6 ستمبر65ء کی پاک بھارت جنگ تاریخ کا اہم باب ہے۔14اگست1947ء کومسلمانان ہند نے انتھک محنت اورطویل جدوجہد کے ذ ریعے آزاد وطن حاصل کیا تھا تو6 ستمبر1965ء کو اس وطن کا تحفظ کرتے ہوئے دھرتی کے سپوتوں نے دشمن کے توسیع پسندانہ عزائم کو ناکام بنایا۔ ہر سال چھ ستمبر کے موقع پر پاک افواج اور قوم کے اندر پھر وہی جنگ ِ ستمبر والا جذبہ ُامڈ آتا ہے۔دوسری جانب وطن کے جاں باز آج بھی واہگہ بارڈر سے تفتان اور کراچی سے باجوڑ تک وطن دشمنوں سے مسلسل نبردآزماہیں اور اسی جذبہ ستمبر کابہترین مظاہرہ کرکے دفاعِ وطن کا فریضہ ادا کرتے ہوئے اپنی جانیں دھرتی ماں پر نچھاور کر رہے ہیں۔ ساٹھ سال قبل جنگ ِ ستمبر برپا کرنے والا مکار دشمن آج بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے سرگرم عمل ہے اور ہمارے جوان بھی اس کے سامنے اسی طرح سینہ سپر ہیں ۔ذیل کی سطور میں ہم مختصرطور پر ہزاروں ہیروز میں سے چند ایسے سپوتوں کا ذکر کریں گے جنہوں نے اس جنگ میں ناقابل فراموش کارنامے انجام دیے۔یہ لوگ ہمارا قیمتی سرمایہ ہیں اور قابل فخر ماضی بھی۔
جنگ ستمبر میں لاہور محاذ کے کمانڈر میجر جنرل سرفراز خان نے زبردست جنگی حکمت عملی کے ساتھ جوانوں کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کا حملہ ناکام بنایا۔انہیں ''ہلالِ جرأت''عطاکیا گیا۔چھ ستمبر کی رات بھارتی فوج نے لاہور پر تین اطراف سے حملے کا آغاز کیا ،اس کا مقصد یہ تھا کہ پاکستانی فوج کو زیادہ مقامات پر پھیلا کر اور مصروف رکھ کر کمزورکردیاجائے ۔میجر جنرل سرفراز خان کی ہدایت پر بریگیڈیئر قیوم شیر نے اپنے جوانوں کے ہمراہ دشمن کی اس جنگی چال کو ناکام بنانے کے لیے اس کے عقب میں گھس کر اس پر ضرب کاری لگائی جس سے دشمن بوکھلا اٹھا۔ میجر جنرل سرفراز خان نے قومی ڈائجسٹ (ستمبر 1993ء) کو دیئے گئے ایک تاریخی انٹرویو میں بتایا تھا کہ ''اس کارروائی کا حیرت انگیز نتیجہ نکلا ، ہم نے بے خبر ی میں دشمن کو جالیا اوراس کا پوراڈویژن ہماری مختصر نفری کا مقابلہ نہ کرسکا۔دشمن اس افراتفری میں فرارہوا کہ بھارتی جنرل آفیسر کمانڈنگ نرنجن پرشاد کو اپنی کمان جیپ اور خفیہ دستاویزات میدان جنگ میں چھوڑنی پڑ گئیں جو ہمارے قبضے میں آگئیں۔پاک فوج نے دشمن کے خلاف 8 ستمبر کو ہی انتہائی کامیاب جوابی حملہ کیا تھا جس کے بعد اس میں اتنی سکت باقی نہیں رہی تھی کہ وہ کوئی نمایاں اور منظم کارروائی کرتا۔ اگرچہ پیرابریگیڈز بھی اس کو مدد کو پہنچ گئے تھے۔ہمارا مقابلہ بھارت کے 15ڈویژن سے تھا اورا س کے کمانڈر نے غلطی یہ کی تھی کہ تمام ترفوج نہر کے محاذ پر جھونک دی تھی ۔ہم نے نہر کے تمام پل اڑا دیے تھے البتہ سائفن راوی کے ایک راستے کو محفوظ رکھا جس کا دشمن کو کوئی علم نہ تھا''۔
