دشمن کے کینبرا بمبار طیارے پاکستانی تنصیبات کو کوئی اور نقصان نہ پہنچا سکے۔
تبصرے