یادیں ہمارے دل کے آنگن میں رقص کناں رہتی ہیں۔ کچھ یادیں طاق میں رکھے چراغوں کی طرح ہوتی ہیں جن کی روشنی سدا بہار رہتی ہے ۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم ان یادوں سے اپنا مستقبل سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری قومی زندگی میں 6ستمبر 1965 بڑی اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے انسانی، اخلاقی اور جنگی اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمارے ملک پر اچانک حملہ کر دیا۔ ہماری مسلح افواج نے جس جرأت اور بہادری سے دشمن کو نہ صرف پسپا کیا بل کہ شکستِ فاش دی۔ جن بزرگوں نے تحریکِ پاکستان کے خونچکاں واقعات دیکھے وہ نسلِ نو کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔اُنھوںنے جن قربانیوں کی یادوں سے ہمیں سرفراز کیا اس سے آزادی کی قدرو قیمت پتا چلتا ہے ۔ اِسی طرح وہ لوگ جو 1965ء کی جنگ کے چشم دید ہیں وہ ہمارے لیے سرمایۂ افتخار ہیں۔ اُن کی یادوں کو ہم حرزِ جاں بنا کر قومی دفاع کے استحکام کی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ کسی سانحہ کا چشم دید ہونا بڑی بات ہے ۔ 6ستمبر 1965ء کی جنگ کے بہت سے واقعات میرے ذہن پر نقش ہیں۔ معرکۂ ستمبر 1965ء کا ولولہ انگیز منظر نہ صرف کتابوں میں موجود ہے بلکہ ہمارے فوجی جوان اور بزرگ بڑے فخر سے اپنی یادیں دوسروں تک منتقل کرتے ہیں۔
6 ستمبر ہماری تاریخ کا ایک عصر آفرین اور تاریخ ساز دن ہے جب بھارت نے اپنی طاقت اور برتری کے گھمنڈ میں پاکستان کی سرزمین پر اپنے ناپاک قدم رکھنے کی کوشش کی۔بھارت کے اِس جارحانہ حملے سے قوم میں کسی قسم کا اضطراب دیکھنے میں نہیں آیا۔ بھارت کی مسلح افواج کے اچانک حملے کا جواب دینے کے لیے پوری پاکستانی قوم اپنے سرفروش مجاہدوں کی پشت پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہو گئی۔قوم کا ہر فرد اپنے اپنے محاذ پر سرفروش مجاہد بن گیا۔ ادیبوں کے قلم قوم میں جذبۂ حب الوطنی اور یک جہتی کے فروغ کے لیے اٹھے۔گلوکاروں کے نغمے فضا میں ملّی ترانوں کی صورت میں گونجنے لگے' ڈاکٹروں کے نشترمجاہدین کے کام آئے' شاعروں کے نغمات موسیقاروں کی تاروں اور گلوکاروں کے لبوں پر مچلنے لگے' ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیوں میں قومی دفاع کا رنگ بھر گیا' خواتین فوری طبی امداد کے لیے میدان عمل میں آئیں' طالب علموں نے نیشنل سکیم کے تحت اپنے آپ کو پیش کیا' شہری دفاع کے رضا کار سروں سے کفن باندھ کر میدانِ کارزار میں کود پڑے' المختصر قوم کا ہر فرد اپنے اپنے محاذ پر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیارہو گیا۔
یوں تو ستمبر1965ء کے پہلے ہفتے میں ہی بھارتی افواج رات کی تاریکی میں چوروں کی طرح پاک سرحدوں کی طرف بڑھ چکی تھیں۔ان کا خیال تھا کہ وہ چشمِ زدن میں پاکستان کو ہڑپ کر جائیں گے لیکن جس قوم کے ارادے پختہ ہوں اور ان کا یقین خدا پرہو وہ سنگلاخ چٹانوں سے بھی ٹکرا کر اسے پاش پاش کر سکتی ہے۔جنگ بندی کے معاہدے کے باوجود بھارت کی افواج نے سب سے پہلے آزاد کشمیر پر حملہ کیا۔ ہماری مسلح افواج نے اس کے ناپاک عزائم خاک میں ملا دیے۔دشمن کو آزاد کشمیر کے بعد پاکستان میں ہزیمت اٹھانا پڑی۔ بھارتی فضائیہ نے لاہور اور سرگودھا کے ہوائی اڈوں سے اپنے حملوں کا آغاز کیا۔ لاہور کے ہوائی حملوں میں دشمن کو زبردست شکست فاش ہوئی۔ سرگودھا کی فضا تو بھارتی طیاروں کا قبرستان بنی۔سترہ روزہ جنگ میں سب سے زیادہ فضائی حملے سرگودھا کے ہوائی اڈے پر ہوئے۔ شاہین صفت شہریوں نے نہایت عزم و استقلال سے دشمن کے ہوائی حملوں کا مقابلہ کیا۔ ہماری طیارہ شکن توپوں نے دشمن کے متعدد طیاروں کو مار گرایا' اور کئی طیارے ہمارے شاہین ہوا بازوں کو دیکھتے ہی بھاگ گئے۔