واہگہ سیکٹر انڈین فوج کا وسطی محاذ تھا۔یہاں دشمن فوج ٹینکوں اورتوپ خانے کی مددسے آگے بڑھ رہی تھی جب وہ پاکستانی سرحدکے قریب پہنچے تو میجر عارف کی قیادت میں چند جری جوانوںنے انہیں للکاراا ور نتائج سے بے پرواہ ہو کر دشمن کے آگے کھڑے ہوگئے۔اس موقع پر میجر عارف نے وہی فیصلہ کیا جو ایک مرد مجاہد کو زیب دیتا ہے ۔ انہوں نے خود مشین گن سنبھالی اور دشمن پر فائرنگ شروع کردی۔ان کی قیادت میں دیگر جوان بھی دشمن کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔اس لڑائی میں میجر عارف نے جام شہادت نو ش کیا ۔وہ واہگہ محاذ کے پہلے شہید افسر تھے۔ان کے بعد ان کی پلٹون کے تمام جوان لڑتے ہوئے شہیدہوگئے اور کسی نے دشمن کے آگے ہتھیار نہ ڈالے۔
ہڈیارہ ڈرین کے مقام پر بھارتی فوج نے بڑا حملہ کیا۔پاک فوج کے جوان میجر شفقت بلوچ کی قیادت میں یہاں پر مستعد تھے ۔ان جوانوں نے دس گھنٹے تک بھارتی فوج کو روکے رکھا اوراسے بھرپور جواب دیتے ہوئے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ہڈیارہ نالے پر دشمن سے لڑتے ہوئے میجر شفقت بلوچ زخمی بھی ہوئے۔میجر شفقت کو اس بہادری پر ''ستارہ جرأت''دیاگیا اور ریکارڈ میں لکھاگیا کہ'' اگر وہ اتنی جرأت نہ دکھاتے تو لاہور کا دفاع خطرے میں پڑ گیا ہوتا''۔شفقت بلوچ بعد میں کرنل کے رینک سے ریٹائرڈ ہوئے۔انہوں نے 10اگست2010ء کو ملٹری ہسپتال راولپنڈی میں انتقال کیا اور آبائی علاقہ سرگودھامیں سپرد خاک ہوئے۔
برکی محاذ پر میجر عزیز بھٹی شہیدنے بہادری کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ حملہ آور فوج کے سامنے میجر عزیزبھٹی اور ان کی کمپنی کے جوان سینہ سپر رہے۔ آٹھ ستمبر کواس مقام پر دشمن نے کئی گھنٹوں کی مسلسل گولہ باری کے بعد ٹینکوں کی مددسے حملہ کیا۔ ان سپوتوں کی آگ اگلتی رائفلوں اور توپ خانوں نے دشمن کا یہ وار روک دیا۔10اور11ستمبر کی درمیانی شب دشمن پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ حملہ آورہوا۔میجر عزیز بھٹی نے اپنے جوانوں کے ہمراہ فرنٹ پر لڑتے ہوئے ناقابل فراموش کردار ادا کیا ۔ان کی قیاد ت میں جانبازوں نے دشمن کو بے بس کردیا۔اسی معرکہ کے دوران انہوں نے بالکل بی آربی نہر کے کنار ے اپنی آبزرویشن پوسٹ پر جام شہادت نوش کیا۔ انہیں سب سے بڑا فوجی اعزاز''نشانِ حیدر''عطا کیاگیا۔
لاہور کو بھارتی حملے سے بچانے کے لیے بی آر بی نہر پر جلو پل تباہ کرناضروری تھا۔بھارتی فوج کو بھی اس پل کی اہمیت کا خوب اندازہ تھا، اس نے دن رات پل کے دائیں بائیں شدید گولہ باری جاری رکھی تاکہ پاکستانی فوج اس کے قریب نہ آسکے۔ پل کو تباہ کرنے کے لیے سپاہی نعمت علی نے کوشش کی لیکن وہ شہید ہو گئے۔اس کٹھن مہم کو سر کرنے کے لیے آرمی انجینئر ز کور کے میجر آفتاب احمد ملک اور ان کے چند رضاکاروں نے خود کو پیش کردیا۔ان بہادر سپوتوں نے دو گاڑیوں میں ضروری سامان لادا اور برستے گولوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پل کے پاس جا پہنچے ۔دشمن کی مشین گنیں صرف تیس گز کے فاصلے پر آگ برسا رہی تھیں۔اس موقع پر دشمن کے تین ٹینک بالکل پل کے پاس پہنچ چکے تھے جنہیں جوانوں نے تباہ کر دیا۔میجر آفتاب نے ہزاروں پونڈ وزنی بارود پل پر پھیلاکر اسے آگ لگانے والی تاروں سے جوڑا اور گولیوں کی بوچھاڑ کو چیرتے ہوئے واپس پہنچ گئے ۔زوردار دھماکوں کے ساتھ پل تباہ ہو چکا تھا اور بھارتی فوج کی پیش قدمی رک چکی تھی۔
