وطن کا دفاع فرد کی ذات ، گھر بار ، قبیلے اور کسی بھی دوسری شے پر مقدم ہے کیونکہ اگر وطن ہے تو گھر ہے ، وطن ہے تو تو فرد ہے ۔ انسان اور وطن کا رشتہ اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ انسان ۔
اس میں کوی دوسری رائے نہیں کہ وطنیّت فطرت کے اصولوں میں سے ایک ہے ۔ وطن کا بنیادی ترین تصور گھر ہے اور گھر کا وسیع ترین تصوّر وطن ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گھر کا ہونا صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں بلکہ جانوروں اور پرندوں کے لیے بھی اتنا ہی اہم اور ناگزیر نظر آتا ہے ۔ پرندوں کا آشیانے بنانا اور جانوروں کو اپنے علاقے میں کسی دوسرے جانور کے گھس آنے سے خوف اور ناپسندیدگی کا احساس ہونا کسی تعلیم اور تربیت نہیں بلکہ فطری اور جبلی طور پر پایا جاتا ہے۔ جانور بھی انسانوں کی طرح مشکل حالات کے پیش نظر ہجرت کریں تو خوشی سے نہیں کرتے ۔ گویا گھر بار اور وطن انسان کے رگ و پے میں شامل ہوتا ہے ۔ گھر بدلنا پھر بھی آسان ہوتا ہے اور گھر سے اچھے گھر میں شفٹ ہونا خواب ہوتا ہے اور خوشی کا باعث ہوتا ہے لیکن وطن سے اچھے وطن میں شفٹ ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں کیونکہ وطن صرف ایک ہوتا ہے جو کسی ایک دوسری جگہ اٹھا کے لے جایا بھی نہیں جاسکتا ۔
اپنے ملک سے کسی دوسرے ملک میں جا کر بس جانے کے باوجود وطن وہی رہتا ہے جو ہوتا ہے ۔ آج اس جدید اور مہذب ترین عہد میں بھی کسی دوسرے ملک میں جا کر آباد ہوجانے پر وہاں کی مقامی آبادی کی نظر میں ہجرت کرنے والے کو نسلوں تک بدیسی سمجھا جاتا ہے اور سیکنڈ کلاس سٹیزن کی حیثیت ہی مل پاتی ہے ۔
دینی نقطہ نظر سے بھی وطن سے محبت کو ایمان کا حصہ قرار دیا گیا ہے ۔ رسول پاک ۖ کی متعدد احادیث میں وطن سے محبت کی فضیلت و اہمیت کا درس ملتا ہے ۔
ایک موقع پر جب ورقہ بن نوفل نے آپۖ کو بتایا کہ آپ کی قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو آپ ۖ نے خاموشی فرمائی۔ ثانیا ًجب انھوں نے بتایا کہ آپ کی قوم آپ کو تکلیف و اذیت میں مبتلا کرے گی، تب بھی آپ ۖ نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بار جب انہوں نے عرض کی کہ آپ ۖ کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپۖ نے فورًا فرمایا: کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں:
ففِی ہذا دلِیل علی حبِ الوطنِ وشِدِ مفارقتِہِ علی النفسِ.
سہیلی، الروض الانف، ج: 2، ص 421
اِس ارشاد میں آپۖ کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے وطن سے جدائی آپ ۖ پر کتنی شاق تھی۔
حضور نبی اکرم ۖ نے جب وطن سے نکالے جانے کے متعلق سنا تو فوراً فرمایا کہ کیا میرے دشمن مجھے یہاں سے نکال دیں گے؟ حضور نبی اکرمۖ کا سوال بھی بہت بلیغ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہجرت کرتے وقت رسول اللہۖ نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے جو الفاظ کہے جن کو سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:
ترجمہ : ''اے مکة المکرمہ تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کتنا محبوب ہے، اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔ ''
اس حدیث میں حضور نبی کریم ۖ نے واضح طور پر اپنے مولد ومسکن یعنی مکة المکرمہ کے ساتھ محبت کا اظہار فرمایا ہے۔ اِسی طرح سفر سے واپسی پر حضور نبی اکرم ۖ کا اپنے وطن مالوف مدینہ منورہ میں داخل ہونے کے لیے سواری کو تیز کرنا بھی وطن سے محبت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ گویا حضور نبی اکرم ۖ وطن کی محبت میں اتنے سرشار ہوتے کہ اس میں داخل ہونے کے لیے جلدی فرماتے۔ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
