(رپورٹ: سید مشتاق احمد)
کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا دارومدار اس کے مضبوط صنعتی ڈھانچے،متنوع برآمدات اور تجار ت کے لیے موزوںماحول پر ہوتا ہے۔ جغرافیائی محل و قوع بھی معاشی سرگرمیوں کے لیے اہم شرط ہے۔خوش قسمتی سے پاکستان دنیا کے ایسے خطے میں واقع ہے جووسطی ایشیائ، جنوبی ایشیاء اور مغربی ممالک کو آپس میں جوڑنے کے لیے پل کا کردار ادا کرتا ہے۔ تاریخی اعتبار سے قدیم شاہراہ ریشم ان علاقوں سے گزری ہے، جو آج کے پاکستان میں شامل ہیں۔تاہم خطے کی مخصوص سلامتی اور تذویراتی صورتحال علاقائی تجارت میںرکاوٹ بنی رہی۔ سابقہ سوویت یونین کے خاتمے اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے قیام سے علاقائی منڈیوں تک رسائی کے لیے امید کی کرن نظر آئی۔توقع کی جا رہی تھی کہ سرد جنگ کے خاتمے سے معاشی اور کاروباری ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا تاہم کئی وجوہات کی بناپر یہ خواب شرمندہ تعبیرنہ ہو سکا ۔ تجارتی معاہدوں پر عملددرآمد کا فقدان، نقل و حرکت کے لیے دستیاب کمزور ڈھانچہ اور سرحدوں پر پیچیدہ قوانین ، علاقائی تجارت کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں آڑے آتے رہے ۔ماضی میں ان مشکلات میںسے آسانی کا راستہ نکالنے کے لیے کوششیں بھی کی گئیں مگر بار آور ثابت نہ ہو سکیں۔ اس سلسلے کی پہلی کامیابی کا سہرا پاکستان میں نقل و حرکت سے وابستہ سب سے معتبر ادارے نیشنل لاجسٹکس کارپوریشن (این ایل سی) کے سر جاتاہے جس نے 2021 میں پہلی بار بین الاقوامی روڈ ٹرانسپورٹ جسے عرف عام میں ٹی آئی آر کہا جاتا ہے کے تحت ترکیہ اور آذربائیجان کے لیے تجارتی سامان کی آزمائشی بنیادوں پر ترسیل کا فیصلہ کیا۔
این ایل سی کی یہ کاوش کامیابی کے اس طویل زینے کی پہلی کڑی ثابت ہوئی جس کے بعد ادارے نے علاقائی تجارت میںترقی کی پے در پے منازل طے کیں۔ علاقائی روابط کے سلسلے میں سال 2023 اور2024ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوئے جس میں ادارے نے یکے بعد دیگرے بذریعہ روڈ وسطی ایشیائی ریاستوں کی منڈیوں تک رسائی حاصل کی۔ یاد رہے کہ این ایل سی تجارتی سامان کی ترسیل کے لیے ٹی آئی آر نظام کو بروئے کار لایا۔ اس نظام کے تحت کسی بھی ملک کے گودام یا کارخانے سے سامان لاد کر سر بمہر کیا جاتا ہے۔ ان کنٹینروں کو بین الاقوامی سرحدوں پر چیکنگ سے استثناء حاصل ہوتا ہے۔ یوں یہ گاڑیاں کم وقت اور لاگت میں اپنی منزل مقصود پر پہنچ جاتی ہیں۔ این ایل سی کی ان گاڑیوں کی سیٹلائٹ کے ذریعے مسلسل نگرانی کی جاتی ہے تاکہ سامان کی دوران سفر حفاظت کویقینی بنایا جا سکے۔یاد رہے ان کامیابیوں کا تسلسل تا حال جاری ہے۔ این ایل سی نے اب تک تمام وسطی ایشیائی ریاستوںاور خطے کے دوسرے ممالک تک بذریعہ روڈ پانچ سو سے زائد آپریشن مکمل کیے ہیں۔ ان ممالک میں تاجکستان، ازبکستان، کرغستان، ترکمانستان ، قازقستان، چین، روس اور ترکیہ شامل ہیں۔
این ایل سی نے صنعتی مصنوعات کے علاوہ زرعی اجناس، پھلوں، سبزیوں، گوشت اور مچھلی کی علاقائی منڈیوں تک بھی ترسیل کی خدمات فراہم کی ہیں۔ جلد خراب ہونے والی ان اشیاء کی بحفاظت ترسیل کے لیے خصوصی کنٹینروں کا استعمال عمل میں لایا جاتا ہے جو درجہ حرارت کو مطلوبہ سطح پر رکھتا ہے اور یوں دوران ترسیل ان اشیاء کی تازگی برقرار رہتی ہے۔
پاکستان کی زرعی مصنوعات کی علاقائی منڈیوں تک ترسیل کے لیے مال برداری کے متعدد آپریشن مکمل کیے جا چکے ہیں۔ ان میں روس تک کینو، تاجکستان تک کھیرا، قازقستان تک کیلے، چین تک چیری، مچھلی اور گوشت کی کامیابی کے ساتھ ترسیل شامل ہے۔ زرعی اجناس اور پھلوں کی برآمد کسانوں کی معاشی حالت میں بہتری لانے میں مددگار ثابت ہو رہی ہے۔
انہی کوششوں کا ثمر ہے کہ گزشتہ دنوں جاری اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ میں پاکستان کی وسطی ایشیائی ریاستوں تک برآمدات میں 21 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ان ممالک تک بذریعہ روڈ مال برداری کی سہولت نے برآمدات کے اضافے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
این ایل سی کی کامیابیاں ان ممالک میں لاجسٹکس کمپنیوں، تاجر تنظیموں اور حکومتی اداروں کے ساتھ مربوط شراکت داری اور تعاون سے ممکن ہوئی ہیں۔ حال ہی میں این ایل سی نے قازقستان کی کمپنیوں کے تعاون سے قازقستان سے دوبئی تک مال برداری کا پہلا منصوبہ مکمل کیا ۔ اس کامیابی کوخشکی میں گھری وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے تجارتی سامان کی ترسیل کواہم سنگ میل تصور کیا جاتا ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ این ایل سی کی سرحد پار مال برداری سے ملک کی مجموعی معاشی ترقی پر دور رس نتائج مرتب ہورہے ہیں۔ ان خدمات سے نئی منڈیوں تک رسائی سے ملکی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ متوقع ہے۔ برآمدات میں اضافے سے نہ صرف قیمتی زر مبادلہ کماکر معیشت میں استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ روزگار کے ان گنت نئے مواقع پیدا ہونے کا بھی قومی امکان ہے۔ یہی وہ قومی اہداف ہیں جس کے لیے این ایل سی پوری طرح کوشاں ہے۔
تبصرے