بھارتی فوج نے قصور پر حملے کا آغاز بیدیاں کے مقام سے کیا، یہاں اس کا پالابریگیڈیئر احسن رشید شامی شہید(ہلال جرأت)،میجر ظہور شہید، میجر مرزا،لیفٹیننٹ کرنل شیرازی،میجر یونس ،میجر صابر اور ان کے جری سپاہیوں سے پڑا۔دھرتی کے فرزند اس انداز سے دشمن پرجھپٹے کہ میدان جنگ میں اسے بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔بڑی تعداد میں بھارتی فوجی مارے گئے ۔ اس محاذ پر بھارتی فوج کے کمانڈر میجر ملکیت سنگھ کو کئی افسروں اور جوانوں سمیت گرفتار کر لیاگیا۔ہمارے جوان دشمن کو پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے کھیم کرن تک جا پہنچے۔
بھارتی فوج نے پاکستانی جانبازوں کو کھیم کرن سے نکالنے کے لیے دوسرے بڑے حملے کاآغاز کیا۔اس کا جواب دینے کے لیے بریگیڈیئر احسن رشید شامی،بریگیڈئر بشیر احمد جیسے نڈر سپوت موجود تھے۔یہ افسران ایک جیپ میں اگلی صفوں میں جوانوں کی قیادت کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے کہ دشمن کی شدید شیلنگ کی زد میں آگئے جس سے بریگیڈئر شامی شہید اور بریگیڈیئر بشیر زخمی ہوگئے۔بریگیڈیئر شامی کو اس بہادری پر ''ہلال ِ جرأت''دیا گیا۔جنگ ستمبر میں معرکہ کھیم کرن بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔چھ ستمبر کی رات بھارتی فوج کا ایک ڈویژن بڑے فخر کے ساتھ کھیم کرن سے قصور فتح کرنے کے لیے نکلا تھا لیکن اسے شکست اٹھانا پڑی۔ پاک وطن کے محافظوں نے ایسی ضرب کاری لگائی کہ بھارتی فوج کئی کلو میٹر بھارت کے اندر تک پسپاہوتی گئی ۔کھیم کرن کے سقوط سے بھارتی فوج کا گھمنڈ ٹوٹ کر چکنا چور ہوااور پاکستا ن کو اللہ تعالیٰ نے فتح سے ہمکنار کیا۔اس معرکہ میں دشمن کے سیکڑوں افراد مارے گئے اورلیفٹیننٹ کرنل انت سنگھ سمیت تین سو سے زائد فوجی گرفتا ر ہوئے۔
پاک فضائیہ کے وِنگ کمانڈر سید محمد احمدنے جنگ ِستمبر کے دوران 18سکوارڈن میں فلائٹ کمانڈر کے طور پر فرائض انجام دیے ،6ستمبر سے 19 ستمبر تک انہوں نے 19آپریشنز میں حصہ لیا۔19ستمبر کو ان کے جنگی جہاز کو میزائل لگنے کی وجہ سے نقصان پہنچالیکن انہوں نے کمال مہار ت اور حوصلے سے کام لیتے ہوئے اپنے جنگی جہاز کی حفاظت کی اور اسے بڑی مشکل سے میدان جنگ سے نکال کر بحفاظت اپنے ایئر بیس تک پہنچادیا، اس جدوجہد کے دوران وہ شدید زخمی ہوئے،انہیں اس بہادری پر ''ستار ہ بسالت''عطاکیا گیا۔