راقم الحروف ( ہارون الرشید تبسم ) ان دنوں چھٹی جماعت کا طالب علم مکان نمبر5 گلی نمبر2 ،کوٹ فریدسرگودھا میں رہائش پذیر تھا ۔حملہ کے وقت اکبری مسجد کے قریب سرگودھا کی فضاء کو بھارتی جہازوں اور طیارہ شکن توپوں کے گولوں سے پیدا ہونے والی شعلہ زنی کا عینی شاہد ہے ۔محلہ کے لوگ متحیر تھے کہ آسمان پر پھیلے ہوئے آتشی گولے کس بات کی علامت ہیں۔ اُنھوںنے یہ منظر پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ بھارت نے ہوائی حملوں کے لیے سرگودھا کا انتخاب کر رکھا تھا۔ بھارتی ریڈیو آکاش وانی نے تو سرگودھا کی تباہی اپنی خبروں کا حصہ بنا رکھی تھی لیکن جب اُن کے طیارے یکے بعد دیگرے تباہ ہوئے تو عالمی سطح پر انھیں ندامت کا سامنا کرنا پڑا۔ حملوں کا یہ سلسلہ وقتاً فوقتاً جاری رہتا۔ شام ہوتے ہی اہلِ محلہ ہوائی حملے کے منتظر رہتے۔ عوام کا جذبہ دیدنی تھا۔ علاقہ کے بزرگ مکانوں کی چھتوں سے بھارتی طیاروں کی تباہی کا حال دیکھتے۔ توپوں کی گھن گرج سے لطف اندوز ہوتے۔ تمام مساجد عوام الناس سے بھر جاتیں۔الحمدللہ!مجھے وہ جاں شکن منظر بھی یاد ہے جب ایم ایم عالم نے بھارتی طیاروں کو مار گرایا۔ ایم ایم عالم کا وہ انداز بھی میری آنکھوں میں سمایا ہوا ہے جب ایم ایم عالم بھارت کے طیاروں پر لپکے اور دشمن کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ صدرِ پاکستان کی اپیل پر دفاعی فنڈ جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا تو قوم نے دل کھول کر چندہ دیا۔ راقم السطور کو یاد ہے کہ شہر کے مختلف چوکوں میں کنستر رکھے گئے تھے ، شام کو ڈپٹی کمشنر اپنی نگرانی میں یہ فنڈ مرکز تک پہنچاتے تھے۔ کوئی کنستر چوری نہیں ہوا۔ خواتین نے اپنا زیور تک دفاعی فنڈ میں دے دیا۔ عطیۂ خون دینے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ الصبح پاک فوج کے مراکز پر ناشتہ بھجوایا جاتا اس کی مقدار اتنی ہوتی کہ فوجی جوان بہت سی اشیاء واپس بھجواتے۔ زخمیوں کو فوری امداد دینے اور شہریوں کو چوکنا رکھنے میں سول ڈیفنس کے رضاکاروں کا کردار دیدنی تھا۔
بھارتی پیدل فوج نے لاہور پر حملہ کیا۔ یہاں پاکستانی افواج بھارت کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ حتی کہ واہگہ کے مرکزی محاذ پر صرف ایک پلاٹون متعین تھی۔بھارتی فوج کو اس راستے سے بہت زیادہ اسلحہ اور دیگر سامان لانے کا موقع مل گیا۔قلیل تعداد کے باوجود سرفروشانِ اسلام نے جوانمردی اورجذبۂ شہادت کا وہ انمول مظاہرہ کیا کہ دشمن کو واپس اپنے قدموں لوٹنا پڑا مزید براں انھیں بارڈر پر ہی اپنا اسلحہ اپنے ہی ہاتھوں ضائع کرنا پڑا۔ لاہور کے محاذ پر ہماری فوج کی زبردست کامیابی سے دشمن کے قدم اکھڑ گئے۔ برکی سیکٹر میں ہمارے جوانوں کی کم تعداد نے دشمن کے ایک بڑے لشکر کے دانت کھٹے کر دیے۔ برکی محاذ پر پنجاب رجمنٹ کی ایک کمپنی میجر عزیز بھٹی کی زیر قیادت لڑ رہی تھی جب کہ بھارتی افواج کی تعداد ایک ڈویژن تھی لیکن ہمارے جری جوان دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو گئے۔ ہماری فوج کے جوانوں نے اس محاذ پر جنگِ بدر اور جنگ اُحد کی یاد تازہ کر دی۔ایک مجاہد 100 کفار پر بھاری ثابت ہوا۔ میجر عزیز بھٹی نہایت عزم و استقلال سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گئے۔ ان کی اس جوانمردی پر انھیں نشانِ حیدر دیا گیا۔