ترجمہ:''جب حضور نبی اکرم ۖ سفر سے واپس تشریف لاتے اور مدینہ منورہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو اس کی محبت میں اسے ایڑ لگاتے۔ ''
اسی طرح اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اپنی جان کی محبت کے ساتھ اپنے وطن سے محبت و تعلق کو ظاہر کرتے ہوئے فرمایا:اور اگر ہم ان پر لکھ دیتے کہ تم اپنے آپ کو قتل کرلو اور اپنے گھروں سے نکل جائو ، تو وہ ہرگز نہ کرتے سوائے معدودے چند افراد کے ۔(سورة النسا) اور ایک مقام پر وطن کی محبت کو دین ومذہب سے جوڑ کرفرمایا: اللہ تعالی نے تمہیں ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف سے منع نہیں کیا، جنہوں نے تم سے دین کے معاملے میں جنگ نہ کی اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا ہو۔(سور الممتحنہ)حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ میں اپنی اہلیہ حضرت ہاجرہ اور فرزند حضرت اسماعیل علیہما السلام کو مستقل سکونت کے لیے چھوڑ دیا اور بارگاہ ایزدی میں عرض گزار ہوئے ، جسے قرآن پاک میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : اور جب حضرت ابراہیم نے کہا: اے میرے رب! اسے امن والا شہر بنادے اور اس کے باشندگان کو پھلوں سے سرفراز فرما جو لوگ ان میں سے اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان لائے۔(سور البقرہ)وطن سے محبت ہو اور اہل وطن سے محبت نہ ہو، یہ ممکن نہیں ۔ بلکہ وطن کی ایک ایک شے سے محبت ہوتی ہے۔ مسلم شریف میں حضور نبی کریمۖ کی دعا منقول ہے کہ اے پروردگار! ابراہیم علیہ السلام تیرے بندے، خلیل اور نبی ہیں اور میں بھی تیرا بندہ اور نبی ہوں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی اور میں مدینہ منورہ کے لیے وہی بلکہ اس کے دو چند کی دعا کرتا ہوں۔(مسلم شریف)
ہمارا دین دین ِ فطرت ہے ۔ وطن کی تقدیم اور تقدیس پر دینی احکام انسانی فطرت کی تشفی و توازن کے لیے حتمی رہنمای کی حیثیت رکھتے ہیں ۔بے وطن ہونے کا احساس یتیم اور لاوارث ہونے کے احساس سے کئی گنا زیادہ شدت کا حامل ہوتا ہے اور پھر اگر وطن بھی پاکستان جیسا ہو ، جنت ارضی تو احساس ذمہ داری سوا ہو جاتا ہے ۔
پاکستان جب سے وجود میں آیا ہے دنیا بھر کی ظالم و جابر قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے لیکن الحمداللہ وطن کے سپوتوں نے ہر اس انگلی کو کاٹ کے اور ہر اس آنکھ کو نکال کے دکھا دیا ہے جو ہمارے پیارے وطن کی جانب اٹھی ہے۔ پاکستان کے بیٹوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دے کر وطن ِ محبوب و دلدار کی حفاظت کی ہے ۔ شہدا نے اس چمن کو اپنے خون سے سنیچا اور غازیوں نے اسے ہم وطنوں کے لیے محفوظ بنایا ہے ۔ ان شاعروں کو بھی سلام عقیدت جو ہمارے شہدا اور غازیوں کو اپنے پاکیزہ اور محبت بھرے افکار و اشعار سے نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ اردو کے ممتاز شاعر طاہر یسین طاہر لکھتے ہیں ۔۔۔۔
حیراں ہے فلک دیکھ کے یہ اوج ہماری
دریا سے الجھ پڑتی ہے ہر موج ہماری
دہشت سے نہ گھبرائی کبھی,سینہ سِپر ہے
یہ قوم ِ دلاور ، یہ جری فوج ہماری
دریاں پہ سکہ ہے ، فضا زیرِ نگیں ہے
کرتے ہیں جدھر رخ ، ادھر اپنی ہی زمیں ہے
ہم امن کے داعی ہیں, ، مگر ڈرتے نہیں ہیں
ہوتے ہیں شہید اور کبھی مرتے نہیں ہیں
بڑھتے ہیں سدا نعرۂ تکبیر سے آگے
آغاز ہے اپنا تیری تدبیر سے آگے
کیا تجھ سا عدو ہم سے بھلا کھل کے لڑے گا
مکار زمانے کا سدا جھوٹ گھڑے گا
یہ فوج دلاور ہے ، تو یہ قوم غنی ہے
ہر پیر و جواں شوقِ شہادت کا دھنی ہے
بس نعرۂ تکبیر ہے ہاتھوں میں ہے شمشیر
دشمن کی صفیں رکھ دیں گے حیدر کی طرح چیر
حیراں ہے فلک دیکھ کے یہ اوج ہماری
دریا سے الجھ پڑتی ہے ہر موج ہماری
مضمون نگار معروف شاعر، مصنف اور تجزیہ کار ہیں۔
[email protected]
تبصرے