ایئر کموڈور محمداکبر ایک دلیر جنگی پائلٹ تھے۔جس وقت بھارت نے لاہور پرحملہ کیا توپاک فضائیہ کے اس جانباز نے جواب دینے کے لیے اعلیٰ کارکردگی کامظاہرہ کیا۔ان کی قیادت میں پاک فضائیہ کے چار سیبر جہازوں نے واہگہ میں انڈین آرمی پر ہلہ بول کراسے بھاری نقصان پہنچایا۔ اس اعلی کارکردگی پر انہیں''ستارہ جرأت''دیا گیا۔
اے ایل ڈی اے امانت حسین نے بڑے شوق سے فوج میں شمولیت اختیار کی۔ جنگ ستمبرمیں اُن کی 25کیولری رجمنٹ بہادری سے لڑرہی تھی۔انہوں نے ایک ہی معرکے میں دشمن کے تین ٹینک تباہ کیے۔ دشمن کے فائر سے اُن کا ٹینک ناکار ہ ہوگیا لیکن مشین گن ٹھیک کام کررہی تھی، انہوں نے ٹینک چھوڑ کرمیدانِ جنگ سے بھاگنا گوارانہ کیااور گن سے دشمن کونشانہ بناتے رہے،اسی جھڑپ میں دشمن کاایک گولہ لگنے سے اُن کے ٹینک کو آگ لگ گئی جس کے نتیجہ میں وہ شہید ہوگئے،اُن کو اس بہادری پر ''تمغہ جرأت''عطاکیا گیا۔
سکوارڈن لیڈر سرفراز رفیقی شہید نے یکم ستمبر1965ء کو پہلی فضائی جھڑپ کی قیادت کی اور دشمن کے دو طیارے مار گرائے۔اس کے بعد انہوں نے 6 ستمبر کی شام دشمن کے ایک اہم عسکری اڈے ہلواڑہ ایئر فیلڈ پر حملہ کیا۔اس معرکہ میں دشمن کے 10لڑاکا جہازوں نے انہیں گھیر لیالیکن وہ دلیری سے لڑتے رہے۔ اسی دوران ان کی مشین گن خراب ہو گئی اور وہ غیر مسلح ہو گئے۔انہوں نے جان نثاری کی ایک اچھوتی مثال قائم کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔ان کی شاندار کارکردگی پر انہیں دو فوجی اعزاز ''ہلال جرأت''اور ''ستارہ جرأت''دیے گئے۔
پاک فضائیہ کے ایئر کموڈور محمد محمو د عالم( ایم ایم عالم) کا کارنامہ ایک درخشاں باب ہے۔ ان کی بہادری پر انہیں'' ستارہ جرأت'' سے نوازا گیا۔بری ، بحری اور فضائی افواج میں وہ پہلے افسر ہیں جنہوں نے یہ تمغہ حاصل کیا۔ انہوں نے اپنے پرانے سیبر جہاز کے ذریعے ایک ہی جھڑپ میں دشمن کے پانچ ہنٹر جہاز مار گرائے اور 17دنوں کی لڑائی میں کل9جہازوں کو تباہ کیا۔
جنگِ ستمبر65ء میں معرکہ چھمب جوڑیا ں بہت اہمیت رکھتا ہے۔اس معرکہ کے ایک ہیرو سوار غلام رسول 15نومبر1945ء کو عیسٰی خیل ضلع میانوالی میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول عیسیٰ خیل سے میٹرک پاس کرنے کے بعد پاک فوج کی آرمرڈ کور میں چلے گئے۔جنگ ستمبرکے موقع پروہ چھمب جوڑیاں میں تعینات تھے، انہوں نے جرأت کا مظاہرہ کیا اور دیوانہ وار لڑتے ہوئے شہید ہو ئے۔انہوں نے صرف 20سال کی عمر میں دادِ شجاعت دیتے ہوئے شہادت کو گلے لگایا اور وطن کی آن بان شان پر قربان ہو گئے۔
مضمون نگارشعبہ صحافت کے ساتھ منسلک ہیں
(نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں جنگ ِ ستمبر کی براہ راست رپورٹنگ کرنے والے صحافی خالد محمود کی کتاب''رَن کچھ سے چونڈہ تک''، کرنل ذوالفقار خان کی مستند تحقیقی کتاب ''حیاتِ جاوداں''، ماہنامہ قومی ڈائجسٹ ستمبر1993ء اوروارنٹ آفیسر ساجد بخاری کے تحقیقی مضمون سے مدد لی گئی)
تبصرے