پاکستان اور بھارت جنگ میں فرزندانِ توحید کے اسی ولولہ ٔ جہاد اور غیرتِ ایمانی کی بدولت ہی قلت کثرت پر غالب آئی اور پاکستان کی مٹھی بھرفوج نے بھارت کی فوج کو ناکوںچنے چھبوا دئے۔ پاک فوج اور اس کے جرنیلوں کی سرفروشیوں کی ایمان افروز تفصیلات بیان کرنے کا موقع نہیں۔آج میجر عزیز بھٹی شہید ' فلائٹ لیفٹیننٹ یونس حسن شہید ' بریگیڈئر شامی شہید' لیفٹیننٹ افتخار جعفرشہید اور دوسرے کتنے ہی شہیدوں اور غازیوں کے نام اور ان کی جانبازی اور جان فروشی کی داستانیں پاکستان کے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ ان میں ہماری فوجوں کے وہ ہزاروں جان نثار بھی شامل ہیں جو ناموسِ وطن کو بچانے کے لیے اپنی جان پر کھیل گئے۔ لیکن مادر وطن کی عصمت پر آنچ نہ آنے دی۔
ہمارے جوانوں نے جذبۂ شہادت کی تاریخی روایات کھیم کرن کے محاذ پر قائم کیں۔ کھیم کرن کے اس تاریخی قصبہ میں دشمن کی کیل کانٹے سے لیس فوج اپنے ٹینکوں اور توپوں کے باوجود ایک انچ بھی آگے نہ بڑھ سکی۔ سیالکوٹ چونڈہ سیکٹر کو اس جنگ میں بڑی اہمیت حاصل رہی۔ اس پر دشمنوں نے ٹینکوں سے حملے کیے۔ متعدد حملوں میں اسے پسپا ہوناپڑا۔ ١٠ستمبر کے منظم بھارتی حملے میں بھارت نے اپنی طاقت کا زبردست مظاہرہ کیا۔ بھارتی ٹینکوں کے مقابلے میں ہمارے ٹینکوں کی تعداد بہت کم تھی لیکن ہمارے جیالے ان ٹینکوں کے نیچے اپنے جسموں پر بم باندھ کر لیٹ گئے اور جو بھی ٹینک اس مجاہد کے اُوپر سے گزرتا بم پھٹتے ہی اُ س کی کرچیاں فضا میں اُچھلنے لگتیں۔ ہماری فوج کے جیالوں کی ایسی قربانی کی مثالیں تاریخ میں کہیں نہیں ملتیں' بل کہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ اس محاذ پر ہماری فوج نے زبردست قوتِ ایمانی کا مظاہرہ کیا۔
پاکستان کی مسلح افواج نے ستمبر1965ء کی اس جنگ میں جو مثالی کردار ادا کیا۔ اس سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم آج بھی ناقابل تسخیر ہیں۔ پاکستانی افواج نے اسلام کی نصرت ' وطن کے تحفظ اور پاکستانیوں کی حفاظت کے لیے جس جوانمردی کا مظاہرہ کیا وہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا گیا۔یوں توبری ،بحری اور فضائی افواج نے بھارتی عسکری قوت کو ناقابلِ فراموش شکست دی لیکن افواج کے شانہ بشانہ عوام کی قوت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ جانباز فورس کی عملی ٹریننگ کے دوران اعلیٰ افسروں اور جوانوں سے 6ستمبر کی بہت سی یادیں یکجا کرنے کا فخر حاصل ہے ۔ اُنھوںنے بتایا کہ مایوسی کا کوئی عنصر قوم میں دیکھنے کو نہیں ملا۔ جسے جو کام سونپا گیا اُس نے خندہ پیشانی سے انجام دیا۔ 6ستمبر 1965ء کی یادیں ہمیں اس بات کا پیغام دیتی ہیں کہ ہماری قوم بہادر ہے ۔ مسلح افواج ہمارے سروں پر سایہ فگن ہے ۔ اُن کا ایک پیغام ہے کہ ہم سرحدوں پر ہمہ وقت چوکس و بیدار کھڑے ہیں۔ آج بھی میرے وطن میں پاک فوج کی کارگزاری کا اعتراف کرنے والوں کی کمی نہیں ہے ۔ ہمیں 1965ء کی منوریادیں وطن عزیز کا دفاع مستحکم کرنے کے لیے عمل کی دعوت دیتی ہیں۔ ہمارا ہر عمل پاکستان کی بقاء و سلامتی کے لیے ہونا چاہیے۔
تبصرے